سوتے وقت سبحان اللہ کی فضیلت

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ شُعْبَةَ الْمَعْنَی عَنْ الْحَکَمِ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ شَکَتْ فَاطِمَةُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَلْقَی فِي يَدِهَا مِنْ الرَّحَی فَأُتِيَ بِسَبْيٍ فَأَتَتْهُ تَسْأَلُهُ فَلَمْ تَرَهُ فَأَخْبَرَتْ بِذَلِکَ عَائِشَةَ فَلَمَّا جَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ فَأَتَانَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ فَقَالَ عَلَی مَکَانِکُمَا فَجَائَ فَقَعَدَ بَيْنَنَا حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَی صَدْرِي فَقَالَ أَلَا أَدُلُّکُمَا عَلَی خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَکُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَکَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ فَهُوَ خَيْرٌ لَکُمَا مِنْ خَادِمٍ-
حفص بن عمر، شعبہ، مسدد، یحیی، شعبہ معنی، حکم، ابن ابولیلی، مسدد، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی ان چھالوں کی تکلیف کی جو ان کے ہاتھ پر چکی پیسنے کی وجہ سے پڑ گئے تھے آپ کے پاس چند قیدی لائے گئے تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوئیں ایک قیدی آپ سے مانگ لیں تاکہ وہ کچھ گھر کے کام کاج کردے لیکن آپ کو نہیں دیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنے کی وجہ بتلادی چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے کہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر لیٹے رہو پس آپ آئے اور ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتی کہ آپ کے قدموں کی ٹھنڈک میں اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا آپ نے فرمایا کہ یا میں تمہیں اس چیز سے بہتر چیز کی طرف رہنمائی نہ کروں جس کا تم نے سوال کیا ہے جب تم دونوں اپنے بستروں پر جاؤ تو 33 بار سبحان اللہ، بار 33 الحمدللہ، 4 3 بار اللہ اکبر پڑھو یہ تم دونوں کے لیے بہتر ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ الْيَشْکُرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي الْوَرْدِ بْنِ ثُمَامَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ لِابْنِ أَعْبُدَ أَلَا أُحَدِّثُکَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَتْ أَحَبَّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ وَکَانَتْ عِنْدِي فَجَرَّتْ بِالرَّحَی حَتَّی أَثَّرَتْ بِيَدِهَا وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّی أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا وَقَمَّتْ الْبَيْتَ حَتَّی اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا وَأَوْقَدَتْ الْقِدْرَ حَتَّی دَکِنَتْ ثِيَابُهَا وَأَصَابَهَا مِنْ ذَلِکَ ضُرٌّ فَسَمِعْنَا أَنَّ رَقِيقًا أُتِيَ بِهِمْ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَوْ أَتَيْتِ أَبَاکِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا يَکْفِيکِ فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَاسْتَحْيَتْ فَرَجَعَتْ فَغَدَا عَلَيْنَا وَنَحْنُ فِي لِفَاعِنَا فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِهَا فَأَدْخَلَتْ رَأْسَهَا فِي اللِّفَاعِ حَيَائً مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ مَا کَانَ حَاجَتُکِ أَمْسِ إِلَی آلِ مُحَمَّدٍ فَسَکَتَتْ مَرَّتَيْنِ فَقُلْتُ أَنَا وَاللَّهِ أُحَدِّثُکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هَذِهِ جَرَّتْ عِنْدِي بِالرَّحَی حَتَّی أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّی أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا وَکَسَحَتْ الْبَيْتَ حَتَّی اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا وَأَوْقَدَتْ الْقِدْرَ حَتَّی دَکِنَتْ ثِيَابُهَا وَبَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ أَتَاکَ رَقِيقٌ أَوْ خَدَمٌ فَقُلْتُ لَهَا سَلِيهِ خَادِمًا فَذَکَرَ مَعْنَی حَدِيثِ الْحَکَمِ وَأَتَمَّ-
مومل بن ہشام یشکری، اسماعیل بن ابراہیم ، جریری، حضرت ابوالورد بن ثمامہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن اعبد سے فرمایا کہ کیا میں تجھے اپنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ بیان نہ کروں اور فاطمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں اور میرے پاس تھیں میری زوجہ بن کر۔ وہ چکی چلایا کرتی تھیں یہاں تک کہ چکی چلانے کے نشانات ان کے ہاتھوں پر پڑ گئے اور مشکیزہ میں پانی بھر لی تھیں یہاں کہ ان کی گردن میں نشانات پڑگئے تھے۔ اور گھر کی صفائی اور جھاڑو میں لگتی تھیں حتی کہ ان کے کپڑے گرد آلود ہوجاتے اور ہانڈی چولہا کرتی تھیں حتی کہ ان کے کپڑے سیاہ اور میلے ہوجاتے تو مجھے اس کی وجہ سے رنج وتکلیف پہنچتی پس ہم نے سنا کہ چند غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے گئے تو میں نے فاطمہ سے کہا کہ کاش تم اپنے والد کے پاس جاؤ اور ان سے ایک خادم مانگ لاؤ کہ تمہاری ضروریات میں کافی ہوجائے چنانچہ وہ آپ کے پاس آئیں آپ کے پاس کچھ گفتگو کرنے والوں کو دیکھا تو انہیں شرم محسوس ہوئی سو واپس لوٹ آئیں اگلے روز ہم اپنے لحافوں میں تھے آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور فاطمہ کے سرہانے بیٹھ گئے تو انہوں نے اپنا سر لحاف کے اندر کر لیا اپنے والد سے حیاء کرتے ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ کل تجھے آل محمد سے کیا حاجت تھی؟ وہ خاموش رہ گئیں دو مرتبہ۔ تو میں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کو بتلاتا ہوں یا رسول اللہ بیشک یہ چکی چلاتی ہیں میرے گھر میں یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشانات پڑ گئے اور مشکیزہ میں پانی بھرتی ہیں حتی کہ ان کی گردن پر نشانات پڑگئے اور گھر میں جھاڑو لگاتی ہیں حتی کہ ان کے کپڑے گرد آلود ہوجاتے ہیں اور ہاندی چولہا پر رکھتی ہیں یہاں تک ان کے کپڑے میلے ہوجاتے ہیں اور ہمیں یہ اطلاع پہنچی ہے کہ آپ کے پاس کچھ غلام یا خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ سے خادم مانگ لیں آگے سابقہ حدیث ہی بیان کی۔
-
حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِيِّ عَنْ شَبَثِ بْنِ رِبْعِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْخَبَرِ قَالَ فِيهِ قَالَ عَلِيٌّ فَمَا تَرَکْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا لَيْلَةَ صِفِّينَ فَإِنِّي ذَکَرْتُهَا مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَقُلْتُهَا-
عباس عنبری، عبدالملک، بن عمر، عبدلعزیز بن محمد، یزید بن ہاد، محمد بن کعب قراظہ، شبث بن ربیع، علی، اس سند سے بھی سابقہ حدیث منقول ہے اس میں یہ فرق ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ جب سے میں نے ان کلمات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے میں انہیں پڑھنا نہیں چھوڑتا سوائے جنگ صفین کی رات کے۔ مجھے آخر رات میں یاد آیا تو پڑھ لیں۔
Narrated Ali ibn AbuTalib: The tradition (No 5045, about Tasbih Fatimah) has been transmitted by Ali to the same effect through a different chain of narrators. This version adds: Ali said: I did not leave them (Tasbih Fatimah) since I heard them from the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) except on the night of Siffin, for I remembered them towards the end of the night and then I uttered them.
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَصْلَتَانِ أَوْ خَلَّتَانِ لَا يُحَافِظُ عَلَيْهِمَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ يُسَبِّحُ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا وَيَحْمَدُ عَشْرًا وَيُکَبِّرُ عَشْرًا فَذَلِکَ خَمْسُونَ وَمِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ وَيُکَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ وَيَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَيُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ فَذَلِکَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُهَا بِيَدِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ قَالَ يَأْتِي أَحَدَکُمْ يَعْنِي الشَّيْطَانَ فِي مَنَامِهِ فَيُنَوِّمُهُ قَبْلَ أَنْ يَقُولَهُ وَيَأْتِيهِ فِي صَلَاتِهِ فَيُذَکِّرُهُ حَاجَةً قَبْلَ أَنْ يَقُولَهَا-
حفص بن عمر، شعبہ، عطاء بن سائب، ، ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دو خصلتیں اور عادتیں ایسی ہیں کہ مومن بندہ ان کی حفاظت نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ اسے جنت میں داخل فرماتے ہیں وہ دونوں عادتیں آسان ہیں لیکن ان پر عمل کرنے والے تھوڑے ہیں۔ ایک یہ کہ فرض نماز کے بعد دس بارسبحان اللہ، دس بار الحمد للہ، دس بار اللہ اکبر کہے تو یہ زبان سے ادا کرنے میں دن بھر میں 150 ہوئیں۔ لیکن میزان اعمال میں پندرہ سو ہوں گی۔ اور دوسرا یہ کہ سوتے وقت بار33 اللہ اکبر، 33 بار سبحان اللہ، 34 بار الحمدللہ کہتے یہ زبان سے تو سو ہوئیں اور میزان اعمال میں ایک ہزار ہوں گی۔ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ مبارک پر ان تسبیحات کو شمار فرماتے تھے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے ارشاد کہ یہ عادتیں آسان ہیں لیکن ان پر عمل کرنے والے تھوڑے ہیں کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا کہ تم میں سے کوئی جب سونے لگتا ہے تو شیطان آتا ہے اور اسے ان کلمات کے کہنے سے پہلے ہی سلا دیتا ہے اور نماز میں شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اسے کوئی کام یاد دلا دیتا ہے چنانچہ وہ ان کلمات کے کہنے سے قبل ہی چلا جاتا ہے۔
Narrated Abdullah ibn Amr: The Prophet (peace_be_upon_him) said: There are two qualities or characteristics which will not be returned by any Muslim without his entering Paradise. While they are easy, those who act upon them are few. One should say: "Glory be to Allah" ten times after every prayer, "Praise be to Allah" ten times and "Allah is Most Great" ten times. That is a hundred and fifty on the tongue, but one thousand and five hundred on the scale. When he goes to bed, he should say: "Allah is Most Great" thirty-four times, "Praise be to Allah" thirty-three times, and Glory be to Allah thirty-three times, for that is a hundred on the tongue and a thousand on the scale. (He said:) I saw the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) counting them on his hand. The people asked: Apostle of Allah! How is it that while they are easy, those who act upon them are few? He replied: The Devil comes to one of you when he goes to bed and he makes him sleep, before he utters them, and he comes to him while he is engaged in prayer and calls a need to his mind before he utters them.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ حَسَنٍ الضَّمْرِيِّ أَنَّ ابْنَ أُمِّ الْحَکَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيْ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ عَنْ إِحْدَاهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ سَبْيًا فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَکَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنْ السَّبْيِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَقَکُنَّ يَتَامَی بَدْرٍ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّةَ التَّسْبِيحِ قَالَ عَلَی أَثَرِ کُلِّ صَلَاةٍ لَمْ يَذْکُرْ النَّوْمَ-
احمد بن صالح، عبداللہ بن وہب، عیاش بن عقبہ خضرمی، فضل بن حسن الضمری کہتے ہیں کہ ابن ام حکم یا ضباعہ بنت الزبیر میں سے کسی ایک نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چند قیدی آئے پس میں اور میری بہن فاطمہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی تکالیف کی آپ سے شکایت کی اور آپ سے سوال کیا کہ ہمارے واسطے قیدیوں میں سے کسی کا حکم فرمائیں (کہ ہمیں کوئی قید بطور خادم مل جائے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے بد کے یتیم بچے سبقت لے گئے آگے تسبیحات کا حصہ بیان کیا اس میں ہر نماز کے بعد کا بیان ہے سوتے وقت کا نہیں۔
-