وارث کے لیے وصیت کرنا۔

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ إِذَا أَقَرَّ لِوَارِثٍ وَلِغَيْرِ وَارِثٍ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ أَرَى أَنْ أُبْطِلَهُمَا جَمِيعًا-
سفیان فرماتے ہیں جب کوئی شخص اپنے کسی وارث کے علاوہ کسی اور کے لیے ایک سو درہم کا اقرار کرے تو میں یہ سمجھتا ہوں ان دونوں کو باطل قرار دیا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ شُرَيْحٍ قَالَ لَا يَجُوزُ إِقْرَارٌ لِوَارِثٍ قَالَ و قَالَ الْحَسَنُ أَحَقُّ مَا جَازَ عَلَيْهِ عِنْدَ مَوْتِهِ أَوَّلَ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الْآخِرَةِ وَآخِرَ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا-
شریح بیان کرتے ہیں وارث کے حق میں اقرار کرنا درست نہیں ہے۔ حسن فرماتے ہیں مرتے وقت جو آخرت کی زندگی کا پہلا دن ہے اور دنیا کی زندگی کا آخری دن ہے اس قت کی کہی ہوئی بات پوری کرنا زیادہ حق رکھتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ لَا يَجُوزُ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ-
ابوقلابہ بیان کرتے ہیں وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ حُمَيْدٍ أَنَّ رَجُلًا يُكْنَى أَبَا ثَابِتٍ أَقَرَّ لِامْرَأَتِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ أَنَّ لَهَا عَلَيْهِ أَرْبَعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ صَدَاقِهَا فَأَجَازَهُ الْحَسَنُ-
حبیب بیان کرتے ہیں ایک شخص جس کی کنیت ابوثابت تھی اس نے مرتے وقت اپنی بیوی کے لیے اقرار کیا کہ اس نے اس عورت کو چار سو درہم جو اس کا مہر ہے ادا کرنے ہیں تو حسن نے اسے درست قرار دیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ قَالَ كُنْتُ تَحْتَ نَاقَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا وَلُعَابُهَا يَنُوصُ بَيْنَ كَتِفَيَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ أَلَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا يَجُوزُ وَصِيَّةٌ لِوَارِثٍ-
عمرو بن خارجہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے نیچے موجود تھا وہ جگالی کررہی تھی اور اس کاجگال میرے کندھوں کے درمیان گر رہا تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے خبردار بے شک اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیاہے اس لیے وارث کے بارے میں وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ فَأَمَرَ أَنْ يُوصِيَ لِوَالِدَيْهِ وَأَقَارِبِهِ ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي سُورَةِ النِّسَاءِ فَجَعَلَ لِلْوَالِدَيْنِ نَصِيبًا مَعْلُومًا وَأَلْحَقَ لِكُلِّ ذِي مِيرَاثٍ نَصِيبَهُ مِنْهُ وَلَيْسَتْ لَهُمْ وَصِيَّةٌ فَصَارَتْ الْوَصِيَّةُ لِمَنْ لَا يَرِثُ مِنْ قَرِيبٍ وَغَيْرِهِ-
قتادہ کے بارے میں منقول ہے انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ جب کسی شخص کے پاس موت آجائے اور اگر وہ بھلائی (مال) چھوڑ کر جارہاہے تو اسے والدین اور قریبی رشتے داروں کے بارے میں مناسب طور پر وصیت کرنی چاہیے یہ پرہیز گاروں پر لازم ہے۔ قتادہ نے کہا یہ حکم دیا گیا کہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کی جائے اسکے بعد اسے سورت نساء میں منسوخ کردیا گیا ہے اور والدین کے لیے طے شدہ حصہ ہے۔ اس لیے ورثاء کے بارے میں وصیت نہیں ہوسکتی۔ وصیت اس شخص کے بارے میں ہوگی جو وارث نہیں بنتا ہے خواہ وہ قریبی عزیز ہو یا دور کا عزیز۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ وَكَانَتْ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ وَالثُّلُثَ وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں پہلے مال اولاد کے لیے ہوتا تھا اور وصیت والدین کے اور قریبی رشتہ داروں کے لیے ہوتی تھی پھر اللہ نے اپنی مرضی کے مطابق اسے منسوخ کردیا ہے اور ہر مذکر کے لیے دو مونث کے لیے ایک حصہ مقرر کیا والدین میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا اور تیسراحصہ مقرر کیا بیوی کے لیے آٹھواں حصہ مقرر کیا اور شوہر کے لیے چوتھا یا نصف حصہ مقرر کیا۔
-
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ يَزِيدَ عَنْ عِكْرِمَةَ وَالْحَسَنِ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَكَانَتْ الْوَصِيَّةُ كَذَلِكَ حَتَّى نَسَخَتْهَا آيَةُ الْمِيرَاثِ-
عکرمہ بیان کرتے ہیں اللہ فرماتے ہیں اگر وہ بھلائی (مال) چھوڑ کر جا رہا ہے تو والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب وصیت کرے۔ عکرمہ اور حسن فرماتے ہیں پہلے وصیت اس طرح ہوتی تھی یہاں تک کہ وراثت کے متعلق آیت نے اسے منسوخ کردیا۔
-