قضاء کے بعض امور کا بیان

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ کَعْبٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا تَدَارَأْتُمْ فِي طَرِيقٍ فَاجْعَلُوهُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ-
مسلم بن ابراہیم، مثنی بن سعید، قتادہ، بشیر بن کعبد سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم راستہ میں آپس میں جھگڑ پڑو تو ساتھ ہاتھ چھوڑ دو۔ (راہ گیروں کے لئے)
Narrated AbuHurayrah: The Prophet (peace_be_upon_him) said: If you dispute over a pathway, leave the margin of seven yards.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ فَلَا يَمْنَعُهُ فَنَکَّسُوا فَقَالَ مَا لِي أَرَاکُمْ قَدْ أَعْرَضْتُمْ لَأُلْقِيَنَّهَا بَيْنَ أَکْتَافِکُمْ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا حَدِيثُ ابْنُ أَبِي خَلَفٍ وَهُوَ أَتَمُّ-
مسدد، ابن ابی خلف، سفیان، زہری، اعرج سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارا (مسلمان) بھائی تمہاری دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت مانگے تو اسے منع نہ کرو۔ یہ ارشاد سن کر لوگوں نے سر جھکائے (گویا کہ اس ارشاد پر ان کی طبیعت میں گرانی آئی) تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے کیا ہو گیا ہے میں لوگوں اس ارشاد سے بے اعتنائی برتتے دیکھ رہا ہوں میں ضرور با الضرور اس کو تمہارے کندھوں کے درمیان ڈالتا رہوں گا امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ روایت ابن ابی خلف کی ہے۔
-
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ لُؤْلُؤَةَ عَنْ أَبِي صِرْمَةَ قَالَ غَيْرَ قُتَيْبَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي صِرْمَةَ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ ضَارَّ أَضَرَّ اللَّهُ بِهِ وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ-
قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی، محمد بن یحیی بن حبان، لولؤ ابوصرمہ فرماتے ہیں کہ قتیبہ کے علاوہ دوسرے رواة نے اس حدیث میں صاحب النبی کا بھی ذکر کیا ہے سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی کو نقصان پہنچائے گا اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو کسی سے (بغیر کسی شرعی وجہ سے) دشمنی رکھے گا اللہ اس سے دشمنی رکھے گا۔
Narrated AbuSirmah: The Prophet (peace_be_upon_him) said: If anyone harms (others), Allah will harm him, and if anyone shows hostility to others, Allah will show hostility to him.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَکِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَی أَبِي عُيَيْنَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ يُحَدِّثُ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّهُ کَانَتْ لَهُ عَضُدٌ مِنْ نَخْلٍ فِي حَائِطِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ وَمَعَ الرَّجُلِ أَهْلُهُ قَالَ فَکَانَ سَمُرَةُ يَدْخُلُ إِلَی نَخْلِهِ فَيَتَأَذَّی بِهِ وَيَشُقُّ عَلَيْهِ فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يَبِيعَهُ فَأَبَی فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يُنَاقِلَهُ فَأَبَی فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَهُ فَطَلَبَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَهُ فَأَبَی فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يُنَاقِلَهُ فَأَبَی قَالَ فَهِبْهُ لَهُ وَلَکَ کَذَا وَکَذَا أَمْرًا رَغَّبَهُ فِيهِ فَأَبَی فَقَالَ أَنْتَ مُضَارٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِيِّ اذْهَبْ فَاقْلَعْ نَخْلَهُ-
سلیمان بن داؤد، حماد، واصل، ابی عیینہ، ابوجعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ ان کے کچھ کھجور کے درخت ایک انصاری آدمی کے باغ میں تھے جبکہ اس کے ساتھ اس کے گھر والے بھی تھے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت سمرہ اپنے کھجور کے درختوں کے پاس جایا کرتے تھے جس سے اس انصاری کو تکلیف ہوا کرتی تھی اور اسے آنا جانا گراں گزرتا تھا۔ اس واسطے اس انصاری نے حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ کیا کہ درختوں کے بدلے میں دوسرے درخت لے لے لیکن حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر انکار کر دیا، وہ انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سارا قصہ عرض کیا، آپ نے حضرت سمرہ سے فرمایا اچھا ان درختوں کو دوسرے درختوں سے بدل لو، تو سمرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کر دیا، حضور نے فرمایا کہ اچھا پھر انہیں ہبہ کر دو اور ان کے عوض فلاں فلاں چیز لے لو آپ بار بار اسے اس معاملہ پر ترغیب دیتے رہے لین سمرہ نے انکار ہی کیا، چنانچہ حضور نے فرمایا کہ تم دوسرے کو تکلیف پہنچانے والے ہو اور آپ نے انصاری سے کہا کہ جاؤ اور ان کے درخت اکھاڑ کر پھینک دو۔
Narrated Samurah ibn Jundub: Samurah had a row of palm-trees in the garden of a man of the Ansar. The man had his family with him. Samurah used to visit his palm-trees, and the man was annoyed by that and felt it keenly. So he asked him (Samurah) to sell them to him, but he refused. He then asked him to take something else in exchange, but he refused. So he came to the Holy Prophet (peace_be_upon_him) and mentioned it to him. The Holy Prophet (peace_be_upon_him) asked him to sell it to him, but he refused. He asked him to take something else in exchange, but he refused. He then said: Give it to him and you can have such and such, mentioning something with which he tried to please him, but he refused. He then said: You are a nuisance. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) then said to the Ansari: Go and uproot his palm-trees.
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا اللَّيْثِ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلًا خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ سَرِّحْ الْمَائَ يَمُرُّ فَأَبَی عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَی جَارِکَ قَالَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ کَانَ ابْنَ عَمَّتِکَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ اسْقِ ثُمَّ احْبِسْ الْمَائَ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی الْجَدْرِ فَقَالَ الزُّبَيْرُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِکَ فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَکِّمُوکَ الْآيَةَ-
ابو ولید، لیث زہری، عروہ، عبداللہ بن زبیر، رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت زبیر بن العوام سے حرہ (مدینہ میں سیاہ پتھریلی زمین) کی نالیوں کے بارے میں جن کے ذریعہ کھیتوں کو سراب جاتا ہے جھگڑا کیا وہ انصاری شخص کہتا تھا کہ پانی کو (روکے بغیر) جاری رہنے دو کہ وہ گزرتا رہے زبیر بن عوام نے اس سے انکار کر دیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زبیر سے کہا کہ اے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زمینوں کو سراب کرو پھر پانی اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر انصاری غصہ میں آ گیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا اس واسطے کہ یہ آپ کے چچا زاد بھائی ہیں یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور پھر زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اپنی زمین کو سیراب کرو اور پانی کو روک لو یہاں تک کہ کھیت کی منڈیروں تک پانی جمع ہو جائے، راوی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ فلا وربک لا یومنون حتی۔ آپ کے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہوں گے یہاں تک کہ آپ کو اپنے مخاصمات میں ثالث اور فیصل نہ تسلیم کرلیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ محسوس کریں اور اچھی طرح مان لیں۔
Narrated Abdullah ibn az-Zubayr: A man disputed with az-Zubayr about streamlets in the lava plain which was irrigated by them. The Ansari said: Release the water and let it run, but az-Zubayr refused. The Holy Prophet (peace_be_upon_him) said to az-Zubayr: Water (your ground), Zubayr, then let the water run to your neighbour. The Ansari then became angry and said: Apostle of Allah! it is because he is your cousin! Thereupon the face of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) changed colour and he said: Water (your ground), then keep back the water till it returns to the embankment. Az-Zubayr said: By Allah! I think this verse came down about that: "But no , by thy Lord! they can have no (real) faith, until they make thee judge....."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْوَلِيدِ يَعْنِي ابْنَ کَثِيرٍ عَنْ أَبِي مَالِکِ بْنِ ثَعْلَبَةَ عَنْ أَبِيهِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِکٍ أَنَّهُ سَمِعَ کُبَرَائَهُمْ يَذْکُرُونَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ کَانَ لَهُ سَهْمٌ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَخَاصَمَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَهْزُورٍ يَعْنِي السَّيْلَ الَّذِي يَقْتَسِمُونَ مَائَهُ فَقَضَی بَيْنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَائَ إِلَی الْکَعْبَيْنِ لَا يَحْبِسُ الْأَعْلَی عَلَی الْأَسْفَلِ-
محمد بن علاء، ابواسامہ، ولید، ابن کثیر، ابی مالک بن ابی ثعلبہ، فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑوں سے سنا وہ تذکرہ کیا کرتے تھے کہ قریش میں ایک شخص جو بنی قریظہ کے ساتھ پانی کا معاملہ میں شریک تھا اس نے اپنا جھگڑا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جو ایک بہتے نالے کے بارے میں تھا جس کا پانی وہ لوگ تقسیم کر لیا کرتے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا کہ جب پانی ٹخنوں تک جمع ہو جائے اس وقت اوپر کی زمین والا پانی نہ روکے نیچے والے پر۔
Narrated Tha'labah ibn AbuMalik: Tha'labah heard his elders say that a man from the Quraysh had his share with Banu Qurayzah (in water). He brought the dispute to the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) about al-Mahzur, a stream whose water they shared together. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) then decided that when water reached the ankles waters should not be held back to flow to the lower.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَی فِي السَّيْلِ الْمَهْزُورِ أَنْ يُمْسَکَ حَتَّی يَبْلُغَ الْکَعْبَيْنِ ثُمَّ يُرْسِلُ الْأَعْلَی عَلَی الْأَسْفَلِ-
احمد بن عبدہ مغیرہ بن عبدالرحمن، ابی عبدالحمن بن حارث، عمر بن شعیب، اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہتے ہوئے نالے کے بارے میں فیصلہ کیا کہ اس کے پانی کو ٹخنوں کے برابر پہنچنے کے برابر تک روکا جائے پھر اوپر کی زمین والا نچلی زمین والے کی طرف اسے بھیج دے۔
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-'As: The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) decided regarding the stream al-Mahzur that its water should be held back till it reached the ankles, and that the upper waters should then be allowed to flow to the lower.
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ حَدَّثَهُمْ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي طُوَالَةَ وَعَمْرُو بْنُ يَحْيَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ اخْتَصَمَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ فِي حَرِيمِ نَخْلَةٍ فِي حَدِيثِ أَحَدِهِمَا فَأَمَرَ بِهَا فَذُرِعَتْ فَوُجِدَتْ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ وَفِي حَدِيثِ الْآخَرِ فَوُجِدَتْ خَمْسَةَ أَذْرُعٍ فَقَضَی بِذَلِکَ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ فَأَمَرَ بِجَرِيدَةٍ مِنْ جَرِيدِهَا فَذُرِعَتْ-
محمود بن خالد محمد بن عثمان، عبدالعزیز بن محمد سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھجور کی حریم کے بارے میں تنازع پیش کیا (یہ ایک راوی کی حدیث کے الفاظ ہیں) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی پیمائش کا حکم دیا، اسے ناپا گیا تو وہ سات گز نکلی (اور دوسرے راوی کی روایت میں ہے کہ پانچ گز پائی گئی) تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ جبکہ عبدالعزیز بن محمد (راوی ہیں اس روایت کے) کہتے ہیں کہ حضور نے اس درخت کی ایک شاخ سے ناپنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اسے ناپا گیا۔
Narrated AbuSa'id al-Khudri: Two men brought their dispute about the precincts of a palm-tree to the Apostle of Allah (peace_be_upon_him). According to a version of this tradition, he ordered to measure and it was measured. It was found seven yards. According to another version, it was found five yards. He made a decision according to that. AbdulAziz said: He ordered to measure with a branch of its branches. It was then measured.