امام کا لعان کے وقت مرو و عورت کو نصیحت کرنا

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ سُئِلْتُ عَنْ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ فَقُمْتُ مِنْ مَقَامِي إِلَی مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا قَالَ نَعَمْ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِکَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ مِنَّا يَرَی عَلَی امْرَأَتِهِ فَاحِشَةً إِنْ تَکَلَّمَ فَأَمْرٌ عَظِيمٌ وَقَالَ عَمْرٌو أَتَی أَمْرًا عَظِيمًا وَإِنْ سَکَتَ سَکَتَ عَلَی مِثْلِ ذَلِکَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ أَتَاهُ فَقَالَ إِنَّ الْأَمْرَ الَّذِي سَأَلْتُکَ ابْتُلِيتُ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَائِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ حَتَّی بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَوَعَظَهُ وَذَکَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا کَذَبْتُ ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ فَوَعَظَهَا وَذَکَّرَهَا فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَکَاذِبٌ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ کَانَ مِنْ الْکَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْکَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا-
عمرو بن علی و محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالملک بن ابوسلیمان، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی امارت کے دوران کسی شخص نے لعان کرنے والے سے متعلق دریافت کیا کہ لعان کے بعد ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جاتی ہے؟ مجھ کو اس بات کا کوئی جواب نہیں بن پایا تو میں اٹھ گیا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مکان کی جانب روانہ ہو گیا میں نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن! کیا لعان کرنے والے افراد کے درمیان علیحدگی کرا دی جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا جی ہاں سُبحَانَ اللہ یہ مسئلہ سب سے پہلے فلاں بن فلاں نے دریافت کیا تھا اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر کوئی شخص اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی کو گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو اگر وہ شخص کچھ کہے تو جب بھی یہ بہت بڑی بات ہے اور اگر وہ خاموش رہے تو اس قسم کی بات پر خاموش رہنا بھی اس طریقہ سے بہت بڑی بات ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی قسم کا جواب ارشاد نہیں فرمایا پھر وہ آدمی دوسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جس شئی کے بارے میں میں نے سوال کیا تھا میں اس میں مبتلا ہو گیا ہوں اس پر خداوند قدوس نے سورت نور کی آیت لعان نازل فرمائی وہ آیت کریمہ یہ ہے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوہر سے شروعات فرمائیں اور اس کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ وہ کہنے لگا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے جھوٹ نہیں بولا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح سے عورت کو بھی نصیحت فرمائی اس نے بھی یہی عرض کیا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ (نبی بنا کر) بھیجا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے پھر مرد نے چار مرتبہ خداوند قدوس کی قسم کھا کر گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہا کہ اگر وہ سچا ہے تو اس عورت پر خدا کا غضب نازل ہو۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو علیحدہ فرما دیا۔
It was narrated from Ibn ‘Abbas: “When the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم comman the two who were engaging in Li’an to utter the fifth oath, he commanded a man to place his hand over his mouth, and he said: “It will inevitably bring the punishment upon the liar.” (Sahih)