ایک تہائی مال کی وصیت

أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَرِضْتُ مَرَضًا أَشْفَيْتُ مِنْهُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا کَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرَ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثَ قَالَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ إِنَّکَ أَنْ تَتْرُکَ وَرَثَتَکَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ لَهُمْ مِنْ أَنْ تَتْرُکَهُمْ عَالَةً يَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ-
عمرو بن عثمان بن سعید، سفیان، زہری، حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے نقل کرتے ہیں انہوں نے بیان فرمایا جس وقت ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہو گیا اور میں اپنے مرنے کے قریب پہنچ گیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری مزاج پرسی کے واسطے تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے پاس بہت زیادہ دولت ہے اور میری وارث میری ایک لڑکی ہے۔ کیا میں اپنی دولت کے دو تہائی حصہ کو اس کو خیرات کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا کیا آدھی دولت صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا تہائی مال۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک تہائی مال تم (صدقہ کر دو) یہ بھی زیادہ ہے اس وجہ سے کہ تمہارا اپنے ورثہ کو غنی (یعنی ان کو فقر و فاقہ سے بے پرواہ خوش حال) چھوڑنا ان کو تنگ دست اور محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔
It was narrated that Saad said: “The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم came to visit me when I was in Makkah. I said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, shall I bequeath all my money?’ He said: ‘No.’ I said: ‘One half?’ He said: ‘No.’ I said: ‘One-third?’ He said: ‘(Bequeath) one-third, and one-third is a lot. If you leave your heirs independent of means, that is better than if you leave them poor and holding out their hands to people.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ وَأَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ قَالَ جَائَنِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَکَّةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي کُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرَ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثَ قَالَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ يَتَکَفَّفُونَ فِي أَيْدِيهِمْ-
عمرو بن منصور و احمد بن سلیمان، ابونعیم، سفیان، حضرت سعد ابراہیم فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ میں میری عیادت کرنے کے واسطے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اپنی تمام کی تمام دولت خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا آدھی دولت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا تہائی دولت۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ایک تہائی دولت (کی وصیت) کر دو لیکن ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اس لیے کہ تم اپنے وارثوں کو دولت مند (خوشحال) چھوڑ دو اس سے کہیں بہتر ہے۔ کہ تم ان کو محتاج چھوڑ دو وہ لوگوں کے ہاتھ دیکھتے رہیں (یعنی محتاج اور دست نگر رہیں)۔
It was narrated from ‘mir bin Saad that his father said: “The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم used to visit him when he was in Makkah, and he did not want to die in the land from which he had emigrated. The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘May Allah have mercy on Saad bin ‘Afra’.’ He had only one daughter, and he said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, shall I bequeath all my wealth?’ He said: ‘No.’ I said: ‘Half?’ He said: ‘No.’ I said: ‘One-third?’ He said: ‘One-third, and one-third is a lot. For you to leave your heirs independent of means is better than if you were to leave them poor, holding out their hands to people.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ وَهُوَ بِمَکَّةَ وَهُوَ يَکْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّذِي هَاجَرَ مِنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِمَ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَائَ أَوْ يَرْحَمُ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَائَ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي کُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ النِّصْفَ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثَ قَالَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ-
عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، سعد بن ابراہیم، عامر بن سعد، حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے واسطے مکہ معظمہ تشریف لائے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں اس جگہ انتقال کروں کہ جہاں میں نے ہجرت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خداوند قدوس حضرت سعد بن عفراء پر رحم فرمائے ان کی صرف ایک ہی لڑکی تھی۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اپنے تمام کے تمام مال کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا آدھا مال۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا ایک تہائی مال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک تہائی مال کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے اس وجہ سے کہ تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ دو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑ دو اور وہ لوگوں کے دست نگر (یعنی ان کے محتاج) بنے رہیں۔
One from the family of Saad narrated: “Saad fell sick and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم entered upon him and he said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, shall I bequeath all my money?’ He said: ‘No.” And he quoted the same Hadith. (Sahih)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنِي بَعْضُ آلِ سَعْدٍ قَالَ مَرِضَ سَعْدٌ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي کُلِّهِ قَالَ لَا وَسَاقَ الْحَدِيثَ-
احمد بن سلیمان، ابونعیم، مسعر، سعد بن ابراہیم، آل سعد، اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔
‘Amir bin Saad (narrated) from his father that he fell sick in Makkah and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم came to him. When Saad saw him, he wept and said: “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, am I to die in the land from which I emigrated?” He said: “No, if Allah wills.” He said: “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم shall I bequeath all of my wealth in the cause of Allah?” He said: “No.” He said: “Two thirds?” He said: “No.” He said: “Half of it?” He said: “No.” He said: “One-third of it?” The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “One-third, and one- third is a lot. If you leave your sons independent of means that is better than if you leave them poor, holding out their hands to people.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْکَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا بُکَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ قَالَ سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ اشْتَکَی بِمَکَّةَ فَجَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ بَکَی وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمُوتُ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا قَالَ لَا إِنْ شَائَ اللَّهُ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي کُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ لَا قَالَ يَعْنِي بِثُلُثَيْهِ قَالَ لَا قَالَ فَنِصْفَهُ قَالَ لَا قَالَ فَثُلُثَهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ إِنَّکَ أَنْ تَتْرُکَ بَنِيکَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُکَهُمْ عَالَةً يَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ-
عباس بن عبدالعظیم، عبدالکبیر بن عبدالمجید، بکیر بن مسمار، عامر بن سعد، حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت وہ مکہ مکرمہ میں بیمار پڑ گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرا انتقال اسی جگہ ہو رہا ہے کہ جس جگہ میں نے ہجرت کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اپنا تمام کا تمام مال دولت اللہ کے راستے میں صدقہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ (یعنی ایسا قدم نہ اٹھا) اس پر انہوں نے عرض کیا پھر دوتہائی دولت کی وصیت کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں۔ پھر عرض کیا آدھا مال دولت کی وصیت کر دیتا ہوں اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایک تہائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم وصیت کر دو لیکن ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے اس لیے کہ تم اپنے وارثوں کو دولت والا یعنی خوشحال چھوڑ دو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑ دو یعنی ان کو محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
It was narrated that Saad bin Abi Waqqas said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم visited me when I was sick, and said: ‘Have you made a will?’ I said: ‘Yes.’ He said: ‘How much?’ I said: ‘For all of my wealth to be given in the cause of Allah.’ He said: ‘What have you left for your children?’ I said: ‘They are rich (independent of means).’ He said: Bequeath one-tenth.’ And we kept discussing it until he said: ‘Bequeath one-third, and one-third is much or large.” (Hasan)
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِي فَقَالَ أَوْصَيْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِکَمْ قُلْتُ بِمَالِي کُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَمَا تَرَکْتَ لِوَلَدِکَ قُلْتُ هُمْ أَغْنِيَائُ قَالَ أَوْصِ بِالْعُشْرِ فَمَا زَالَ يَقُولُ وَأَقُولُ حَتَّی قَالَ أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ أَوْ کَبِيرٌ-
اسحاق بن ابراہیم، جریر، عطاء بن سائب، عبدالرحمن، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری علالت کے دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے واسطے تشریف لائے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے وصیت کی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس قدر دولت کی؟ میں نے عرض کیا پوری دولت راہ خدا میں دینے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنی اولاد کے واسطے کیا چھوڑا ہے میں نے عرض کیا وہ دولت مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دسویں حصہ کی وصیت کر دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طریقہ سے فرماتے رہے اور میں بھی اسی طریقہ سے عرض کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تہائی دولت کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے۔
It was narrated from Saad that the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم visited him when he was sick, and he said: “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, shall I bequeath all of my wealth?” He said: “No.” He said: “Half?” He said: “No.” He said: “One-third?” He said: “One-third, and one-third is a much or large.”(Sahih)
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَهُ فِي مَرَضِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي کُلِّهِ قَالَ لَا قَالَ فَالشَّطْرَ قَالَ لَا قَالَ فَالثُّلُثَ قَالَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ أَوْ کَبِيرٌ-
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری علالت کے دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے واسطے تشریف لائے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے وصیت کی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس قدر دولت کی؟ میں نے عرض کیا پوری دولت راہ خدا میں دینے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنی اولاد کے واسطے کیا چھوڑا ہے میں نے عرض کیا وہ دولت مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دسویں حصہ کی وصیت کر دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طریقہ سے فرماتے رہے اور میں بھی اسی طریقہ سے عرض کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تہائی دولت کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے۔
It was narrated from ‘Aishah that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم came to visit Saad (when he was sick). Saad said to him: “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, shall I bequeath two-thirds of my wealth?” He said: “No.” He said: “Shall I bequeath half?” He said: “No.” He said: “Shall I bequeath one-third?” He said: “Yes, one-third, and one-third is much or large. If you leave your heirs independent of means that is better than if you leave them poor, holding out their hands.” (Hasan)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْفَحَّامُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَی سَعْدًا يَعُودُهُ فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قَالَ فَأُوصِي بِالنِّصْفِ قَالَ لَا قَالَ فَأُوصِي بِالثُّلُثِ قَالَ نَعَمْ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ أَوْ کَبِيرٌ إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ فُقَرَائَ يَتَکَفَّفُونَ-
محمد بن ولید، محمد بن ربیعہ، ہشام بن عروہ، ابیہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میری علالت کے دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے واسطے تشریف لائے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے وصیت کی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس قدر دولت کی؟ میں نے عرض کیا پوری دولت راہ خدا میں دینے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنی اولاد کے واسطے کیا چھوڑا ہے میں نے عرض کیا وہ دولت مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دسویں حصہ کی وصیت کر دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طریقہ سے فرماتے رہے اور میں بھی اسی طریقہ سے عرض کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تہائی دولت کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “If the people were to reduce (their bequests) to one- quarter (of their wealth, that would be better), because the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘One-third, and one-third is much or large.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَی الرُّبُعِ لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ أَوْ کَبِيرٌ-
قتیبہ بن سعید، سفیان، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر لوگ ایک تہائی مال کی وصیت کی بجائے ایک چوتھائی مال کی وصیت کریں تو یہ زیادہ مناسب ہے اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔
It was narrated from Muhammad bin Saad, from his father Saad bin Malik, that the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم came to him when he was sick and he said: “I do not have any children apart from one daughter. Shall I bequeath all my wealth?” The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “No.” He said: “Shall I bequeath half of it?” The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “No.” He said: “ShaJi I bequeath one-third of it?” He said: “One third, and one-third is much or large.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ قَالَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَقَالَ إِنَّهُ لَيْسَ لِي وَلَدٌ إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ فَأُوصِي بِمَالِي کُلِّهِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا قَالَ فَأُوصِي بِنِصْفِهِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا قَالَ فَأُوصِي بِثُلُثِهِ قَالَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ-
محمد بن مثنی، حجاج بن منہال، ہمام، قتادہ، یونس بن جبیر، محمد بن سعد، حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی بیماری کے دنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری صرف ایک لڑکی ہے میں تمام دولت کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ انہوں نے عرض کیا آدھے مال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا ایک تہائی مال کی وصیت کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک تہائی حالانکہ وہ بھی زیادہ ہے۔
Jabir bin ‘Abduflah narrated that his father was martyred on the Day of Uhud, and he left behind six daughters, and some outstanding debts. When the time to pick the dates came, I went to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and said: “You know that my father was martyred on the Day of Uhud and he left behind a great deal of debt. I would like the creditors to see you”. I-I said: “Go and pile up the dates in separate heaps.” I did that, then I called him. When they saw him, it was as if they started to put pressure on me at that time. When he saw what they were doing, he went around the biggest heap three times, then he sat on it then said: “Call your companions (the creditors).” Then he kept on weighing out for them, until Allah cleared all my father’s debts. I am pleased that Allah cleared my father’s debts without even a single date being missed. (Sahih)
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَکَ سِتَّ بَنَاتٍ وَتَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَکَ دَيْنًا کَثِيرًا وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاکَ الْغُرَمَائُ قَالَ اذْهَبْ فَبَيْدِرْ کُلَّ تَمْرٍ عَلَی نَاحِيَةٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ کَأَنَّمَا أُغْرُوا بِي تِلْکَ السَّاعَةَ فَلَمَّا رَأَی مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ادْعُ أَصْحَابَکَ فَمَا زَالَ يَکِيلُ لَهُمْ حَتَّی أَدَّی اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي وَأَنَا رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي لَمْ تَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً-
قاسم بن زکریا بن دینار، عبید اللہ، شیبان، فراس، شعبی، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے موقعہ پر میرے والد شہید ہو گئے اور انہوں نے چھ لڑکیاں چھوڑیں ان پر کچھ قرض بھی تھا۔ چنانچہ جس وقت کھجور کے کاٹنے کا وقت آیا تو میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہے کہ میرے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ انہوں نے بہت قرضہ لیا ہوا تھا اس لیے میں چاہتا ہوں قرض خواہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے مکان میں دیکھ لیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے مجھ کو کچھ رعایت کریں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور تم ہر قسم کی کھجوروں کا الگ الگ ڈھیر لگا دو۔ چنانچہ میں نے اسی طریقہ سے کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا۔ جس وقت قرض خواہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ مجھ سے اور زیادہ سختی سے مطالبہ کرنے لگ گئے۔ چنانچہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین چکر لگائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر بیٹھ گئے پھر ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے قرض خواہوں کو بلا لو اور پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برابر وزن فرماتے یعنی تولتے رہے یہاں تک کہ خداوندقدوس نے میرے والد ماجد کی تمام کی تمام امانت ادا فرما دی اور میری بھی یہی خواہش تھی کہ کسی طریقہ سے میرے والد کا قرضہ ادا ہو جائے خداوند قدوس کا حکم بھی اسی طریقہ سے ہوا کہ ایک کھجور بھی کم نہ پڑی۔
It was narrated from Jabir that his father died owing debts. “I came to the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and said: ‘(Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!) My father has died owing debts, and he has not left anything but what his date-palms produce. What his date- palms produce will not pay off his debts for years. Come with me, Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, so that the creditors will not be harsh with me.’ The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم went to each heap, saying Salams and supplicating for it, then sitting on it. He called the creditors and paid them off, and what was left was as much as what they had taken.” (Sahih)