دشمن سے صلح کرنے کا بیان

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا کَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يَهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَکَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ خَلَأَتْ الْقَصْوَائُ مَرَّتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا خَلَأَتْ وَمَا ذَلِکَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَکِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّی نَزَلَ بِأَقْصَی الْحُدَيْبِيَةِ عَلَی ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَائِ فَجَائَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْخُزَاعِيُّ ثُمَّ أَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ فَجَعَلَ يُکَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکُلَّمَا کَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ أَخِّرْ يَدَکَ عَنْ لِحْيَتِهِ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَقَالَ أَيْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَی فِي غَدْرَتِکَ وَکَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ ثُمَّ جَائَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَذَکَرَ الْحَدِيثَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اکْتُبْ هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ وَعَلَی أَنَّهُ لَا يَأْتِيکَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ عَلَی دِينِکَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْکِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا ثُمَّ جَائَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الْآيَةَ فَنَهَاهُمْ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمَدِينَةِ فَجَائَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ فَدَفَعَهُ إِلَی الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّی إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْکُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَی سَيْفَکَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ فَقَالَ أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْکَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّی بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّی أَتَی الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَی هَذَا ذُعْرًا فَقَالَ قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ فَجَائَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ قَدْ أَوْفَی اللَّهُ ذِمَّتَکَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّی أَتَی سَيْفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّی اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ-
محمد بن عبید، محمد بن ثور، معمر، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت مسور بن محزمہ سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے زمانہ میں (یعنی جس سال صلح حدیبیہ ہوئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند ہزار اصحاب کے ساتھ نکلے۔ جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھا اور اشعار کیا اور عمرہ کا احرام باندھا اور نبی وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے مکہ میں داخل ہونے کے لیے اترتے ہیں تو آپکی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی لوگوں نے حل حل کہا (یہ کلمہ اونٹ کو کھڑا کرنے کے لیے بولتے ہیں) لیکن آپ کی اونٹنی جس کا نام قصوی تھا اڑ گئی دو مرتبہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قصوی نے اڑ نہیں کی اور نہ ہی اڑنے کی اس کی عادت ہے مگر اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے) پھر آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ آج کے دن قریش مجھ سے جو چیز بھی طلب کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ کے حرم کی تعظیم ہوگی میں ان کو وہی چیز دوں گا۔ پھر آپ نے اونٹنی کو اٹھایا تو وہ اٹھ گئی اور آپ اہل مکہ کی راہ سے ہٹ کر حدیبیہ کی طرف متوجہ ہوئے یہاں تک کہ حدیبیہ کے انتہاء پر میدان میں ایک جگہ پر جہاں ایک گڑھے میں تھوڑا سا پانی جمع تھا آپ وہاں پر جا اترے۔ پہلے آپ کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا پھر عروہ بن مسعود لقنی آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا۔ دوران گفتگو عروہ بار بار آپکی ریش مبارک کو ہاتھ لگا رہا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ جو آنحضرت کے پاس تلوار لیے ہوئے کھڑے تھے اور خود (لوہے کی ٹوپی) پہنے ہوئے تھے۔ انھوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلور کی کو تھی ماری اور کہا آپکی ریش مبارک سے اپنا ہاتھ دور رکھ۔ عروہ نے سر اٹھا کر پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا مغیرہ بن شعبہ! عروہ نے کہا اے مکار! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں کوشش نہیں کی؟ اس کا قصہ یوں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مغیرہ بن شعبہ چند لوگوں کے ساتھ گئے اور پھر ان کو قتل کر ڈالا۔ اور ان کا مال واسباب لوٹ لیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے فرمایا ہم نے اسلام تو قبول کر لیا مگر اس مال کی ہمیں ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مکر و فریب سے حاصل کیا ہوا مال ہے۔ اس کے بعد حدیث کے راوی مسودہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر رسول خدا نے فیصلہ کیا ہے۔ پھر سب قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا کہ اور جو کوئی شخص قریش میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اگرچہ وہ مسلمان ہو کر ہی کیوں نہ آئے تو آپ اس کو لوٹا دیں گے۔ جب آپ صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہو گئے تو اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو! اپنے قربانی کے جانور ذبح کر ڈالو اور اس کے بعد سر منڈادو۔ اس کے بعد مکہ کی چند عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مسلمانوں کے پاس آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے انکو لوٹانے سے منع فرما دیا (کیونکہ واپس لوٹانے کی شرط مردوں کے ساتھ خاص تھی) اور ان کے کافر شوہروں نے ان کو جو مہر دیا تھا وہ ان کو واپس کروا دیا۔ پھر آپ مدینہ میں تشریف لائے تو قریش کا ایک شخص جس کا نام ابوبصیر تھا آپ کے پاس (مسلمان ہو کر) آیا۔ قریش نے اسکو واپس طلب کر نے کے لیے دو آدمی بھیجے۔ آپ نے ابوبصیر کو (معاہدہ کی شرط کے مطابق) ان کے ساتھ واپس کر دیا۔ وہ اس کو ساتھ لے کر نکلے۔ جب ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اتر کر کھجوریں کھانے لگے۔ ابوبصیر نے اس دونوں کی تلوار دیکھ کر کہا کہ بخدا تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ اس نے میان سے تلوار نکال کر کہا ہاں۔ میں اس کو آزما چکا ہوں۔ ابوبصیر نے کہا ذرا میں بھی تو دیکھوں؟ اس نے دے دی۔ ابوبصیر نے اسی تلوار سے اس کے مالک کو مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا اور مدینہ پہنچ کر جلدی سے مسجد نبوی میں گھس گیا۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ ڈرگیا ہے۔ وہ بولا میرا ساتھی مارا گیا ہے اور اب میں بھی مارا جاؤں گا۔ اتنے میں ابوبصیر بھی آن پہنچا اور بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے اپنا عہد پورا کر دیا کہ آپ نے مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی۔ آپ نے فرمایا لڑائی کا بھڑکانے والا ہے اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا۔ ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے پھر کافروں کے حوالہ کر دیں گے پس وہ نکل کھڑا ہوا اور دریا کے کنارے پر آ ٹکا اور ابوجندل (جو کہ سہیل کا بیٹا تھا جس نے صلح کرائی تھی وہ مسلمان ہوگیا تھا اور صلح کے بعد آپ کے پاس آیا تھا لیکن آپ نے شرط کے بموجب اس کو بھی واپس کر دیا تھا) وہ بھی ابوبصیر کے ساتھ مل گیا یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک جماعت وہاں جمع ہو گئی۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ أَنَّهُمْ اصْطَلَحُوا عَلَی وَضْعِ الْحَرْبِ عَشْرَ سِنِينَ يَأْمَنُ فِيهِنَّ النَّاسُ وَعَلَی أَنَّ بَيْنَنَا عَيْبَةً مَکْفُوفَةً وَأَنَّهُ لَا إِسْلَالَ وَلَا إِغْلَالَ-
محمد بن علاء، ابن ادریس، ابن اسحاق ، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے روایت ہے کہ قریش نے اس بات پر صلح کی کہ دس سال تک لڑائی کو موقوف رکھیں گے اور لوگ اس مدت میں امن سے رہیں گے اور ہمارے اور ان کے درمیان دل صاف ہوگا چوری نہ چھپ کر ہوگی اور نہ کھل کر۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ قَالَ مَالَ مَکْحُولٌ وَابْنُ أَبِي زَکَرِيَّائَ إِلَی خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمِلْتُ مَعَهُمَا فَحَدَّثَنَا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ قَالَ جُبَيْرٌ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی ذِي مِخْبَرٍ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْنَاهُ فَسَأَلَهُ جُبَيْرٌ عَنْ الْهُدْنَةِ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا وَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِکُمْ-
عبداللہ بن محمد، عیسیٰ بن یونس، حضرت حسان بن عطیہ سے روایت ہے کہ مکحول اور ابن ابی عطیہ خالد بن معدان کی طرف چلے۔ انھوں نے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے حدیث بیان کی کہ جبیر نے مجھ سے کہا کہ ذمی مخبر کے پاس چل جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں۔ پس میں ان کے پاس گیا۔ جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے کہا میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ فرماتے تھے کہ عنقریب تم رومیوں سے ایسی صلح کرو گے کہ پھر کوئی خوف نہ رہے گا پھر وہ اور تم ملکر ایک اور دشمن سے لڑو گے۔
Narrated Dhu Mikhbar: Hassan ibn Atiyyah said: Makhul and Ibn Zakariyya went to Khalid ibn Ma'dan, and I also went along with them. He reported a tradition on the authority of Jubayr ibn Nufayr. He said: Go with us to Dhu Mikhbar, a man from the Companions of the Prophet (peace_be_upon_him). We came to him and Jubayr asked him about peace. He said: I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say: You will make a secure peace with the Byzantines, then you and they will fight an enemy behind you.