TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
سنن ابوداؤد
فرائض کا بیان
ناتہ کی میراث نے اقرار کی میراث کو موقوف کردیا
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُکُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ کَانَ الرَّجُلُ يُحَالِفُ الرَّجُلَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا نَسَبٌ فَيَرِثُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ فَنَسَخَ ذَلِکَ الْأَنْفَالُ فَقَالَ تَعَالَی وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ-
احمد بن محمد، علی بن حسین، ان کے والد، یزید نحوی، عکرمہ، حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے) جن لوگوں سے تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو ان کا حصہ دو۔ پہلے زمانہ میں (اسلام کے ابتدائی دور میں) یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص ایسے شخص سے قسم کھا لیتا جس سے اس کی قرابت داری نہ ہوتی تو وہ اس قسم کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث قرار پاتے پھر بعد میں سورت انفال کی اس آیت ( وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ) 33۔ الاحزاب : 6) سے یہ دستور منسوخ ہو گیا۔ (اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرابت والے ایک دوسرے کے مال کے حقدار ہیں)
-
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنِي إِدْرِيسُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ مُصَرِّفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَی وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُکُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ قَالَ کَانَ الْمُهَاجِرُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ تُوَرَّثُ الْأَنْصَارَ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَکَ قَالَ نَسَخَتْهَا وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُکُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ مِنْ النَّصْرِ وَالنَّصِيحَةِ وَالرِّفَادَةِ وَيُوصِي لَهُ وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ-
ہارون بن عبد اللہ، ابواسامہ، ادریس بن یزید، طلحہ بن مصرف، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو یہ ارشاد ہے جن لوگوں سے تم نے قسمیں جھائی ہیں انکو ان کا حصہ دو۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو وہ (یعنی مہاجرین) انصار کے مال کے وارث ہوتے تھے علاوہ ان کے رشتہ داروں کے اور یہ حکم اس مواخاة (بھائی چارہ) کی بنیاد پر تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے درمیان قائم کرایا تھا لیکن جب یہ آیت۔ ہم نے ہر ایک کے وارث بنائے اس مال میں جو والدین چھوڑ جائیں۔ اتری تو اس سے یہ آیت۔ جن لوگوں سے تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو ان کا حصہ دو۔ منسوخ ہوگئی ان کا یہ حصہ مدد نصیحت اور رفاقت کی غرض سے تھا۔ اب ان کی میراث ختم ہوگئی البتہ ان کے لیے (تہائی مال میں) وصیت کی جا سکتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَی الْمَعْنَی قَالَ أَحْمَدُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ قَالَ کُنْتُ أَقْرَأُ عَلَی أُمِّ سَعْدٍ بِنْتِ الرَّبِيعِ وَکَانَتْ يَتِيمَةً فِي حِجْرِ أَبِي بَکْرٍ فَقَرَأْتُ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُکُمْ فَقَالَتْ لَا تَقْرَأْ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُکُمْ إِنَّمَا نَزَلَتْ فِي أَبِي بَکْرٍ وَابْنِهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حِينَ أَبَی الْإِسْلَامَ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ أَلَّا يُوَرِّثَهُ فَلَمَّا أَسْلَمَ أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَی نَبِيَّهُ عَلَيْهِ السَّلَام أَنْ يُؤْتِيَهُ نَصِيبَهُ زَادَ عَبْدُ الْعَزِيزِ فَمَا أَسْلَمَ حَتَّی حُمِلَ عَلَی الْإِسْلَامِ بِالسَّيْفِ قَالَ أَبُو دَاوُد مَنْ قَالَ عَقَدَتْ جَعَلَهُ حِلْفًا وَمَنْ قَالَ عَاقَدَتْ جَعَلَهُ حَالِفًا قَالَ وَالصَّوَابُ حَدِيثُ طَلْحَةَ عَاقَدَتْ-
احمد بن حنبل اور عبدالعزیز بن یحیی، محمد بن سلمہ ابن اسحاق، حضرت داؤد بن حصین سے روایت ہے کہ میں ام سعد بنت ربیع کے پاس قرآن پڑھتا تھا۔ وہ ایک یتیم لڑکی تھیں جنھوں نے حضرت ابوبکر کی گود میں پرورش پائی تھی۔ پس جب میں نے یہ آیت (وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُکُمْ) 4۔ النساء : 33) پڑھی تو بولیں یہ آیت مت پڑھ (یعنی اس پر عمل مت کر کیونکہ یہ ایک خاص شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی) دراصل یہ آیت حضرت ابوبکر اور ان کے بیٹے عبدالرحمن کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جبکہ عبدالرحمن نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر حضرت ابوبکر نے قسم کھائی کہ میں اس کو اپنا وارث نہ بناؤں گا۔ لیکن جب بعد میں وہ اسلام لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں حکم فرمایا کہ ان کو ان کا حصہ دیا جائے۔ عبدالعزیز کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عبدالرحمن بزور شمشیر مسلمان ہوئے (یعنی جب اسلام کو مکمل غلبہ حاصل ہوا تب اسلام لائے)
-
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا فَکَانَ الْأَعْرَابِيُّ لَا يَرِثُ الْمُهَاجِرَ وَلَا يَرِثُهُ الْمُهَاجِرُ فَنَسَخَتْهَا فَقَالَ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ-
احمد بن محمد، علی بن حسین، ان کے والد، یزید نحوی، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ (پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا کہ) جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور جو لوگ ایمان نہیں لائے اور ہجرت نہیں کی وہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے پس جو مسلمان شخص کافروں کے ملک میں ہوتا وہ مہاجر کا وارث نہ ہوتا اور نہ مہاجر اس کا وارث قرار پاتا اس کے بعد یہ حکم (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ) 33۔ الأحزاب : 6) سے منسوخ ہوگیا۔
-