فتوی دینا اور اس کے بارے میں شدت

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْرَؤُكُمْ عَلَى الْفُتْيَا أَجْرَؤُكُمْ عَلَى النَّارِ-
حضرت عبیداللہ بن ابوجعفر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہیں فتوی دینے کے مقابلے میں سب سے زیادہ جرات وہ شخص کرے گا جوجہنم کے بارے میں سب سے زیادہ جرات مند ہو۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَنْ أَحْدَثَ رَأْيًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ تَمْضِ بِهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَدْرِ عَلَى مَا هُوَ مِنْهُ إِذَا لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جو شخص اپنی ایسی رائے ایجاد کرتے جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو اسکے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی موجود ہو اور اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ جب وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو اس کا کیا حال ہوگا۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيُّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا مِنْ غَيْرِ ثَبْتٍ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص کسی دلیل کے بغیر فتوی دے اس کا گناہ فتوی دینے والے کے سر ہوگا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَنْ أَفْتَى بِفُتْيَا يُعَمَّى عَلَيْهَا فَإِثْمُهَا عَلَيْهِ-
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جو شخص کوئی ایسا فتوی دے جس سے وہ آگاہ نہیں ہے تو اس کا گناہ اسکے سر ہوگا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ كَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا وَرَدَ عَلَيْهِ الْخَصْمُ نَظَرَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَجَدَ فِيهِ مَا يَقْضِي بَيْنَهُمْ قَضَى بِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْكِتَابِ وَعَلِمَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْأَمْرِ سُنَّةً قَضَى بِهِ فَإِنْ أَعْيَاهُ خَرَجَ فَسَأَلَ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ أَتَانِي كَذَا وَكَذَا فَهَلْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي ذَلِكَ بِقَضَاءٍ فَرُبَّمَا اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّفَرُ كُلُّهُمْ يَذْكُرُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ قَضَاءً فَيَقُولُ أَبُو بَكْرٍ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَلَى نَبِيِّنَا فَإِنْ أَعْيَاهُ أَنْ يَجِدَ فِيهِ سُنَّةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ رُءُوسَ النَّاسِ وَخِيَارَهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فَإِنْ أَجْمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَمْرٍ قَضَى بِهِ-
میمون بن مہران بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں جب کوئی شخص مسئلہ لے کر آتا تو وہ اللہ کی کتاب سے رہنمائی لیتے اگر وہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی ایسا حکم پالیتے جس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکتے تو اس کے مطابق فیصلہ کردیتے اگر اللہ کی کتاب میں وہ بات موجود نہ ہوتی اور اس معاملے میں اللہ کے رسول کی سنت کا علم ہوتا تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے اگر یہ بھی نہ ہوتا تو پھر وہ مسلمانوں سے اس بارے میں دریافت کرتے اور ارشاد فرماتے میرے پاس فلاں فلاں شخص کو لے آؤ اور ارشاد فرماتے کیا تمہیں علم ہے کہ اللہ کے رسول نے اس بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو بعض اوقات ایسابھی ہوتا کہ آپ کے پاس جو لوگ جمع ہوتے تو وہ اس بات کا ذکر کرتے کہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا فیصلہ ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہرطرح کی حمد اس اللہ کے لیے مخصوص ہے جس نے ہمارے درمیان ایسے حضرات رکھے ہیں جو ہمارے نبی کے فرامین کا علم رکھتے ہیں لیکن اگر اس بات کا بھی پتہ نہ چلتا کہ اللہ کے رسول کی سنت کا علم نہ ہوتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سمجھدار اور بزرگ لوگوں کو اکٹھا کرکے ان سے مشورے کرتے اور جس معاملے میں ان کی رائے متفق ہوتی اس کا فیصلہ کردیتے۔
-
. أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى وَعَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ قَالَ كَانَ عَلَى امْرَأَتِي اعْتِكَافُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَسَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعِنْدَهُ ابْنُ شِهَابٍ قَالَ قُلْتُ عَلَيْهَا صِيَامٌ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ لَا يَكُونُ اعْتِكَافٌ إِلَّا بِصِيَامٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا قَالَ فَعَنْ أَبِي بَكْرٍ قَالَ لَا قَالَ فَعَنْ عُمَرَ قَالَ لَا قَالَ فَعَنْ عُثْمَانَ قَالَ لَا قَالَ عُمَرُ مَا أَرَى عَلَيْهَا صِيَامًا فَخَرَجْتُ فَوَجَدْتُ طَاوُسًا وَعَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ فَسَأَلْتُهُمَا فَقَالَ طَاوُسٌ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا يَرَى عَلَيْهَا صِيَامًا إِلَّا أَنْ تَجْعَلَهُ عَلَى نَفْسِهَا قَالَ وَقَالَ عَطَاءٌ ذَلِكَ رَأْيِي-
حضرت ابوسہیل بیان کرتے ہیں میری بیوی پر مسجد حرام میں تین دن تک اعتکاف کرنا لازم تھا میں نے اس بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز سے سوال کیا اس وقت ان کے پاس ابن شہاب موجود تھے۔ ابوسہیل کہتے ہیں میں نے یہ کہا میرے خیال میں اس عورت پر روزہ بھی لازم ہے ابن شہاب نے فرمایا روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان سے دریافت کیا کیا یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے انہوں نے جواب دیا نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انہوں نے جواب دیا نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سوال کیا کیا حضرت عمر سے منقول ہے انہوں نے جواب دیا نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا حضرت عثمان سے منقول ہے انہوں نے جواب دیا نہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا میرے خیال میں اس پر روزے رکھنا لازم نہیں ہیں ابوسہیل بیان کرتے ہیں میں وہاں سے نکلا میری ملاقات طاؤس بن ابی رباح سے ہوئی میں نے ان دونوں حضرات سے سوال کیا طاؤس نے جواب دیا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایسی عورت پر روزہ رکھنا لازم نہیں ہے البتہ اس نے روزے کی بھی نذر مانی ہو تو لازم ہوگا عطاء نے جواب دیا میری بھی یہی رائے ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَبُو سَلَمَةَ الْبَصْرَةَ أَتَيْتُهُ أَنَا وَالْحَسَنُ فَقَالَ لِلْحَسَنِ أَنْتَ الْحَسَنُ مَا كَانَ أَحَدٌ بِالْبَصْرَةِ أَحَبَّ إِلَيَّ لِقَاءً مِنْكَ وَذَلِكَ أَنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُفْتِي بِرَأْيِكَ فَلَا تُفْتِ بِرَأْيِكَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ سُنَّةٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ كِتَابٌ مُنْزَلٌ-
ابونضرہ بیان کرتے ہیں جب حضرت ابوسلمہ بصرہ تشریف لائے تو میں اور حضرت حسن بصری ان کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے حضرت حسن بصری سے کہا تم حسن ہو بصرہ میں مجھے سب سے زیادہ تم سے ملاقات کی خواہش تھی اس کی وجہ یہ کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اپنی رائے کے مطابق فتوی دیتے ہو تم اپنی رائے کے مطابق فتوی نہ دیا کرو بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے حوالے سے یا اللہ کی کتاب کے حکم کے حوالے سے فتوی دیا کرو ۔
-
أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ لَقِيَهُ فِي الطَّوَافِ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ إِنَّكَ مِنْ فُقَهَاءِ الْبَصْرَةِ فَلَا تُفْتِ إِلَّا بِقُرْآنٍ نَاطِقٍ أَوْ سُنَّةٍ مَاضِيَةٍ فَإِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ غَيْرَ ذَلِكَ هَلَكْتَ وَأَهْلَكْتَ-
حضرت جابر بن زید بیان کرتے ہیں وہ طواف کے دوران حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابوشعثاء تم بصرہ کے فقہاء میں سے ایک ہو تم صرف قرآن کے حکم کے ذریعے فتوی دیا کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے فتوی دیا کرو اگر تم اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے فتوی دو گے تو تم بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرو گے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ لَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ قَدَّرَ مِنْ الْأَمْرِ أَنْ قَدْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ فَمَنْ عَرَضَ لَهُ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ فِيهِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ وَلَا يَقُلْ إِنِّي أَخَافُ وَإِنِّي أُرَى فَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَالْحَلَالَ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ-
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں ہمارے اوپر ایسا زمانہ آگیا ہے جسمیں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہم یہاں رہ سکتے ہیں لیکن بے شک اللہ نے معاملہ طے کر دیا ہے ہم نے تبلیغ کردی ہے۔ جیسا کہ تم جانتے ہو آج کے بعد جس شخص کو کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ اس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں جو موجود ہے اس کے مطابق فیصلے دے اگر ایسی صورت حال ہو جس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں بھی حکم موجود نہ ہو اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کوئی فیصلہ نہ دیا ہو تو وہ اس بارے میں وہ فیصلہ دے جو نیک لوگ فیصلہ کرتے ہیں اور یہ نہ کہے مجھے یہ اندیشہ ہے یا میری رائے ہے کیونکہ حرام واضح ہے اور حلال واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان متشابہہ امور ہیں اس لیے جو چیز تمہیں شک میں مبتلا کرے اسے چھوڑ کر اسے اختیار کر جو شک میں مبتلا نہ کرے۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ قَالَ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِذَا سُئِلَ عَنْ الْأَمْرِ فَكَانَ فِي الْقُرْآنِ أَخْبَرَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْقُرْآنِ وَكَانَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ بِهِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَعَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ قَالَ فِيهِ بِرَأْيِهِ-
حضرت عبیداللہ بن ابویزید بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جب کسی مسئلے کے بارے میں دریافت کیا جاتا وہ قرآن میں موجود ہوتا تو وہ اس حوالے سے بتادیتے تھے اگر وہ قرآن میں موجود نہ ہوتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے منقول ہوتا تو وہ اس بارے میں بھی بتادیتے تھے اگر ایسا بھی نہ ہوتا تو حضرت عمر یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے منقول ہوتا تو وہ اس بارے میں بتا دیتے اور اگر یہ بھی نہ ہوتا تو وہ اپنی رائے کے مطابق جواب دیتے تھے۔
-
. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ شُرَيْحٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَيْهِ إِنْ جَاءَكَ شَيْءٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَاقْضِ بِهِ وَلَا تَلْفِتْكَ عَنْهُ الرِّجَالُ فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَانْظُرْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْضِ بِهَا فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْظُرْ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ فَخُذْ بِهِ فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ أَحَدٌ قَبْلَكَ فَاخْتَرْ أَيَّ الْأَمْرَيْنِ شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَتَقَدَّمْ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَأَخَّرَ فَتَأَخَّرْ وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ-
شریح بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نے انہیں خط میں لکھا اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود ہو تو تم اس کے مطابق فیصلہ کرو اس کے بارے میں لوگوں کی طرف توجہ نہ کرو۔ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو تو اس بارے میں اللہ کے رسول کی سنت کا جائزہ لو اور اس کے مطابق فیصلہ دو اگر تمہارے پاس ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود نہ ہو تو تم اس بات کا جائزہ لو کہ لوگ جس معاملے پر متفق ہوں اس کے بارے میں فیصلہ دو اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے اللہ کی کتاب کا حکم موجود نہ ہو اور اس بارے میں سنت موجود نہ ہو اور تم سے پہلے لوگوں نے اس بارے میں کوئی رائے نہ دی ہو تو تم دو میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتے ہو اگر تم چاہو اجتہاد کر کے اپنی رائے کے ذریعے فیصلہ دے کر آگے آسکتے ہو اور اگر چاہو تو اس مسئلے میں سے پیچھے ہٹ جاؤ میرے خیال میں تمہارا اس مسئلے سے پیچھے ہٹ جانا زیادہ بہتر ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ نَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ كَيْفَ تَقْضِي قَالَ أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو قَالَ فَضَرَبَ صَدْرَهُ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ-
عمروبن حارث جو حضرت مغیرہ بن شعبہ کے بھتیجے ہیں۔ وہ حمص سے تعلق رکھنے والے حضرت معاذ کے شاگردوں کے حوالے سے یہ بات روایت کرتے ہیں حضرت معاذ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو دریافت کیا اگر تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش کیا جائے تو تم کیا سمجھتے ہو تم کس طرح اس کا فیصلہ کرو گے ۔ حضرت معاذ نے جواب دیا: میں اللہ کی کتاب کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا اگر وہ حکم اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو ؟ حضرت معاذ نے عرض کی اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا اگر وہ مسئلہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود نہ ہو ؟ تو حضرت معاذ نے عرض کی۔ پھر میں اپنی رائے کے ذریعے اجتہاد کرنے کی کوشش کروں گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کروں گا حضرت معاذ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر ارشاد فرمایا ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لیے مخصوص ہے جس نے اللہ کے رسول کے نمائندے کو اس بات کی توفیق عطا کی جس کے ذریعے وہ اللہ کے رسول کو راضی کر دے۔
-
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ قَالَ أَحْسَبُهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ قَالَ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَمَا نُسْأَلُ وَمَا نَحْنُ هُنَاكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَدَّرَ أَنْ بَلَغْتُ مَا تَرَوْنَ فَإِذَا سُئِلْتُمْ عَنْ شَيْءٍ فَانْظُرُوا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَفِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوهُ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ فَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ فَاجْتَهِدْ رَأْيَكَ وَلَا تَقُلْ إِنِّي أَخَافُ وَأَخْشَى فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُأَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بِنَحْوِهِ-
حریث بن ظہیر بیا ن کرتے ہیں میرا یہ خیال ہے کہ حضرت عبداللہ نے یہ بات بیان کی تھی۔ ہمارے سامنے ایک ایسا وقت آگیا ہے جہاں ہم میں سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ہماری یہ حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات تقدیر میں طے کی تھی کہ میں بھی وہاں تک پہنچوں جو تم دیکھ رہے ہو جب تم لوگوں سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے تو تم اللہ کی کتاب میں اسے تلاش کرو۔ اگر اسے اللہ کی کتاب میں نہ پاؤ تو اللہ کے رسول کی سنت میں تلاش کرو۔ اگر اس مسئلے کو اللہ کے رسول کی سنت میں بھی نہ پاؤ تو جس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہو (اس کے مطابق حکم بیان کرو) اور اگر وہ ایسا مسئلہ ہو جس کے بارے میں مسلمانوں کا اتفاق نہ ہو تو تم اپنی رائے کے ذریعے اجتہاد کرو لیکن یہ نہ کہنا کہ مجھے یہ اندیشہ ہے اور میں اس بات سے خوفزدہ ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں اس لیے تم اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں مبتلا کرے اور اسے اختیار کرو جس کے بارے میں تمہیں کوئی شک نہ ہو۔یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
-