سوال کرنا کب جائز ہے؟

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ الْفَزَارِيِّ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَسَائِلُ کُدُوحٌ يَکْدَحُ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ فَمَنْ شَائَ أَبْقَی عَلَی وَجْهِهِ وَمَنْ شَائَ تَرَکَ إِلَّا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ ذَا سُلْطَانٍ أَوْ فِي أَمْرٍ لَا يَجِدُ مِنْهُ بُدًّا-
حفص بن عمر، شعبہ، عبدالملک بن عمر، زید بن عقبہ، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوال کرنا اپنے منہ پر زخم لگانا ہے اب جسکا دل چاہے (قیامت کے دن) منہ پرداغ برداشت کرے یا سوال کرنا چھوڑ دے البتہ اس شخص کے لیے سوال کرنا جائز ہے جو بے حد مجبور ہو یا جو شخص حاکم وقت سے سوال کرے،
-
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي کِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ قَالَ تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَقِمْ يَا قَبِيصَةُ حَتَّی تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَکَ بِهَا ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّی يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِکُ وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّی يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّی يَقُولَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَی مِنْ قَوْمِهِ قَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا الْفَاقَةُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّی يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ ثُمَّ يُمْسِکُ وَمَا سِوَاهُنَّ مِنْ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتٌ يَأْکُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا-
مسدد، حماد، زید، ہارون بن ریاب، کنانہ بن نعیم حضرت قبیصہ بن مخارق ہلا لی سے روایت ہے کہ میں ایک قرضہ کا ضامن ہوا پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (سوال کر نے کی غر ض) سے حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے قبیصہ انتظار کرو یہاں تک کہ ہمارے پاس صدقہ کا مال آئے تو ہم تم کو اس میں سے دے دیں گے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اے قبیصہ تین طرح کے لوگوں کے علاوہ کسی کے لیے سوال کرنا درست نہیں ایک وہ شخص جس پر ضمانت کا بوجھ ہو (اور ادا کر نے سے قاصر ہو) جب تک ضمانت سے چھٹکارہ نہ پا لے۔ اس کے بعد باز رہنا چاہیئے۔ دوسرا وہ شخص جس کو ایسی مصیبت پیش آئے جس میں اس کا مال تباہ ہو گیا ہو تو اس کے لیے سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ وہ ایسا سرمایا حاصل کرے جو اس کے گزر بسر کے لائق ہو۔ تیسرے وہ شخص جس کو کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے جس کے متعلق اس کی قوم کے کم از کم تین ذمہ دار افراد یہ کہنے لگیں کہ واقعی وہ مصیبت میں مبتلا ہے اس کے لیے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ گزر بسر کے لائق پیدا کر لے پھر سوال کر نے سے باز رہے اے قبیصہ ان صورتوں کے علاوہ سوال کرنا حرام ہے جو شخص سوال کر کے کھائے وہ حرام کھاتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِي بَکْرٍ الْحَنَفِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ أَمَا فِي بَيْتِکَ شَيْئٌ قَالَ بَلَی حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِيهِ مِنْ الْمَائِ قَالَ ائْتِنِي بِهِمَا قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ وَقَالَ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَی دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ وَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَی أَهْلِکَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي بِهِ فَأَتَاهُ بِهِ فَشَدَّ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودًا بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَبِعْ وَلَا أَرَيَنَّکَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَذَهَبَ الرَّجُلُ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَائَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ فَاشْتَرَی بِبَعْضِهَا ثَوْبًا وَبِبَعْضِهَا طَعَامًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تَجِيئَ الْمَسْأَلَةُ نُکْتَةً فِي وَجْهِکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ-
عبداللہ بن مسلمہ، عیسیٰ بن یونس، اخضر بن عجلان، ابوبکر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سوال کر نے کی غرض سے آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تیرے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ وہ بولا کیوں نہیں ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم بچھا لیتے ہیں اور ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور ایک پانی پینے کا پییالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آ، وہ گیا اور اپنی دونوں چیزیں لے آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو ہاتھ میں لے کر فرمایا ان کا خریدار کون ہے؟ ایک شخص بولا میں ایک دینار میں خریدتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک دینار سے زائد کون دیتا ہے (اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا) ایک شخص نے کہا میں ان دونوں چیزوں کو دو درہم میں لینے کے لیے تیار ہوں پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ دونوں چیزیں اس کے حوالہ کر دیں اور اس سے دو درہم لے کر اس انصاری شخص کو دے دیئے اور فرمایا ایک درہم کی کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر گھر میں ڈال لے اور ایک درہم میں ایک کلہاڑی خرید لے وہ کلہاڑی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں ایک لکڑی اپنے دست مبارک سے ٹھونکی اور فرمایا۔ جا لکڑیاں کاٹ کر لا اور بیچ۔ اور پندرہ دن تک میں تجھے یہاں نہ دیکھوں۔ پس وہ شخص چلا گیا۔ وہ لکڑیاں کاٹتا اور ان کو بیچتا۔ کچھ دنوں بعد وہ شخص آیا اور اس نے دس درہم کمائے تھے جس میں سے اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا کھانے پینے کا سامان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے حق میں یہ بہتر ہے اس بات سے کہ قیامت کے دن تیرے منہ پر ایک داغ لگا ہو (نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) سوال کرنا درست نہیں مگر تین طرح کے آدمیوں کے لیے ایک وہ جو نہایت مفلس ہو خاک میں لوٹتا ہو دوسرے وہ جو پریشان کن قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو۔ تیسرے وہ جس نے کوئی قتل کر ڈالا ہو اور اب اس پر دیت لازم آئی ہو (مگر اس کے پاس دیت میں دینے کو کچھ نہ ہو تو وہ سوال کر سکتا ہے)
-