TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
سنن دارمی
مقدمہ دارمی
جو شخص غلطی میں مبتلا ہونے کےخوف سے فتوی دینے سے بچے
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ قَالَ سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ عَنْ حَدِيثٍ فَحَدَّثَنِيهِ فَقُلْتُ إِنَّهُ يُرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا عَلَى مَنْ دُونَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيْنَا فَإِنْ كَانَ فِيهِ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ كَانَ عَلَى مَنْ دُونَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
عاصم بیان کرتے ہیں میں نے امام شعبی سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا جو انہوں نے مجھے سنائی تھی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کیا یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے انہوں نے جواب دیا نہیں اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے بعد والے کسی راوی کی طرف منسوب کرنا ہمارے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے کیونکہ اگر اس میں کوئی کمی یا اضافہ ہوگا تو وہ بعد والے راوی کے حوالے سے ہوگا۔
-
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ فَقِيلَ لَهُ أَمَا تَحْفَظُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا غَيْرَ هَذَا قَالَ بَلَى وَلَكِنْ أَقُولُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ عَلْقَمَةُ أَحَبُّ إِلَيَّ-
حضرت ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع کیا ہے ابراہیم سے سوال کیا گیا کیا آپ کو اس حدیث کے علاوہ کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور حدیث بھی یاد ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں لیکن میرے نزدیک یہ کہنا زیادہ پسندیدہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے یہ بات بیان کی ہے یا علقمہ نے یہ بات بیان کی ہے۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِذَا حَدَّثَ بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ أَوْ شِبْهَهُ أَوْ شَكْلَهُ-
حضرت ابودرداء کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو ساتھ میں یہ بھی کہتے تھے کہ اس کی مانند اس کے مشابہ یا اس طرح سے آپ نے ارشاد فرمایا۔
-
أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِذَا حَدَّثَ حَدِيثًا قَالَ اللَّهُمَّ إِلَّا هَكَذَا أَوْ كَشَكْلِهِ-
حضرت ابودرداء کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو ساتھ یہ بھی کہتے تھے اے اللہ یہ شاید اسی طرح یا اس کی مانند ہے۔
-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُسْلِمٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ كُنْتُ لَا تَفُوتُنِي عَشِيَّةُ خَمِيسٍ إِلَّا آتِي فِيهَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ لِشَيْءٍ قَطُّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ حَتَّى كَانَتْ ذَاتَ عَشِيَّةٍ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاغْرَوْرَقَتَا عَيْنَاهُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ فَأَنَا رَأَيْتُهُ مَحْلُولَةً أَزْرَارُهُ وَقَالَ أَوْ مِثْلُهُ أَوْ نَحْوُهُ أَوْ شَبِيهٌ بِهِ-
عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں ہرجمعرات کی شام میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں باقاعدگی کے ساتھ حاضر ہوا کرتا تھا میں نے انہیں کبھی بھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ہے ایک مرتبہ شام کے وقت انہوں نے یہ کہہ دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے عمرو بیان کرتے ہیں یہ کہہ کر ان کے آنسوجاری ہوگئے اور ان کی رگیں پھول گئیں میں نے دیکھا کہ ان کا تکمہ کھل گیا ہے پھر وہ بولے اس کی مانند یا اس طرح جیسا ارشاد فرمایا ہے۔
-
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَابْنِ سِيرِينَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَيَّامِ تَرَبَّدَ وَجْهُهُ وَقَالَ هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ-
امام شعبی ابن سیرین بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے تو ان کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ آپ نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے یا اس کی مانند ارشاد فرمایا۔
-
أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا تَوْبَةُ الْعَنْبَرِيُّ قَالَ قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ أَرَأَيْتَ فُلَانًا الَّذِي يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَعَدْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ سَنَتَيْنِ أَوْ سَنَةً وَنِصْفًا فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ-
توبہ عنبری ارشاد فرماتے ہیں امام شعبی نے مجھ سے کہا کیا تم نے غور کیا ہے وہ فلاں شخص یہ کہہ دیتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دو برس یا شاید ڈیڑھ برس تک رہاہوں لیکن میں نے انہیں کبھی نہیں سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کی ماسوائے ان چند احادیث کہ جو میں تمہارے سامنے بیان کرچکا ہوں۔
-
أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ جَالَسْتُ ابْنَ عُمَرَ سَنَةً فَلَمْ أَسْمَعْهُ يَذْكُرُ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
عبداللہ بن ابوسفر بیان کرتے ہیں شعبی ارشاد فرماتے ہیں میں ایک سال تک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہا ہوں میں نے انہیں کبھی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔
-
أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ثَابِتِ بْنِ قُطْبَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُحَدِّثُنَا فِي الشَّهْرِ بِالْحَدِيثَيْنِ أَوْ الثَّلَاثَةِ-
حضرت ثابت بن قطبہ انصاری بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ مہینے بھر میں ہمارے سامنے دو یا شاید تین حدیثیں بیان کیا کرتے تھے۔
-
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ مَرَّ بِنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَقُلْنَا حَدِّثْنَا بِبَعْضِ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ وَأَتَحَلَّلُ-
عبدالملک بن عبید بیان کرتے ہیں حضرت انس بن مالک ہمارے پاس سے گزرے تو ہم نے درخواست کی آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو انہوں نے جواب دیا کیا میں اپنے لیے جہنم کو حلال کرلوں۔
-
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ كَانَ أَنَسٌ قَلِيلَ الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
امام محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بہت کم احادیث بیان کرتے تھے اور جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث نقل کرتے تھے تو ساتھ یہ ضرور کہتے تھے کہ اسی کی مانند نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
-
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ كَانَ أَنَسٌ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا قَالَ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
امام محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو حدیث بیان کرتے تھے تو ساتھ یہ کہہ دیتے تھے کہ یا اسی کی مانند نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ سَعْدٍ إِلَى مَكَّةَ فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ-
سائب بن یزید بیان کرتے ہیں میں حضرت سعد کے ہمراہ مکہ گیا میں نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ واپس آگئے۔
-
أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا بَيَانٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ قَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ شَيَّعَ الْأَنْصَارَ حِينَ خَرَجُوا مِنْ الْمَدِينَةِ فَقَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ شَيَّعْتُكُمْ قُلْنَا لِحَقِّ الْأَنْصَارِ قَالَ إِنَّكُمْ تَأْتُونَ قَوْمًا تَهْتَزُّ أَلْسِنَتُهُمْ بِالْقُرْآنِ اهْتِزَازَ النَّخْلِ فَلَا تَصُدُّوهُمْ بِالْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا شَرِيكُكُمْ قَالَ فَمَا حَدَّثْتُ بِشَيْءٍ وَقَدْ سَمِعْتُ كَمَا سَمِعَ أَصْحَابِي-
قرظہ بن کعب بیان کرتے ہیں جب بعض انصار مدینہ سے نکل کر جانے لگے تو حضرت عمر ان کے ساتھ چلتے ہوئے آئے اور بولے کیا تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیوں آیاہوں ہم نے جواب دیا انصار کے حق کی وجہ سے۔ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اتنی تیزی کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں جیسے کھجور کا درخت ہلتا ہے لہذا تم انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کے حوالے سے قرآن سے روکنے کی کوشش نہ کرنا میں تمہارے راوی بیان کرتے ہیں اس کے بعد میں نے کوءی ایسی حدیث بیان نہیں کی حالانکہ میں نے بھی اسی طرح احادیث سنی ہوئی ہیں جیسے میرے ساتھیوں نے سنی ہوئی ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ قَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ قَالَ بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَى الْكُوفَةِ فَبَعَثَنِي مَعَهُمْ فَجَعَلَ يَمْشِي مَعَنَا حَتَّى أَتَى صِرَارَ وَصِرَارُ مَاءٌ فِي طَرِيقِ الْمَدِينَةِ فَجَعَلَ يَنْفُضُ الْغُبَارَ عَنْ رِجْلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّكُمْ تَأْتُونَ الْكُوفَةَ فَتَأْتُونَ قَوْمًا لَهُمْ أَزِيزٌ بِالْقُرْآنِ فَيَأْتُونَكُمْ فَيَقُولُونَ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ فَيَأْتُونَكُمْ فَيَسْأَلُونَكُمْ عَنْ الْحَدِيثِ فَاعْلَمُوا أَنَّ أَسْبَغَ الْوُضُوءِ ثَلَاثٌ وَثِنْتَانِ تُجْزِيَانِ ثُمَّ قَالَ إِنَّكُمْ تَأْتُونَ الْكُوفَةَ فَتَأْتُونَ قَوْمًا لَهُمْ أَزِيزٌ بِالْقُرْآنِ فَيَقُولُونَ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ قَدِمَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ فَيَأْتُونَكُمْ فَيَسْأَلُونَكُمْ عَنْ الْحَدِيثِ فَأَقِلُّوا الرِّوَايَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا شَرِيكُكُمْ فِيهِ قَالَ قَرَظَةُ وَإِنْ كُنْتُ لَأَجْلِسُ فِي الْقَوْمِ فَيَذْكُرُونَ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَمِنْ أَحْفَظِهِمْ لَهُ فَإِذَا ذَكَرْتُ وَصِيَّةَ عُمَرَ سَكَتُّ قَالَ أَبُو مُحَمَّد مَعْنَاهُ عِنْدِي الْحَدِيثُ عَنْ أَيَّامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ السُّنَنَ وَالْفَرَائِضَ-
قرظہ بن کعب بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نے چند انصاری صحابہ کرام کو کوفہ بھیجا اور مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا حضرت عمر ہمارے ساتھ چلتے ہوئے صرار تک آئے۔ صرار مدینے کے راستے میں ایک چشمہ ہے وہاں حضرت عمر نے اپنے پاؤں سے مٹی صاف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تم لوگ کوفہ جارہے ہو تم ایک ایسی قوم کے پاس جاؤ گے جو لوگ بڑے شوق سے قرآن پڑھتے ہیں وہ لوگ تمہارے پاس آئیںگے اور یہ کہیں گے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تشریف لائے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تشریف لائے ہیں وہ تمہارے پاس آئیں گے اور حدیث کے بارے میں سوال کریں گے تم یہ بات یاد رکھنا کہ کامل وضو میں تین مرتبہ اعضاء کودھویا جاتا ہے ویسے دو مرتبہ دھونا بھی کافی ہے۔ پھر حضرت عمر نے ارشاد فرمایا تم لوگ کوفہ جارہے ہوتم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو بڑے ذوق اور شوق سے قرآن پڑھتے ہیں وہ یہ کہیں گے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تشریف لائے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تشریف لے کر آئے ہیں وہ تمہارے پاس آئیں گے اور تم سے احادیث کے بارے میں سوال کریں گے تو تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کم احادیث بیان کرنا میں اس بارے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ قرظہ فرماتے ہیں میں کچھ لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا ہوتا ہوں وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث ذکر کرتے ہیں حالانکہ مجھے ان سے زیادہ احادیث یاد ہیں لیکن جب مجھے حضرت عمر کی نصیحت یاد آتی ہے تو میں خاموشی اختیار کر لیتا ہوں۔ امام محمد عبداللہ دارمی ارشاد فرماتے ہیں اس حدیث کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے احادیث بیان نہ کی جائیں سنن اور فرائض سے اس حدیث کا تعلق نہیں ہے۔
-
أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ارْتَعَدَ ثُمَّ قَالَ نَحْوَ ذَلِكَ أَوْ فَوْقَ ذَاكَ-
علقمہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ نے ایک مرتبہ یہ کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے پھر ان پر کپکپی طاری ہوگئی اور پھر بولے اسکی مانند یا اس سے کچھ زیادہ ارشاد فرمایا ہے۔
-
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ فَقَالَ إِنَّ مِنْ الشَّجَرِ شَجَرًا مِثْلَ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ هِيَ النَّخْلَةُ فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ قَالَ عُمَرُ وَدِدْتُ أَنَّكَ قُلْتَ وَعَلَيَّ كَذَا-
مجاہد بیان کرتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ تک آیا میں نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا البتہ انہوں نے یہ حدیث بیان کی ایک مرتبہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ کی خدمت میں جمار نامی مخصوص کھاناپیش کیا گیا آپ نے ارشاد فرمایا ایک درخت ایسا ہے جسکی مثال مسلمان بندے کی طرح ہے (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں یہ جواب دوں کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے جائزہ لیا تو میں حاضرین میں سب سے کم سن تھا اس لیے میں خاموش رہا بعد میں حضرت عمر (کو یہ بات بتائی گئی تو انہوں نے ارشاد فرمایا) میری یہ خواہش تھی کہ تم یہ جواب دے دیتے اگرچہ اسکے عوض میں مجھے یہ کچھ دینا پڑتا۔
-
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْهَدَادِيُّ حَدَّثَنَا صَالِحٌ الدَّهَّانُ قَالَ مَا سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ قَطُّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِعْظَامًا وَاتِّقَاءً أَنْ يَكْذِبَ عَلَيْهِ-
صالح بیان کرتے ہیں میں نے حضرت جابر بن زید کو کبھی بھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ہے وہ اس چیز سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کو بہت اہم سمجھتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی غلط بات بیان کر دیں۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ جَاءَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى كَعْبٍ يَسْأَلُ عَنْهُ وَكَعْبٌ فِي الْقَوْمِ فَقَالَ كَعْبٌ مَا تُرِيدُ مِنْهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَا أَعْرِفُ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُونَ أَحْفَظَ لِحَدِيثِهِ مِنِّي فَقَالَ كَعْبٌ أَمَا إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَالِبَ شَيْءٍ إِلَّا سَيَشْبَعُ مِنْهُ يَوْمًا مِنْ الدَّهْرِ إِلَّا طَالِبَ عِلْمٍ أَوْ طَالِبَ دُنْيَا فَقَالَ أَنْتَ كَعْبٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ لِمِثْلِ هَذَا جِئْتُ-
حضرت عبداللہ بن شفیق بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت کعب کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے آئے حضرت کعب کچھ لوگوں کے درمیان موجود تھے حضرت کعب نے دریافت کیا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں نبی کریم کے اصحاب میں کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہوں جو آپ کی احادیث کا مجھ سے زیادہ حافظ ہو۔ حضرت کعب نے جواب دیا آپ کسی بھی چیز کے طلبگار کو پائیں گے وہ ایک وقت میں اپنی طلب سے سیر ہو جاتا ہے ماسوائے علم کے طلب گار کے اور دنیا کے طلب گار کے وہ دونوں کبھی سیر نہیں ہوتے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا آپ کعب ہیں انہوں نے جواب دیا ہاں۔ حضرت کعب نے فرمایا اسی لیے میں آپ کے پاس آیا تھا ۔
-
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا شِبْلٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ قَالَ مَنْ جَمَعَ عِلْمَ النَّاسِ إِلَى عِلْمِهِ وَكُلُّ طَالِبِ عِلْمٍ غَرْثَانُ إِلَى عِلْمٍ-
طاؤس بیان کرتے ہیں عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون سا شخص زیادہ علم رکھتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جو لوگوں کے علم کو اپنے علم کے ساتھ ملادے اور وہ جو علم کا بھوکا ہوتا ہے ۔
-
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ قَالَ كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا الْمَشْيَخَةُ وَهُمْ يَتَرَاجَعُونَ فِيهِمْ عَائِذُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ شَابٌّ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ أَفِيضُوا فِي ذِكْرِ اللَّهِ بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمْ فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فِي أَيِّ شَيْءٍ رَآنَا ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ مَنْ أَمَرَكَ بِهَذَا فَمُرْ لَئِنْ عُدْتَ لَنَفْعَلَنَّ وَلَنَفْعَلَنَّ-
معاویہ بن قرہ بیان کرتے ہیں ایک حلقے میں جس میں کچھ بزرگ لوگ موجود تھے اور آپس میں بات چیت کررہے ان میں عائذ بن عمرو بھی موجود تھے حاضرین میں سے ایک کنارے میں موجود ایک شخص بولا اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاؤ اللہ تمہیں برکت عطا کرے گا۔ حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بولے تم ہمیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہو پھر ایک شخص نے دریافت کیا تمہیں یہ بات کہنے کی ہدایت کس نے کہی ہے چلے جاؤ یہاں سے اگر واپس آئے تو ہم تمہیں اتنی سخت سزا دیں گے۔
-
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ نِعْمَ الْمَجْلِسُ مَجْلِسٌ يُنْشَرُ فِيهِ الْحِكْمَةُ وَتُرْجَى فِيهِ الرَّحْمَةُ-
عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں سب سے بہترین محفل وہ ہے جس میں حکمت کو پھیلایا جائے اور رحمت کی امید رکھی جائے۔
-
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبْيَرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنْ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا يُغْنِي عَنْهُمْ قَالَ جُبَيْرٌ فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ قُلْتُ أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ قَالَ صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنْ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ الْجَمَاعَةِ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا-
حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف جمائی اور یہ ارشاد فرمایا یہی وہ گھڑی ہوگی جس میں لوگوں کے درمیان سے علم اٹھا لیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ذرا سے علم پر بھی قادر نہیں ہوں گے حضرت زیاد بن لبید انصاری نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے درمیان سے علم کیسے اٹھایا جائے گا جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم ہم اسے پڑھتے رہیں گے اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی یہ پڑھاتے رہیں گے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے زیاد تمہاری ماں تمہیں روئے میں تو یہ سمجھتا تھا کہ تم مدینے کے سمجھدار لوگوں میں سے ایک ہو یہ تورات اور انجیل بھی تو یہود ونصاری کے پاس تھیں اس کا انہیں کیا فائدہ ہوا۔ جبیر نامی روای بیان کرتے ہیں میری ملاقات حضرت عبادہ بن صامت سے ہوئی تو میں نے انس رضی اللہ عنہ نے کہا آپ نے سنا کہ آپ کے بھائی حضرت ابودرداء کیا حدیث بیان کرتے ہیں پھر میں نے انہیں وہ حدیث سنائی جو حضرت ابودرداء نے بیان کی تھی تو حضرت عبادہ نے ارشاد فرمایا حضرت ابودرداء نے سچ کہا ہے اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ سب سے پہلے لوگوں میں سے کون ساعلم اٹھایا جائے گا وہ علم خشوع ہوگا یہاں تک کہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم جامع مسجد میں داخل ہوں گے تو تمہیں ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آئے گا جس میں خشوع پایا جاتا ہو۔
-
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ الْكِنَانِيُّ حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ وَالنُّونَ فِي الْبَحْرِ يُصَلُّونَ عَلَى الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ الْخَيْرَ-
مکحول بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے عالم شخص کی عبادت گزار شخص پر وہی فضیلت ہے جو میری فضیلت تم میں سے ادنی شخص پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی۔ بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں سے اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ اس کے فرشتے آسمان اور زمین میں موجود مخلوقات یہاں تک کہ سمندر میں موجود مچھلیاں بھی اس شخص کے لیے دعائے رحمت کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔
-
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَا يَكُونُ الرَّجُلُ عَالِمًا حَتَّى لَا يَحْسُدَ مَنْ فَوْقَهُ وَلَا يَحْقِرَ مَنْ دُونَهُ وَلَا يَبْتَغِيَ بِعِلْمِهِ ثَمَنًا-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کوئی شخص اس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے سے اوپر والے سے حسد کرنے سے باز نہ آجائے اور اپنے سے کم تر شخص کو حقیر سمجھنے سے باز نہ آجائے اور اپنے علم کے عوض میں معاوضے کا طلب گار نہ ہو۔
-
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الْأَعْلَى التَّيْمِيَّ يَقُولُ مَنْ أُوتِيَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَا يُبْكِيهِ لَخَلِيقٌ أَنْ لَا يَكُونَ أُوتِيَ عِلْمًا يَنْفَعُهُ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى نَعَتَ الْعُلَمَاءَ ثُمَّ قَرَأَ الْقُرْآنَ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِلَى قَوْلِهِ يَبْكُونَ-
عبدالاعلی تیمی بیان کرتے ہیں جس شخص کو علم عطا کیا جائے اور وہ علم اس شخص کو رلائے نہیں وہ اس لائق ہے کہ ان لوگوں میں سے نہ ہوجنہیں وہ علم عطا کیا گیا ہے جو انہیں نفع دیتا ہے کیونکہ اللہ نے علماء کی یہ تعریف کی ہے پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ بے شک وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا اس آیت کو وہ روتے ہیں۔ تک پڑھا۔
-
أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ لَا تَكُونُ عَالِمًا حَتَّى يَكُونَ فِيكَ ثَلَاثُ خِصَالٍ لَا تَبْغِي عَلَى مَنْ فَوْقَكَ وَلَا تَحْقِرُ مَنْ دُونَكَ وَلَا تَأْخُذُ عَلَى عِلْمِكَ دُنْيَا-
ابوحاذم بیان کرتے ہیں تم اس وقت تک عالم نہیں ہوسکتے جب تک تمہارے اندر تین خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں تم اپنے سے اوپر والے شخص کے خلاف سرکشی نہ کرو اور اپنے سے کم تر شخص کو حقیر نہ سمجھو اور اپنے علم کے عوض میں دنیا کے طلب گار نہ ہو۔
-
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى الدِّمَشْقِيِّ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ لَا تَكُونُ عَالِمًا حَتَّى تَكُونَ مُتَعَلِّمًا وَلَا تَكُونُ بِالْعِلْمِ عَالِمًا حَتَّى تَكُونَ بِهِ عَامِلًا وَكَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُخَاصِمًا وَكَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُمَارِيًا وَكَفَى بِكَ كَاذِبًا أَنْ لَا تَزَالَ مُحَدِّثًا فِي غَيْرِ ذَاتِ اللَّهِ-
حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں تم اس وقت تک عالم نہیں ہوسکتے جب تم طالب علم نہ بن جاؤ اور تم اس وقت تک علم کے عالم نہیں ہوسکتے جب تک تم اس پر عمل نہیں کرتے اور تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ بحث و مباحثہ کرتے رہو اور تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے تم ہمیشہ جھگڑا کرتے رہو اور تمہارے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے تم جب بھی کوئی بات کرو وہ اللہ کی رضا کی بجائے کسی اور مقصد کے لیے ہو۔
-
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَخِيهِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عِمْرَانَ الْمِنْقَرِيِّ قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ يَوْمًا فِي شَيْءٍ قَالَهُ يَا أَبَا سَعِيدٍ لَيْسَ هَكَذَا يَقُولُ الْفُقَهَاءُ فَقَالَ وَيْحَكَ وَرَأَيْتَ أَنْتَ فَقِيهًا قَطُّ إِنَّمَا الْفَقِيهُ الزَّاهِدُ فِي الدُّنْيَا الرَّاغِبُ فِي الْآخِرَةِ الْبَصِيرُ بِأَمْرِ دِينِهِ الْمُدَاوِمُ عَلَى عِبَادَةِ رَبِّهِ-
عمران منقری بیان کرتے ہیں میں نے حضرت حسن بصری سے ایک دن کسی بات کے بارے میں جو انہوں نے بیان کی تھی یہ کہا اے ابوسعید فقہاء ایسے نہیں کہتے جو آپ نے بیان کیا ہے تو حضرت حسن بصری نے فرمایا تمہارا ستیا ناس ہو کیا تم نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا ہے فقیہ وہ شخص ہوتا ہے جو دنیا سے بے رغبت ہو۔ آخرت کی طرف متوجہ ہو اپنے دین کے معاملات کا نگران ہو اور ہمیشہ اپنے پروردگار کی عبادت میں مصروف رہے۔
-
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْبَجَلِيُّ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قِيلَ لَهُ مَنْ أَفْقَهُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قَالَ أَتْقَاهُمْ لِرَبِّهِ-
سعد بن ابراہیم سے سوال کیا گیا مدینہ کا سب سے زیادہ سمجھدار شخص کون ہے انہوں نے جواب دیا جو اپنے پروردگار سے سب سے زیادہ ڈرتا ہو۔
-
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ إِنَّمَا الْفَقِيهُ مَنْ يَخَافُ اللَّهَ-
مجاہد ارشاد فرماتے ہیں فقیہ وہ شخص ہے جو اللہ کا خوف رکھتا ہو۔
-
أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ عَنْ يَعْقُوبَ الْقُمِّيِّ حَدَّثَنِي لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ إِنَّ الْفَقِيهَ حَقَّ الْفَقِيهِ مَنْ لَمْ يُقَنِّطْ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ وَلَمْ يُؤَمِّنْهُمْ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَدَعْ الْقُرْآنَ رَغْبَةً عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ إِنَّهُ لَا خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَا عِلْمَ فِيهَا وَلَا عِلْمٍ لَا فَهْمَ فِيهِ وَلَا قِرَاءَةٍ لَا تَدَبُّرَ فِيهَا-
حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں حقیقی معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور انہیں اللہ کی نافرمانی کی رخصت نہ دے اور انہیں اللہ کے آداب سے بے نیاز نہ کردے اور قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ نہ ہوجائے۔ ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں علم نہ ہو اور ایسے علم میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں فہم نہ ہو اور ایسی قرات میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں غور و فکر نہ ہو۔
-
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ الْفَقِيهُ حَقُّ الْفَقِيهِ الَّذِي لَا يُقَنِّطُ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ وَلَا يُؤَمِّنُهُمْ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَلَا يُرَخِّصُ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ إِنَّهُ لَا خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَا عِلْمَ فِيهَا وَلَا خَيْرَ فِي عِلْمٍ لَا فَهْمَ فِيهِ وَلَا خَيْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَا تَدَبُّرَ فِيهَا-
حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں حقیقی معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور انہیں اللہ کے آداب سے بے نیاز نہ کردے اور انہیں اللہ کی نافرمانی کی رخصت نہ دے بےشک ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں علم نہ ہو اور ایسے علم میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں فہم نہ ہو اور ایسی قرات میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں غور و فکر نہ ہو۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَازِمٍ حَدَّثَنِي عَمِّي جَرِيرُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ تُبَيْعًا يُحَدِّثُ عَنْ كَعْبٍ قَالَ إِنِّي لَأَجِدُ نَعْتَ قَوْمٍ يَتَعَلَّمُونَ لِغَيْرِ الْعَمَلِ وَيَتَفَقَّهُونَ لِغَيْرِ الْعِبَادَةِ وَيَطْلُبُونَ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ وَيَلْبَسُونَ جُلُودَ الضَّأْنِ وَقُلُوبُهُمْ أَمَرُّ مِنْ الصَّبْرِ فَبِي يَغْتَرُّونَ أَوْ إِيَّايَ يُخَادِعُونَ فَحَلَفْتُ بِي لَأُتِيحَنَّ لَهُمْ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ-
کعب بیان کرتے ہیں میں نے اس قوم کی حالت ان الفاظ میں پائی ہے (ارشاد باری تعالیٰ ہے) جو عمل کے بجائے ویسے ہی علم حاصل کرتے ہیں اور عبادت کرنے کی بجائے دوسرے مقاصد کے حصول کے لیے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں وہ آخرت سے متعلق عمل کے ذریعے دنیا طلب کرنا چاہتے ہیں اور وہ اونٹ کی کھال کے لباس پہنیں گے ان کے دل کڑوی چیز سے زیادہ کڑوے ہوں گے تو کیا وہ مجھے دھوکادیں گے یا میرے ساتھ فریب کریں گے میں یہ قسم اٹھاتاہیوں کہ میں ان لوگوں کو ایسے فتنے میں مبتلا کروں گا جس میں بردبار شخص بھی حیران رہ جاتا ہے۔
-
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ هَرِمِ بْنِ حَيَّانَ أَنَّهُ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْعَالِمَ الْفَاسِقَ فَبَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ وَأَشْفَقَ مِنْهَا مَا الْعَالِمُ الْفَاسِقُ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ هَرِمٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِهِ إِلَّا الْخَيْرَ يَكُونُ إِمَامٌ يَتَكَلَّمُ بِالْعِلْمِ وَيَعْمَلُ بِالْفِسْقِ فَيُشَبِّهُ عَلَى النَّاسِ فَيَضِلُّوا-
ہرم بن حیان بیان کرتے ہیں فاسق عالم سے بچو اس بات کی اطلاع حضرت عمر بن خطاب کو ملی تو حضرت عمر نے انہیں خط میں لکھا فاسق عالم سے مراد کیا ہے ہرم اس بات سے خوفزدہ ہوگئے ہرم نے انہیں جواب میں لکھا اے امیرالمومنین اللہ کی قسم میری مراد صرف نیکی ہی تھی بعض اوقات کوئی ایساحکمران ہوتا ہے جو اپنے علم کے مطابق بات تو کرتا ہے لیکن اس کا عمل گناہ پر ہوتا ہے ایسا شخص لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کردیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں۔
-
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ إِسْمَعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْمُهَاجِرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُكْرَمَ دِينُهُ فَلَا يَدْخُلْ عَلَى السُّلْطَانِ وَلَا يَخْلُوَنَّ بِالنِّسْوَانِ وَلَا يُخَاصِمَنَّ أَصْحَابَ الْأَهْوَاءِ-
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں جو شخص اپنے دین کی عزت افزائی کرنا چاہتا ہو وہ کسی حکمران کے پاس نہ جائے اور تنہائی میں عورتوں کے پاس موجود نہ ہو اور بد عقیدہ لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرے۔
-
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ قَالَ كَتَبَ إِلَيَّ مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ إِيَّاكَ وَالْخُصُومَةَ وَالْجِدَالَ فِي الدِّينِ لَا تُجَادِلَنَّ عَالِمًا وَلَا جَاهِلًا أَمَّا الْعَالِمُ فَإِنَّهُ يَخْزُنُ عَنْكَ عِلْمَهُ وَلَا يُبَالِي مَا صَنَعْتَ وَأَمَّا الْجَاهِلُ فَإِنَّهُ يُخَشِّنُ بِصَدْرِكَ وَلَا يُطِيعُكَ-
یونس بیان کرتے ہیں میمون بن مہران نے مجھے خط لکھا دینی معاملات میں بحث و مباحثہ کرنے سے بچو کسی عالم یا جاہل کے ساتھ ہرگز بحث نہ کرو عالم کے ساتھ اس لیے کہ کیونکہ وہ اپنے علم کے زور پر تمہیں رسوائی کا شکار کردے گا اور اس چیز کی پرواہ نہیں کرے گا تم نے کیا کیا ہے اور جاہل کے ساتھ اس لیے وہ شخص تمہارے سینے کو غصے سے بھردے گا اور تمہاری فرمانبرداری نہیں کرے گا۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام لِابْنِهِ دَعْ الْمِرَاءَ فَإِنَّ نَفْعَهُ قَلِيلٌ وَهُوَ يُهَيِّجُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَ الْإِخْوَانِ-
یحیی بن ابوکثیر بیان کرتے ہیں حضرت سلیمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا بحث کو چھوڑ دو کیونکہ اس کا فائدہ کم ہوتا ہے اور یہ بھائیوں کے درمیان دشمنی کو رواج دیتی ہے۔
-
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ مَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَاتِ أَكْثَرَ التَّنَقُّلَ-
حضرت عمر بن عبدالعزیز ارشاد فرماتے ہیں جو شخص اپنے دین کو بحث و مباحثہ کا نشانہ بنائے گا اس کی رائے تیزی سے تبدیل ہوتی چلی جائے گی۔
-
أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ إِنَّهُ مَنْ تَعَبَّدَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ مَا يُفْسِدُ أَكْثَرَ مِمَّا يُصْلِحُ وَمَنْ عَدَّ كَلَامَهُ مِنْ عَمَلِهِ قَلَّ كَلَامُهُ إِلَّا فِيمَا يَعْنِيهِ وَمَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَةِ كَثُرَ تَنَقُّلُهُ-
سعید بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اہل مدینہ کو خط میں یہ لکھا جو شخص علم کے بغیر عبادت اختیار کرے وہ اصلاح کے مقابلے میں فساد زیادہ کرے گا اور جو شخص اپنے کلام کو اپنے عمل کا حصہ شمار کرے گا اس کا کلام کم ہوگا اور وہ صرف ضروری باتیں کرے اور جو شخص اپنے دین کو بحث و مباحثہ کا حصہ بنا لے اس کی رائے تیزی کے ساتھ تبدیل ہوگی۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ شَيْءٍ مِنْ الْأَهْوَاءِ فَقَالَ عَلَيْكَ بِدِينِ الْأَعْرَابِيِّ وَالْغُلَامِ فِي الْكُتَّابِ وَالْهَ عَمَّا سِوَى ذَلِكَ قَالَ أَبُو مُحَمَّد كَثُرَ تَنَقُّلُهُ أَيْ يَنْتَقِلُ مِنْ رَأْيٍ إِلَى رَأْيٍ-
حضرت عمر بن عبدالعزیز سے ایک شخص نے نفسانی خواہشات کی پیروی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیاتم دیہاتی اور مدرسوں میں پڑھنے والے لڑکوں کی مانند اپنے دینی عقائد پر پختہ رہو اس کے علاوہ ہر چیز سے لاتعلق ہوجاؤ۔ امام ابومحمد دارمی فرماتے ہیں روایت کے الفاظ میں بکثرت نقل ہونے سے مراد یہ ہے کہ کبھی اس کی رائے یہ ہوگی کبھی اسکی رائے دوسری ہوگی۔
-