جو شخص خوشخبری لے کر آئے اس کو کچھ بطور انعام دینا۔

حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَکَعَ فِيهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ وَقَصَّ ابْنُ السَّرْحِ الْحَدِيثَ قَالَ وَنَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ کَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ حَتَّی إِذَا طَالَ عَلَيَّ تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ثُمَّ صَلَّيْتُ الصُّبْحَ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَی ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا فَسَمِعْتُ صَارِخًا يَا کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ أَبْشِرْ فَلَمَّا جَائَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَکَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی إِذَا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّی صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي-
ابن السرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک، حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے لوٹتے تو پہلے مسجد میں جاتے وہاں دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر لوگوں میں بیٹھتے (اس کے بعد گھر میں تشریف لے جاتے)۔ اس کے بعد حدیث کے راوی ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی۔ حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم تین آدمیوں سے تمام مسلمانوں کو گفتگو کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ (غزوہ تبوک میں تین آدمیوں کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع نے بغیر کسی عذر کے شرکت نہیں کی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو ان سے قطع کلام کرنے کا حکم فرمایا) اسی طرح کافی مدت گزر گئی تو میں اپنے چچا زاد بھائی ابوقتادہ کے پاس اس کے باغ کی دیوار پھاند کر گیا۔ میں نے اس کو سلام کیا لیکن بخدا اس نے سلام تک کا جواب نہ دیا۔ پھر میں نے صبح کی نماز پڑھی۔ پچاسویں دن میں نے اپنے گھر کی چھت پر ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو پکار ہا تھا کہ اے کعب بن مالک خوش ہو جا۔ پھر جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو دے دیئے پھر میں وہاں سے چلا یہاں تک کہ میں مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ مجھے دیکھ کر طلحہ بن عبیداللہ اٹھ کھڑے ہوئے آ کر مجھ سے مصافحہ کیا۔ اور (قصور کی معافی پر) مبارکباد دی۔
-