TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
سنن دارمی
نماز کا بیان
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کا بیان۔
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مَا بَيْنَ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُسَلِّمُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ وَيَسْجُدُ فِي سُبْحَتِهِ بِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ الْأَذَانِ الْأَوَّلِ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ فَيَخْرُجَ مَعَهُ-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے لے کر فجر کی نماز تک کے درمیانی عرصہ میں ١١ رکعات ادا کرتے تھے جن میں سے ہر ایک دو رکعات کے بعد سلام پھیر دیتے تھے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے آپ ان نوافل کے دوران اتنا طویل سجدہ کرتے تھے کہ تم میں سے کوئی اس عرصہ کے درمیان پچاس آیات پڑھ سکتا تھا۔ پھر جب موذن فجر کی اذان دے کر فارغ ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو مختصر رکعات سنت ادا کرلیتے۔ پھر آپ لیٹ جاتے یہاں تک کہ موذن آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اس کے ساتھ تشریف لے جاتے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَا حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فَقَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يُوتِرُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ-
ابوسلمہ بیان کرتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے نوافل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ١٣ رکعات پڑھا کرتے تھے جن میں آٹھ رکعات ادا کرنے کے بعد وتر ایک رکعات پڑھ لیتے تھے پھر آپ دو رکعات بیٹھ کر ادا کرتے تھے پھر جب رکوع میں جانے لگتے تو کھڑے ہو کر رکوع میں جاتے پھر آپ فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت سنت ادا کرتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَأَتَى الْمَدِينَةَ لِبَيْعِ عَقَارِهِ فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالُوا أَرَادَ ذَلِكَ سِتَّةٌ مِنَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَهُمْ وَقَالَ أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ ثُمَّ إِنَّهُ قَدِمَ الْبَصْرَةَ فَحَدَّثَنَا أَنَّهُ لَقِيَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْوِتْرِ فَقَالَ أَلَا أُحَدِّثُكَ بِأَعْلَمِ النَّاسِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ بَلَى قَالَ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةُ فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَحَدِّثْنِي بِمَا تُحَدِّثُكَ فَأَتَيْتُ حَكِيمَ بْنَ أَفْلَحَ فَقُلْتُ لَهُ انْطَلِقْ مَعِي إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ قَالَ إِنِّي لَا آتِيهَا إِنِّي نَهَيْتُ عَنْ هَذِهِ الشِّيعَتَيْنِ فَأَبَتْ إِلَّا مُضِيًّا قُلْتُ أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ لَمَا انْطَلَقْتَ فَانْطَلَقْنَا فَسَلَّمْنَا فَعَرَفَتْ صَوْتَ حَكِيمٍ فَقَالَتْ مَنْ هَذَا قُلْتُ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قُلْتُ هِشَامُ بْنُ عَامِرٍ قَالَتْ نِعْمَ الْمَرْءُ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ قُلْتُ أَخْبِرِينَا عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّهُ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ فَعَرَضَ لِي الْقِيَامُ فَقُلْتُ أَخْبِرِينَا عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّهَا كَانَتْ قِيَامَ رَسُولِ اللَّهِ أُنْزِلَ أَوَّلُ السُّورَةِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ وَحُبِسَ آخِرُهَا فِي السَّمَاءِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا ثُمَّ أُنْزِلَ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ فَعَرَضَ لِي الْوِتْرُ فَقُلْتُ أَخْبِرِينَا عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَامَ وَضَعَ سِوَاكَهُ عِنْدِي فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ فَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ ثُمَّ يَقُومُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يَجْلِسُ فِي التَّاسِعَةِ فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ وَيُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمَلَ اللَّحْمَ صَلَّى سَبْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ ثُمَّ يَقُومُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يَجْلِسُ فِي السَّابِعَةِ فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ صَلَّى مِنْ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ خُلُقًا أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهِ وَمَا قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً حَتَّى يُصْبِحَ وَلَا قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ صَدَقَتْكَ أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَشَافَهْتُهَا مُشَافَهَةً قَالَ فَقُلْتُ أَمَا إِنِّي لَوْ شَعَرْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ-
زرارہ بن اوفی بیان کرتے ہیں سعد بن ہشام نے اپنی اہلیہ کو طلاق دی اور اپنی جائیداد فروخت کرنے کے لیے مدینہ منورہ آئے تاکہ اسے فروخت کر کے ہتھیار خرید سکیں ان کی ملاقات چند انصاری حضرات سے ہوئی تو ان حضرات نے بتایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں چھ حضرات نے ایسا کرنے کی کوشش کی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات سے منع کردیا تھا اور دریافت کیا تھا کہ کیا تم لوگوں کے لیے میرا اسوہ کافی نہیں ہے۔ زرارہ بیان کرتے ہیں یعنی سعد بن ہشام بصرہ آ گئے اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کی ملاقات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وتر کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز کے بارے میں جسے سب سے زیادہ علم ہے میں تمہیں اس کے بارے میں نہ بتاؤں میں نے جواب دیا ہاں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو۔ تم ان کی خدمت میں جاؤ ان سے یہ سوال کرنا اور پھر وہ جو جواب دیں واپس آ کر مجھے بھی بتا دینا۔ سعد بن ہشام کہتے ہیں میں حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا آپ میرے ساتھ ام المومنین کی خدمت میں چلیں حکیم نے جواب دیا میں انکی خدمت میں نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے انہیں ان دونوں گروہوں (یعنی حضرت علی کے موافقین اور مخالفین) کے معاملے میں دخل دینے سے منع کیا تھا تو انہوں نے میری بات نہیں مانی سعد کہتے ہیں میں بولا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ چلیں پھر ہم دونوں چل پڑے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر ہم نے سلام کیا انہوں نے حکیم کی آواز کو پہچان لیا اور دریافت کیا یہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا میں سعد بن ہشام ہوں انہوں نے دریافت کیا کون ہشام۔ میں نے جواب دیا ہشام بن عامر انہوں نے جواب دیا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے جواب دیا جی ہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا وہی نبی اکرم کا اخلاق۔ سعد بن ہشام کہتے ہیں میں نے یہ ارادہ کرلیا اب میں اٹھ جاتا ہوں اور مرتے دم تک کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔ لیکن پھر مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کا خیال آگیا تو میں نے سوال کیا کیا آپ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کے بارے میں بتائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔ کیا تم نے سورت مزمل نہیں پڑھی میں نے جواب دیا جی ہاں پڑھی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس سورت کے آغاز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رات کے نوافل کا حکم نازل ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نوافل ادا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انکے پاؤں سوج گئے ۔ چھ ماہ تک اس سورت کا آخری حصہ نازل نہیں ہوا پھر وہ حصہ نازل ہو تو رات کے نوافل کو نفل قرار دیا گیا۔ حالانکہ یہ پہلے فرض تھے۔ سعد بن ہشام نے کہا میں نے ارادہ کیا اب میں اٹھ جاتاہوں اور مرتے دم تک سوال نہیں کروں گا۔ لیکن مجھے وتر کا خیال آ گیا تو میں نے عرض کیا آپ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کی نماز کے بارے میں بتائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے لگتے تھے تو اپنی مسواک میرے پاس رکھ دیتے تھے پھر اللہ تعالیٰ کسی وقت انہیں بیدار کردیتا تھا تو آپ ٩ رکعات ادا کرتے تھے جن میں سے آپ ٨ رکعات کے بعد بیٹھ کر اللہ کی حمد بیان کرتے۔ اپنے پروردگار سے دعا مانگتے پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے ۔ پھر نویں رکعات پڑھنے کے بعد بیٹھتے اور اللہ کی حمد بیان کرتے اور اپنے پروردگار سے دعا کرتے اور پھر بلند آواز سے سلام پھیر دیتے پھر آپ بیٹھ کر دو رکعت نماز ادا کرتے یہ گیارہ رکعات ہوتی تھیں۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے بیٹے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوگئی تو آپ کا جسم مبارک بھاری ہوگیا تو آپ ٧ رکعت ادا کیا کرتے تھے جن میں سے آپ ٦ رکعت نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے تھے اللہ کی حمد بیان کرتے تھے اپنے رب سے دعا مانگتے تھے پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے تھے اور ساتویں رکعت ادا کرنے کے بعد پھر بیٹھ کر اللہ کی حمد بیان کرتے تھے اپنے پروردگار سے دعا مانگتے پھر سلام پھیر دیتے تھے پھر آپ بیٹھ کر دو رکعات ادا کرتے تھے یہ نو رکعات ہوتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اے بیٹے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند کا غلبہ ہوتا یا آپ بیمار ہوتے تو آپ دن کے وقت بارہ رکعات ادا کیا کرتے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کوئی معمول اختیار کرتے تھے تو آپ کو یہ پسند تھا آپ اسے باقاعدگی کے ساتھ سر انجام دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی رات بھر نوافل ادا نہیں کیے۔ اور نہ ہی آپ نے کبھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہے اور رمضان کے علاوہ آپ نے کسی بھی مہینے میں پورا مہینہ روزے نہیں رکھے۔ سعد بن ہشام کہتے ہیں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں یہ حدیث سنائی تو انہوں نے فرمایا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ٹھیک بیان کیا ہے اگر میں انکی خدمت میں حاضر ہوسکتا تو ان سے براہ راست یہ حدیث سن لیتا سعد بن ہشام کہتے ہیں میں نے کہا اگر مجھے یہ پتہ ہوتا کہ آپ ان کے ہاں نہیں آتے جاتے ہیں تو میں آپ کو یہ حدیث نہ سناتا۔
-