کلالہ کی وراثت کا حکم۔

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ سُئِلَ أَبُو بَكْرٍ عَنْ الْكَلَالَةِ فَقَالَ إِنِّي سَأَقُولُ فِيهَا بِرَأْيِي فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنْ اللَّهِ وَإِنْ كَانَ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنْ الشَّيْطَانِ أُرَاهُ مَا خَلَا الْوَالِدَ وَالْوَلَدَ فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ قَالَ إِنِّي لَأَسْتَحْيِي اللَّهَ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا قَالَهُ أَبُو بَكْرٍ-
شعبی بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا گیا انہوں نے ارشاد فرمایا میں اس بارے میں اپنی رائے سے جواب دوں گا اگر وہ ٹھیک ہوئی تو اللہ کے فضل سے ہوگی اور اگر میں اس کوئی غلطی ہوئی تو وہ میری اور شیطان کی طرف سے ہوگی میرایہ خیال ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی اولاد بھی نہ ہو اور والد بھی نہ ہو۔ جب حضرت عمر ان کے نائب بنے تو انہوں نے یہ فرمایا مجھے اس بات سے اللہ کی بارگاہ میں حیاء آتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو رائے پیش کر چکے ہوں میں اسے مسترد کروں۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ مَا أَعْضَلَ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ مَا أَعْضَلَتْ بِهِمْ الْكَلَالَةُ-
حضرت عقبہ بن عامر جہنی فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو کلالہ کے بارے میں اتنی مشکل پیش آئی جتنی کسی اور مسئلے کے بارے میں پیش نہیں آئی۔
-