بھائیوں اور بہنوں اور اولاد اور اولاد کی اولاد کی وراثت کا حکم ۔

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي أَخَوَاتٍ لِأَبٍ وَأُمٍّ وَإِخْوَةٍ وَأَخَوَاتٍ لِأَبٍ قَالَ لِلْأَخَوَاتِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ الثُّلُثَانِ وَمَا بَقِيَ فَلِلذُّكُورِ دُونَ الْإِنَاثِ فَقَدِمَ مَسْرُوقٌ الْمَدِينَةَ فَسَمِعَ قَوْلَ زَيْدٍ فِيهَا فَأَعْجَبَهُ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ أَتَتْرُكُ قَوْلَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنِّي أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَوَجَدْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ مِنْ الرَّاسِخِينَ فِي الْعِلْمِ قَالَ أَحْمَدُ فَقُلْتُ لِأَبِي شِهَابٍ وَكَيْفَ قَالَ زَيْدٌ فِيهَا قَالَ شَرَّكَ بَيْنَهُمْ-
مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ سگی بہنوں باپ کی طرف والے بہن بھائیوں کے بارے میں یہ ارشاد فرماتے ہیں سگی بہنوں کو دوتہائی حصہ ملے گا اور جو باقی بچ جائے گا وہ بھائیوں کو ملے گا بہنوں کو نہیں ملے گا جو صرف باپ کی طرف سے بہن بھائی ہوں گے۔ مسروق مدینہ آئے انہوں نے اس بارے میں حضرت زید کا فرمان سنا تو وہ انہیں بہت پسند آیا ان کے ساتھیوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ حضرت عبداللہ کے قول کو ترک کر دیں انہوں نے جواب دیا جب میں مدینہ آیا تو میں نے حضرت زید بن ثابت کو علم وراثت کے ماہرین میں ایک پایا۔ امام احمد ارشاد فرماتے ہیں میں نے ابوشہاب سے دریافت کیا حضرت زید نے اس بارے میں کیا فتوی دیا ہے تو انہوں نے جواب دیا ان بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کا حصہ قرار دیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ عَنْ إِسْمَعِيلَ قَالَ ذَكَرْنَا عِنْدَ حَكِيمِ بْنِ جَابِرٍ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ فِي أَخَوَاتٍ لِأَبٍ وَأُمٍّ وَإِخْوَةٍ وَأَخَوَاتٍ لِأَبٍ أَنَّهُ كَانَ يُعْطِي لِلْأَخَوَاتِ مِنْ الْأَبِ وَالْأُمِّ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلذُّكُورِ دُونَ الْإِنَاثِ فَقَالَ حَكِيمٌ قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَرِثَ الرِّجَالُ دُونَ النِّسَاءِ إِنَّ إِخْوَتَهُنَّ قَدْ رُدُّوا عَلَيْهِنَّ-
اسماعیل بیان کرتے ہیں ہم نے حکیم بن جابر کے پاس یہ بات ذکر کی کہ حضرت ابن مسعود سگی بہنوں اور باپ کی طرف والے بہن بھائیوں کے بارے میں یہ فتوی دیتے ہیں کہ سگی بہنوں کو دو تہائی حصہ ملے گا اور باقی بچ جانے والا مال باپ کی طرف سے بھائیوں کو ملے گا باپ کو کچھ نہیں ملے گا تو حکیم نے جواب دیا حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں یہ زمانہ جاہلیت کا کام ہے کہ مردوں کو وارث قرار دیا جائے۔ اور عورتوں کو نہ دیا جائے وہ بہنیں دوسری بہنوں کو وراثت میں شریک کریں گی۔
-
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي سَهْلٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يَقُولُ فِي بِنْتٍ وَبَنَاتِ ابْنٍ وَابْنِ ابْنٍ إِنْ كَانَتْ الْمُقَاسَمَةُ بَيْنَهُمْ أَقَلَّ مِنْ السُّدُسِ أَعْطَاهُمْ السُّدُسَ وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ مِنْ السُّدُسِ أَعْطَاهُمْ السُّدُسَ-
شعبی بیان کرتے ہیں بیٹی اور پوتی اور پوتے کے بارے میں حضرت ابن مسعود یہ فرماتے ہیں ان کے درمیان باہمی تقسیم اگر چھٹے حصے سے کم ہو تو انہیں چھٹاحصہ دیا جائے گا اور اگر وہ چھٹے حصے سے زیادہ ہو تو بھی انہیں صرف چھٹا حصہ دیا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّهُ كَانَ يُشَرِّكُ فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ هَلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَثْبَتُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ لَا وَلَكِنِّي رَأَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَأَهْلَ الْمَدِينَةِ يُشَرِّكُونَ فِي ابْنَتَيْنِ وَبِنْتِ ابْنٍ وَابْنِ ابْنٍ وَأُخْتَيْنِ-
ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں مسروق انہیں وراثت میں شریک قرار دیا کرتے تھے علقمہ نے ان سے کہا کیا حضرت عبداللہ سے بڑا عالم بھی کوئی ہے انہوں نے جواب دیا نہیں لیکن میں نے حضرت زید بن ثابت اور اہل مدینہ کو دیکھا ہے کہ وہ اس بارے میں بیٹیوں کے ہمراہ پوتی اور پوتے اور بہنوں کو وراثت میں شریک قرار دیتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ شُرَيْحٍ فِي امْرَأَةٍ تَرَكَتْ زَوْجَهَا وَأُمَّهَا وَأُخْتَهَا لِأَبِيهَا وَأُمِّهَا وَأُخْتَهَا لِأَبِيهَا وَإِخْوَتَهَا لِأُمِّهَا جَعَلَهَا مِنْ سِتَّةٍ ثُمَّ رَفَعَهَا فَبَلَغَتْ عَشْرَةً لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ثَلَاثَةُ أَسْهُمٍ وَلِلْأُخْتِ مِنْ الْأَبِ وَالْأُمِّ النِّصْفُ ثَلَاثَةُ أَسْهُمٍ وَلِلْأُمِّ السُّدُسُ سَهْمٌ وَلِلْإِخْوَةِ مِنْ الْأُمِّ الثُّلُثُ سَهْمَانِ وَلِلْأُخْتِ مِنْ الْأَبِ سَهْمٌ تَكْمِلَةُ الثُّلُثَيْنِ-
قاضی شریح لیثی عورت کے بارے میں فرماتے تھے جس نے پسماندگان میں شوہر ماں، سگی بہن اور باپ کی طرف سے شریک بہن اور ماں کی طرف سے شریک بھائی چھوڑے ہوں۔ قاضی صاحب یہ تقسیم چھ سے شروع کرتے تھے۔ پھر اسے بڑھا کر دس تک لے آتے تھے جس میں سے شوہر کو نصف حصہ دیتے ہیں جوتین حصے ہیں سگی بہن کو نصف دیتے ہیں۔ یہ تین حصے ہیں۔ ماں کو چھٹاحصہ دیتے ہیں جو ایک حصہ ہے ماں کی طرف سے شریک بھائیوں کو ایک تہائی حصہ دیتے ہیں یہ دوحصے ہیں اور باپ کی طرف سے شریک بہن کو ایک حصہ دیتے ہیں یوں دوتہائی حصے کو مکمل کر دیتے ہیں۔
-