حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي الْعَوْجَائِ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أُصِيبَ بِقَتْلٍ أَوْ خَبْلٍ فَإِنَّهُ يَخْتَارُ إِحْدَی ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ يَقْتَصَّ وَإِمَّا أَنْ يَعْفُوَ وَإِمَّا أَنْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَی يَدَيْهِ وَمَنْ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ-
موسی بن اسماعیل، حماد، محمد بن اسحاق، حارث بن فضیل، سفیان بن ابوالعوجاء، حضرت ابوشریح الخزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص پر قتل یا کسی عضو کے کٹنے کی مصیبت آپڑی تو اسے تین باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے ایک یہ کہ قصاص لے لے۔ دوسرے یہ کہ معاف کردے۔ تیسرے یہ کہ دیت وصول کرلے۔ اور اگر وہ کوئی چوتھی بات اختیار کرنا چاہے ان تین کے علاوہ تو اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لو۔ اور جو اس کے بعد حد سے تجاوز کرے تو اس کے واسطے دردناک عذاب ہے)۔
Narrated AbuShurayh al-Khuza'i: The Prophet (peace_be_upon_him) said: If a relative of anyone is killed, or if he suffers khabl, which means a wound, he may choose one of the three things: he may retaliate, or forgive, or receive compensation. But if he wishes a fourth (i.e. something more), hold his hands. After this whoever exceeds the limits shall be in grave penalty.
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُفِعَ إِلَيْهِ شَيْئٌ فِيهِ قِصَاصٌ إِلَّا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ-
موسی بن اسماعیل، عبداللہ بن بکر بن عبداللہ مزنی، عطاء بن ابومیمونہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ کوئی قصاص کا مقدمہ آپ کے پاس آیا مگر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں معافی کرنے کی ترغیب دیتے۔
Narrated Anas ibn Malik: I never saw the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) that some dispute which involved retaliation was brought to him but he commanded regarding it for remission.
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قُتِلَ رَجُلٌ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُفِعَ ذَلِکَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهُ إِلَی وَلِيِّ الْمَقْتُولِ فَقَالَ الْقَاتِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْوَلِيِّ أَمَا إِنَّهُ إِنْ کَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ قَالَ فَخَلَّی سَبِيلَهُ قَالَ وَکَانَ مَکْتُوفًا بِنِسْعَةٍ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ-
عثمان بن ابوشیبہ، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک آدمی قتل کردیا گیا تو آپ نے اس کے قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کردیا قاتل کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی قسم میں نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتول کے ورثاء سے فرمایا کہ دیکھو اگر یہ سچا ہے پھر تم نے اسے قتل کردیا تو تم آگ میں داخل ہوگے۔ راوی کہتے ہیں کہ پس اس نے قاتل کا راستہ چھوڑ دیا۔ قاتل کے دونوں بازوں تسموں سے بندھے ہوئے تھے تو وہ اپنے تسموں کو گھسیٹتا ہوا نکلا لہذا اس کا نام، ، ذوالنسعة، ، تسمہ والا پڑ گیا۔
Narrated AbuHurayrah: A man was killed in the lifetime of the Prophet (peace_be_upon_him). The matter was brought to the Prophet (peace_be_upon_him). He entrusted him to the legal guardian of the slain. The slayer said: Apostle of Allah, I swear by Allah, I did not intend to kill him. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said to the legal guardian: Now if he is true and you kill him, you will enter Hell-fire. So he let him go. His hands were tied with a strap. He came out pulling his strap. Hence he was called Dhu an-Nis'ah (possessor of strap).
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَوْفٍ حَدَّثَنَا حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ حَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جِيئَ بِرَجُلٍ قَاتِلٍ فِي عُنُقِهِ النِّسْعَةُ قَالَ فَدَعَا وَلِيَّ الْمَقْتُولِ فَقَالَ أَتَعْفُو قَالَ لَا قَالَ أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ قَالَ لَا قَالَ أَفَتَقْتُلُ قَالَ نَعَمْ قَالَ اذْهَبْ بِهِ فَلَمَّا وَلَّی قَالَ أَتَعْفُو قَالَ لَا قَالَ أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ قَالَ لَا قَالَ أَفَتَقْتُلُ قَالَ نَعَمْ قَالَ اذْهَبْ بِهِ فَلَمَّا کَانَ فِي الرَّابِعَةِ قَالَ أَمَا إِنَّکَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوئُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِهِ قَالَ فَعَفَا عَنْهُ قَالَ فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ النِّسْعَةَ-
عبیداللہ بن عمر بن میسرہ حبشمی، یحیی بن سعید، عوف، حمزہ ابوعمرو عائذی علقمہ بن وائل، حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک قاتل آدمی جس کی گردن میں تسمہ پڑا ہوا تھا لایا گیا وائل فرماتے ہیں کہ پس مقتول کے وارث کو بلایا گیا اور فرمایا کہ تو اسے معاف کرتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر تو دیت لینے کے لیے تیار ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں فرمایا کیا تو اسے قتل کرے گا؟ کہا کہ ہاں فرمایا کہ پھر اسے لے جا جب وہ واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو معاف کرتا ہے؟ اس نے کہا نہیں پھر فرمایا کہ کیا تو دیت لیتا ہے؟ کہا کہ نہیں، فرمایا کیا تو قتل کرے گا کہا کہ ہاں۔ فرمایا کہ اچھا پھر اسے لے جا جب چوتھی مرتبہ بھی ایسا ہوا تو آپ نے فرمایا کہ دیکھ اگر تو اسے معاف کردے تو یہ اپنے اور مقتول دونوں کا بوجھ اٹھالے گا۔ وائل کہتے ہیں کہ پھر اس نے معاف کر دیا میں نے اسے (قاتل کو دیکھا) کہ تسمہ گھسیٹتا جا رہا تھا۔
Narrated Wa'il ibn Hujr: I was with the Prophet (peace_be_upon_him) when a man who was a murderer and had a strap round his neck was brought to him. He then called the legal guardian of the victim and asked him: Do you forgive him? He said: No. He asked: Will you accept the blood-money? He said: No. He asked: Will you kill him? He said: Yes. He said: Take him. When he turned his back, he said: Do you forgive him? He said: No. He said: Will you accept the blood-money? He said: No. He said: Will you kill him? He said: Yes. He said: Take him. After repeating all this a fourth time, he said: If you forgive him, he will bear the burden of his own sin and the sin of the victim. He then forgave him. He (the narrator) said: I saw him pulling the strap.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَائٍ الْوَاسِطِيُّ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَبَشِيٍّ فَقَالَ إِنَّ هَذَا قَتَلَ ابْنَ أَخِي قَالَ کَيْفَ قَتَلْتَهُ قَالَ ضَرَبْتُ رَأْسَهُ بِالْفَأْسِ وَلَمْ أُرِدْ قَتْلَهُ قَالَ هَلْ لَکَ مَالٌ تُؤَدِّي دِيَتَهُ قَالَ لَا قَالَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ أَرْسَلْتُکَ تَسْأَلُ النَّاسَ تَجْمَعُ دِيَتَهُ قَالَ لَا قَالَ فَمَوَالِيکَ يُعْطُونَکَ دِيَتَهُ قَالَ لَا قَالَ لِلرَّجُلِ خُذْهُ فَخَرَجَ بِهِ لِيَقْتُلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهُ إِنْ قَتَلَهُ کَانَ مِثْلَهُ فَبَلَغَ بِهِ الرَّجُلُ حَيْثُ يَسْمَعُ قَوْلَهُ فَقَالَ هُوَ ذَا فَمُرْ فِيهِ مَا شِئْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلْهُ وَقَالَ مَرَّةً دَعْهُ يَبُوئُ بِإِثْمِ صَاحِبِهِ وَإِثْمِهِ فَيَکُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ قَالَ فَأَرْسَلَهُ-
محمد بن عوف طائی، عبدالقدوس بن حجاج، یزید بن عطاء واسطی، سماک، حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی ایک حبشی کو لایا اور کہا کہ اس نے میرے بھتیجے کو قتل کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اسے کس طرح قتل کیا؟ اس نے کہا کہ میں نے اس کے سر پر کلہاڑی ماری اور میں اسے قتل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آپ نے کہا کیا تیرے پاس مال ہے کہ تو دیت ادا کردے اس نے کہا کہ نہیں آپ نے فرمایا کہ تیرا کیا خیال ہے اگر میں تجھے چھوڑ دوں تو تو لوگوں سے مانگ کر دیت کی رقم جمع کرلے گا؟ کہا کہ نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر تیرے مولی تیری دیت ادا کریں گے؟ اس نے کہا نہیں تو آپ نے وارث مقتول سے فرمایا کہ اسے پکڑ لو وہ اسے قتل کے لیے نکلا لے کر۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو اگر یہ اسے قتل کردے گا تو یہ اسی کی مثل ہوجائے گا یعنی یہ بھی قاتل ہوجائے گا کیونکہ اس نے جو قتل کیا ہے وہ قتل خطاء ہے۔ حضور کی بات وارث مقتول تک پہنچ گئی جہاں اس نے آپ کے اس فرمان کو سنا تو اس نے کہا کہ یہ حاضر ہے آپ جو چاہیں حکم فرمائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو تو یہ اپنا اور اپنے ساتھی (جسے قتل کیا ہے) کا گناہ اٹھالے گا۔ اور اہل دوزخ میں سے ہوجائے گا اور وارث مقتول نے اسے چھوڑ دیا۔
Narrated Uthman ibn Affan: AbuUmamah ibn Sahl said: We were with Uthman when he was besieged in the house. There was an entrance to the house. He who entered it heard the speech of those who were in the Bilat. Uthman then entered it. He came out to us, looking pale. He said: They are threatening to kill me now. We said: Allah will be sufficient for you against them, Commander of the Faithful! He asked: Why kill me? I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say: It is not lawful to kill a man who is a Muslim except for one of the three reasons: Kufr (disbelief) after accepting Islam, fornication after marriage, or wrongfully killing someone, for which he may be killed. I swear by Allah, I have not committed fornication before or after the coming of Islam, nor did I ever want another religion for me instead of my religion since Allah gave guidance to me, nor have I killed anyone. So for what reason do you want to kill me?
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ قَالَ كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ وَكَانَ فِي الدَّارِ مَدْخَلٌ مَنْ دَخَلَهُ سَمِعَ كَلَامَ مَنْ عَلَى الْبَلَاطِ فَدَخَلَهُ عُثْمَانُ فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُتَغَيِّرٌ لَوْنُهُ فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونَنِي بِالْقَتْلِ آنِفًا قَالَ قُلْنَا يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلَامٍ أَوْ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ وَلَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي قَالَ أَبُو دَاوُد عُثْمَانُ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ-
مسنگ
-
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضُمَيْرَةَ الضُّمَرِيَّ ح و أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ سَعْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ السُّلَمِيَّ وَهَذَا حَدِيثُ وَهْبٍ وَهُوَ أَتَمُ يُحَدِّثُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مُوسَی وَجَدِّهِ وَکَانَا شَهِدَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَی حَدِيثِ وَهْبٍ أَنْ مُحَلِّمَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَشْجَعَ فِي الْإِسْلَامِ وَذَلِکَ أَوَّلُ غِيَرٍ قَضَی بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَکَلَّمَ عُيَيْنَةُ فِي قَتْلِ الْأَشْجَعِيِّ لِأَنَّهُ مِنْ غَطَفَانَ وَتَکَلَّمَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ دُونَ مُحَلِّمٍ لِأَنَّهُ مِنْ خِنْدِفَ فَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ وَکَثُرَتْ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ فَقَالَ عُيَيْنَةُ لَا وَاللَّهِ حَتَّی أُدْخِلَ عَلَی نِسَائِهِ مِنْ الْحَرْبِ وَالْحُزْنِ مَا أَدْخَلَ عَلَی نِسَائِي قَالَ ثُمَّ ارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ وَکَثُرَتْ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ فَقَالَ عُيَيْنَةُ مِثْلَ ذَلِکَ أَيْضًا إِلَی أَنْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُکَيْتِلٌ عَلَيْهِ شِکَّةٌ وَفِي يَدِهِ دَرِقَةٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَجِدْ لِمَا فَعَلَ هَذَا فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ مَثَلًا إِلَّا غَنَمًا وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا اسْنُنْ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسُونَ فِي فَوْرِنَا هَذَا وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ وَذَلِکَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَمُحَلِّمٌ رَجُلٌ طَوِيلٌ آدَمُ وَهُوَ فِي طَرَفِ النَّاسِ فَلَمْ يَزَالُوا حَتَّی تَخَلَّصَ فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي بَلَغَکَ وَإِنِّي أَتُوبُ إِلَی اللَّهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فَاسْتَغْفِرْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَتَلْتَهُ بِسِلَاحِکَ فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ بِصَوْتٍ عَالٍ زَادَ أَبُو سَلَمَةَ فَقَامَ وَإِنَّهُ لَيَتَلَقَّی دُمُوعَهُ بِطَرَفِ رِدَائِهِ قَالَ ابْنُ إِسْحَقَ فَزَعَمَ قَوْمُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَغْفَرَ لَهُ بَعْدَ ذَلِکَ-
موسی بن اسماعیل، حماد، محمد بن اسحاق، محمد بن جعفر بن زبیر، زیادہ بن ضمیرہ، وہب بن بیان، احمد بن سعید ہمدانی، ابن وہب، حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زبیر اور حضرت زبیر جو زیاد بن سعد بن ضمرہ السلمی کے باپ اور دادا تھے روایت کرتے ہیں کہ وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھے وہ کہتے ہیں کہ محلم بن جثامہ نے اشجع قبیلہ کے ایک فرد کو ابتدائے اسلام میں قتل کردیا اور وہ پہلی دیت ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پس عینیہ نے گفتگو کی اشجعی کے قتل کے بارے میں کیونکہ وہ قبیلہ غطفان سے تعلق رکھتے تھے اور اقرع بن حابس نے محلم کی طرف سے گفتگو کی کیونکہ وہ خندف سے تعلق رکھتے تھے پس گفتگو میں آوازیں بلند ہوگئیں جھگڑا اور شور شرابہ شروع ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عینیہ تم دیت قبول نہیں کرتے تو عینیہ نے کہا نہیں خدا کی قسم یہاں تک کہ میں اس کی عورتوں کو بھی وہی تکلیف نہ پہنچاؤں جو اس نے میری عورتوں کو پہنچائی ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر آوازیں بلند ہوگئی اور جھگڑا شور شرابہ شروع ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عینیہ۔ کیا تم دیت وصول نہیں کرتے؟ تو عینیہ نے پھر اسی طرح کہا تو ایک آدمی کھڑا ہوگیا جسے مکتیل کہا جاتا تھا اس کے اوپر اسلحہ تھا اور ہاتھ میں ڈھال تھی اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیشک میں محلم کے قتل کی ابتدائے اسلام میں سوائے اس کے کوئی مثال نہیں پاتا کہ جیسے کچھ بکریاں پانی کے گھاٹ پر آئیں تو اس میں سے پہلی کو تیر مار دیا تو پچھلی سب بکریاں بھاگ گئیں آج ایک طریقہ قائم کریں اور کل اسے بدل دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پچاس اونٹ فی الفور اور پچاس اس وقت جب ہم مدینہ واپس لوٹیں اور یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض سفروں میں پیش آیا۔ محلم ایک دراز قامت، گندمی رنگت والا انسان تھا اور وہ لوگوں کے ایک کنارے کو بیٹھا ہوا تھا پس لوگ مسلسل بیٹھے رہے یہاں تک کہ وہ نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور اس کی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جو کام کیا اس کی اطلاع آپ کو پہنچ گئی اور بیشک میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں پس آپ میرے واسطے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو نے اسے ابتدائے اسلام میں اپنے اسلحہ سے قتل کردیا؟ اے اللہ محلم کی مغفرت نہ فرمائیے بلند آواز سے آپ نے فرمایا۔ ابوسلمہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ بھی کیا کہ محلم کھڑا ہوا اور وہ اپنے آنسو اپنی چادر کے کنارے سے پونچھتا جاتا تھا ابن اسحاق کہتے ہیں اس کی قوم کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بعد اس کی مغفرت کی دعا فرمائی۔
Narrated Sa'd ibn Dumayrah al-Aslami ; Dumayrah al-Aslami: Ziyad ibn Sa'd ibn Dumayrah as-Sulami said on the authority of his father (Sa'd) and his grandfather (Dumayrah) (according to Musa's version) who were present in the battle of Hunayn with the Apostle of Allah (peace_be_upon_him): After the advent of Islam, Muhallam ibn Jaththamah al-Laythi killed a man of Ashja'. That was the first blood-money decided by the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) (for payment). Uyaynah spoke about the killing of al-Ashja'i, for he belonged to Ghatafan, and al-Aqra' ibn Habis spoke on behalf of Muhallam, for he belonged to Khunduf. The voices rose high, and the dispute and noise grew. So the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: Do you not accept blood-money, Uyaynah? Uyaynah then said: No, I swear by Allah, until I cause his women to suffer the same fighting and grief as he caused my women to suffer. Again the voices rose high, and the dispute and noise grew. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: Do you not accept the blood-money Uyaynah? Uyaynah gave the same reply as before, and a man of Banu Layth called Mukaytil stood up. He had a weapon and a skin shield in his hand. He said: I do not find in the beginning of Islam any illustration for what he has done except the one that "some sheep came on, and those in the front were shot; hence those in the rear ran away". (The other example is that) "make a law today and change it." The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: Fifty (camels) here immediately and fifty when we return to Medina. This happened during some of his journeys. Muhallam was a tall man of dark complexion. He was with the people. They continued (to make effort for him) until he was released. He sat before the Apostle of Allah (peace_be_upon_him), with his eyes flowing. He said: Apostle of Allah! I have done (the act) of which you have been informed. I repent to Allah, the Exalted, so ask Allah's forgiveness for me. Apostle of Allah! The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) then said: Did you kill him with your weapon at the beginning of Islam. O Allah! do not forgive Muhallam. He said these words loudly. AbuSalamah added: He (Muhallam) then got up while he was wiping his tears with the end of his garment. Ibn Ishaq said: His people alleged that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) asked forgiveness for him after that.