بیٹے کا والدہ کو کسی کے نکاح میں دینا

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا بَعَثَ إِلَيْهَا أَبُو بَکْرٍ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ فَلَمْ تَزَوَّجْهُ فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ فَقَالَتْ أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَی وَأَنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ فَأَتَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَيْهَا فَقُلْ لَهَا أَمَّا قَوْلُکِ إِنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَی فَسَأَدْعُو اللَّهَ لَکِ فَيُذْهِبُ غَيْرَتَکِ وَأَمَّا قَوْلُکِ إِنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ فَسَتُکْفَيْنَ صِبْيَانَکِ وَأَمَّا قَوْلُکِ أَنْ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِکِ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ يَکْرَهُ ذَلِکَ فَقَالَتْ لِابْنِهَا يَا عُمَرُ قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَوَّجَهُ مُخْتَصَرٌ-
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، ابن عمر بن ابی سلمہ، ابیہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ جس وقت میری عدت مکمل ہوگئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جانب سے نکاح کا پیغام آیا جس کو میں نے قبول نہیں کیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرانہ کو نکاح کا پیغام دے کر روانہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کرلو کہ میں ایک غیرت مند خاتون ہوں میرے بچے بھی ہیں اور پھر اس وقت میرے اولیاء میں سے بھی یہاں پر کوئی شخص موجود نہیں ہے چنانچہ حضرت عمر بن خطاب خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان سے کہہ دو کہ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ میں غیرت دار ہوں تو میں خداوند قدوس سے دعا مانگو گا کہ وہ تمہاری اس غیرت (یعنی آفت) کو ختم فرما دیں جہاں تک کہ تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ میں بچوں والی خاتون ہوں تو (خداوند قدوس) تمہاری اور تمہارے بچوں کی کفالت کے واسطے کافی ہیں پھر جہاں تک کہ تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ میرے اولیاء میں سے کوئی موجود نہیں تو یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے موجود اور غیر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی اس قسم کا نہیں ہے کہ اس بات کو پسند نہیں کرتا ہے اس بات کو انہوں نے اپنے لڑکے حضرت عمر سے کہا کہ اے عمر تم اٹھ جاؤ اور مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں دے دو اس طریقہ سے انہوں نے اپنی والدہ صاحبہ کا نکاح حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرما دیا۔ یہ حدیث مختصر طریقہ سے بیان کی گئی ہے۔
It was narrated from ‘Aishah that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم married her when she was six years old, and consummated the marriage with her when she was nine. (Sahih)