وصی کے لیے کیا جائز ہے اور کیا جائز نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ الْوَصِيُّ أَمِينٌ فِيمَا أُوصِيَ إِلَيْهِ بِهِ-
ابراہیم فرماتے ہیں وصی امین ہوتا ہے اس چیز کے بارے میں جس کی اس کو وصیت کی گئی ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ أَمْرُ الْوَصِيِّ جَائِزٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي الِابْتِيَاعِ وَإِذَا بَاعَ بَيْعًا لَمْ يُقِلْ وَهُوَ رَأْيُ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ-
مکحول فرماتے ہیں گھر کے علاوہ ہر معاملے میں وصی کا فیصلہ درست ہے جب وہ کسی چیز کو فروخت کردے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ الْوَصِيُّ أَمِينٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي الْعِتْقِ فَإِنَّ عَلَيْهِ أَنْ يُقِيمَ الْوَلَاءَ-
یحیی بن حمزہ کی بھی یہی رائے ہے یحیی بن ابوکثیر فرماتے ہیں وصی شخص ہر معاملے میں امین ہوتا ہے البتہ آزاد کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا اس پر لازم ہے کہ وہ ولاء کو قائم رکھے۔
-
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ يَعْمَلُ بِهِ الْوَصِيُّ إِذَا أَوْصَى إِلَى الرَّجُلِ-
یتیم کے مال کے بارے میں ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں وصی شخص اس کے لیے کام کروائے گا جبکہ کسی شخص نے اس کے بارے میں وصیت کی ہو۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ وَصِيُّ الْيَتِيمِ يَأْخُذُ لَهُ بِالشُّفْعَةِ وَالْغَائِبُ عَلَى شُفْعَتِهِ-
حسن فرماتے ہیں یتیم کا مال وصی اس کیطرف سے شفعہ وصول کرسکتا ہے جبکہ غیر موجود شخص کے شفعہ کا حق برقرار رہتا ہے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعِنْدَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ وَأَبُو قِلَابَةَ إِذْ دَخَلَ غُلَامٌ فَقَالَ أَرْضُنَا بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا بَاعَكُمْ الْوَصِيُّ وَنَحْنُ أَطْفَالٌ فَالْتَفَتَ إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ فَقَالَ مَا تَقُولُ فَأَضْجَعَ فِي الْقَوْلِ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ فَقَالَ مَا تَقُولُ قَالَ رُدَّ عَلَى الْغُلَامِ أَرْضَهُ قَالَ إِذًا يَهْلِكُ مَالُنَا قَالَ أَنْتَ أَهْلَكْتَهُ-
عکرمہ جو کہ دمشق کے ایک بزرگ ہیں بیان کرتے ہیں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس موجود تھا اس وقت ان کے پاس سلیمان بن حبیب اور ابوقلابہ بھی موجود تھے ایک لڑکا وہاں آیا اور بولا ہماری زمین فلاں جگہ پر ہے جسے وصی نے آپ کو فروخت کردیا تھا ہم اس وقت بچے تھے راوی بیان کرتے ہیں سلیمان بن حبیب نے میری طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا آپ کیا کہتے ہیں انہوں نے جواب دیتے ہوئے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے ابوقلابہ کی طرف توجہ کی اور ان سے دریافت کیا آپ کیا کہتے ہیں انہوں نے فرمایا اس غلام کو اس کی زمین واپس کردو تو وہ بولے اس صورت میں ہمارا مال ہلاک ہوجائے گا تو ابوقلابہ بولے آپ نے خود اسے ہلاک کیا ہے۔
-