نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ قَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ لَأَعْلَمَنَّ مَا بَقَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَأَيْتُهُمْ قَدْ آذَوْكَ وَآذَاكَ غُبَارُهُمْ فَلَوْ اتَّخَذْتَ عَرِيشًا تُكَلِّمُهُمْ مِنْهُ فَقَالَ لَا أَزَالُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ يَطَئُونَ عَقِبِي وَيُنَازِعُونِي رِدَائِي حَتَّى يَكُونَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي يُرِيحُنِي مِنْهُمْ قَالَ فَعَلِمْتُ أَنَّ بَقَاءَهُ فِينَا قَلِيلٌ-
حضرت عباس بیان کرتے ہیں میں اچھی طرح جانتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کتنا عرصہ رہیں گے۔ انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول!میں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کا غبار آپ کو اذیت پہنچاتا ہے اگر آپ کوئی تخت بنالیں تو بیٹھ کر ان کے ساتھ بات چیت کیا کریں؟ (یہ مناسب ہوگا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : میں تو اسی طرح رہوں گا یہ لوگ میرے پیچھے آتے رہیں میری چادر کھینچتے رہیں۔ یہاں تک کہ اللہ مجھے ان سے نجات عطا کردے۔ حضرت عباس بیان کرتے ہیں میں اس سے جان لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اب ہمارے درمیان کچھ عرصہ رہیں گے۔
-
75. أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَحْجُبُكَ فَقَالَ لَا دَعُوهُمْ يَطَئُونَ عَقِبِي وَأَطَأُ أَعْقَابَهُمْ حَتَّى يُرِيحَنِي اللَّهُ مِنْهُمْ-
داؤد بن علی بیان کرتے ہیں عرض کی گئی یا رسول اللہ کیا ہم آپ کے لئے دربان مقرر نہ کر دیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں لوگوں کو ایسے ہی رہنے دو وہ میرے پیچھے آتے رہیں اور میں ان کے پیچھے رہوں۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ مجھے ان سے سکون عطا کردے۔
-
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ أُنَيْسِ بْنِ أَبِي يَحْيَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ عَاصِبًا رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ حَتَّى أَهْوَى نَحْوَ الْمِنْبَرِ فَاسْتَوَى عَلَيْهِ وَاتَّبَعْنَاهُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى الْحَوْضِ مِنْ مَقَامِي هَذَا ثُمَّ قَالَ إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَيْهِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا فَاخْتَارَ الْآخِرَةَ قَالَ فَلَمْ يَفْطِنْ لَهَا أَحَدٌ غَيْرُ أَبِي بَكْرٍ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ فَبَكَى ثُمَّ قَالَ بَلْ نَفْدِيكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا وَأَنْفُسِنَا وَأَمْوَالِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ثُمَّ هَبَطَ فَمَا قَامَ عَلَيْهِ حَتَّى السَّاعَةِ-
حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے یہ آپ کے اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ کا انتقال ہوا۔ ہم لوگ اس وقت مسجد میں تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر پر ایک پٹی باندھی ہوئی تھی ۔ آپ نے منبر کی طرف رخ کیا اور اس پر تشریف فرما ہوئے ہم آپ کے پیچھے آئے آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں یہاں سے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں پھر آپ نے ارشاد فرمایا ایک بندے کے سامنے دنیا اور اس کی آرائش و زبیائش پیش کی گئی تو اس بندے نے آخرت کو اختیار ۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اس بات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی نے نہیں سمجھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے پھر وہ بولے یا رسول اللہ ہم فدیے کے طور پر اپنے باپ مائیں اپنی جانیں اپنے اموال پیش کرتے ہیں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور اس کے بعد پھر کبھی آپ منبر پر تشریف فرما نہ ہوئے۔
-
أَخْبَرَنَا خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ عُبَيْدٍ مَوْلَى الْحَكَمِ بْنِ أَبِي الْعَاصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي مُوَيْهِبَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ فَانْطَلِقْ مَعِي فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِمْ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ لِيُهْنِكُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِيهِ مِمَّا أَصْبَحَ فِيهِ النَّاسُ أَقْبَلَتْ الْفِتَنُ كَقِطْعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يَتْبَعُ آخِرُهَا أَوَّلَهَا الْآخِرَةُ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَى ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ إِنِّي قَدْ أُوتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدِ فِيهَا ثُمَّ الْجَنَّةُ فَخُيِّرْتُ بَيْنَ ذَلِكَ وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّي قُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي خُذْ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا ثُمَّ الْجَنَّةَ قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ لَقَدْ اخْتَرْتُ لِقَاءَ رَبِّي ثُمَّ اسْتَغْفَرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَبُدِئَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ-
ابومویہبہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کروں تم میرے ساتھ چلو ابومویبہ بیان کرتے ہیں میں نصف رات کے وقت آپ کے ساتھ چل دیا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو آپ نے یہ دعا پڑھی۔ اے قبرستان والو تم پر سلامتی نازل ہو۔ لوگ جس حالت میں ہیں اس کے بجائے تم جس حالت میں ہو اس پر تمہیں مبارک باد ہو۔ تاریک رات کے ٹکڑوں جیسے فتنے آرہے ہیں جن میں سے ایک کے پیچھے دوسرا ہوگا اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ خطرناک ہوگا (راوی بیان کرتے ہیں) پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے ابومویہبہ مجھے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں اور وہاں ہمیشہ رہنا دیا گیا اور پھر جنت کی پیش کش کی گئی مجھے اس کے درمیان اور اپنے پروردگار سے ملاقات کے درمیان اختیار دیا گیا (راوی کہتے ہیں) میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ دنیا کے خزانوں کی چابیاں اس میں ہمشہ رہنا، جنت کو حاصل کرلیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا نہیں ۔ اللہ کی قسم اے ابومویہبہ میں نے پروردگار سے ملاقات کو اختیار کیا ہے ۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی اور پھر آپ تشریف لے آئے اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری کا آغاز ہوا جس میں آپ کا انتقال ہوا تھا۔
-
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فَقَالَ قَدْ نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي فَبَكَتْ فَقَالَ لَا تَبْكِي فَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لِحَاقًا بِي فَضَحِكَتْ فَرَآهَا بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَ يَا فَاطِمَةُ رَأَيْنَاكِ بَكَيْتِ ثُمَّ ضَحِكْتِ قَالَتْ إِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ قَدْ نُعِيَتْ إِلَيْهِ نَفْسُهُ فَبَكَيْتُ فَقَالَ لِي لَا تَبْكِي فَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لَاحِقٌ بِي فَضَحِكْتُ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَجَاءَ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَالْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ-
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کو بلوایا اور ارشاد فرمایا (اس آیت إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ کے نزول میں) میری وفات کے بارے میں اطلاع دی گئی ہے۔ سیدہ فاطمہ رونے لگی آپ نے ارشاد فرمایا نہ رو!کیونکہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھ سے آکر ملو گی تو وہ ہنسنے لگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے انہیں دیکھا اور ازواج مطہرات نے کہا اے فاطمہ ہم نے دیکھا کہ پہلے آپ رونے لگی اور پھر ہنسنے لگی ۔ سیدہ فاطمہ نے جواب دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بات بتائی کہ ان کی وفات کی اطلاع آگئی ہے اس بات پر میں رو پڑی آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ نہ رو۔ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملو گی میں ہنس پڑی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی فتح اور مدد آگئی ہے اور اہل یمن بھی آگئے ہیں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اہل یمن سے مراد کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا وہ لوگ نرم دل کے مالک ہیں اور ایمان یمن ہی ہے اور حکمت یمن ہی ہے۔
-
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ رَجَعَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ جَنَازَةٍ مِنْ الْبَقِيعِ فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا وَأَنَا أَقُولُ وَا رَأْسَاهُ قَالَ بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ قَالَ وَمَا ضَرَّكِ لَوْ مُتِّ قَبْلِي فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ فَقُلْتُ لَكَأَنِّي بِكَ وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتَ ذَلِكَ لَرَجَعْتَ إِلَى بَيْتِي فَعَرَّسْتَ فِيهِ بِبَعْضِ نِسَائِكَ قَالَتْ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ بُدِئَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ-
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ایک دن رسول اللہ جنت البقیع میں جنازے میں شرکت کرنے کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو مجھے اس حالت میں پایا کہ مجھے درد تھا اور میں یہ کہہ رہی تھی ہائے میرا سر آپ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہائے میرا سر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہیں کیا نقصان ہے اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوجاؤ تو میں تمہیں غسل دوں گا تمہیں کفن دوں گا تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا تمہیں دفن کروں گا۔ میں نے عرض کی ایسا ہی ہوگا اللہ کی قسم اگر میں مرجاتی ہوں تو آپ واپس میرے اس گھر میں آئیں گے اور یہاں اپنی کسی دوسری اہلیہ محترمہ کے ساتھ رہیں گے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادئیے اس کے بعد آپ کو اس تکلیف کا آغاز ہوا جس میں آپ کا وصال ہوا تھا۔
-
أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ صُبُّوا عَلَيَّ سَبْعَ قِرَبٍ مِنْ سَبْعِ آبَارٍ شَتَّى حَتَّى أَخْرُجَ إِلَى النَّاسِ فَأَعْهَدَ إِلَيْهِمْ قَالَتْ فَأَقْعَدْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ فَصَبَبْنَا عَلَيْهِ الْمَاءَ صَبًّا أَوْ شَنَنَّا عَلَيْهِ شَنًّا الشَّكُّ مِنْ قِبَلِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ فَوَجَدَ رَاحَةً فَخَرَجَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَاسْتَغْفَرَ لِلشُّهَدَاءِ مِنْ أَصْحَابِ أُحُدٍ وَدَعَا لَهُمْ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْأَنْصَارَ عَيْبَتِي الَّتِي أَوَيْتُ إِلَيْهَا فَأَكْرِمُوا كَرِيمَهُمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ إِلَّا فِي حَدٍّ أَلَا إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ قَدْ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَظَنَّ أَنَّهُ يَعْنِي نَفْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ سُدُّوا هَذِهِ الْأَبْوَابَ الشَّوَارِعَ إِلَى الْمَسْجِدِ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ امْرَأً أَفْضَلَ عِنْدِي يَدًا فِي الصُّحْبَةِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ-
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دوران یہ بات ارشاد فرمائی میرے اوپر سات مشکیزوں کے ذریعے سات مختلف کنوؤں کا پانی بہاؤ تاکہ میں لوگوں کے پاس جا کر ان سے عہد لے سکوں۔ راوی بیان کرتے ہیں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بڑے ٹب میں جو سیدہ حفصہ کا تھا اس میں بٹھایا اور آپ پر پانی بہایا۔ (یہاں حدیث کے ان الفاظ میں محمد بن اسحق نامی راوی کو شک ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ محسوس ہوا آپ باہر تشریف فرما ہوئے منبر پر تشریف لائے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر آپ نے شہدائے احد کے لیے دعائے مغفرت کی اور ان کے لیے دعا کی پھر ارشاد فرمایا۔ اما بعد!انصار میرے قریبی ساتھی ہیں جن کی طرف میں نے پناہ حاصل کی تم ان میں سے معزز لوگوں کا احترام کرو اگر کوئی غلطی کرے تو اس سے درگزر کرو۔ البتہ حد کا معاملہ مختلف ہے یہ بات یاد رکھو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو دنیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں موجود نعمتوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو بندے نے اللہ کے پاس موجود نعمتوں کو اختیار کیا راوی بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور وہ یہ سمجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں یہ بات کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ اطمینان رکھو۔ پھر آپ نے حکم دیا مسجد کی طرف آنے والے تمام دروازوں کو بند کردیا جائے صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے کیونکہ میرے نزدیک ساتھ کے اعتبار سے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل کوئی اور نہیں۔
-
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أُوذِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ فِي مَرَضِهِ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ قَالَ هَلْ أَمَرْتُنَّ أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَقُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ فَقَالَ أَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَرُبَّ قَائِلٍ مُتَمَنٍّ وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ-
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران آپ کو نماز کے لیے بلوایا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ پھر آپ پر مدہوشی طاری ہوگئی جب افاقہ ہوا تو آپ نے پھر ارشاد فرمایا کیا تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہہ دیا ہے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا) ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل کے آدمی ہیں ۔ حضرت عمر کو ہدایت کریں( تو یہ مناسب ہوگا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم بھی یوسف کے زمانے کے عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ بہت سے لوگ یہ تمنا رکھتے ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہی راضی ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ فَحُبِسَ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَلَيْلَتَهُ وَالْغَدَ حَتَّى دُفِنَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ وَقَالُوا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى وَاللَّهِ لَا يَمُوتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أَقْوَامٍ وَأَلْسِنَتَهُمْ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ حَتَّى أَزْبَدَ شِدْقَاهُ مِمَّا يُوعِدُ وَيَقُولُ فَقَامَ الْعَبَّاسُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَإِنَّهُ لَبَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْسُنُ كَمَا يَأْسُنُ الْبَشَرُ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ فَإِنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَهُ إِمَاتَتَيْنِ أَيُمِيتُ أَحَدَكُمْ إِمَاتَةً وَيُمِيتُهُ إِمَاتَتَيْنِ وَهُوَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ فَإِنْ يَكُ كَمَا تَقُولُونَ فَلَيْسَ بِعَزِيزٍ عَلَى اللَّهِ أَنْ يَبْحَثَ عَنْهُ التُّرَابَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا مَاتَ حَتَّى تَرَكَ السَّبِيلَ نَهْجًا وَاضِحًا فَأَحَلَّ الْحَلَالَ وَحَرَّمَ الْحَرَامَ وَنَكَحَ وَطَلَّقَ وَحَارَبَ وَسَالَمَ مَا كَانَ رَاعِي غَنَمٍ يَتَّبِعُ بِهَا صَاحِبُهَا رُءُوسَ الْجِبَالِ يَخْبِطُ عَلَيْهَا الْعِضَاهَ بِمِخْبَطِهِ وَيَمْدُرُ حَوْضَهَا بِيَدِهِ بِأَنْصَبَ وَلَا أَدْأَبَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِيكُمْ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ قَالَ وَجَعَلَتْ أُمُّ أَيْمَنَ تَبْكِي فَقِيلَ لَهَا يَا أُمَّ أَيْمَنَ تَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَّا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ ذَهَبَ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ الدُّنْيَا وَلَكِنِّي أَبْكِي عَلَى خَبَرِ السَّمَاءِ انْقَطَعَ قَالَ حَمَّادٌ خَنَقَتْ الْعَبْرَةُ أَيُّوبَ حِينَ بَلَغَ هَا هُنَا-
عکرمہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصال پیر کے دن ہوا آپ کو اس دن کے بقیہ حصے میں رات تک اور اگلے دن تک رکھا گیا یہاں تک کہ بدھ کی شام کو آپ کودفن کیا گیا ۔ بعض لوگوں نے یہ بات کہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا بلکہ ان کی روح کو اوپر لے جایا گیا جیسے حضرت موسی کی روح کو اوپر لے جایا گیا تھا حضرت عمر اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے بے شک اللہ کے رسول کا انتقال نہیں ہوا بلکہ ان کی روح کو اسی طرح سے اوپر لے جایا گیا جیسے حضرت موسی کی روح کو اوپر لے جایا گیا اللہ کی قسم اللہ کے رسول انتقال نہیں کریں گے۔ جب تک کفار کی اقوام کے ہاتھ اور زبانیں کاٹ نہ دیے جائیں۔ حضرت عمر یہی بات کہتے رہے یہاں تکہ ان کے دھمکانے اور بولنے کی وجہ سے ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اس وقت حضرت عباس کھڑے ہوئے اور بولے بے شک اللہ کے رسول انتقال کرچکے ہیں وہ ایک انسان تھے اور اسی طرح بوڑھے ہوئے جیسے انسان بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ اے لوگو اپنے آقا کودفن کر دو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے زیادہ برگزیدہ ہیں کہ اللہ انہیں دو مرتبہ موت میں مبتلا کرے کیا اللہ تم میں سے کسی کو ایک موت میں مبتلا کرے گا اور انہیں دو مرتبہ موت میں مبتلا کرے گا۔ جب کہ اللہ کے نزدیک وہ زیادہ برگزیدہ بندے ہیں۔ اے لوگو اپنے آقا کو دفن کردو۔ اگر وہ ایسے ہیں جیسے تم کہہ رہے ہو تو اللہ کے لیے یہ بات مشکل نہیں ہے کہ ان سے مٹی کو ہٹادے بے شک اللہ کے رسول نے اللہ کی قسم اس وقت تک انتقال نہیں کیا جب تک انہوں نے راستے کو واضح کردیا آپ نے حلال کو بھی واضح نہیں کردیا۔ حرام کو حرام قرار دیا آپ نے نکاح بھی کیاطلاق بھی دی جنگ بھی کی اور امن کی حالت میں بھی رہے بکریوں کا کوئی بھی چرواہا جس کے پیچھے بکریاں جاتی ہیں اور جو پہاڑوں کے سروں پر جاتا ہے اور درختوں سے اپنی لاٹھی کے ذریعے پتے جھاڑتا ہے اور ان بکریوں کے لیے اپنے ہاتھ سے حوض درست کرتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محنتی اور کوشش کرنے والا نہیں تھا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان رہے اے لوگو اپنے آقاکو دفن کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں سیدہ ام ایمن رونے لگی ان سے کہا گیا اے ام ایمن کیا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے رو رہی ہیں انہوں نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے نہیں رو رہی کیونکہ مجھے اس بات کا پتہ ہے کہ آپ ایسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جو آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ اب آسمان سے وحی کے نزول کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حماد بیان کرتے ہیں جب ایوب نامی راوی نے یہ بات بیان کی تو ان کی آواز یوں پھنس کررہ گئی جیسے ان کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي يَعِيشُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ-
مکحول بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جب تم میں سے کسی ایک شخص کو مصیبت لاحق ہو تو میری مصیبت کو یاد کرلے کیونکہ وہی سب سے عظیم مصیبت ہے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا فِطْرٌ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَذْكُرْ مُصَابَهُ بِي فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ-
عطا روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی ایک شخص کو مصیبت لاحق ہو تو مجھے لاحق ہونے والی مصیبت کو یاد کرلے کیونکہ وہی سب سے عظیم مصیبت ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَذْكُرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِلَّا بَكَى-
عمر بن محمد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو جب کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا وہ ہمیشہ رو دیا کرتے تھے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ يَا أَنَسُ كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ وَقَالَتْ يَا أَبَتَاهْ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهْ وَا أَبَتَاهْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ وَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ وَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهْ قَالَ حَمَّادٌ حِينَ حَدَّثَ ثَابِتٌ بَكَى و قَالَ ثَابِتٌ حِينَ حَدَّثَ أَنَسٌ بَكَى-
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ نے کہا اے انس رضی اللہ عنہ تم لوگوں نے یہ کیسے گوارا کیا کہ تم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو سیدہ فاطمہ نے یہ بھی کہا اے ابا جان۔ آپ اپنے پروردگار کے کتنے قریب ہیں۔ اے اباجان جنت الفردوس آپ کا ٹھکانہ ہے اے اباجان حضرت جبرائیل نے آپ کی وفات کی خبر دی تھی۔ اے اباجان آپ نے اپنے پروردگار کے بلاوے پر لبیک کہا۔ حماد بیان کرتے ہیں ثابت نے جب یہ حدیث بیان کی تو وہ رونے لگے ثابت بیان کرتے ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جب حدیث بیان کی تو وہ بھی رونے لگے تھے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ يَا أَنَسُ كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ وَقَالَتْ يَا أَبَتَاهْ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهْ وَا أَبَتَاهْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ وَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ وَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهْ قَالَ حَمَّادٌ حِينَ حَدَّثَ ثَابِتٌ بَكَى و قَالَ ثَابِتٌ حِينَ حَدَّثَ أَنَسٌ بَكَى-
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تھے اس وقت وہاں موجود تھا اور جب ہمارے پاس تشریف لائے تھے تو اس سے زیادہ اچھا اور روشن دن میں نے کوئی نہیں دیکھا اور جس دن آپ کا وصال ہوا اس وقت بھی میں وہاں موجود تھا اس سے زیادہ برا دن اور اس سے زیادہ تاریک دن جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي عَبْدِ الْجَلِيلِ عَنْ أَبِي حَرِيزٍ الْأَزْدِيِّ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَجِدُكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَائِمًا عِنْدَ رَبِّكَ وَأَنْتَ مُحْمَارَّةٌ وَجْنَتَاكَ مُسْتَحْيٍ مِنْ رَبِّكَ مِمَّا أَحْدَثَتْ أُمَّتُكَ مِنْ بَعْدِكَ-
حضرت عبداللہ بن سلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ ہم قیامت کے دن آپ کو اپنے پروردگار کے پاس کھڑا ہوا پائیں گے اور آپ کے رخسار سرخ ہوں گے اور آپ اپنے پروردگار سے اس بات پر حیاء کر رہے ہوں گے جو آپ کی امت نے آپ کے بعد دین میں نئی باتیں داخل کرلی تھیں۔
-
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الْقُرَشِيِّ عَنْ أَبِي قُرَّةَ مَوْلَى أَبِي جَهْلٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ هَذِهِ السُّورَةَ لَمَّا أُنْزِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَخْرُجُنَّ مِنْهَا أَفْوَاجًا كَمَا دَخَلُوهُ أَفْوَاجًا-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جب یہ سورت نازل ہوئی " جب اللہ کی مدد اور فتح آگئی اور تم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں " تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس میں سے لوگ فو در فوج اسی طرح نکلیں گے جس طرح فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔
-
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ الْمِصْرِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ أَبِي أَيُّوبَ الْخُزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيِّ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ الْمَكِّيِّ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَهْتَمِ عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مَعَ الْعَامَّةِ فَلَمْ يُفْجَأْ عُمَرُ إِلَّا وَهُوَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَتَكَلَّمُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ غَنِيًّا عَنْ طَاعَتِهِمْ آمِنًا لِمَعْصِيَتِهِمْ وَالنَّاسُ يَوْمَئِذٍ فِي الْمَنَازِلِ وَالرَّأْيِ مُخْتَلِفُونَ فَالْعَرَبُ بِشَرِّ تِلْكَ الْمَنَازِلِ أَهْلُ الْحَجَرِ وَأَهْلُ الْوَبَرِ وَأَهْلُ الدَّبَرِ يُحْتَازُ دُونَهُمْ طَيِّبَاتُ الدُّنْيَا وَرَخَاءُ عَيْشِهَا لَا يَسْأَلُونَ اللَّهَ جَمَاعَةً وَلَا يَتْلُونَ لَهُ كِتَابًا مَيِّتُهُمْ فِي النَّارِ وَحَيُّهُمْ أَعْمَى نَجِسٌ مَعَ مَا لَا يُحْصَى مِنْ الْمَرْغُوبِ عَنْهُ وَالْمَزْهُودِ فِيهِ فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَنْشُرَ عَلَيْهِمْ رَحْمَتَهُ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُمْ ذَلِكَ أَنْ جَرَحُوهُ فِي جِسْمِهِ وَلَقَّبُوهُ فِي اسْمِهِ وَمَعَهُ كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ نَاطِقٌ لَا يُقَدَّمُ إِلَّا بِأَمْرِهِ وَلَا يُرْحَلُ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَلَمَّا أُمِرَ بِالْعَزْمَةِ وَحُمِلَ عَلَى الْجِهَادِ انْبَسَطَ لِأَمْرِ اللَّهِ لَوْثُهُ فَأَفْلَجَ اللَّهُ حُجَّتَهُ وَأَجَازَ كَلِمَتَهُ وَأَظْهَرَ دَعْوَتَهُ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ فَسَلَكَ سُنَّتَهُ وَأَخَذَ سَبِيلَهُ وَارْتَدَّتْ الْعَرَبُ أَوْ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُمْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الَّذِي كَانَ قَابِلًا انْتَزَعَ السُّيُوفَ مِنْ أَغْمَادِهَا وَأَوْقَدَ النِّيرَانَ فِي شُعُلِهَا ثُمَّ رَكِبَ بِأَهْلِ الْحَقِّ أَهْلَ الْبَاطِلِ فَلَمْ يَبْرَحْ يُقَطِّعُ أَوْصَالَهُمْ وَيَسْقِي الْأَرْضَ دِمَاءَهُمْ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ فِي الَّذِي خَرَجُوا مِنْهُ وَقَرَّرَهُمْ بِالَّذِي نَفَرُوا عَنْهُ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بَكْرًا يَرْتَوِي عَلَيْهِ وَحَبَشِيَّةً أَرْضَعَتْ وَلَدًا لَهُ فَرَأَى ذَلِكَ عِنْدَ مَوْتِهِ غُصَّةً فِي حَلْقِهِ فَأَدَّى ذَلِكَ إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبِهِ ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَمَصَّرَ الْأَمْصَارَ وَخَلَطَ الشِّدَّةَ بِاللِّينِ وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ وَشَمَّرَ عَنْ سَاقَيْهِ وَأَعَدَّ لِلْأُمُورِ أَقْرَانَهَا وَلِلْحَرْبِ آلَتَهَا فَلَمَّا أَصَابَهُ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَمَرَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَسْأَلُ النَّاسَ هَلْ يُثْبِتُونَ قَاتِلَهُ فَلَمَّا قِيلَ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ اسْتَهَلَّ يَحْمَدُ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ أَصَابَهُ ذُو حَقٍّ فِي الْفَيْءِ فَيَحْتَجَّ عَلَيْهِ بِأَنَّهُ إِنَّمَا اسْتَحَلَّ دَمَهُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ حَقِّهِ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بِضْعَةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا فَكَسَرَ لَهَا رِبَاعَهُ وَكَرِهَ بِهَا كَفَالَةَ أَوْلَادِهِ فَأَدَّاهَا إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبَيْهِ ثُمَّ إِنَّكَ يَا عُمَرُ بُنَيُّ الدُّنْيَا وَلَّدَتْكَ مُلُوكُهَا وَأَلْقَمَتْكَ ثَدْيَيْهَا وَنَبَتَّ فِيهَا تَلْتَمِسُهَا مَظَانَّهَا فَلَمَّا وُلِّيتَهَا أَلْقَيْتَهَا حَيْثُ أَلْقَاهَا اللَّهُ هَجَرْتَهَا وَجَفَوْتَهَا وَقَذِرْتَهَا إِلَّا مَا تَزَوَّدْتَ مِنْهَا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَلَا بِكَ حَوْبَتَنَا وَكَشَفَ بِكَ كُرْبَتَنَا فَامْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ فَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ عَلَى الْحَقِّ شَيْءٌ وَلَا يَذِلُّ عَلَى الْبَاطِلِ شَيْءٌ أَقُولُ قَوْلِي وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ قَالَ أَبُو أَيُّوبَ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ فِي الشَّيْءِ قَالَ لِيَ ابْنُ الْأَهْتَمِ امْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ-
خالد بن معدان بیان کرتے ہیں عبداللہ بن اہتم عمر بن عبدالعزیز کے پاس آئے ان کے ساتھ چند لوگ بھی تھے جیسے ہی وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس پہنچے ساتھ ہی گفتگو چھیڑ لی انہوں نے اللہ کی حمد وثناء بیان کرتے کے بعد یہ کہا امابعد! بے شک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے حالانکہ وہ ان کی اطاعت سے بے نیاز ہے اور ان کے گناہوں سے محفوظ ہے۔ لوگ اس وقت حیثیت اور عقل مندی میں ایک دوسرے سے مختلف تھے عرب اس وقت سب سے زیادہ برے حال میں تھے جھونپڑوں اور ڈیروں میں رہتے تھے اور شہد کی مکھیاں پالتے تھے دنیا کی تمام تر پاکیزہ اور عیش و عشرت کا سامان ان سے دور تھا۔ وہ اللہ سے اجتماعی طور پر کچھ نہیں مانگتے تھے۔ اور نہ ہی اس کی کوئی کتاب پڑھتے تھے ان کے مرحومین جہنم میں گئے اور ان کے زندہ لوگ اندھے تھے اور ناپاک تھے اس کے علاوہ ان میں بہت سی خامیاں اور بری باتیں پائی جاتی تھیں جب اللہ نے ان پر اپنی رحمت پھیلانے کا ارادہ کیا تو ان کیطرف انہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کے نزدیک تمہارامشقت میں مبتلا ہونا بہت دشوار تھا وہ تمہاری بھلائی کے لیے بہت زیادہ حریص تھے اللہ اس پر درود نازل کرے اور سلام نازل کرے اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں لیکن اس کے باوجود عرب اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو زخمی کیا آپ کے نام کے ساتھ منفی لقب کا اضافہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اللہ کی کتاب موجود تھی جو حکم دینے والی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کے تحت ہر کام کرتے تھے اور اسی کیا اجازت سے آپ نے ہجرت کی جب آپ کو فرائض کا حکم دیا گیا اور جہاد کی ترغیب دی گئی تو اللہ کے حکم کی بدولت آپ کی حکومت پھیل گئی۔ اللہ نے آپ کی حجت ظاہر کی آپ کے کلمے کو غالب کیا اور آپ کی دعوت کو عام کیا آپ نے پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے علیحدگی اختیار کی۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے آپ کی سنت پر عمل کیا آپ کے راستے کو اپنایا بعض عرب مرتد ہوگئے تھے یا ان میں سے جس نے بھی یہ حرکت کی اللہ کے رسول کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور صرف اسی کو قبول کیا جوقبول کرنے کے لائق تھا تلواریں میانوں سے باہر آگئیں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل حق کی مدد سے اہل باطل کو نقصان پہنچایا اس وقت تک ان کے اعضاء کاٹتے رہے اور زمین کو ان کے خون سے سیراب کرتے رہے جب تک انہیں واپس وہیں نہیں پہنچادیا گیا جہاں سے وہ نکلے تھے اور انہیں وہیں قائم کیا جہاں سے وہ بارہ آئے تھے تو اللہ کے مال میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک اونٹ ملا جس پر پانی لاد کر لایا جاتا تھا ایک حبشی کنیز ملی جوان کے بچے کو دودھ پلاتی تھی موت کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو اپنے لیے الجھن کا باعث سمجھا اسلیے انہوں نے یہ چیزیں اپنے بعد والے خلیفہ کے سپرد کردیں اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے بالکل اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے۔ اس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے انہوں نے شہر بسائے نرمی کے ہمراہ شدت کو ملا دیا اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھالیں اور اپنی پنڈلیوں سے دامن سمیٹ لیا اور تمام امور کے لیے مناسب لوگوں کا انتظام کیا جنگ کے لیے آلات کا انتظام گیا جب مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے ان پر حملہ کیا تو آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ہدایت کی وہ لوگوں سے دریافت کریں کیا لوگوں نے ان کے قتل کرنے والے کی تحقیق کی ہے توجب انہیں بتایا گیا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام ہے (جوغیر مسلم ہے) تو انہوں نے بلند آواز سے اپنے پروردگار کی تعریف کی کہ مال غنیمت میں سے کسی حق دار نے ان پر حملہ نہیں کیا جو ان کے خلاف کوئی حجت پیش کرتا کہ حضرت عمر نے اس کا جو حق دبایا تھا اس کی خاطر انہوں نے ان کا خون بہایا تھا۔ حضرت عمر نے اللہ کے مال میں سے اسی ہزار سے کچھ زیادہ درہم وصول کیے تھے۔ اس کی خاطر انہوں نے اپنے مکان کو فروخت کردیا اور یہ ناپسند کیا کہ ان کی اولاد اس رقم کو دینے کی پابند ہو۔ انہوں نے یہ رقم اپنے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد کی اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں اپنے دونوں پیش رو حضرات کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ عبداللہ بن اہتم نے کہا اے عمربن عبدالعزیز پھر اس کے بعد تم ہو دنیا کے بادشاہوں کی اولاد نے تمہیں جنم دیا ہے اسی نے تمہیں دودھ پلایا انہی لوگوں میں تمہاری پرورش ہوئی انہیں جگہوں پر تم انہیں تلاش کرتے رہے لیکن جب تم حکومت کے مالک بنے تو تم نے اسے وہیں رکھا جہاں اللہ نے اسے رکھا تھا تم نے اس سے لاتعلقی اختیار کی اور اس سے جفا کی اور اسے بڑا سمجھا ماسوائے اس چیز کے جس کی تمہارے لیے ضرورت ہو اور ہرطرح کی حمد اللہ کے لیے ہے جس نے تمہاری وجہ سے ہماری حاجات کو پورا کیا اور تمہاری وجہ سے ہماری پریشانی کو ختم کیا تم چلتے رہو اورادھر ادھر توجہ نہ دو کیونکہ حق سے زیادہ عزت دار کوئی چیز نہیں ہے اور باطل سے زیادہ ذلیل کوئی اور چیز نہیں ہے میں نے یہ بات ختم کی اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ ابوایوب بیان کرتے ہیں عمربن عبدالعزیز جب بھی کسی چیز کے بارے میں کچھ کہتے تھے یہ بات فرماتے مجھے ابن اہتم نے بتائی ہے اور یہی کہتے کہ تھے کہ چلتے رہو ادھر ادھر توجہ نہ دو۔
-