علم کی تعظیم

أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَسْوَدُ قَالَ قَالَ ابْنُ مُنَبِّهٍ كَانَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا مَضَى يَضَنُّونَ بِعِلْمِهِمْ عَنْ أَهْلِ الدُّنْيَا فَيَرْغَبُ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ فَيَبْذُلُونَ لَهُمْ دُنْيَاهُمْ وَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ الْيَوْمَ بَذَلُوا عِلْمَهُمْ لِأَهْلِ الدُّنْيَا فَزَهِدَ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ فَضَنُّوا عَلَيْهِمْ بِدُنْيَاهُمْ-
ابن منبہ بیان کرتے ہیں گزشتہ زمانے میں اہل علم اپنے علم کی وجہ سے دنیا داروں کے معاملے میں بخیل ہوتے تھے تو اہل دنیا ان کے علم کی وجہ سے ان کی طرف راغب ہوتے تھے اور اپنا دنیاوی مال ودولت ان پر خرچ کرتے تھے آج کے اہل علم اپنا علم دنیا والوں پر خرچ کرتے ہیں لیکن اہل دنیا ان کے علم سے بے نیاز ہیں اور اپنی دنیاوی مال ودولت کے معاملے میں ان سے بخل کرتے ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْكُمَيْتِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ وَهْبٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مُوسَى قَالَ مَرَّ سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُرِيدُ مَكَّةَ فَأَقَامَ بِهَا أَيَّامًا فَقَالَ هَلْ بِالْمَدِينَةِ أَحَدٌ أَدْرَكَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا لَهُ أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ لَهُ يَا أَبَا حَازِمٍ مَا هَذَا الْجَفَاءُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَأَيُّ جَفَاءٍ رَأَيْتَ مِنِّي قَالَ أَتَانِي وُجُوهُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَلَمْ تَأْتِنِي قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَقُولَ مَا لَمْ يَكُنْ مَا عَرَفْتَنِي قَبْلَ هَذَا الْيَوْمِ وَلَا أَنَا رَأَيْتُكَ قَالَ فَالْتَفَتَ سُلَيْمَانُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ فَقَالَ أَصَابَ الشَّيْخُ وَأَخْطَأْتُ قَالَ سُلَيْمَانُ يَا أَبَا حَازِمٍ مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ قَالَ لِأَنَّكُمْ أَخْرَبْتُمْ الْآخِرَةَ وَعَمَّرْتُمْ الدُّنْيَا فَكَرِهْتُمْ أَنْ تُنْقَلُوا مِنْ الْعُمْرَانِ إِلَى الْخَرَابِ قَالَ أَصَبْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ فَكَيْفَ الْقُدُومُ غَدًا عَلَى اللَّهِ قَالَ أَمَّا الْمُحْسِنُ فَكَالْغَائِبِ يَقْدُمُ عَلَى أَهْلِهِ وَأَمَّا الْمُسِيءُ فَكَالْآبِقِ يَقْدُمُ عَلَى مَوْلَاهُ فَبَكَى سُلَيْمَانُ وَقَالَ لَيْتَ شِعْرِي مَا لَنَا عِنْدَ اللَّهِ قَالَ اعْرِضْ عَمَلَكَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ وَأَيُّ مَكَانٍ أَجِدُهُ قَالَ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ قَالَ سُلَيْمَانُ فَأَيْنَ رَحْمَةُ اللَّهِ يَا أَبَا حَازِمٍ قَالَ أَبُو حَازِمٍ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنْ الْمُحْسِنِينَ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ يَا أَبَا حَازِمٍ فَأَيُّ عِبَادِ اللَّهِ أَكْرَمُ قَالَ أُولُو الْمُرُوءَةِ وَالنُّهَى قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ فَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ أَدَاءُ الْفَرَائِضِ مَعَ اجْتِنَابِ الْمَحَارِمِ قَالَ سُلَيْمَانُ فَأَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ دُعَاءُ الْمُحْسَنِ إِلَيْهِ لِلْمُحْسِنِ قَالَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ لِلسَّائِلِ الْبَائِسِ وَجُهْدُ الْمُقِلِّ لَيْسَ فِيهَا مَنٌّ وَلَا أَذًى قَالَ فَأَيُّ الْقَوْلِ أَعْدَلُ قَالَ قَوْلُ الْحَقِّ عِنْدَ مَنْ تَخَافُهُ أَوْ تَرْجُوهُ قَالَ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ قَالَ رَجُلٌ عَمِلَ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَدَلَّ النَّاسَ عَلَيْهَا قَالَ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَحْمَقُ قَالَ رَجُلٌ انْحَطَّ فِي هَوَى أَخِيهِ وَهُوَ ظَالِمٌ فَبَاعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ أَصَبْتَ فَمَا تَقُولُ فِيمَا نَحْنُ فِيهِ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَوَ تُعْفِينِي قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ لَا وَلَكِنْ نَصِيحَةٌ تُلْقِيهَا إِلَيَّ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ آبَاءَكَ قَهَرُوا النَّاسَ بِالسَّيْفِ وَأَخَذُوا هَذَا الْمُلْكَ عَنْوَةً عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَلَا رِضَاهُمْ حَتَّى قَتَلُوا مِنْهُمْ مَقْتَلَةً عَظِيمَةً فَقَدْ ارْتَحَلُوا عَنْهَا فَلَوْ أُشْعِرْتَ مَا قَالُوا وَمَا قِيلَ لَهُمْ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ قَالَ أَبُو حَازِمٍ كَذَبْتَ إِنَّ اللَّهَ أَخَذَ مِيثَاقَ الْعُلَمَاءِ لَيُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا يَكْتُمُونَهُ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ فَكَيْفَ لَنَا أَنْ نُصْلِحَ قَالَ تَدَعُونَ الصَّلَفَ وَتَمَسَّكُونَ بِالْمُرُوءَةِ وَتَقْسِمُونَ بِالسَّوِيَّةِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ كَيْفَ لَنَا بِالْمَأْخَذِ بِهِ قَالَ أَبُو حَاَزِمٍ تَأْخُذُهُ مِنْ حِلِّهِ وَتَضَعُهُ فِي أَهْلِهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ هَلْ لَكَ يَا أَبَا حَازِمٍ أَنْ تَصْحَبَنَا فَتُصِيبَ مِنَّا وَنُصِيبَ مِنْكَ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ وَلِمَ ذَاكَ قَالَ أَخْشَى أَنْ أَرْكَنَ إِلَيْكُمْ شَيْئًا قَلِيلًا فَيُذِيقَنِي اللَّهُ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ ارْفَعْ إِلَيْنَا حَوَائِجَكَ قَالَ تُنْجِينِي مِنْ النَّارِ وَتُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ قَالَ سُلَيْمَانُ لَيْسَ ذَاكَ إِلَيَّ قَالَ أَبُو حَازِمٍ فَمَا لِي إِلَيْكَ حَاجَةٌ غَيْرُهَا قَالَ فَادْعُ لِي قَالَ أَبُو حَازِمٍ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ سُلَيْمَانُ وَلِيَّكَ فَيَسِّرْهُ لِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَإِنْ كَانَ عَدُوَّكَ فَخُذْ بِنَاصِيَتِهِ إِلَى مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ قَطُّ قَالَ أَبُو حَازِمٍ قَدْ أَوْجَزْتُ وَأَكْثَرْتُ إِنْ كُنْتَ مِنْ أَهْلِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ مِنْ أَهْلِهِ فَمَا يَنْفَعُنِي أَنْ أَرْمِيَ عَنْ قَوْسٍ لَيْسَ لَهَا وَتَرٌ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ أَوْصِنِي قَالَ سَأُوصِيكَ وَأُوجِزُ عَظِّمْ رَبَّكَ وَنَزِّهْهُ أَنْ يَرَاكَ حَيْثُ نَهَاكَ أَوْ يَفْقِدَكَ حَيْثُ أَمَرَكَ فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ بَعَثَ إِلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ وَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ أَنْفِقْهَا وَلَكَ عِنْدِي مِثْلُهَا كَثِيرٌ قَالَ فَرَدَّهَا عَلَيْهِ وَكَتَبَ إِلَيْهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ يَكُونَ سُؤَالُكَ إِيَّايَ هَزْلًا أَوْ رَدِّي عَلَيْكَ بَذْلًا وَمَا أَرْضَاهَا لَكَ فَكَيْفَ أَرْضَاهَا لِنَفْسِي وَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ لَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهَا رِعَاءً يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمْ جَارِيَتَيْنِ تَذُودَانِ فَسَأَلَهُمَا فَقَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ جَائِعًا خَائِفًا لَا يَأْمَنُ فَسَأَلَ رَبَّهُ وَلَمْ يَسْأَلْ النَّاسَ فَلَمْ يَفْطِنْ الرِّعَاءُ وَفَطِنَتْ الْجَارِيتَانِ فَلَمَّا رَجَعَتَا إِلَى أَبِيهِمَا أَخْبَرَتَاهُ بِالْقِصَّةِ وَبِقَوْلِهِ فَقَالَ أَبُوهُمَا وَهُوَ شُعَيْبٌ هَذَا رَجُلٌ جَائِعٌ فَقَالَ لِإِحْدَاهُمَا اذْهَبِي فَادْعِيهِ فَلَمَّا أَتَتْهُ عَظَّمَتْهُ وَغَطَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَشَقَّ عَلَى مُوسَى حِينَ ذَكَرَتْ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا وَلَمْ يَجِدْ بُدًّا مِنْ أَنْ يَتْبَعَهَا إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ الْجِبَالِ جَائِعًا مُسْتَوْحِشًا فَلَمَّا تَبِعَهَا هَبَّتْ الرِّيحُ فَجَعَلَتْ تَصْفِقُ ثِيَابَهَا عَلَى ظَهْرِهَا فَتَصِفُ لَهُ عَجِيزَتَهَا وَكَانَتْ ذَاتَ عَجُزٍ وَجَعَلَ مُوسَى يُعْرِضُ مَرَّةً وَيَغُضُّ أُخْرَى فَلَمَّا عِيلَ صَبْرُهُ نَادَاهَا يَا أَمَةَ اللَّهِ كُونِي خَلْفِي وَأَرِينِي السَّمْتَ بِقَوْلِكِ ذَا فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى شُعَيْبٍ إِذَا هُوَ بِالْعَشَاءِ مُهَيَّأً فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ اجْلِسْ يَا شَابُّ فَتَعَشَّ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَعُوذُ بِاللَّهِ فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ لِمَ أَمَا أَنْتَ جَائِعٌ قَالَ بَلَى وَلَكِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ هَذَا عِوَضًا لِمَا سَقَيْتُ لَهُمَا وَإِنَّا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ لَا نَبِيعُ شَيْئًا مِنْ دِينِنَا بِمِلْءِ الْأَرْضِ ذَهَبًا فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ لَا يَا شَابُّ وَلَكِنَّهَا عَادَتِي وَعَادَةُ آبَائِي نُقْرِي الضَّيْفَ وَنُطْعِمُ الطَّعَامَ فَجَلَسَ مُوسَى فَأَكَلَ فَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْمِائَةُ دِينَارٍ عِوَضًا لِمَا حَدَّثْتُ فَالْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ فِي حَالِ الِاضْطِرَارِ أَحَلُّ مِنْ هَذِهِ وَإِنْ كَانَ لِحَقٍّ لِي فِي بَيْتِ الْمَالِ فَلِي فِيهَا نُظَرَاءُ فَإِنْ سَاوَيْتَ بَيْنَنَا وَإِلَّا فَلَيْسَ لِي فِيهَا حَاجَةٌ-
ضحاک بن موسی بیان کرتے ہیں سلیمان بن عبدالملک کا گزر مدینہ سے ہوا وہ مکہ جانا چاہتے تھے اس نے کچھ دن مدینہ میں قیام کیا اور دریافت کیا کہ کیا مدینہ میں کوئی ایسے صاحب موجود ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا زمانہ پایا ہو لوگوں نے انہیں بتایا کہ ابوحازم ہیں سلیمان نے انہیں پیغام بھجوایا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو سلیمان نے ان سے کہا اے ابوحازم یہ زیادتی ہے ابوحازم نے دریافت کیا اے امیرالمومنین آپ نے میری طرف سے کون سی زیادتی دیکھی ہے سلیمان نے کہا میرے پاس مدینے کیے تمام سر کردہ لوگ آئے ہیں لیکن آپ میرے پاس تشریف نہیں لائے۔ ابوحازم نے جواب دیا اے امیرالمومنین میں اس بارے میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتاہوں کہ آپ وہ بات کریں جو نہیں ہوئی آج کے دن سے پہلے آپ مجھ سے واقف نہیں تھے اور میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا تو میں کیوں آپ کے پاس آتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر سلیمان، محمد بن شہاب زہری کی طرف متوجہ ہوا اور بولا یہ بزرگ ٹھیک کہہ رہے ہیں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ سلیمان نے کہا اے ابوحازم ہم موت کو ناپسند کیوں کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت خراب کی ہوئی ہے اور دنیا کو آباد کیا ہوا ہے اس لیے آپ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ کسی بسی ہوئی چیز سے کسی تباہ حال کی طرف جائیں۔ سلیمان نے کہا اے ابوحازم آپ نے ٹھیک کہا ہے کل ہم اللہ کی بارگاہ میں کیسے حاضر ہوں گے؟ ابوحازم نے جواب دیا نیک آدمی تو یوں آئے گا جیسا کہ گھر سے غیر موجود شخص اپنے گھر واپس آتا تھا۔ اور گناہ گار یوں آئے گا جیسے کوئی مفرور غلام اپنے آقا کے پاس آتا ہے۔ سلیمان رو پڑا اور بولا ہائے افسوس۔ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ابوحازم نے کہا آپ اپنے عمل اللہ کی کتاب پر پیش کریں۔ سلیمان نے دریافت کیا کیا میں کسی جگہ انہیں پا سکتا ہوں؟ ابوحازم نے کہا بے شک نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور گناہ گار لوگ جہنم میں ہوں گے۔ سلیمان نے دریافت کیا اے ابوحازم اللہ کی رحمت کہاں ہوگی۔ ابوحازم نے جواب دیا اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے پاس ہوگی۔ سلیمان نے ان سے کہا اے ابوحازم اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جو مروت اور سمجھ کا مالک ہو۔ سلیمان نے ان سے کہا سب سے افضل عمل کون سا ہے ۔ ابوحازم نے جواب دیا حرام چیزوں سے اجتناب کرنے کے ہمراہ فرائض ادا کرنا۔ سلیمان نے پوچھا کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جس شخص کے ساتھ احسان کیا گیا وہ اپنے محسن کے لیے جو دعا کرتا ہے۔ سلیمان نے دریافت کیا کون سا صدقہ افضل ہے؟ ابوحازم نے جواب دیا جو مصیبت زدہ شخص کو دیا جائے اور جو کوئی غریب شخص دے جس میں احسان نہ جتایا جائے اور تکلیف نہ دی جائے۔ سلیمان نے پوچھا کون سی بات عدل کے زیادہ قریب ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جس بات سے تم خوف زدہ ہو یا جب تمہیں کوئی امید ہو اس وقت حق بیان کرنا۔ سلیمان نے پوچھا سب سے زیادہ عقل مند کون سا مومن ہے؟ ابوحازم نے جواب دیا جو شخص اللہ کی کتاب پر عمل کرے اور لوگوں کی اس طرف رہنمائی کرے۔ سلیمان نے پوچھا کون سا مومن سب سے زیادہ احمق ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جو شخص اپنے بھائی کی نفسانی خواہش میں شریک ہو کر ظلم کا ارتکاب کرے یوں وہ دوسرے شخص کی دنیا کے عوض میں اپنی آخرت کو فروخت کردے۔ سلیمان نے ان سے کہا آپ نے ٹھیک کہا ہے ہم جس حال میں ہیں اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہو۔ ابوحازم نے جواب دیا اے امیرالمومنین کیا آپ مجھ سے درگزر کریں گے۔ سلیمان نے ان سے کہا نہیں یہ ایک نصیحت ہوگی جو آپ کی طرف سے مجھ تک آئے گی۔ ابوحازم نے کہا اے امیرالمومنین آپ کے آباء و اجداد نے تلواروں کے ذریعے لوگوں کو مغلوب کیا ہے انہوں نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کی اس میں کوئی رضامندی نہیں تھی انہوں نے بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور بہت سے لوگ ان کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں کاش آپ جان سکتے کہ انہوں نے کیا کہا اور ان سے کیا کہا گیا۔ راوی بیان کرتے ہیں حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا اے ابوحازم آپ نے بہت غلط بات کہی ہے۔ ابوحازم نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو بے شک اللہ نے علماء سے یہ پختہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کو واضح طور پر بیان کریں گے اور ان سے چھپائیں گے نہیں۔ سلیمان نے کہا ہم اب اس چیز کو کیسے ٹھیک کرسکتے ہیں؟ ابوحازم نے کہا آپ لوگ تکبر کو چھوڑ دیں اور مروت کو اختیار کریں اور برابری کی بنیاد پر تقسیم کریں۔ سلیمان نے ان سے کہا ٹیکس وصول کرنے کے بارے میں ہمارے لیے کتنی گنجائش ہے؟ ابوحازم نے جواب دیا آپ اسے مناسب طور پر وصول کرسکتے ہیں اور اس کے مستحق لوگوں پر خرچ کرسکتے ہیں۔ سلیمان نے ان سے دریافت کیا اے ابوحازم کیا یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں یوں ہمیں آپ سے فائدہ ہوگا اور ہم بھی آپ کو کچھ فائدہ پہنچا دیں گے۔ ابوحازم نے جواب دیا میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ سلیمان نے ان سے کہا ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔ ابوحازم نے جواب دیا مجھے یہ ڈرہے کہ آپ کی طرف میں تھوڑا سا جھکوں گا جس کے نتیجے میں اللہ مجھے زندگی میں اور مرنے کے بعد دگنا عذاب دے گا۔ سلیمان نے ان سے کہا اپنی ضروریات ہمارے سامنے پیش کریں۔ ابوحازم نے جواب دیا آپ مجھے جہنم سے نجات دلوا کر جنت میں داخل کروا دیں۔ سلیمان نے کہا یہ تو میں نہیں کرسکتا۔ ابوحازم نے کہا پھر آپ سے مجھے کوئی کام نہیں۔ سلیمان نے کہا آپ میرے لیے دعا کریں۔ ابوحازم نے دعاکی اے اللہ اگر سلیمان تیرا دوست ہے تو اسے دنیا اور آخرت میں بھلائی کے ذریعے خوش کردے اور اگر یہ تیرا دوست نہیں تو اس کی پیشانی پکڑ کر اسے اس طرف لے جا جس سے تو راضی ہوجائے اور جو تجھے پسند ہو۔ سلیمان نے ان سے کہا بس اتناہی؟ ابوحازم بولے میں نے مختصر الفاظ میں وسیع مفہوم رکھنے والی دعا کردی اگر تم اس کے اہل ہوئے اور اگر تم اس کے اہل نہ ہوئے تو مجھے کیا فائدہ ہوگا اگر میں کمان کے ذریعے کوئی ایسا تیر پھینکوں جس پر پھل ہی نہ لگا ہو؟سلیمان نے ان سے کہا آپ مجھے کوئی وصیت کریں۔ ابوحازم بولے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اور مختصر الفاظ میں کروں گا تم اپنے پروردگار کو عظیم سمجھو اور اسے اس بات سے پاک رکھو کہ وہ تمہیں کسی ایسے معاملے میں دیکھے جس سے اس نے تمہیں منع کیا ہے یا کسی ایسی جگہ پر تمہیں غیرموجود پائے جس کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔ جب سلیمان ان کے ہاں سے اٹھ کر گیا تو ان کی خدمت میں سو دینار بھیجے اور ساتھ ہی یہ تحریر بھیجی آپ انہیں خرچ کیجیے میری طرف سے آپ کو ان جیسے اور بہت ملیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں ابوحازم نے وہ انہیں واپس کردیے اور جوابی خط میں لکھا اے امیر المومنین میں آپ کو اس بات سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں کہ آپ نے مذاق کے طور پر مجھ سے کچھ مانگیں یا آپ تذلیل کے طور پر کوئی چیز واپس لیں جس چیز پر میں آپ کے لیے راضی نہیں ہوں اس سے اپنے لیے کیسے راضی ہوسکتا ہوں۔ ابوحازم نے سلیمان کو خط میں لکھا حضرت موسی جب مدین کے چشمے پر آئے تو وہاں انہوں نے کچھ لوگوں کو بکریوں کو پانی پلاتے ہوئے دیکھا دو لڑکیاں ان سے کچھ ہٹ کر کھڑی ہوئی تھیں حضرت موسی نے ان دونوں سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا ہم اس وقت تک پانی حاصل نہیں کرسکتے جب تک یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا لیتے۔ کیونکہ ہمارے والد عمر رسیدہ آدمی ہیں حضرت موسی نے ان دونوں کو پانی لا کردیا اور پھر سائے میں آکر بیٹھ گئے اور بولے اے میرے رب تو میری طرف جو بھلائی نازل کرے گا میں اس کا محتاج ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھوک کے عالم میں تھے اور خوف زدہ بھی۔ کیونکہ وہ امن کی حالت میں نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے پروردگار سے مانگا۔ انہوں نے لوگوں سے سوال نہیں کیا۔ بکریوں کے چرواہوں کو اس بات کا پتہ نہیں چل سکا لیکن وہ دونوں لڑکیاں یہ بات سمجھ گئیں جب وہ دونوں اپنے والد کے پاس واپس گئیں اور انہیں یہ ماجرا سنایا اور ان کی بات کے بارے میں بتایا تو ان کے والد نے جو حضرت شعیب تھے یہ کہا وہ شخص بھوکا ہوگا پھر انہوں نے ایک لڑکی سے کہا تم جاؤ اور اسے بلا کر لاؤ جب وہ لڑکی ان کے پاس آئی تو انہیں تعظیم پیش کی اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اور یہ بولی کہ میرے والد نے آپ کو بلایا ہے تاکہ آپ نے ہمیں جو پانی لا کردیا ہے اس کا بدلہ آپ کو دیں۔ جب اس لڑکی نے یہ بات کہ جو آپ نے پانی پلایا ہے اس کا بدلہ آپ کو دیں تو حضرت موسی کو اس سے بہت تکلیف ہوئی لیکن اس وقت ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس لڑکی کے پیچھے چلے جائیں کیونکہ وہ اس وقت پہاڑی سلسلے کے درمیان تھے بھوکے تھے وحشت کا شکار تھے اس لیے وہ اس کے پیچھے چل پڑے جب وہ اس کے پیچھے چلے تو ہوا چل پڑی جس کے نتیجے میں اس کی پشت کی جانب سے کپڑے ہلنے لگے جس کی وجہ سے بے پردگی کے آثار پیداہوئے وہ صحت مند جسم کی مالک لڑکی تھی حضرت موسی کبھی نگاہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے اور کبھی نگاہ جھکا دیتے تھے جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو اس نے بلند آواز سے کہا اے لڑکی اللہ کی کنیز تم میرے پیچھے آجاؤ اور مجھے زبانی طور پر راستے کے بارے میں بتاؤ۔ جب حضرت موسی حضرت شعیب کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت رات کا کھانا تیار تھا حضرت شعیب نے ان سے کہا اے نوجوان بیٹھ جاؤ اور کھانا کھاؤ حضرت موسی نے ان سے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں حضرت شعیب نے ان سے کہا وہ کیوں کیا تم بھوکے نہیں ہو۔ حضرت موسی نے جواب دیا جی ہاں۔ لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ اس چیز کا معاوضہ ہے جو میں نے ان دولڑکیوں کو پانی لا کردیا تھا۔ میں اسے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں جس کے لوگ تمام روئے زمین کے برابر سونے کے عوض میں بھی اپنی نیکی فروخت نہیں کرتے۔ حضرت شعیب نے ان سے کہا نہیں اے نوجوان لیکن میری اور میرے آباء و اجداد کی یہ عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے ہیں۔ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو حضرت موسی بیٹھ گئے اور انہوں نے کھانا کھا لیا۔ ابوحازم نے سلیمان کو لکھا کہ آپ نے جو سو دینار بھیجے ہیں اگر تو یہ اس چیز کا معاوضہ ہے جو میں نے آپ سے باتیں کی تھیں تو مردار، خون اور گوشت سور کا، اضطرار کی حالت میں اس سے زیادہ حلال ہے اور اگر یہ بیت المال کے حق کی وجہ سے ہے تو اس کے بہت سے مستحق ہیں اگر تو آپ ہم سب میں برابر تقسیم کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقَسْمَلِيِّ أَخْبَرَنَا زَيْدٌ الْعَمِّيُّ عَنْ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ أَنَّهُ قَالَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ اعْمَلْ بِعِلْمِكَ وَأَعْطِ فَضْلَ مَالِكَ وَاحْبِسْ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِكَ إِلَّا بِشَيْءٍ مِنْ الْحَدِيثِ يَنْفَعُكَ عِنْدَ رَبِّكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الَّذِي عَلِمْتَ ثُمَّ لَمْ تَعْمَلْ بِهِ قَاطِعٌ حُجَّتَكَ وَمَعْذِرَتَكَ عِنْدِ رَبِّكَ إِذَا لَقِيتَهُ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الَّذِي أُمِرْتَ بِهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ لَيَشْغَلُكَ عَمَّا نُهِيتَ عَنْهُ مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تَكُونَنَّ قَوِيًّا فِي عَمَلِ غَيْرِكَ ضَعِيفًا فِي عَمَلِ نَفْسِكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا يَشْغَلَنَّكَ الَّذِي لِغَيْرِكَ عَنْ الَّذِي لَكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ جَالِسْ الْعُلَمَاءَ وَزَاحِمْهُمْ وَاسْتَمِعْ مِنْهُمْ وَدَعْ مُنَازَعَتَهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ عَظِّمْ الْعُلَمَاءَ لِعِلْمِهِمْ وَصَغِّرْ الْجُهَّالَ لِجَهْلِهِمْ وَلَا تُبَاعِدْهُمْ وَقَرِّبْهُمْ وَعَلِّمْهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تُحَدِّثْ بِحَدِيثٍ فِي مَجْلِسٍ حَتَّى تَفْهَمَهُ وَلَا تُجِبْ امْرَأً فِي قَوْلِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مَا قَالَ لَكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تَغْتَرَّ بِاللَّهِ وَلَا تَغْتَرَّ بِالنَّاسِ فَإِنَّ الْغِرَّةَ بِاللَّهِ تَرْكُ أَمْرِهِ وَالْغِرَّةَ بِالنَّاسِ اتِّبَاعُ أَهْوَائِهِمْ وَاحْذَرْ مِنْ اللَّهِ مَا حَذَّرَكَ مِنْ نَفْسِهِ وَاحْذَرْ مِنْ النَّاسِ فِتْنَتَهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّهُ لَا يَكْمُلُ ضَوْءُ النَّهَارِ إِلَّا بِالشَّمْسِ كَذَلِكَ لَا تَكْمُلُ الْحِكْمَةُ إِلَّا بِطَاعَةِ اللَّهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّهُ لَا يَصْلُحُ الزَّرْعُ إِلَّا بِالْمَاءِ وَالتُّرَابِ كَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ الْإِيمَانُ إِلَّا بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ كُلُّ مُسَافِرٍ مُتَزَوِّدٌ وَسَيَجِدُ إِذَا احْتَاجَ إِلَى زَادِهِ مَا تَزَوَّدَ وَكَذَلِكَ سَيَجِدُ كُلُّ عَامِلٍ إِذَا احْتَاجَ إِلَى عَمَلِهِ فِي الْآخِرَةِ مَا عَمِلَ فِي الدُّنْيَا يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَحُضَّكَ عَلَى عِبَادَتِهِ فَاعْلَمْ أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يُبَيِّنَ لَكَ كَرَامَتَكَ عَلَيْهِ فَلَا تَحَوَّلَنَّ إِلَى غَيْرِهِ فَتَرْجِعَ مِنْ كَرَامَتِهِ إِلَى هَوَانِهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِنْ تَنْقُلْ الْحِجَارَةَ وَالْحَدِيدَ أَهْوَنُ عَلَيْكَ مِنْ أَنْ تُحَدِّثَ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَكَ وَمَثَلُ الَّذِي يُحَدِّثُ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَهُ كَمَثَلِ الَّذِي يُنَادِي الْمَيِّتَ وَيَضَعُ الْمَائِدَةَ لِأَهْلِ الْقُبُورِ-
زید بیان کرتے ہین ایک عالم نے یہ بات بیان کی ۔ اے صاحب علم اپنے علم پر عمل کرو اور اپنا اضافی مال مستحق لوگوں کو دے دو اور فضول گفتگو نہ کرو۔ صرف وہی بات کرو جو تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں تمہیں فائدہ پہنچائے۔ اے صاحب علم جس چیز کا تم نے علم حاصل کیا ہے پھر اس پر عمل نہیں کیا جب تم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوگے تو وہ چیز تمہاری حجت کو توڑ دے گی اور تمہاری معذرت کو ختم کردے گی۔ اے صاحب علم۔ تمہیں اللہ کی جب عبادت کا حکم دیا گیا ہے وہ تمہیں اس کی اس نافرمانی سے روکے گی جس سے تمہیں منع کیا گیا ہے اے صاحب علم تم دوسروں کی طرف سے عمل کرنے میں طاقت ور ہو اور اپنی ذات کے طرف سے عمل کرنے میں کمزور نہ ہوجانا۔ اے صاحب علم تم علماء کی تعظیم کرو ان کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ ان کی باتیں غور سے سنو اور ان سے بحث نہ کرو۔ اے صاحب علم! علماء کو ان کے علم کی وجہ سے عظیم سمجھو اور جہلاء کو ان کی جہالت کی وجہ سے کم سمجھو لیکن ان سے دوری اختیار نہ کرو۔ بلکہ ان کے قریب رہو اور ان کو تعلیم دو۔ اے صاحب علم کسی محفل میں اس وقت تک کوئی بات نہ کرو جب تک تمہیں اس بات کی سمجھ نہ آجائے اور کسی بھی شخص کی بات کا اس وقت تک جواب نہ دوجب تک یہ جان نہ لو کہ اس نے تم سے کیا کہا۔ اے صاحب علم۔ اللہ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہونا اور لوگوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہونا۔ اللہ کے بارے میں غلط فہمی یہ ہے کہ اس کے حکم کو چھوڑ دیا جائے اور لوگوں کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ ان کی نفسانی خواہشات کی پیروی کی جائے اور اللہ کے بارے میں ہر اس چیز سے بچو جس کے بارے میں بچنے کی اس نے تلقین کی ہے اور لوگوں کے حوالے سے فتنے سے بچو۔ اے صاحب علم ہر مسافر کے پاس زاد راہ موجود ہوتا ہے کیونکہ بہت جلد اسے اس سامان کی ضرورت پیش آجاتی ہے اسی طرح ہر عمل کرنے والا شخص آخرت میں اپنے عمل کی ضرورت محسوس کرے گا جو عمل اس نے دنیا میں کیا ہوگا۔ اے صاحب علم جب اللہ اس بات کا ارادہ کرے کہ وہ اپنی عبادت کی تمہیں ترغیب دے تو یہ بات جان لو کہ اس نے اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ اپنی بارگاہ میں تمہاری بزرگی کو تمہارے سامنے ظاہر کردے۔ اس لیے تم اسکے علاوہ کسی اور کی طرف نہ جانا ورنہ بزرگی بے عزتی میں تبدیل ہوجائے گی۔ اے اہل علم تمہارا پتھر اور لوہا منتقل کرنا تمہارے نزدیک اس بات سے زیادہ آسان ہونا چاہیے کہ تم کوئی ایسی بات بیان کرو جس کی تمہیں خود بھی سمجھ نہ ہو۔ جو شخص کوئی ایسی بات بیان کرتا ہے جس کی اسے خود سمجھ نہ ہو۔ اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مردے کو مخاطب کرتا ہے اور قبرستان والوں کے سامنے دسترخوان رکھ دیتا ہے۔
-