نفسانی خواہشات کی پیروی سے اجتناب

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا يُنْتِجُونَ بِأَمْرٍ دُونَ عَامَّتِهِمْ فَهُمْ عَلَى تَأْسِيسِ الضَّلَالَةِ-
حضرت عمر بن عبدالعزیز ارشاد فرماتے ہیں جب تم کسی قوم کو دیکھو کہ وہ عام مسلمانوں سے ہٹ کر کوئی نئی راہ اختیار کررہے ہیں تو وہ لوگ گمراہی کی بنیاد رکھ رہے ہوںگے۔
-
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ قَالَ إِبْلِيسُ لِأَوْلِيَائِهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَأْتُونَ بَنِي آدَمَ فَقَالُوا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ قَالَ فَهَلْ تَأْتُونَهُمْ مِنْ قِبَلِ الِاسْتِغْفَارِ قَالُوا هَيْهَاتَ ذَاكَ شَيْءٌ قُرِنَ بِالتَّوْحِيدِ قَالَ لَأَبُثَّنَّ فِيهِمْ شَيْئًا لَا يَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ مِنْهُ قَالَ فَبَثَّ فِيهِمْ الْأَهْوَاءَ-
امام اوزاعی ارشاد فرماتے ہیں ابلیس نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم اولاد آدم کو کس چیز کے ذریعے لاتے ہو کیا تم انہیں استغفار کی طرف سے بھی لاتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہاں! یہ وہ چیز ہے جو تو حید کے ساتھ ملی ہوتی ہے (ہم اس سے انہیں نہیں پھسلا سکتے) ابلیس نے کہا میں ان کے درمیان ایسی چیز پھیلانے لگاہوں جس کی وجہ سے وہ اللہ سے مغفرت طلب نہیں کریں۔ امام اوزعی فرماتے ہیں پھر شیطان نے ان کے درمیان نفسانی خواہشات کی پیروی کو پھیلا دیا۔
-
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الْمُحَارِبِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ مَا أَدْرِي أَيُّ النِّعْمَتَيْنِ عَلَيَّ أَعْظَمُ أَنْ هَدَانِي لِلْإِسْلَامِ أَوْ عَافَانِي مِنْ هَذِهِ الْأَهْوَاءِ-
مجاہد بیان کرتے ہیں مجھے نہیں پتا کہ میرے لیے ان دونعمتوں میں کون سی زیادہ اہم ہے یہ کہ اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی یایہ کہ اس نے مجھے نفسانی خواہشات کی پیروی سے محفوظ رکھا۔
-
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ عَنْ حَبَّةَ بْنِ جُوَيْنٍ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا أَوْ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ وَقَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ ثُمَّ قُتِلَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ لَحَشَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ مَنْ يُرَى أَنَّهُ كَانَ عَلَى هُدًى-
حبہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اگر کوئی شخص زندگی بھر روزہ رکھتا ہے اور زندگی بھر نفل پڑھتا ہے پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اسے قتل کردیا جائے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا حشر انہی لوگوں کے ساتھ کرے جنہیں وہ ہدایت یافتہ سمجھتا تھا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ هَارُونَ هُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِي صَادِقٍ قَالَ قَالَ سَلْمَانُ لَوْ وَضَعَ رَجُلٌ رَأْسَهُ عَلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَصَامَ النَّهَارَ وَقَامَ اللَّيْلَ لَبَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ هَوَاهُ-
ابوصادق بیان کرتے ہیں حضرت سلمان فارسی ارشاد فرماتے ہیں اگر کوئی شخص اپنا سر حجر اسود پر رکھے اور دن بھر روزہ رکھے اور رات بھر نفل پڑھے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کی نفسانی خواہشات کے ہمراہ مبعوث کرے گا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ هُوَ ابْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرَةَ عَنْ أَبِي صَادِقٍ الْأَزْدِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِذٍ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ كُونُوا فِي النَّاسِ كَالنَّحْلَةِ فِي الطَّيْرِ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ الطَّيْرِ شَيْءٌ إِلَّا وَهُوَ يَسْتَضْعِفُهَا وَلَوْ يَعْلَمُ الطَّيْرُ مَا فِي أَجْوَافِهَا مِنْ الْبَرَكَةِ لَمْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ بِهَا خَالِطُوا النَّاسَ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَأَجْسَادِكُمْ وَزَايِلُوهُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وَقُلُوبِكُمْ فَإِنَّ لِلْمَرْءِ مَا اكْتَسَبَ وَهُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ مَنْ أَحَبَّ-
حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں لوگوں کے درمیان یوں رہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہوتی ہے ہر پرندہ اسے اپنے سے کم ترشمار کرتا ہے لیکن اگر پرندوں کو یہ پتا چل جائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں کتنی برکت موجود ہے تو وہ اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں تم اپنی زبان اور جسم کے ذریعے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھو لیکن اپنے اعمال اور اپنی قلبی کیفیات کے حوالے سے ان سے الگ رہو آدمی کو وہی کچھ ملتا ہے جو اس نے کمایا اور وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔
-
أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ حَدَّثَنِي بَقِيَّةُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ نِعْمَ وَزِيرُ الْعِلْمِ الرَّأْيُ الْحَسَنُ-
زہری بیان کرتے ہیں علم کا بہترین وزیر اچھی رائے ہے۔
-
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ يَخْشَى اللَّهَ وَكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَنْ يُعْجَبَ بِعِلْمِهِ قَالَو قَالَ مَسْرُوقٌ الْمَرْءُ حَقِيقٌ أَنْ يَكُونَ لَهُ مَجَالِسُ يَخْلُو فِيهَا فَيَذْكُرُ ذُنُوبَهُ فَيَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى مِنْهَا-
مسروق بیان کرتے ہیں آدمی کے عالم ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور آدمی کے جاہل ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے علم کے حوالے سے خود پسندی کا شکار ہو۔ مسروق ارشاد فرماتے ہیں درحقیقت آدمی کے لیے کچھ محافل ایسی بھی ہونی چاہیے جس میں وہ تنہا بیٹھ کر اپنے گناہوں کو یاد کرے اور ان گناہوں سے اللہ سے مغفرت طلب کرے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنِي مَعْنٌ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ إِذَا حَدَّثْنَاكُمْ بِالْحَدِيثِ عَلَى مَعْنَاهُ فَحَسْبُكُمْ-
حضرت واثلہ بن اسقع ارشاد فرماتے ہیں جب ہم معنوی طور پر تمہیں کوئی حدیث سنادیں تو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔
-
أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا حَدَّثَ لَمْ يُقَدِّمْ وَلَمْ يُؤَخِّرْ وَكَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ قَدَّمَ وَأَخَّرَ-
ابن سیرین کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو الفاظ آگے پیچھے نہیں کرتے تھے جبکہ حسن جب کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو وہ الفاظ آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے۔
-
أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ كَانَ الْحَسَنُ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الْأَصْلُ وَاحِدٌ وَالْكَلَامُ مُخْتَلِفٌ-
جریر بن حازم بیان کرتے ہیں حضرت حسن بصری جب حدیث بیان کرتے تھے تو اس کا مضمون ایک ہوتا تھا لیکن الفاظ مختلف ہوتے تھے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ الشَّاةِ بَيْنَ الرَّبِيضَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لَا إِنَّمَا قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَزِدْ فِيهِ وَلَمْ يُنْقِصْ مِنْهُ وَلَمْ يُجَاوِزْهُ وَلَمْ يُقَصِّرْ عَنْهُ-
امام محمد باقر بیان کرتے ہیں عبید بن عمیر نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ حدیث پڑھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا منافق شخص کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو تھنوں کے درمیان ہو (یا شاید دو ریوڑوں کے درمیان ہو) تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس طرح ارشاد فرمائی ہے امام محمد فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی وہ اس میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی نہیں کرتے تھے نہ وہ اس سے آگے بڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے کچھ کم کرتے تھے۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ كَانَ الشَّعْبِيُّ وَالنَّخَعِيُّ وَالْحَسَنُ يُحَدِّثُونَ بِالْحَدِيثِ مَرَّةً هَكَذَا وَمَرَّةً هَكَذَا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُمْ لَوْ حَدَّثُوا بِهِ كَمَا سَمِعُوهُ كَانَ خَيْرًا لَهُمْ-
ابن عون بیان کرتے ہیں شعبی ، نخعی اور حسن جب کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو کبھی ان الفاظ میں بیان کر دیتے تھے اور کبھی دوسرے الفاظ میں بیان کر دیتے تھے میں نے اس بات کا تذکرہ امام محمد بن سیرین سے کیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا اگر یہ حضرات اسی طرح حدیث بیان کریں جیسے انہوں نے سنی ہے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا عَثَّامٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ قَالَ إِنِّي لَأَسْمَعُ الْحَدِيثَ لَحْنًا فَأَلْحَنُ اتِّبَاعًا لِمَا سَمِعْتُ-
ابومعمر ارشاد فرماتے ہیں اگر میں نے حدیث سنتے ہوئے کوئی اعرابی غلطی سنی ہو تو میں سنے ہوئے کی پیروی کرتے ہوئے اسی غلطی کو آگے بیان کردیتا ہوں۔
-