تلوار کے علاوہ دوسری چیز سے قصاص لینے کے بارے میں

أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ يَهُودِيًّا رَأَی عَلَی جَارِيَةٍ أَوْضَاحًا فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ فَقَالَ أَقَتَلَکِ فُلَانٌ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْکِيهَا أَنْ لَا فَقَالَ أَقَتَلَکِ فُلَانٌ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْکِيهَا أَنْ لَا قَالَ أَقْتَلَکِ فُلَانٌ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْکِيهَا أَنْ نَعَمْ فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ-
اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ہشام بن زید، انس سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو دیکھا وہ کنگن پہنے ہوئے ہے اس نے اس لڑکی کو پتھر سے مار ڈالا (اور مرنے والی لڑکی کے کنگن اتار لیے) پھر لوگ اس لڑکی کو خدمت نبوی میں لے کر حاضر ہوئے اور اس میں معمولی سی جان باقی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھ کو فلاں نے مارا ہے؟ اس نے اشارہ سے عرض کیا نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے کا نام لیا پھر اس نے اشارہ سے کہا نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (مذکورہ) یہودی شخص کا نام لیا تو اس نے اشارہ سے کہا جی ہاں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس یہودی شخص کو بلوایا اور حکم فرمایا تو وہ قتل کیا گیا دو پتھروں سے۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “There was Qisas among the Children of Israel, but Diyah was unknown among them. Then Allah, the Mighty and Sublime, revealed: Al-Qi (the law of equality in punishment) is prescribed for you in case of murder: the free for the free, the slave for the slave, and the female for the female..” up to His saying: “But if the killer is forgiven by the brother (or the relatives) of the killed against blood money, then adhering to it with fairness and payment of the blood money to the heir should be made in fairness.” Forgiveness means accepting the Diyah in the case of deliberate killing. Adhering to it in fairness means asking him to pay the Diyah in a fair manner, and payment in fairness means giving the Diyah in a fair manner. This is an alleviation and a mercy from your Lord, means: This is easier than that which was prescribed for those who came before you, which was Qisas and not Diyah.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَی قَوْمٍ مِنْ خَثْعَمَ فَاسْتَعْصَمُوا بِالسُّجُودِ فَقُتِلُوا فَقَضَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ مَعَ مُشْرِکٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا لَا تَرَائَی نَارَاهُمَا-
محمد بن العلاء، ابوخالد، اسماعیل، قیس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خشعم کی قوم کی جانب چھوٹا لشکر بھیجا وہ لوگ کفار کے ملک میں ٹھہرے انہوں نے (دشمنوں سے پناہ لی اور سجدہ کر کے (یعنی ان لوگوں نے خود کو کافر ظاہر کرنے کے واسطے سجدے کیے تاکہ وہ لوگ ان کو بھی کافر سمجھیں) پس کفار نے ان کو قتل کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ان کفار کو آدھی دیت دی جائے اس لیے کہ مسلمانوں کا بھی قصور تھا کہ وہ کس وجہ سے کفار کے ملک میں ٹھہرے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر مسلمان مشرک کے ساتھ ہو تو میں اس مسلمان کا جواب دہ نہیں ہوں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دیکھو مسلمان اور کافر اس قدر دور رہیں کہ ایک دوسرے کی آگ دکھلائی نہ دے۔
It was narrated that Mujahid said: “Al-Qisas (the Law of Equality in punishment) is prescribed for you in case of murder: the free for the free The rule for the Children of Israel was Qi and not Diyah. Then Allah, the Mighty and Sublime, revealed the Diyah to them, and He revealed this ruling to this Ummah as an alleviation of the ruling that applied to the Children of Israel.” (Sahih)