جہیمیہ کا بیان

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَائَلُونَ حَتَّی يُقَالَ هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِکَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ-
ہارون بن معروف، سفیان، ہشام، ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیشہ لوگ آپس میں بحث ومباحثہ کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ اللہ نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ (نعوذ باللہ) پس جو اپنے دل میں اس قسم کا شبہ پائے تو اسے چاہیے کہ کہے امنت باللہ، میں اللہ پر ایمان لایا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ کُنْتُ فِي الْبَطْحَائِ فِي عِصَابَةٍ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّتْ بِهِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرَ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ قَالُوا السَّحَابَ قَالَ وَالْمُزْنَ قَالُوا وَالْمُزْنَ قَالَ وَالْعَنَانَ قَالُوا وَالْعَنَانَ قَالَ أَبُو دَاوُد لَمْ أُتْقِنْ الْعَنَانَ جَيِّدًا قَالَ هَلْ تَدْرُونَ مَا بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ قَالُوا لَا نَدْرِي قَالَ إِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ أَوْ اثْنَتَانِ أَوْ ثَلَاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً ثُمَّ السَّمَائُ فَوْقَهَا کَذَلِکَ حَتَّی عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ثُمَّ فَوْقَ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَائٍ إِلَی سَمَائٍ ثُمَّ فَوْقَ ذَلِکَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِهِمْ وَرُکَبِهِمْ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَائٍ إِلَی سَمَائٍ ثُمَّ عَلَی ظُهُورِهِمْ الْعَرْشُ مَا بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَائٍ إِلَی سَمَائٍ ثُمَّ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فَوْقَ ذَلِکَ-
محمد بن صباح بزار، ولید بن ابوثور، سماک، عبداللہ بن عمیرہ، حضرت احنف بن قیس، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں بطحاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی موجود تھے موجود تھا کہ ایک بادل کا ایک ٹکڑا گذرا آپ نے اس کی طرف دیکھا پھر فرمایا کہ تم اسے کیا نام دیتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ بادل آپ نے فرمایا کہ مزن کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ عنان بھی کہتے ہو کہا جی ہاں عنان بھی۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ مجھے عنان کے بارے میں صحیح یقین نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کے درمیان کتنی مسافت ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم نہیں جانتے آپ نے فرمایا کہ بیشک زمین و آسمان کے درمیان، اکہتر، یا بہتر، یا تہتر سال کی مسافت کا فاصلہ ہے پھر اس کے اوپر دوسرا آسمان بھی اتنے فاصلہ پر ہے یہاں تک کہ آپ نے ساتوں آسمان شمار فرمائے پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک دریا ہے جس کی تہہ اور سطح کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک فاصلہ ہے پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے (بصورت) بکروں ہیں جن کے کھروں اور پیٹھوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پھر ان کی پیٹھوں پر عرش الہی رکھا ہوا ہے جس کے اوپر اور نچلے کناروں کے درمیان ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ ہے پھر اللہ اس عرش پر مستوی ہیں۔
Narrated Al-Abbas ibn AbdulMuttalib: I was sitting in al-Batha with a company among whom the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) was sitting, when a cloud passed above them. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) looked at it and said: What do you call this? They said: Sahab. He said: And muzn? They said: And muzn. He said: And anan? They said: And anan. AbuDawud said: I am not quite confident about the word anan. He asked: Do you know the distance between Heaven and Earth? They replied: We do not know. He then said: The distance between them is seventy-one, seventy-two, or seventy-three years. The heaven which is above it is at a similar distance (going on till he counted seven heavens). Above the seventh heaven there is a sea, the distance between whose surface and bottom is like that between one heaven and the next. Above that there are eight mountain goats the distance between whose hoofs and haunches is like the distance between one heaven and the next. Then Allah, the Blessed and the Exalted, is above that.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُرَيْحٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَا أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ عَنْ سِمَاکٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ-
احمد بن ابوشریح، عبدالرحمن بن عبداللہ بن مہد، محمد بن سعید، عمرو بن ابوقیس، سماک بن حرب سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ سِمَاکٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَی هَذَا الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ-
احمد بن حفص، ابراہیم بن طہمان، سماک بن حرب سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ حَمَّادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الرِّبَاطِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ أَحْمَدُ کَتَبْنَاهُ مِنْ نُسْخَتِهِ وَهَذَا لَفْظُهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَقَ يُحَدِّثُ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ أَتَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ جُهِدَتْ الْأَنْفُسُ وَضَاعَتْ الْعِيَالُ وَنُهِکَتْ الْأَمْوَالُ وَهَلَکَتْ الْأَنْعَامُ فَاسْتَسْقِ اللَّهَ لَنَا فَإِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلَی اللَّهِ وَنَسْتَشْفِعُ بِاللَّهِ عَلَيْکَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيْحَکَ أَتَدْرِي مَا تَقُولُ وَسَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا زَالَ يُسَبِّحُ حَتَّی عُرِفَ ذَلِکَ فِي وُجُوهِ أَصْحَابِهِ ثُمَّ قَالَ وَيْحَکَ إِنَّهُ لَا يُسْتَشْفَعُ بِاللَّهِ عَلَی أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ شَأْنُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِکَ وَيْحَکَ أَتَدْرِي مَا اللَّهُ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَی سَمَاوَاتِهِ لَهَکَذَا وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاکِبِ قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِ إِنَّ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ و قَالَ عَبْدُ الْأَعْلَی وَابْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ وَالْحَدِيثُ بِإِسْنَادِ أَحْمَدَ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ الصَّحِيحُ وَافَقَهُ عَلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَرَوَاهُ جَمَاعَةٌ عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ کَمَا قَالَ أَحْمَدُ أَيْضًا وَکَانَ سَمَاعُ عَبْدِ الْأَعْلَی وَابْنِ الْمُثَنَّی وَابْنِ بَشَّارٍ مِنْ نُسْخَةٍ وَاحِدَةٍ فِيمَا بَلَغَنِي-
عبدالاعلی بن حماد، محمد بن مثنی، محمد بن بشار، احمد بن سعید رباطی، وہب بن جریر، احمد، محمد بن اسحاق، یعقوب بن عتبہ، محمد بن جبیر بن محمد بن حضرت جبیر بن مطعم اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی بدو آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگ مشقت میں پڑگئے اور گھر بار اور اموال کم ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سے ہمارے واسطے بارش طلب فرمائیں ہم اللہ کے پاس آپ کی سفارش چاہتے ہیں اور اللہ کی سفارش آپ کے پاس چاہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا ستیاناس ہو جانتا ہے تو کیا کہہ رہا ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی تسبیح بیان کی اور مسلسل تسبیح اور پاکی بیان کرتے رہے یہاں تک کہ ( اثر کی غلط بات کا اثر) آپ کے صحابہ کے چہروں پر بھی ظاہر ہونے لگا پھر آپ نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے اللہ کی سفارش نہیں کی جاتی کسی پر اس کی مخلوقات میں سے ہے۔ اللہ کی شان اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ تجھ پر افسوس ہے کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا گنبد کی طرح اور بیشک وہ عرش الہی چرچراتا ہے جس طرح کہ کجاوہ سواری کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے۔ محمد ابن بشار نے اپنی روایت میں فرمایا کہ بیشک اللہ اپنے عرش کے اوپر ہے اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے اور آگے اسی طرح حدیث بیان کی جبکہ عبدالاعلی اور محمد بن جبیر عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے حدیث بیان کی ہے امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث احمد بن سعید کی روایت والی صحیح ہے اور ایک جماعت نے اس کی موافقت کی ہے جن میں یحیی بن معین، علی بن المدینی ہیں اور اسے ایک جماعت نے ابن اسحاق سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے احمد نے کہا اور عبدالاعلی ابن المثنی اور ابن بشار کا سماع ایک ہی نسخہ سے ہے جو مجھے پہنچی ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَکٍ مِنْ مَلَائِکَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَی عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ-
احمد بن حفص، ابراہیم بن طہمان، موسیٰ بن عقبہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے کسی فرشتے کے بارے میں بیان کروں کہ اس کے کانوں کی لو سے کندھے تک کا درمیانی فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ الْمَعْنَی قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ يَعْنِي ابْنَ عِمْرَانَ حَدَّثَنِي أَبُو يُونُسَ سُلَيْمُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَی أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَهْلِهَا إِلَی قَوْلِهِ تَعَالَی سَمِيعًا بَصِيرًا قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَی أُذُنِهِ وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَی عَيْنِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا وَيَضَعُ إِصْبَعَيْهِ قَالَ ابْنُ يُونُسَ قَالَ الْمُقْرِئُ يَعْنِي إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ يَعْنِي أَنَّ لِلَّهِ سَمْعًا وَبَصَرًا قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا رَدٌّ عَلَی الْجَهْمِيَّةِ-
علی بن نصر، محمد بن یونس نسائی، عبداللہ بن یزید مقری، حرملہ ابن عمران، ابویونس سلیم بن مولی، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا ان اللہ یا مرکم ان تؤدوالامانات الیٰ اھلھا سے اللہ تعالیٰ کے قول ان الہ کان سمیعابصیرا تک پھر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ اپنا انگوٹھا کان مبارک پر رکھے ہوئے ہیں اور شہادت کی انگلی کو اپنی آنکھ پر رکھے ہوئے ہیں (سمیعا بصیرا پڑھتے وقت اشارہ کرنے کیے لیے اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصر کی طرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ یہ بات پڑھتے ہیں اور اپنی دونوں انگلیاں (کان اور آنکھ پر) رکھتے ہیں۔ محمد بن یونس نے کہا کہ عبداللہ بن یزید المقری نے فرمایا کہ یہ اشارہ کرنا جہمیہ پر رد ہے (وہ صفات باری تعالیٰ کے قائل نہیں)
-