جب امام خطبہ دے تو کس جگہ کھڑا ہو۔

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ قَبْلَ أَنْ يُجْعَلَ الْمِنْبَرُ فَلَمَّا جُعِلَ الْمِنْبَرُ حَنَّ ذَلِكَ الْجِذْعُ حَتَّى سَمِعْنَا حَنِينَهُ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَيْهِ فَسَكَنَ-
حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے اس تنے کے پاس کھڑے ہوا کرتے تھے یہ منبر بنائے جانے سے پہلے کی بات ہے۔ جب منبر بنایا گیا تو وہ کھجور کا تنا رونے لگ پڑا یہاں تک کہ ہم نے اس کے رونے کی آواز سنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو اسے سکون آگیا۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَ الْمِنْبَرَ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ حَنَّ الْجِذْعُ فَاحْتَضَنَهُ فَسَكَنَ وَقَالَ لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ منبر استعمال کرنے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے پھر جب آپ نے منبر کی طرف جانے لگے تو کھجور کا تنا رونے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لپٹا لیا تو اسے سکون آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا اگر میں اسے نہ لپٹاتا تو یہ قیامت تک روتار ہتا۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ لَمَّا كَثُرَ النَّاسُ بِالْمَدِينَةِ جَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ وَالْقَوْمُ يَجِيئُونَ فَلَا يَكَادُونَ أَنْ يَسْمَعُوا كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَرْجِعُوا مِنْ عِنْدِهِ فَقَالَ لَهُ النَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ قَدْ كَثُرُوا وَإِنَّ الْجَائِيَ يَجِيءُ فَلَا يَكَادُ يَسْمَعُ كَلَامَكَ قَالَ فَمَا شِئْتُمْ فَأَرْسِلْ إِلَى غُلَامٍ لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ نَجَّارٍ وَإِلَى طَرْفَاءِ الْغَابَةِ فَجَعَلُوا لَهُ مِرْقَاتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ عَلَيْهِ وَيَخْطُبُ عَلَيْهِ فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ حَنَّتْ الْخَشَبَةُ الَّتِي كَانَ يَقُومُ عِنْدَهَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهَا فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ-
حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں جب مدینہ منورہ میں لوگوں کی کثرت ہوگئی تو کبھی کوئی شخص آتا تو کبھی کچھ لوگ آجاتے وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں سن سکتے تھے یہاں تک کہ وہ آپ کی بارگاہ سے واپس جاتے تو لوگ نے آپ کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ آپ کی خدمت میں بکثرت لوگ آتے ہیں کوئی شخص آتا ہے اسے آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی اس کا کوئی حل ہونا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تم کیا چاہتے ہو تم انصار کی ایک خاتون کے غلام کے پاس پیغام بھیجو جو بڑھئی کا کام کرتا ہے جو جنگل میں جائے ان لوگوں نے اس شخص کے لیے دو یا تین تختیاں بنا دیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر تشریف فرما ہونے لگے اور اس پر بیٹھ کر خطبہ دینے لگے جب آپ نے پہلی مرتبہ ایسا کیا تو پہلے آپ جس لکڑی کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے وہ رونے لگی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو اسے سکون آگیا۔
-