تمتع کرنے والا کب حج کا احرام باندھے؟

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحِلُّوا وَاجْعَلُوهَا عُمْرَةً فَضَاقَتْ بِذَلِکَ صُدُورُنَا وَکَبُرَ عَلَيْنَا فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَحِلُّوا فَلَوْلَا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُونَ فَأَحْلَلْنَا حَتَّی وَطِئْنَا النِّسَائَ وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلَالُ حَتَّی إِذَا کَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَجَعَلْنَا مَکَّةَ بِظَهْرٍ لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ-
اسماعیل بن مسعود، خالد، عبدالملک، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ماہ ذوالحجہ کی چار تاریخ کو (مکہ پہنچے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس حج کو عمرہ میں تبدیل کر کے عمرہ کرو اور احرام کھول ڈالو۔ یہ بات ہم لوگوں پر گراں گزری اور ہم لوگوں نے تنگی محسوس کی۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو! تم لوگ احرام کھول ڈالو اس لیے کہ اگر میرے ہمراہ بھی یہ ہدی نہ ہوں تو میں بھی تم لوگوں کی طرح ہی کرتا۔ اس بات پر ہم لوگ حلال ہوگئے۔ یہاں تک کہ اپنی بیویوں سے صبحت کی اور ہر ایک وہ کام بھی کیا جو کہ کوئی حلال شخص کرتا ہے پھر ترویہ کے دن (آٹھ ذی الحجہ کو) مکہ سے روانہ ہوئے اور حج کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھا۔
It was narrated that Jabir said: “We came with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم on the fourth day of Dhul-}:{ijjah. The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘Exit I and make it ‘Umrah.’ We were distressed and upset by that. News of that reached the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and he said: ‘people, exit Ihram. Were it not for the HadI that I brought with me, I would have done what you are doing.’ So we exitied Ihram, and bad intercourse with our wives, and we did everything that the non Muirim does until the day of At Tarwiyah, when we put Makkah behind us (when we headed for Mina) and entered Ihram for Hajj.” (Hasan)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْکِينٍ قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ حَدَّثَنِي مَالِکٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ عَدَلَ إِلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَةٍ بِطَرِيقِ مَکَّةَ فَقَالَ مَا أَنْزَلَکَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَقُلْتُ أَنْزَلَنِي ظِلُّهَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا کُنْتَ بَيْنَ الْأَخْشَبَيْنِ مِنْ مِنًی وَنَفَخَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِنَّ هُنَاکَ وَادِيًا يُقَالُ لَهُ السُّرَّبَةُ وَفِي حَدِيثِ الْحَارِثِ يُقَالُ لَهُ السُّرَرُ بِهِ سَرْحَةٌ سُرَّ تَحْتَهَا سَبْعُونَ نَبِيًّا-
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، محمد بن عمرو بن حلحلة، محمد بن عمران انصاری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں مکہ مکرمہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے ٹھہر گیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے میری جانب رخ فرمایا اور دریافت فرمایا کہ تم اس درخت کے نیچے کس وجہ سے ٹھہرے ہوئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اس کے سایہ کی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم ان دو پہاڑوں کے درمیان ہو پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا تو وہاں پر ایک وادی ہے جس کا نام سریہ ہے وہاں پر ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر حضرات انبیاء علیہ السلام کی آنول کاٹی گئی ہے۔
It was narrated from Muhammad bin ‘Imran Al-Ansari that his father said: “Abdullah bin ‘Umar came to me when I had stopped beneath a large tree on the way to Makkah. He said: ‘Why did you stop beneath this tree?’ I said: ‘Because of its shade.’ ‘Abdullah said: ‘The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: If you are between the two mountains of Mina — and he pointed with his hand toward the east — there is a valley there called As-Surrabah according to the narration of Al Harith: Called As-Surar — in which there is a large tree beneath which seventy prophets were born.” (Da’
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ قَالَ أَنْبَأَنَا سُوَيْدٌ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ ثِقَةٌ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًی فَفَتَحَ اللَّهُ أَسْمَاعَنَا حَتَّی إِنْ کُنَّا لَنَسْمَعُ مَا يَقُولُ وَنَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ مَنَاسِکَهُمْ حَتَّی بَلَغَ الْجِمَارَ فَقَالَ بِحَصَی الْخَذْفِ وَأَمَرَ الْمُهَاجِرِينَ أَنْ يَنْزِلُوا فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ وَأَمَرَ الْأَنْصَارَ أَنْ يَنْزِلُوا فِي مُؤَخَّرِ الْمَسْجِدِ-
محمد بن حاتم بن نعیم، سوید، عبد اللہ، عبدالوارث، حمید اعرج، محمد بن ابراہیم تیمی، رجل، عبدالرحمن بن معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منی میں خطبہ دیا تو خداوند قدوس نے ہمارے کان کھول دئیے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فرما رہے تھے وہ ہم لوگ سن رہے تھے اپنے ٹھکانوں سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بتلانا شروع فرمایا یعنی حج کے طریقے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے حجروں کے پاس تشریف لے گئے تو چھوٹی چھوٹی کنکری ماری اور انگلیوں سے کنکریاں ماریں اور مہاجرین کو مسجد میں اترنے اور انصار کو نیچے اترنے کا حکم فرمایا۔
It was narrated from Muhammad bin Ibrahim At-Taimi that a man among them who was called ‘Abdur-Rahman bin Muadh said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم addressed us in Mina, and Allah enabled us to hear what he said when we were in our encampments. The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم started to teach them their rituals until he reached the Jirnar (stoning the pillars), and he said: look for pebbles the size of date stones or fingertips. And he told the Muhajiri n to camp in front of the Masjid and the Ansar to camp behind the Masjid.” (Sahih)