TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
سنن دارمی
مقدمہ دارمی
جو شخص فتوی دینے سے بچے اور مبالغہ آمیز اور بدعت کے بیان کو ناپسند کرے۔
أَخْبَرَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ عَمِّهِ قَالَ خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ إِبْرَاهِيمَ فَاسْتَقْبَلَنِي حَمَّادٌ فَحَمَّلَنِي ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ مَسَائِلَ فَسَأَلْتُهُ فَأَجَابَنِي عَنْ أَرْبَعٍ وَتَرَكَ أَرْبَعًا-
ابن ادریس اپنے چچا کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں ابراہیم کے پاس اٹھ کر آیا تو میرا سامنا حماد سے ہوا میں نے آٹھ مسائل یاد کیے تھے میں نے ان سے پوچھے تو انہوں نے چار کے جواب دیئے اور چار کے جواب نہیں دیئے۔
-
أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ عَنْ زُبَيْدٍ قَالَ مَا سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا عَرَفْتُ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهِ-
زبید بیان کرتے ہیں میں نے ابراہیم سے جب بھی کوئی سوال کیا تو ان کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ لَا عِلْمَ لِي بِهِ مِنْ الشَّعْبِيِّ-
عمر بن ابوزائدہ بیان کرتے ہیں میں نے شعبی سے زیادہ کسی شخص کو جب اس سے کسی چیز کے بارے میں یہ سوال کیا گیا ہو یہ جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ قَالَ كَانَ الشَّعْبِيُّ إِذَا جَاءَهُ شَيْءٌ اتَّقَى وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ يَقُولُ وَيَقُولُ وَيَقُولُ قَالَ أَبُو عَاصِمٍ كَانَ الشَّعْبِيُّ فِي هَذَا أَحْسَنَ حَالًا عِنْدَ ابْنِ عَوْنٍ مِنْ إِبْرَاهِيمَ-
ابن عون بیان کرتے ہیں شعبی کے سامنے جب کوئی سوال آتا تھا تو وہ بچنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ ابراہیم ایک جواب دیتے تھے پھر ایک جواب دیتے تھے پھر ایک جواب دیتے تھے۔ ابوعاصم کہتے ہیں اس بارے میں شعبی کی حالت ابراہیم سے بہتر تھی یہ ابن عون کا خیال ہے۔
-
130. أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ قَالَ قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مَا لَكَ لَا تَقُولُ فِي الطَّلَاقِ شَيْئًا قَالَ مَا مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا قَدْ سَأَلْتُ عَنْهُ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ حَرَامًا أَوْ أُحَرِّمَ حَلَالًا-
جعفر بن ایاس فرماتے ہیں میں نے سعید بن جبیر سے کہا آپ طلاق کے بارے میں کوئی فتوٰی کیوں نہیں دیتے ہیں انہوں نے جواب دیا اس معاملے کے ہر پہلو کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جاتا ہے لیکن میں یہ بات ناپسند کرتا ہوں کہ میں کسی حرام چیز کو حلال قرار دے دوں یا حلال چیز کو حرام قرار دیدوں۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى يَقُولُ لَقَدْ أَدْرَكْتُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ عِشْرِينَ وَمِائَةً مِنْ الْأَنْصَارِ وَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ يُحَدِّثُ بِحَدِيثٍ إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْحَدِيثَ وَلَا يُسْأَلُ عَنْ فُتْيَا إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْفُتْيَا-
عبدالرحمن بن ابولیلی فرماتے ہیں میں نے اس مسجد میں ایک سو بیس(120) انصاری صحابہ کرام کو پایا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث بیان نہیں کرتا تھا اس کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ اس کا کوئی بھائی حدیث بیان کردے اور ان سے جب کوئی فتوی طلب کیا جاتا تو بھی ان کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ ان کا کوئی بھائی فتوی دیدے۔
-
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ دَاوُدَ قَالَ سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ إِذَا سُئِلْتُمْ قَالَ عَلَى الْخَبِيرِ وَقَعْتَ كَانَ إِذَا سُئِلَ الرَّجُلُ قَالَ لِصَاحِبِهِ أَفْتِهِمْ فَلَا يَزَالُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْأَوَّلِ-
داؤد بیان کرتے ہیں میں نے شعبی سے سوال کیا جب آپ حضرات سے سوال کیا جاتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں انہوں نے جواب دیا تم نے واقف حال شخص سے بات پوچھی ہے جب کسی شخص سے سوال کیا جاتا ہے وہ اپنے ساتھی سے یہ کہے تم انہیں فتوی دو اور اسی طرح ہوتا رہے یہاں تک کہ وہی سوال پہلے شخص کے پاس آجائے۔
-
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ إِنَّ الْعَالِمَ يَدْخُلُ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ وَبَيْنَ عِبَادِهِ فَلْيَطْلُبْ لِنَفْسِهِ الْمَخْرَجَ-
ابن منکدر بیان کرتے ہیں کہ عالم شخص اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان داخل ہوجاتا ہے اس لیے اسے اپنے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ أَخْرَجَ إِلَيَّ مَعْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ كِتَابًا فَحَلَفَ لِي بِاللَّهِ إِنَّهُ خَطُّ أَبِيهِ فَإِذَا فِيهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَى الْمُتَنَطِّعِينَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَيْهِمْ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَإِنِّي لَأَرَى عُمَرَ كَانَ أَشَدَّ خَوْفًا عَلَيْهِمْ أَوْ لَهُمْ-
مسعر بیان کرتے ہیں معن بن عبدالرحمن نے ایک تحریر میرے سامنے نکالی اور میرے سامنے اللہ کے نام پر قسم اٹھا کر یہ کہا کہ یہ انکے والد کا خط ہے اس میں یہ تحریر تھا عبداللہ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے میں نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو مبالغہ آمیزی کرنے والے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت ہو اور میں نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا جواس طرح کے لوگوں کے بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سخت ہو اور میں حضرت عمر کو دیکھا ہے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کے بارے میں شدید خوف کا شکار تھے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَاضِرٍ الْأَزْدِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَوْصِنِي فَقَالَ نَعَمْ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالِاسْتِقَامَةِ اتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ-
عثمان بن حاضر ازدی بیان کرتے ہیں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے کوئی نصیحت کریں جواب دیا، ہاں تم اللہ کے خوف کو اپنے اوپر لازم کرلو۔ استقامت کو لازم کرو۔ حدیث کی پیروی کرو بدعت کی پیروی نہ کرو۔
-
أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ عَلَى الطَّرِيقِ مَا كَانَ عَلَى الْأَثَرِ-
ابن سیرین بیان کرتے ہیں پہلے زمانے کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک وہ سنت کی پیروی کرتے رہیں گے وہ صحیح راستے پر گامزن رہیں گے۔
-
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَزْهَرُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ مَا دَامَ عَلَى الْأَثَرِ فَهُوَ عَلَى الطَّرِيقِ-
ابن سیرین بیان کرتے ہیں آدمی جب سنت کی پیروی کرتا رہے گا وہ سیدھے راستے پر گامزن رہتا ہے ۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَقَبْضُهُ أَنْ يَذْهَبَ أَهْلُهُ أَلَا وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَالتَّعَمُّقَ وَالْبِدَعَ وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ-
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں علم کے قبض ہوجانے سے پہلے علم حاصل کرلو اس کا قبض ہوجانا یہ ہے کہ اہل علم رخصت ہوجائیں اور خبردار۔ مبالغہ آمیز باتیں کرنے سے بچو اور بال کی کھال نکالنے والوں سے اور بدعت لانے والوں سے بچو اور اپنے اوپر سنت کو لازم کرلو۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو النُّعْمَانِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَقَبْضُهُ أَنْ يُذْهَبَ بِأَصْحَابِهِ عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُفْتَقَرُ إِلَيْهِ أَوْ يُفْتَقَرُ إِلَى مَا عِنْدَهُ إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَقْوَامًا يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ يَدْعُونَكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَقَدْ نَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ فَعَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّبَدُّعَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّعَمُّقَ وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ-
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے علم کو اپنے اوپر لازم کرلو اس کا قبض ہوجانا یہ ہے کہ اس کے ماہرین رخصت ہوجائیں تو علم کو لازم کرلو کیونکہ تم میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جانتا کہ اسے کب اس کی ضرورت پیش آجائے یا کسی اور کو اس کے پاس موجود علم کی ضرورت پیش آجائے تم عنقریب ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو یہ گمان رکھتے ہوں گے کہ وہ تمہیں اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دے رہے ہیں حالانکہ وہ اس کتاب کو اپنی پشت کے پیچھے پھینک چکے ہوں گے اس لیے تم علم کو لازمی طور پر اختیار کرو اور بدعت کرنے سے بچو اور مبالغہ آمیزی اختیار کرنے سے بچو اور بال کی کھال نکالنے سے بچو اور سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ صَبِيغٌ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَجَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ وَقَدْ أَعَدَّ لَهُ عَرَاجِينَ النَّخْلِ فَقَالَ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ صَبِيغٌ فَأَخَذَ عُمَرُ عُرْجُونًا مِنْ تِلْكَ الْعَرَاجِينِ فَضَرَبَهُ وَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فَجَعَلَ لَهُ ضَرْبًا حَتَّى دَمِيَ رَأْسُهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ حَسْبُكَ قَدْ ذَهَبَ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ فِي رَأْسِي-
حضرت سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں ایک شخص جس کا نام صبیغ تھا وہ مدینہ آیا اور قرآن کے متشابہات کے بارے میں سوال کرنے لگا حضرت عمر نے اس کی طرف ایک شخص کو بھیجا اور اس شخص کے لیے کچھ کھجور کی شاخوں کی سوٹیاں تیار کرلیں حضرت عمر نے دریافت کیا تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا میں اللہ کا بندہ صبیغ ہوں۔ حضرت عمر نے ان سوٹیوں میں سے ایک سوٹی پکڑی اور اسے مار کر کہا میں اللہ بندہ عمر ہوں حضرت عمر لگا تار اسے مارتے رہے یہاں تک کہ اس کے سر میں سے خون نکلنے لگا وہ بولا اے امیرالمومنین اتنا ہی کافی ہے کیونکہ میرے دماغ میں جوفتور موجود تھا وہ چلا گیا ۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَيَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَاحْذَرُوهُمْ-
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تلاوت کی وہی وہ ذات ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس میں سے بعض آیات محکم ہیں یہی کتاب کی بنیاد ہے اور بعض دیگر متشابہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کے متاشابہات کی پیروی کرتے ہوں تو ان سے بچو۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ سُئِلَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ لَكَ شَيْئًا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ أَوْ أُحَرِّمَ مَا أَحَلَّهُ اللَّهُ لَكَ-
شقیق بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں تمہارے لیے کسی ایسی چیز کو حلال قرار دوں جسے اللہ نے تمہارے لیے حرام قرار دیا ہو یا میں کسی ایسی چیز کو حرام قرار دوں جو اللہ نے حلال قرار دی ہے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ لَأَنْ أَرُدَّهُ بِعِيِّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّفَ لَهُ مَا لَا أَعْلَمُ-
حمید بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کسی سوال کا جواب دینے سے عاجز ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے سوال کو واپس کرنا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں جس چیز کا علم نہیں رکھتا اس کے بارے میں اپنی طرف سے ایجاد کرکے کوئی جواب دوں۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ أَخْبَرَنِي ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ فَقَالَ أَيْنَ الرَّجُلُ قَالَ فِي الرَّحْلِ قَالَ عُمَرُ أَبْصِرْ أَيَكُونُ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنْهُ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ فَأَتَاهُ بِهِ فَقَالَ عُمَرُ تَسْأَلُ مُحْدَثَةً وَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبِرَةً ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ ثُمَّ عَادَ لَهُ ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ قَالَ فَقَالَ صَبِيغٌ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي فَقَدْ وَاللَّهِ بَرَأْتُ فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ أَنْ لَا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ فَكَتَبَ عُمَرُ أَنْ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع بیان کرتے ہیں صبیغ عراقی نامی ایک شخص مسلمانوں کے ایک لشکر میں قرآن سے متعلق بعض سوال کیا کرتا تھا وہ مصر آیا تو حضرت عمرو بن عاص نے اسے حضرت عمر کے پاس بھیج دیا جب قاصد حضرت عمرو بن عاص کا خط لے کر آیا اور حضرت عمر نے اسے پڑھ لیا تو دریافت کیا یہ شخص کہاں ہے قاصد نے جواب دیا پڑاؤ میں ہے حضرت عمر نے ارشاد فرمایا اس کا خیال رکھنا وہ چلا نہ جائے ورنہ میں تمہیں سخت سزادوں گا پھر اس شخص کو حضرت عمر کے پاس لایا گیا حضرت عمر نے دریافت کیا تم نئے قسم کے سوالات کرتے ہو پھر حضرت عمر نے لکڑی کی سوٹیاں منگوائی اور ان کے ذریعے اسکی پٹائی کرکے اس کی پشت کو زخمی کردیا پھر اسے چھوڑ دیا جب وہ ٹھیک ہوگیا تو دوبارہ اسے اسی طرح مارا پھر اسے چھوڑ دیا اور وہ دوبارہ ٹھیک ہوا پھر اسے بلایا تاکہ دوبارہ اسے ماریں تو صبیغ نامی اس شخص نے کہا اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تواچھے طریقے سے قتل کریں اور اگر آپ میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی قسم میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں حضرت عمر نے اسے اجازت دی کہ وہ اپنے علاقے میں واپس چلاجائے حضرت عمر نے حضرت موسی اشعری کو خط میں لکھا کہ کوئی بھی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔ یہ بات اس شخص کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی پھر حضرت ابوموسی نے حضرت عمر کو خط میں لکھا کہ اس شخص نے اچھی طرح توبہ کرلی ہے تو حضرت عمر نے جواب دیا اب تم لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے سکتے ہو۔
-
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ عَامِرًا يَقُولُ اسْتَفْتَى رَجُلٌ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقَالَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ مَا تَقُولُ فِي كَذَا وَكَذَا قَالَ يَا بُنَيَّ أَكَانَ الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ قَالَ لَا قَالَ أَمَّا لَا فَأَجِّلْنِي حَتَّى يَكُونَ فَنُعَالِجَ أَنْفُسَنَا حَتَّى نُخْبِرَكَ-
عامر بیان کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت ابی بن کعب سے کوئی فتوی دریافت کیا اور کہا اے ابومنذر آپ فلاں مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا اے میرے بیٹے تم نے جس چیز کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے وہ واقع ہوچکی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں تو حضرت ابی بن کعب نے فرمایا اگر نہیں ہوئی تو پھر رہنے دومجھے مہلت دو جب تک وہ رونما نہ ہوجائے ہم اپنے نفس کا علاج کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم تمہیں اس کے بارے میں بتادیں گے۔
-
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ فَأَخْبَرَنَا عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَقَالَ فَتًى مَا تَقُولُ يَا عَمَّاهُ فِي كَذَا وَكَذَا قَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَكَانَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَأَعْفِنَا حَتَّى يَكُونَ-
مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابی بن کعب کے ساتھ کہیں جارہا تھا ایک نوجوان نے کہا اے چچا جان آپ فلاں مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا اے میرے بھتیجے کیا وہ رونما ہوچکا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا نہیں تو حضرت ابی نے فرمایا جب تک وہ رونما ہو نہیں جاتا تم مجھے معاف رکھو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ كَانَ إِبْرَاهِيمُ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُجِبْ فِيهِ إِلَّا جَوَابَ الَّذِي سُئِلَ عَنْهُ-
اعمش بیان کرتے ہیں ابراہیم سے جب کوئی سوال کیا جاتا تو وہ صرف اتنا ہی جواب دیتے تھے جتنا سوال کیا جاتا تھا ۔
-
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ وُهَيْبٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ لَا يُفْتِي فِي الْفَرْجِ بِشَيْءٍ فِيهِ اخْتِلَافٌ-
محمد بن سیرین کے بارے میں منقول ہے وہ سہولت کے بارے میں کوئی ایسا فتوی نہیں دیتے تھے جس میں اختلاف پایا جاتا ہو۔
-
أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ مَسْأَلَةٍ فَقَالَ لِي كَانَ هَذَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ آللَّهِ قُلْتُ آللَّهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَنَا أَخْبَرُونَا عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّهُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ فَيُذْهَبُ بِكُمْ هَا هُنَا وَهَا هُنَا فَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَعْجَلُوا بِالْبَلَاءِ قَبْلَ نُزُولِهِ لَمْ يَنْفَكَّ الْمُسْلِمُونَ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ إِذَا سُئِلَ سَدَّدَ وَإِذَا قَالَ وُفِّقَ-
صلت بن راشد بیان کرتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے ایک مسئلہ دریافت کیا انہوں نے مجھ سے فرمایا کیا یہ رونما ہوچکا ہے میں نے جواب دیا جی ہاں انہوں نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نے جواب دیا اللہ کی قسم۔ انہوں نے فرمایا ہمارے اصحاب نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا تھا اے لوگو کسی نئی صورت حال کے نازل ہونے سے پہلے جلدی نہیں کرو گے تو اس بارے میں مسلمان انتشار کا شکار نہیں ہوں گے اور ان میں سے کوئی ایسا شخص ہوگا جس سے سوال کیا جائے گا تو وہ صحیح جواب دے گا اور جب جواب دے گا تو اسے توفیق عنایت کی جائے گی۔
-
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ أَدْرَكَهُ رَمَضَانَانِ فَقَالَ أَكَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ قَالَ لَمْ يَكُنْ بَعْدُ فَقَالَ اتْرُكْ بَلِيَّتَهُ حَتَّى تَنْزِلَ قَالَ فَدَلَسْنَا لَهُ رَجُلًا فَقَالَ قَدْ كَانَ فَقَالَ يُطْعِمُ عَنْ الْأَوَّلِ مِنْهُمَا ثَلَاثِينَ مِسْكِينًا لِكُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے میں نے ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جس نے دو رمضان نہ پائے ہوں اور روزے نہ رکھے ہوں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کیا یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے یا نہیں سائل نے کہا یہ رونما نہیں ہوا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اس نئی صورت حال کو رہنے دو یہاں تک کہ یہ رونما ہوجائے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر ہم نے انہیں ایک فرضی شخص سے ملایا اس نے کہا یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فتوی دیا وہ شخص دونوں سالوں میں سے پہلے سال کی طرف سے تیس مسکینوں کو کھانا کھلائے گا ایک روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ كُنْتُ أَجْلِسُ بِمَكَّةَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ يَوْمًا وَإِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَوْمًا فَمَا يَقُولُ ابْنُ عُمَرَ فِيمَا يُسْأَلُ لَا عِلْمَ لِي أَكْثَرُ مِمَّا يُفْتِي بِهِ-
عبید بن جریج بیان کرتے ہیں میں مکہ ایک دن حضرت ابن عمر کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک دن حاضر ہوتا تھا تو حضرت عمر سے جو سوال کیا جاتا تھا وہ اس کے جواب میں فتوی دینے میں زیادہ تر یہی کہتے تھے مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ تَعَلَّمُوا فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُخْتَلُّ إِلَيْهِ-
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ علم حاصل کرو کیونکہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ کب کسی اختلافی مسئلے کے بارے میں اس کے پاس آیا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ سَتُحْدِثُونَ وَيُحْدَثُ لَكُمْ فَإِذَا رَأَيْتُمْ مُحْدَثَةً فَعَلَيْكُمْ بِالْأَمْرِ الْأَوَّلِ قَالَ حَفْصٌ كُنْتُ أُسْنِدُ عَنْ حَبِيبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثُمَّ دَخَلَنِي مِنْهُ شَكٌّ-
اعمش بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں۔ اے لوگو! عنقریب تم نئی باتیں پیدا کرو گے اور تمہارے سامنے نئی باتیں پیدا ہوں گی۔ جب تم کسی نئی بات کو دیکھو تو پہلے حکم کو اپنے اوپر لازم رکھو۔ حفص نامی راوی یہ بات بیان کرتے ہیں پہلے میں اس روایت کی سند حبیب کے حوالے سے ابوعبدالرحمن کے حوالے سے نقل کرتا تھا لیکن پھر مجھے اس بارے میں شک ہوگیا۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي مَسْعُودٍ أَلَمْ أُنْبَأْ أَوْ أُنْبِئْتُ أَنَّكَ تُفْتِي وَلَسْتَ بِأَمِيرٍ وَلِّ حَارَّهَا مَنْ تَوَلَّى قَارَّهَا-
محمد (نامی راوی) بیان کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے حضرت ابن مسعود سے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ فتوی دیتے ہیں حالانکہ آپ امیر نہیں ہیں اس(بھاری ذمہ داری) کی شدت بھی اسی شخص کے حوالے کرو جو اس کے فائدے کا نگران ہو۔
-