TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
سنن ابوداؤد
وصیتوں کا بیان
وقف کا بیان
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ فَکَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُوَرَّثُ لِلْفُقَرَائِ وَالْقُرْبَی وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَزَادَ عَنْ بِشْرٍ وَالضَّيْفِ ثُمَّ اتَّفَقُوا لَا جُنَاحَ عَلَی مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْکُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ زَادَ عَنْ بِشْرٍ قَالَ وَقَالَ مُحَمَّدٌ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا-
مسدد، یزید بن زریع، مسدد، بشر بن مفضل، مسدد، یحیی، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ (ان کے والد) حضرت عمر کو خیبر میں ایک زمین ملی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ایک ایسی زمین ملی ہے جس سے بہتر مجھے کبھی نہ ملی تھی۔ اس کے بارے میں آپکا کیا حکم ہے؟ (یعنی کیا میں اسے صدقہ کردوں؟ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو زمین کی ملکیت روک لے اور اس کے نفع کو صدقہ کر دے۔ پس حضرت عمر نے اس کے نفع کو صدقہ کر دیا۔ (اسی کا نام وقف ہے) اس شرط پر کہ اصل زمین کو نہ بیچا جائے گا اور نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ وارثت میں منتقل کیا جائے گا بلکہ اس سے نفع اٹھائیں فقیر رشتہ دار غلام اپنی آزادی میں اور مسافر اور مجاہد اور بشر کی روایت میں مہمان کا بھی اضافہ ہے۔ پھر سب راوی متفق ہو گئے کہ جو شخص اس کا متولی ہے وہ معروف طریقہ پر اس میں سے کھا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ان دوستوں کو بھی کھلائے جو مالدار نہ ہوں۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ اس میں سے مال جمع کرنے والے نہ ہوں۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بِنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ صَدَقَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَسَخَهَا لِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا کَتَبَ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فِي ثَمْغٍ فَقَصَّ مِنْ خَبَرِهِ نَحْوَ حَدِيثِ نَافِعٍ قَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا فَمَا عَفَا عَنْهُ مِنْ ثَمَرِهِ فَهُوَ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ قَالَ وَسَاقَ الْقِصَّةَ قَالَ وَإِنْ شَائَ وَلِيُّ ثَمْغٍ اشْتَرَی مِنْ ثَمَرِهِ رَقِيقًا لِعَمَلِهِ وَکَتَبَ مُعَيْقِيبٌ وَشَهِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَرْقَمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا أَوْصَی بِهِ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ أَنَّ ثَمْغًا وَصِرْمَةَ بْنَ الْأَکْوَعِ وَالْعَبْدَ الَّذِي فِيهِ وَالْمِائَةَ سَهْمٍ الَّتِي بِخَيْبَرَ وَرَقِيقَهُ الَّذِي فِيهِ وَالْمِائَةَ الَّتِي أَطْعَمَهُ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَادِي تَلِيهِ حَفْصَةُ مَا عَاشَتْ ثُمَّ يَلِيهِ ذُو الرَّأْيِ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ لَا يُبَاعَ وَلَا يُشْتَرَی يُنْفِقُهُ حَيْثُ رَأَی مِنْ السَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ وَذَوِي الْقُرْبَی وَلَا حَرَجَ عَلَی مَنْ وَلِيَهُ إِنْ أَکَلَ أَوْ آکَلَ أَوْ اشْتَرَی رَقِيقًا مِنْهُ-
سلیمان بن داؤد، ابن وہب، لیث، حضرت یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ مجھے عبدالحمید نے حضرت عمر کے صدقہ کی کتاب کی نقل کر کے دی جو کہ بیٹے ہیں عبداللہ بن عمر بن الخطاب کے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ کے بندے عمر نے ثمغ کے متعلق تحریر کی (حضرت عمر کے وقف کردہ باغ یا زمین کا نام ثمغ تھا) پھر راوی نے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا جس طرح حدیث بالا میں نافع نے بیان کیا ہے یعنی نہ مال جوڑنے والے ہوں اس سے اور جو پھل اس کے گریں وہ فقیروں کے ہیں۔ اس کے بعد قصّہ کو بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر ثمغ کا متولی چاہے تو اس کے پھلوں کے بدلہ میں کام کے واسطے کوئی غلام خرید لے (یعنی باغ کی رکھوالی اور اس کے دوسرے کام انجام دینے کے لیے) اور اس کو لکھا معیقیت نے اور گواہی دی اس پر عبداللہ بن ارقم نے کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے یہ وہ وصیت نامہ ہے جس کی وصت اللہ کے بندے عمر نے کی جو امیرالمومنین ہیں کہ اگر مجھ پر کوئی حادثہ ہو جائے (یعنی میری وفات ہو جائے) تو ثمغ اور صرمہ بن الاکوع اور جو غلام وہاں ہے اور خیبر کے میرے سو حصے اور جو غلام وہاں ہیں اور سو حصے وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو دیئے تھے اس وادی میں جو خیبر کے قریب ہے ان سب کی متولی تاحیات حفصہ رہے گی (حضرت عمر کی بیٹی اور آنحضرت کی زوجہ مطہرہ) پھر اس کے بعد وہ شخص جو صاحب رائے ہو اسکے خاندان والوں میں سے اس شرط پر کہ یہ مال نہ بیچا جائے اور نہ خریدا جائے بلکہ اس کو جہاں مناسب سمجھے فقیروں ناداروں اور عزیزوں میں اس کو صرف کردے اور جو شخص اس کا متولی ہو اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے وہ اس میں سے کھائے یا کھلائے اور یہ کہ اس کی آمدنی سے اس حفاظت اور خدمت کے واسطے کوئی غلام خریدے۔
-