TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
سنن دارمی
مقدمہ دارمی
آپ کے کھانے میں برکت کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بزرگی عطا کی گئی۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَيْمَنَ الْمَكِّيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ أَرْوِيهِ عَنْكَ فَقَالَ جَابِرٌ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفُرُهُ فَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْهِ فَعَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ كُدْيَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ كُدْيَةٌ قَدْ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ فَرَشَشْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ أَوْ الْمِسْحَاةَ ثُمَّ سَمَّى ثَلَاثًا ثُمَّ ضَرَبَ فَعَادَتْ كَثِيبًا أَهْيَلَ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ايْذَنْ لِي قَالَ فَأَذِنَ لِي فَجِئْتُ امْرَأَتِي فَقُلْتُ ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ فَقُلْتُ قَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَا صَبْرَ لِي عَلَيْهِ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَتْ عِنْدِي صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَعَنَاقٌ قَالَ فَطَحَنَّا الشَّعِيرَ وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ وَسَلَخْتُهَا وَجَعَلْتُهَا فِي الْبُرْمَةِ وَعَجَنْتُ الشَّعِيرَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَبِثْتُ سَاعَةً ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُهُ الثَّانِيَةَ فَأَذِنَ لِي فَجِئْتُ فَإِذَا الْعَجِينُ قَدْ أَمْكَنَ فَأَمَرْتُهَا بِالْخَبْزِ وَجَعَلْتُ الْقِدْرَ عَلَى الْأَثَاثِي قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّمَا هِيَ الْأَثَافِيُّ وَلَكِنْ هَكَذَا قَالَ ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عِنْدَنَا طُعَيِّمًا لَنَا فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَقُومَ مَعِي أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ مَعَكَ فَقَالَ وَكَمْ هُوَ قُلْتُ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَعَنَاقٌ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ وَقُلْ لَهَا لَا تَنْزِعْ الْقِدْرَ مِنْ الْأَثَافِيِّ وَلَا تُخْرِجْ الْخُبْزَ مِنْ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ قُومُوا إِلَى بَيْتِ جَابِرٍ قَالَ فَاسْتَحْيَيْتُ حَيَاءً لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ قَدْ جَاءَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ فَقَالَتْ أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَكَ كَمْ الطَّعَامُ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَدْ أَخْبَرْتَهُ بِمَا كَانَ عِنْدَنَا قَالَ فَذَهَبَ عَنِّي بَعْضُ مَا كُنْتُ أَجِدُ وَقُلْتُ لَقَدْ صَدَقْتِ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ لَا تَضَاغَطُوا ثُمَّ بَرَّكَ عَلَى التَّنُّورِ وَعَلَى الْبُرْمَةِ قَالَ فَجَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنْ التَّنُّورِ الْخُبْزَ وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنْ الْبُرْمَةِ فَنُثَرِّدُ وَنَغْرِفُ لَهُمْ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَجْلِسْ عَلَى الصَّحْفَةِ سَبْعَةٌ أَوْ ثَمَانِيَةٌ فَإِذَا أَكَلُوا كَشَفْنَا عَنْ التَّنُّورِ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ فَإِذَا هُمَا أَمْلَأُ مَا كَانَا فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ وَجَدْنَاهُمَا أَمْلَأَ مَا كَانَا حَتَّى شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ كُلُّهُمْ وَبَقِيَ طَائِفَةٌ مِنْ الطَّعَامِ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْهُمْ مَخْمَصَةٌ فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا فَلَمْ نَزَلْ يَوْمَنَا ذَلِكَ نَأْكُلُ وَنُطْعِمُ قَالَ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُمْ كَانُوا ثَمَانَ مِائَةٍ أَوْ قَالَ ثَلَاثَ مِائَةٍ قَالَ أَيْمَنُ لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا قَالَ-
عبدالواحد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں نے حضرت جابربن عبداللہ سے عرض کی کہ آپ مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہو۔ تاکہ میں اسے آپ کے حوالے سے روایت کرسکوں۔ حضرت جابر نے جواب دیا : غزوہ خندق کے موقع پر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کھود رہے تھے۔ تین دن تک ہم نے کھانا نہیں کھایا۔ کھانے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ خندق میں ایک سخت پتھر آگیا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ یہ ایک پتھر آگیا ہے جو خندق میں ہے۔ ہم نے اس پر پانی چھڑکا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا آپ نے پھاؤڑے یا شاید کدال کو پکڑا اور تین مرتبہ اللہ کا نام لے کر ضرب لگائی تو وہ ریت کے ٹیلے کی مانند ہوگیا۔ جب میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت دیکھی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول۔ آپ اجازت دیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ نے مجھے اجازت دی میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تمہاری ماں تمہیں روئے۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عالم میں دیکھا کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا کیا تمہارے پاس کھانا پکانے کے لیے کچھ ہے۔ اس نے جواب دیا۔ میرے پاس جو کا ایک صاع ہے۔ اور ایک بکری کا بچہ ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس جو کو پیسا اور اس بکری کو ذبح کیا میں نے اس کی کھال اتاری اور اسے ہنڈیا میں رکھ دیا میں نے اس جو کو گوندھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں واپس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کچھ دیر وہاں رہنے کے بعد میں نے آپ سے اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت عطا کردی۔ میں گھر آیا وہ آٹا ٹھہر چکا تھا میں نے اپنی بیوی کو روٹی پکانے کا حکم دیا اور ہنڈیا کوچولہے پر رکھ دیا۔ امام ابوعبدالرحمن کہتے ہیں روایت کا صحیح لفظ اثافی ہے تاہم اس روایت میں یہی منقول ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہمارے ہاں تھوڑا سا کھانا موجود ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ میرے ساتھ چلیں آپ کے ساتھ ایک یا دو اور صاحبان ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ کھانا کتنا ہے میں نے عرض کیا جو کا ایک صاع اور ایک بکری کا بچہ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اپنی بیوی کے پاس واپس جاؤ اور اسے یہ ہدایت کردو کہ چولہے سے ہنڈیا نہ اتارنا جب تک میں نہ آجاؤں تندور سے روٹیاں بھی نہ نکالے۔ پھر آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جابر رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف چلو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے اتنی حیا محسوس ہوئی کہ اس کا علم اللہ ہی کوہوسکتا ہے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہاری ماں تمہیں روئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اصحاب کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں میری بیوی نے مجھ سے دریافت کیا کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ کھانا کتنا ہے میں نے جواب دیا ہاں۔ وہ بولی اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ علم رکھتے ہیں۔ تم نے انہیں بتادیا تھا کہ ہمارے پاس کتنا کھانا موجود ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں یہ سن کر میری الجھن کچھ کم ہوئی اور میں نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ اندر تشریف لائے۔ پھر آپ نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا ہجوم کی شکل میں نہ آؤ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تندور کے پاس اور ہنڈیا کے پاس بیٹھ گئے اور برکت کی دعا کی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نے تندور میں سے روٹیاں نکالنی شروع کی اور ہنڈیا میں سے گوشت نکالنا شروع کیا اور اس کا ثرید بنانا شروع کردیا اور لوگوں کو ڈال کردینا شروع کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ایک پیالے کے اوپر سات یا آٹھ افراد بیٹھ جائیں تو ہم نے تندور سے پردہ ہٹایا اور ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا۔ وہ پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے۔ ہم اسی طرح کرتے رہے جب بھی ہم تندور کھولتے ہنڈیا سے ڈھکن اٹھاتے وہ پہلے سے زیادہ بھرا ہوا پاتے۔ یہاں تک کہ تمام مسلمانوں نے کھانا کھالیا اور کچھ کھانا پھر باقی رہ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہا لوگ فاقہ کشی کا شکار تھے اس لیے میں انہیں اپنے ساتھ لے آیا اب تم کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اس دن کے بعد ہم خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا اس وقت ان لوگوں کی تعداد آٹھ سو تھی۔ (راوی کو شک ہے یا شاید) یہ الفاظ ہیں تین سو تھی۔ ایمن نامی راوی کہتے ہیں مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا لفظ منقول تھا۔
-
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ أَنْ تَجْعَلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا يَأْكُلُ مِنْهُ قَالَ ثُمَّ بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ بَعَثَنِي إِلَيْكَ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ لِلْقَوْمِ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ مَعَهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا صَنَعْتُ طَعَامًا لِنَفْسِكَ خَاصَّةً فَقَالَ لَا عَلَيْكَ انْطَلِقْ قَالَ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَسَمَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ قَالَ فَأَذِنَ لَهُمْ فَقَالَ كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ قَامُوا ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ كَمَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى وَسَمَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَقَالَ كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ قَامُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا قَالَ وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكُوا سُؤْرًا-
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں حضرت ابوطلحہ نے اپنی اہلیہ ام سلیم کو ہدایت کی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کریں تاکہ آپ اسے کھاسکیں۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں۔ پھر حضرت ابوطلحہ نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ حضرت ابوطلحہ نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاس موجود حضرات کو حکم دیا اٹھو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے۔ آپ کے ساتھ دیگرحاضرین بھی تھے۔ (جب آپ تشریف لائے) تو حضرت ابوطلحہ نے عرض کی'یا رسول اللہ میں نے تو آپ کے لئے کھانا پکایا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : تم پریشان نہ ہو۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے لوگ بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں جب کھانا لایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس اس پر رکھا اور اس پر بسم اللہ پڑھ کرارشاد فرمایا دس آدمیوں کو اندر آنے دو۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں حضرت طلحہ نے دس آدمیوں کو اندر آنے دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو۔ ان لوگوں نے کھانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے اور اٹھ کرچلے گئے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس رکھ کر وہی عمل کیا جو پہلے کیا تھا اور اس پر اللہ کا نام لیا۔ پھر ارشاد فرمایا دس آدمیوں کوا ندر آنے کے لیے کہو۔ حضرت ابوطلحہ انہیں اندر لے آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو۔ ان لوگوں نے کھانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ سیر ہوگئے تو اٹھ کرچلے گئے۔ یہاں تک کہ اسی(80) افراد نے کھانا کھالیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور گھر میں موجود تمام افراد نے بھی وہ کھانا کھایا پھر بھی باقی بچ گیا۔
-
أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّهُ طَبَخَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا فَقَالَ لَهُ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ وَكَانَ يُعْجِبُهُ الذِّرَاعُ فَنَاوَلَهُ الذِّرَاعَ ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ فَنَاوَلَهُ ذِرَاعًا ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَكَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَنْ لَوْ سَكَتَّ لَأُعْطِيتُ أَذْرُعًا مَا دَعَوْتُ بِهِ-
حضرت ابوعبید بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ہنڈیا میں کھانا تیار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تم ایک پائے کی بوٹی دو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پائے کی بوٹی پسند تھی۔ حضرت ابوعبید نے پائے کی بوٹی ان کی طرف بڑھا دی۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ایک پائے کی بوٹی مجھے دو۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی ایک بکری کے کتنے پائے ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اگر تم خاموش رہتے توجب تک میں تم سے پائے مانگتا رہتاتم دیتے رہتے۔
-
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ لِيُقَاتِلَهُمْ فَقَالَ أَبِي عَبْدُ اللَّهِ يَا جَابِرُ لَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ فِي نَظَّارِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَتَّى تَعْلَمَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُنَا فَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أَتْرُكُ بَنَاتٍ لِي بَعْدِي لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَيْنَ يَدَيَّ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي النَّظَّارِينَ إِذْ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي وَخَالِي لِتَدْفِنَهُمَا فِي مَقَابِرِنَا فَلَحِقَ رَجُلٌ يُنَادِي إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَرُدُّوا الْقَتْلَى فَتَدْفِنُوهَا فِي مَضَاجِعِهَا حَيْثُ قُتِلَتْ فَرَدَدْنَاهُمَا فَدَفَنَّاهُمَا فِي مَضْجَعِهِمَا حَيْثُ قُتِلَا فَبَيْنَا أَنَا فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ فَقَالَ يَا جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ لَقَدْ أَثَارَ أَبَاكَ عُمَّالُ مُعَاوِيَةَ فَبَدَا فَخَرَجَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي دَفَنْتُهُ لَمْ يَتَغَيَّرْ إِلَّا مَا لَمْ يَدَعْ الْقَتِيلَ قَالَ فَوَارَيْتُهُ وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي التَّقَاضِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أُصِيبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا وَإِنَّهُ تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ وَإِنَّهُ قَدْ اشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي الطَّلَبِ فَأُحِبُّ أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ لَعَلَّهُ أَنْ يُنْظِرَنِي طَائِفَةً مِنْ تَمْرِهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ نَعَمْ آتِيكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ النَّهَارِ قَالَ فَجَاءَ وَمَعَهُ حَوَارِيُّوهُ قَالَ فَجَلَسُوا فِي الظِّلِّ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْنَا قَالَ وَقَدْ قُلْتُ لِامْرَأَتِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائِيَّ الْيَوْمَ وَسَطَ النَّهَارِ فَلَا يَرَيَنَّكِ وَلَا تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ وَلَا تُكَلِّمِيهِ فَفَرَشَتْ فِرَاشًا وَوِسَادَةً وَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ فَقُلْتُ لِمَوْلًى لِي اذْبَحْ هَذِهِ الْعَنَاقَ وَهِيَ دَاجِنٌ سَمِينَةٌ فَالْوَحَى وَالْعَجَلَ افْرُغْ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَسْتَيْقِظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَكَ فَلَمْ نَزَلْ فِيهَا حَتَّى فَرَغْنَا مِنْهَا وَهُوَ نَائِمٌ فَقُلْتُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَسْتَيْقِظُ يَدْعُو بِطَهُورِهِ وَأَنَا أَخَافُ إِذَا فَرَغَ أَنْ يَقُومَ فَلَا يَفْرُغَ مِنْ طُهُورِهِ حَتَّى يُوضَعَ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ قَالَ يَا جَابِرُ ايْتِنِي بِطَهُورٍ قَالَ نَعَمْ فَلَمْ يَفْرُغْ مِنْ وُضُوئِهِ حَتَّى وُضِعَتْ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَقَالَ كَأَنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ حُبَّنَا اللَّحْمِ ادْعُ أَبَا بَكْرٍ ثُمَّ دَعَا حَوَارِيِّيهِ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوُضِعَ قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ كُلُوا فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَ مِنْهَا لَحْمٌ كَثِيرٌ وَقَالَ وَاللَّهِ إِنَّ مَجْلِسَ بَنِي سَلَمَةَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِمْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ أَعْيُنِهِمْ مَا يَقْرَبُونَهُ مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذُوهُ ثُمَّ قَامَ وَقَامَ أَصْحَابُهُ فَخَرَجُوا بَيْنَ يَدَيْهِ وَكَانَ يَقُولُ خَلُّوا ظَهْرِي لِلْمَلَائِكَةِ قَالَ فَاتَّبَعْتُهُمْ حَتَّى بَلَغْتُ سَقُفَّةَ الْبَابِ فَأَخْرَجَتْ امْرَأَتِي صَدْرَهَا وَكَانَتْ سَتِيرَةً فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ ثُمَّ قَالَ ادْعُوا لِي فُلَانًا لِلْغَرِيمِ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيَّ فِي الطَّلَبِ فَقَالَ أَنْسِ جَابِرًا طَائِفَةً مِنْ دَيْنِكَ الَّذِي عَلَى أَبِيهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ قَالَ وَاعْتَلَّ وَقَالَ إِنَّمَا هُوَ مَالُ يَتَامَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ جَابِرٌ قَالَ قُلْتُ أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كِلْ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا الشَّمْسُ قَدْ دَلَكَتْ قَالَ الصَّلَاةُ يَا أَبَا بَكْرٍ قَالَ فَانْدَفَعُوا إِلَى الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ لِغَرِيمِي قَرِّبْ أَوْعِيَتَكَ فَكِلْتُ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِهِ كَأَنِّي شَرَارَةٌ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كِلْتُ لِغَرِيمِي تَمْرَهُ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ فَجَاءَ يُهَرْوِلُ قَالَ سَلْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَتَمْرِهِ قَالَ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ إِذْ أَخْبَرْتَ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَدَّدَ عَلَيْهِ وَرَدَّدَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْكَلِمَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ وَكَانَ لَا يُرَاجَعُ بَعْدَ الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ فَقَالَ مَا فَعَلَ غَرِيمُكَ وَتَمْرُكَ قَالَ قُلْتُ وَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَرَجَعْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكِ أَنْ تُكَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَقَالَتْ تَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُورِدُ نَبِيَّهُ فِي بَيْتِي ثُمَّ يَخْرُجُ وَلَا أَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي-
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو میرے والد عبداللہ نے کہا اے جابر رضی اللہ عنہ تم کو اس میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ تم مدینہ کے مخالفین میں شامل ہو ۔ یہاں تک تمہیں اس بات کا پتہ چل جائے کہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اللہ کی قسم اگر میں نے اپنے بعد بیٹیاں نہ چھوڑی ہوتیں تو مجھے یہ بات پسند تھی کہ تم میرے سامنے شہید ہوتے۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں میں مدینہ کے مخالفین میں شامل تھا۔ جب میری پھوپھی میرے والد اور میرے ماموں(کی میت) کے ساتھ آئیں تا کہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ایک شخص نے یہ اعلان کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی ہے کہ تم مقتولین کو واپس لے جاؤ اور انہیں اسی جگہ پر دفن کرو جہاں وہ شہید ہوئے ہیں۔ ہم ان دونوں کو واپس لے گئے اور ان دونوں حضرات کو وہیں دفن کیا جہاں وہ شہید ہوئے تھے ( حضرت جابر بیان کرتے ہیں) میں حضرت معاویہ بن ابوسفیان کے عہد خلافت میں ایک شخص میرے پاس آ یا اور بولا اے جابر بن عبداللہ حضرت معاویہ کے سرکاری اہلکاروں نے آپ کے والد کی قبر سے مٹی ہٹادی ہے۔ جس سے میت ظاہر ہو ئی ہے۔ لوگوں میں سے بہت سے لوگ نکلے میں بھی وہاں گیا تو میں نے انہیں اسی حالت میں پایا جس حالت میں انہیں دفن کیا تھا اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آ ئی تھی'سوائے اس کے کہ قتل کی وجہ سے جوتبدیلی آنی تھی حضرت جابر کہتے ہیں میں نے ان کی قبر کو ڈھانپ دیا۔ میرے والد نے اپنے ذمہ کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا تھا قرض خواہوں نے مجھ سے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد فلاں موقع پر شہید ہوگئے انہوں نے کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا ہے قرض خواہ مجھ سے شدت سے تقاضا کر رہے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے میں میری مدد کیجیے تاکہ قرض خواہ اگلی آنیوالی پیدوار تک میرے ساتھ کچھ نرمی کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو میں دوپہر کے قریب کسی وقت تمہارے پاس آؤں گا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں آپ تشریف لائے آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی تھے یہ سب حضرات سائے میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی اور پھر آپ اندر تشریف لائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے اپنی اہلیہ سے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت تشریف لائیں گے وہ تمہیں(یعنی تمہاری طرف سے کوئی ناخوشگوار بات) نہ دیکھیں گے اور تم اللہ کے رسول کو کوئی اذیت نہ ہونے دینا اور تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہونے دینا اور ان سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس عورت نے ایک بچھونا بچھا دیا اور ایک تکیہ رکھ دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا سر رکھا اور سو گئے۔ میں نے اپنے غلام سے کہا اس بکری کو ذبح کرو۔ یہ موٹی اور صحت مند بکری تھی اور جلدی کرنا تیزی کے ساتھ۔ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہونے سے پہلے اس کام سے فارغ ہوجانا میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ہم نے یہ کام کیا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول جب بیدار ہوں گے تو وہ وضو کے لیے پانی مانگیں گے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ جب وہ فارغ ہوں گے تواٹھ کرچلیں جائیں گے۔ لہذا وہ جتنی دیر میں وضو کرکے فارغ ہوتے ہیں بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا جائے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیداہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا اے جابر رضی اللہ عنہ وضو کے لیے پانی لاؤ میں نے عرض کیا جی ہاں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وضو کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا گیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا تمہیں پتا ہے کہ مجھے گوشت پسند ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلاؤ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو بلایا حضرت جابر بیان کرتے ہیں کھانا لا کر رکھ دیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک رکھا اور ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کھانا شروع کرو ان حضرات نے کھانا شروع کیا وہ سیر ہوگئے پھر بھی اس میں سے بہت سا گوشت باقی بچ گیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم بنوسلمہ کی محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے یہ بات ان کے نزدیک ان کی آنکھوں سے زیادہ عزیز تھی وہ آپ کے قریب اس لیے نہیں آتے تھے کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے آپ کے ساتھی بھی کھڑے ہوئے وہ حضرات آپ کے آگے نکلے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے پیچھے والی جگہ فرشتوں کے لیے چھوڑ دیا کرو ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ان کے پیچھے میں بھی آیا۔ یہاں تک کہ جب ہم دروازے کی چوکھٹ تک پہنچے تو میری بیوی نے سر باہر نکال کر کہا حالانکہ وہ پردہ دار عورت تھی اے اللہ کے رسول آپ میرے لیے اور میرے شوہر کے لیے دعائے برکت کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہارے شوہر پر برکت نازل کرے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فلاں شخص کو بلا کر لاؤ یہ آپ نے قرض خواہ کے لیے کہا جس نے مجھ سے سختی سے مطالبہ کیا تھا پھر آپ نے حکم دیا تم جابر کو اپنے قرض میں سے کچھ چھوٹ دو جو اس کے والد کے ذمہ واجب الاداء تھا اور یہ چھوٹ اگلی پیدوار تک ہوگی اس نے عرض کیا میں یہ نہیں کرسکوں گا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس نے کوئی عذر بیان کیا اور بولا کہ یہ یتیموں کا مال ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا جابر (رضی اللہ عنہ) کہاں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہاں ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے ناپ کر دیدو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کھجوروں کو پورا کردے گا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا سورج ڈھل چکا تھا آپ نے فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کا وقت ہوگیا ہے پھر یہ حضرات مسجد کی طرف تشریف لے گئے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا تم اپنا برتن آگے لاؤ میں نے اسے ناپ کر عجوہ کھجور دیدیں تو اللہ نے ان کھجوروں کو وہیں پورا کردیا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ڈورتا ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا یوں جیسے کوئی شعلہ ہوتا ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے اپنے قرض خواہ کو ناپ کر اس کی کھجوریں دے دیں ہیں ۔ اللہ نے انہیں پورا کردیا تھا پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ عمر بن خطاب کہاں ہیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ تیزی سے چلتے ہوئے آئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جابر رضی اللہ عنہ سے اس کے قرض خواہ اور کھجوروں کا معاملہ دریافت کرو۔ حضرت عمر نے عرض کی میں یہ نہیں پوچھوں گا۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اللہ انہیں پورا کردے گا یہ اسی وقت پتا چل گیا تھا جب آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ اس کو پورا کردے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی اور حضرت عمر نے ہر مرتبہ یہی کہا کہ میں نہیں پوچھوں گا پھر انہوں نے دریافت کیا کہ تمہارے قرض خواہ اور کھجوروں کا کیا معاملہ ہوا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بتایا اللہ نے انہیں پورا کردیا تھا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں اپنی اہلیہ کے پاس واپس آیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کے ساتھ کلام نہیں کرو گی وہ عورت بولی کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اللہ اپنے نبی کو ہمارے ہاں لائے اور پھر وہ واپس تشریف لے جائیں اور میں ان سے اپنے بارے میں اور اپنے شوہر کے بارے میں دعائے رحمت کے لیے نہ کہوں۔
-