قیدی پر اسلام کے لئے زبردستی نہ کی جائے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي السِّجِسْتَانِيَّ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَهَذَا لَفْظُهُ ح و حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَتْ الْمَرْأَةُ تَکُونُ مِقْلَاتًا فَتَجْعَلُ عَلَی نَفْسِهَا إِنْ عَاشَ لَهَا وَلَدٌ أَنْ تُهَوِّدَهُ فَلَمَّا أُجْلِيَتْ بَنُو النَّضِيرِ کَانَ فِيهِمْ مِنْ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ فَقَالُوا لَا نَدَعُ أَبْنَائَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا إِکْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنْ الْغَيِّ قَالَ أَبُو دَاوُد الْمِقْلَاتُ الَّتِي لَا يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ-
محمد بن عمر بن علی، اشعث بن عبد اللہ، محمد بن بشار، ابن ابی عدی، حسن بن علی وہب بن جریر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ (زمانہ جاہلیت میں اوس و خزرج کی عورتوں میں یہ دستور تھا کہ) جس عورت کا بچہ زندہ نہ رہتا وہ یہ نذر مان لیتی کہ اگر اس کا بچہ زندہ رہا تو وہ اس کو یہودی بنادے گی جب بنو نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کیا گیا تو ان میں انصار کے وہ بچے بھی تھے جو نذر کے طور پر یہودی بنا دیئے گئے تھے انصار کہنے لگے ہم اپنے لڑکوں کو نہیں جانے دیں گے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے اب ہدایت اور گمراہی الگ الگ ہوچکی ہے (یعنی اگر تمہارے یہ بچے بخوشی اسلام قبول کریں تو تمہارے ساتھ رہ سکتے ہیں ورنہ ان کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو یہودیوں کے ساتھ ہوگا) ابوداد نے کہا مقلاة اس عورت کو کہتے ہیں جس کا بچہ زندہ نہ رہتا ہو۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: When the children of a woman (in pre-Islamic days) did not survive, she took a vow on herself that if her child survives, she would convert it a Jew. When Banu an-Nadir were expelled (from Arabia), there were some children of the Ansar (Helpers) among them. They said: We shall not leave our children. So Allah the Exalted revealed; "Let there be no compulsion in religion. Truth stands out clear from error."