علم اور عالم کی فضیلت

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ قَالَ رَأَى مُجَاهِدٌ طَاوُسًا فِي الْمَنَامِ كَأَنَّهُ فِي الْكَعْبَةِ يُصَلِّي مُتَقَنِّعًا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ اكْشِفْ قِنَاعَكَ وَأَظْهِرْ قِرَاءَتَكَ قَالَ فَكَأَنَّهُ عَبَّرَهُ عَلَى الْعِلْمِ فَانْبَسَطَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْحَدِيثِ-
ابراہیم بن میسرہ ارشاد فرماتے ہیں مجاہد نے طاؤس کو خواب میں دیکھا وہ کعبہ کے اندر سر پر کپڑا لپیٹ کر نماز پڑھ رہے یں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے دروازے پر کھڑے ہوئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہد سے کہا اے اللہ کے بندے اپنا کپڑا اتاردو اور اپنی قرات کو ظاہر کرو۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ يَمَانٍ عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ كَعْبٍ قَالَ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا مُتَعَلِّمَ خَيْرٍ أَوْ مُعَلِّمَهُ-
کعب ارشاد فرماتے ہیں دنیا ملعون ہے اور اس میں موجود ہر چیز ملعون ہے سوائے بھلائی کا علم حاصل کرنے والے شخص کے اور بھلائی کی تعلیم دینے والے شخص کے۔ (یہ دونوں ملعون نہیں ہیں)
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ بَحِيرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ النَّاسُ عَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ هَمَجٌ لَا خَيْرَ فِيهِ-
خالد بن معدان ارشاد فرماتے ہیں انسان یا تو عالم ہوگا یا طالب علم ہوگا اس کے درمیان بربادی ہے جس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ كَانُوا يَقُولُونَ مَوْتُ الْعَالِمِ ثُلْمَةٌ فِي الْإِسْلَامِ لَا يَسُدُّهَا شَيْءٌ مَا اخْتَلَفَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ-
حضرت حسن بصری ارشاد فرماتے ہیں پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے عالم کی موت سے اسلام میں ایساسوراخ آجاتا ہے جسے کوئی چیز بھر نہیں سکتی اس وقت جب تک دن رات کا اختلاف باقی ہے (یعنی قیامت کے دن تک کوئی چیز نہیں بھرسکتی)
-
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا مُنْذِرٌ هُوَ ابْنُ النُّعْمَانِ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ مَجْلِسٌ يُتَنَازَعُ فِيهِ الْعِلْمُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ قَدْرِهِ صَلَاةً لَعَلَّ أَحَدَهُمْ يَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيَنْتَفِعُ بِهَا سَنَةً أَوْ مَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِهِ-
وہب بن منبہ ارشاد فرماتے ہیں جس محفل میں علم کے بارے میں بحث ہو رہی ہو وہ میرے نزدیک اتنی ہی اوقات کے برابر نماز نفل اد کرنے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کوئی شخص اس میں ایسی بات سن لے جس کے ذریعے وہ سال بھر تک یا اپنی پوری زندگی نفع حاصل کرتا رہے۔
-
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ قَالَ قَالَ سُفْيَانُ مَا أَعْلَمُ عَمَلًا أَفْضَلَ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ وَحِفْظِهِ لِمَنْ أَرَادَ اللَّهَ بِهِ قَالَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ إِنَّ النَّاسَ لَيَحْتَاجُونَ إِلَى هَذَا الْعِلْمِ فِي دِينِهِمْ كَمَا يَحْتَاجُونَ إِلَى الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ فِي دُنْيَاهُمْ-
سفیان بیان کرتے ہیں علم کی طلب اور اسے یاد رکھنے سے زیادہ میرے نزدیک کوئی دوسرا عمل افضل نہیں ہے اور یہ اس کے لیے ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے۔حسن بن صالح بیان کرتے ہیں لوگ اپنے دینی معاملات میں علم کے اسی طرح محتاج ہیں جیسے اپنی دنیا میں کھانے پینے کے محتاج ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَا حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ قَالَ قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ تَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ الْعِلْمُ فَإِنَّ قَبْضَ الْعِلْمِ قَبْضُ الْعُلَمَاءِ وَإِنَّ الْعَالِمَ وَالْمُتَعَلِّمَ فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ-
حضرت ابودرداء ارشاد فرماتے ہیں علم کے اٹھالیے جانے سے پہلے اسے حاصل کرو کیونکہ علماء کے اٹھا لیے جانے کے ذریعے علم کو اٹھالیا جائے گا اور علم حاصل کرنے والا شخص اور عالم برابر حثییت رکھتے ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ عَنْ الضَّحَّاكِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ قَالَ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَنْ يَكُونَ فَقِيهًا-
ضحاک نے یہ آیت تلاوت کی " لیکن تم ربانی بن جاؤ اس چیز کے مطابق جو تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو۔ پھرضحاک نے کہا ہر وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہو وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اسے فقیہ قرار دیا جائے۔
-
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ الْحَسَنِ لَوْلَا يَنْهَاهُمْ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ قَالَ الْحُكَمَاءُ الْعُلَمَاءُ-
ارشاد باری تعالیٰ ہے" اگر ان کے ربانی اور احبار انہیں اس سے منع نہ کرتے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد ان کے دانا اور علماء ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ قَالَ عُلَمَاءُ فُقَهَاءُ-
ارشاد باری عالی ہے تم ربانی بن جاؤ۔ سعد بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ يُرَادُ لِلْعِلْمِ الْحِفْظُ وَالْعَمَلُ وَالِاسْتِمَاعُ وَالْإِنْصَاتُ وَالنَّشْرُ-
سفیان بن عیینہ ارشاد فرماتے ہیں علم کے لیے یاد داشت عمل، غور سے سننا، خاموش رہنا اور پھیلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
-
قَالَ و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ أَجْهَلُ النَّاسِ مَنْ تَرَكَ مَا يَعْلَمُ وَأَعْلَمُ النَّاسِ مَنْ عَمِلَ بِمَا يَعْلَمُ وَأَفْضَلُ النَّاسِ أَخْشَعَهُمْ لِلَّهِ-
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں سب سے بڑا جاہل وہ شخص ہے جو اس چیز کو ترک کردے جس کا اسے علم ہو اور سب سے زیادہ عالم وہ شخص ہے جو اس چیز پر عمل کرے جس کا اسے علم ہو اور لوگوں میں سب سے زیادہ افضل وہ شخص ہے جو اللہ سب سے زیادہ ڈرتا ہو۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ زَيْدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ سَيَّارٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ مَنْهُومٌ فِي الْعِلْمِ لَا يَشْبَعُ مِنْهُ وَمَنْهُومٌ فِي الدُّنْيَا لَا يَشْبَعُ مِنْهَا فَمَنْ تَكُنِ الْآخِرَةُ هَمَّهُ وَبَثَّهُ وَسَدَمَهُ يَكْفِي اللَّهُ ضَيْعَتَهُ وَيَجْعَلُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَمَنْ تَكُنِ الدُّنْيَا هَمَّهُ وَبَثَّهُ وَسَدَمَهُ يُفْشِي اللَّهُ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ وَيَجْعَلُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ثُمَّ لَا يُصْبِحُ إِلَّا فَقِيرًا وَلَا يُمْسِي إِلَّا فَقِيرًا-
حضرت حسن بصری ارشاد فرماتے ہیں دو طرح کے حریص کبھی بھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا حریص وہ علم سے کبھی سیر نہیں ہوتا اور دوسرا دنیا کا حریص کبھی سیر نہیں ہوتا جس شخص کا ارادہ طلب اور منظور نظر آخرت ہو اللہ اس کے معاملات پورے کردیتا ہے اور اس کے دل کو بے نیاز کردیتا ہے اور جس شخص کی طلب خواہش اور منظور نظر دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو پھیلا دیتا ہے اس کی غربت کو اس کے آگے کردیتا ہے اور پھر وہ شخص صبح بھی فقیر ہوتا ہے اور شام کو بھی فقیر ہوتا ہے ۔ (یعنی ہر حال میں غریب رہتا ہے۔)
-
أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ عَنْ عَوْنٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ صَاحِبُ الْعِلْمِ وَصَاحِبُ الدُّنْيَا وَلَا يَسْتَوِيَانِ أَمَّا صَاحِبُ الْعِلْمِ فَيَزْدَادُ رِضًا لِلرَّحْمَنِ وَأَمَّا صَاحِبُ الدُّنْيَا فَيَتَمَادَى فِي الطُّغْيَانِ ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى قَالَ وَقَالَ الْآخَرُ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ-
حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں دوطرح کے حریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا طلب گار اور دوسرادنیاکاطلب گار یہ دونوں برابر نہیں ہوتے کیونکہ علم کا طلب گار اللہ کی رضامندی میں اضافہ کرتا ہے اور دنیا کا طلب گار سرکشی میں ڈوبتا چلا جاتا ہے پھر حضرت عبداللہ نے یہ آیت تلاوت کی بے شک اللہ کے بندوں میں سے علماء اللہ سے ڈرتے ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ الْأَزْهَرِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ قَالَ مَنْ خَشِيَ اللَّهَ فَهُوَ عَالِمٌ٫-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ قرآن کی اس آیت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں، بے شک اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے علماء ڈرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں جو شخص اللہ سے ڈرتا ہو وہ عالم ہے۔
-
أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ طَالِبُ عِلْمٍ وَطَالِبُ دُنْيَا-
حضرت عبداللہ بن عباس ارشاد فرماتے ہیں دو طرح کے حریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک علم کا طلب گار اور دوسرا دنیا کا طلب گار۔
-
أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رَبِيعَةَ الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ فَأَدْرَكَهُ كَانَ لَهُ كِفْلَانِ مِنْ الْأَجْرِ فَإِنْ لَمْ يُدْرِكْهُ كَانَ لَهُ كِفْلٌ مِنْ الْأَجْرِ-
حضرت واثلہ بن اسقع روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص علم کی طلب میں نکلے اور اسے پا لے اسے اجر کے دوب رتن ملیں گے جو شخص اسے نہ پائے اسے اجر کا ایک برتن ملے گا۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ عَوْفٍ عَنْ عَبَّاسٍ الْعَمِّيِّ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ دَاوُدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي تَعَالَيْتَ فَوْقَ عَرْشِكَ وَجَعَلْتَ خَشْيَتَكَ عَلَى مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ فَأَقْرَبُ خَلْقِكَ مِنْكَ مَنْزِلَةً أَشَدُّهُمْ لَكَ خَشْيَةً وَمَا عِلْمُ مَنْ لَمْ يَخْشَكَ وَمَا حِكْمَةُ مَنْ لَمْ يُطِعْ أَمْرَكَ-
حضرت عباس عمی بیان کرتے ہیں مجھے یہ پتا چلا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت داؤد اپنی دعا میں یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ تو پاک ہے تو میرا پروردگار ہے تو عرش کے اوپر بزرگ وبرتر ہے آسمانوں اور زمین کے اندر موجود ہر چیز میں تو نے اپنی خشیت رکھ دی ہے تیری مخلوق میں سے قدرومنزلت کے اعتبار سے تیرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو تجھ سے سب سے زیادہ ڈرتا ہو جو شخص تجھ سے نہیں ڈرتا اسے کوئی بھی علم نہیں ہے اور جو تیرے حکم کی پیروی نہیں کرتا اس میں کوئی دانائی نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا سَلَّامٌ هُوَ ابْنُ أَبِي مُطِيعٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْهَزْهَازِ يُحَدِّثُ عَنْ الضَّحَّاكِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا وَلَا خَيْرَ فِيمَا سِوَاهُمَا-
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں یا عالم بنو یا طالب علم بنو ان دونوں کے علاوہ کسی بھی حالت میں بھلائی نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَتَكُونُ فِتَنٌ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا إِلَّا مَنْ أَحْيَاهُ اللَّهُ بِالْعِلْمِ-
حضرت ابوامامہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں عنقریب ایسے فتنے آئیں گے جن میں صبح کے وقت آدمی مومن ہوگا اور شام کے وقت کافر ہوگا سوائے اس شخص کے جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے زندگی عطا کرے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ رِيَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا وَلَا تَغْدُ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ فَإِنَّ مَا بَيْنَ ذَلِكَ جَاهِلٌ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَبْسُطُ أَجْنِحَتَهَا لِلرَّجُلِ غَدَا يَبْتَغِي الْعِلْمَ مِنْ الرِّضَا بِمَا يَصْنَعُ-
حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں یا عالم بنو یا طالب علم بنو اس کے علاوہ کسی اور حالت میں نہ رہو گے کیونکہ اس کی درمیانی حالت جاہل کی حالت ہے اور بے شک فرشتے اس شخص کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں جو علم کی تلاش میں جاتا ہے اور اس کے اس عمل سے راضی ہو کر فرشتے ایسا کرتے ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلَيْنِ كَانَا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَحَدُهُمَا كَانَ عَالِمًا يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ وَالْآخَرُ يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ هَذَا الْعَالِمِ الَّذِي يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ عَلَى الْعَابِدِ الَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ رَجُلًا-
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو ایسے افراد کے بارے میں سوال کیا گیا جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا ان میں ایک شخص عالم تھا وہ فرض نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتا اور لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا تھا جبکہ دوسر ا شخص دن کے وقت روزہ رکھتا تھا اور رات کے وقت نوافل ادا کرتا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا ان دونوں میں سے کون سا شخص افضل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا یہ عالم جو فرض نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے یہ اس کے عابد جو دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات کو نوافل ادا کرتا ہے اسی طرح فضیلت رکھتا ہے جیسے تم میں سے کسی ادنی شخص پر فضیلت رکھتا ہوں۔
-
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا سُمَيْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُصُّ وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَذْكُرُ الْعِلْمَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَمَيَّلْتُ إِلَى أَيِّهِمَا أَجْلِسُ فَنَعَسْتُ فَأَتَانِي آتٍ فَقَالَ مَيَّلْتَ إِلَى أَيِّهِمَا تَجْلِسُ إِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ مَكَانَ جِبْرَائِيلَ مِنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ-
ابن سیرین بیان کرتے ہیں میں مسجد میں داخل ہوا وہاں سمیر بن عبدالرحمن وعظ کر رہے تھے جبکہ حمید بن عبدالرحمن مسجد کے ایک کونے میں علم کا درس دے رہے تھے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوگیا کہ میں ان دونوں میں سے کسی کی محفل میں بیٹھوں اسی دوران اونگھ آگئی اور میرے خواب میں آ کے کسی شخص نے کہا تم اس بارے میں الجھن کا شکار ہو کہ کس کی مجلس میں بیٹھوں۔ اگر تم چاہو تو میں حمید بن عبدالرحمن کی مجلس میں حضرت جبرائیل کے بیٹھنے کی جگہ تمہیں دکھا سکتا ہوں۔
-
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي أَتَيْتُكَ مِنْ الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَمَا جَاءَ بِكَ تِجَارَةٌ قَالَ لَا قَالَ وَلَا جَاءَ بِكَ غَيْرُهُ قَالَ لَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظِّهِ أَوْ بِحَظٍّ وَافِرٍ-
کثیر بن قیس فرماتے ہیں میں حضرت ابودرداء کے ساتھ مسجد دمشق میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور بولا اے حضرت ابودرداء میں مدینہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے اور ایک حدیث کے سلسلے میں آیا ہوں جس کے بارے میں مجھے پتا چلا ہے کہ وہ آپ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں حضرت ابودرداء نے دریافت کیا کیا تم تجارت کی غرض سے یہاں آئے ہو۔ اس نے جواب دیا نہیں حضرت ابودرداء نے دریافت کیا کیا اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے تحت آئے ہو اس نے جواب دیا نہیں حضرت ابودرداء میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص علم کے حصول کے لیے راستے پر چلتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص کے لیے جنت کے راستے آسان کر دیتا ہے اور علم کے طلبگار سے راضی ہو کر فرشتے اپنے پر اس کے لیے بچھا دیتے ہیں اور بے شک عالم شخص کو عبادت گزار آسمان اور زمین میں موجود ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی دعائے مغفرت کرتی ہیں اور بے شک عالم کی فضیلت عبادت گزار پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو تمام ستاروں پر حاصل ہے۔ بے شک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔ بے شک انبیاء وراثت میں دینار یا درہم نہیں چھوڑتے وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں جو اس میں سے جتنا حاصل کرے وہ اپنا حصہ حاصل کرلیتا ہے ۔ (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں) وہ بڑا حصہ حاصل کرلیتا ہے ۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں بھلائی کی تعلیم دینے والے شخص کے لیے ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ رَجُلٍ يَسْلُكُ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا إِلَّا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص علم کی طلب کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اسکے لیے جنت کے راستے کو آسان کردیتا ہے اور جس شخص کا عمل کمزور ہو اس کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا۔
-
أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ عَنْ يَعْقُوبَ هُوَ الْقُّمِّيُّ عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا سَلَكَ رَجُلٌ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ الْعِلْمَ إِلَّا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَنْ يُبْطِئْ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ اس کی وجہ سے اس شخص کے لیے جنت کو آسان کردیتا ہے اور جس شخص کا علم اسے آہستہ کردے اس کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ ابْنِ شَوْذَبٍ عَنْ مُطَرِّفٍ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ قَالَ هَلْ مِنْ طَالِبِ خَيْرٍ فَيُعَانَ عَلَيْهِو أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ عَنْ ضَمْرَةَ قَالَ طَالِبُ عِلْمٍ-
ارشاد باری تعالیٰ ہے " اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی سمجھنے والا ہے ۔ مطرف ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ کیا کوئی بھلائی کا طلب گار ہے تاکہ اس کی مدد کی جائے۔ضمرہ ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد طالب علم ہے۔
-
أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ هُوَ الْقُمِّيُّ عَنْ عَامِرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِذَا رَأَى طَلَبَةَ الْعِلْمِ قَالَ مَرْحَبًا بِطَلَبَةِ الْعِلْمِ وَكَانَ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى بِكُمْ-
عامر بن ابراہیم بیان کرتے ہیں حضرت ابودرداء جب علم کے طلب گاروں کو دیکھتے تو یہ فرماتے علم کے طلب گاروں کو خوش آمدید۔ وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے بارے میں نصیحت کی تھی۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ أَوْ الْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا قَالَ ثُمَّ جَلَسَ فِيهِمْ-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو محافل کے پاس سے گزرے توارشاد فرمایا دونوں نیکی کا کام کررہے ہیں لیکن ان میں سے ایک دوسرے پر فضیلت رکھتی ہے۔ یہ لوگ جو اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں اس کی بارگاہ میں متوجہ ہیں اگر اللہ نے چاہا تو انہیں عطا کردے اور اگر چا ہے تو عطا نہ کرے اور یہ لوگ جو دین کا علم حاصل کررہے ہیں اور ناواقف لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں یہ افضل ہیں کیونکہ مجھے بھی تعلیم دینے والا بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات میں تشریف فرما ہوگئے۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ أَنَّهُ قَالَ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ إِنَّ الْعِلْمَ خَيْرٌ مِنْ الْعَمَلِ-
مطرف بن عبداللہ نے اپنے صاحبزادے سے یہ کہا اے میرے بیٹے بے شک علم عمل سے بہتر ہے۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يَقُولُ لَيْسَ هَدِيَّةٌ أَفْضَلَ مِنْ كَلِمَةِ حِكْمَةٍ تُهْدِيهَا لِأَخِيكَ-
ابوعبدالرحمن ارشاد فرماتے ہیں تم تحفے کے طور پر اپنے بھائی کو جو حکمت آمیز کلمہ سناؤ اس سے بہترین تحفہ اور کوئی نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْمُجْتَهِدِ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ حُضْرُ الْفَرَسِ الْمُضَمَّرِ السَّرِيعِ-
زہری ارشاد فرماتے ہیں عالم شخص کی عبادت گزار شخص پر ایک سو گنا فضیلت ہے جن میں ہر دو درجوں کے درمیان تیز رفتار سدھائے ہوئے گھوڑے کے پانچ سو برس کی مسافت کا فاصلہ ہے۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي السَّكَنُ بْنُ أَبِي كَرِيمَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ قَالَ يَرْفَعُ اللَّهُ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا بِدَرَجَاتٍ-
ارشاد باری تعالیٰ ہے "تممیں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم عطا کیا گیا اللہ ان کے درجات بلند کرے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں جو لوگ ایمان لائے ان کے مقابلے میں اللہ ان لوگوں کے درجات زیادہ بلند کرے گا جنہیں علم عطا کیا گیا۔
-
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَعِيلَ عَنْ عَمْرِو بْنِ كَثِيرٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِيَ بِهِ الْإِسْلَامَ فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّينَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ-
حضرت حسن بصری روایت کرتے یں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو اس حال میں موت آجائے کہ وہ علم کی طلب میں ہو تاکہ اس کے ذریعے اسلام کو زندہ کردے تو اس کے درمیان انبیاء کے درمیان جنت میں ایک درجہ ہوگا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مِهْرَانُ حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ ذَهَبَ عُمَرُ بِثُلُثَيْ الْعِلْمِ فَذَكَرْتُ لِإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ ذَهَبَ عُمَرُ بِتِسْعَةِ أَعْشَارِ الْعِلْمِ-
عمرو بن میمون ارشاد فرماتے ہیں حضرت عمر دنیا سے رخصت ہوجانے پر دو تہائی علم اپنے ساتھ لے گئے۔ اس بات کا تذکرہ ابراہیم نخعی سے کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا حضرت عمر علم کے دس حصوں میں سے نو اپنے ساتھ لے گئے۔
-
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ هَارُونَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتَذَاكَرُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا أَظَلَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي بِهِ الْعِلْمَ سَهَّلَ اللَّهُ طَرِيقَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں جب کوئی قوم اللہ کے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ کی کتاب کی درس وتدریس کرتی ہے تو فرشتے اپنے پروں کے ذریعے ان پر سایہ کر دیتے یہں اور اس وقت تک رکھتے ہیں جب تک وہ کسی دوسری بات میں مشغول نہیں ہوجاتے۔ اور جو شخص علم کے حصول کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے اللہ اس کے لیے جنت کے راستے آسان کر دیتا ہے اور جس شخص کا عمل کمزور ہو اس شخص کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا۔
-
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ غَدَوْتُ عَلَى صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ قُلْتُ ابْتِغَاءُ الْعِلْمِ قَالَ أَلَا أُبَشِّرُكَ قُلْتُ بَلَى فَقَالَ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ-
حضرت ذر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں صبح کے وقت حضرت صفوان بن عسال مرادی کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرایہ ارادہ تھا کہ میں ان سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں دریافت کروں۔ انہوں نے دریافت کیا تم کیوں آئے ہو۔ میں نے عرض کیا علم کی تلاش میں انہوں نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں کوئی خوش خبری سناؤں۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے طور پر بیان کیا آپ نے ارشاد فرمایا طالب علم کی طلب سے راضی ہو کر فرشتے اپنے پر اسکے لیے بچھا دیتے ہیں۔
-