تقدیر کا بیان

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي بِمِنًی عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ-
موسی بن اسماعیل، عبداللہ عبدالعزیز، ابوحازم ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قدریہ اس امت کے مجوسی ہیں اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازوں میں شریک مت ہو۔
Narrated Abdullah ibn Umar: The Prophet (peace_be_upon_him) said: The Qadariyyah are the Magians of this community. If they are ill, do not pay a sick visit to them, and if they die, do not attend their funerals.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ مَوْلَی غُفْرَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِکُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ وَمَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا قَدَرَ مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ فَلَا تَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ وَمَنْ مَرِضَ مِنْهُمْ فَلَا تَعُودُوهُمْ وَهُمْ شِيعَةُ الدَّجَّالِ وَحَقٌّ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُلْحِقَهُمْ بِالدَّجَّالِ-
محمد بن کثیر، سفیان، عمر بن محمد، عمر مولی، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد کہ ہر امت میں مجوسی ہیں اور میری امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ تقدیر نہیں ہے۔ ان میں سے جو مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شریک نہ ہو اور جو ان میں سے بیمار ہوجائے تو ان کی عیادت نہ کرو اور وہ دجال کے گروہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ان پر حق ہے کہ ان کو دجال سے ملادے۔
-
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ وَيَحْيَی بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَاهُمْ قَالَا حَدَّثَنَا عَوْفٌ قَالَ حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الْأَشْعَرِيُّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ فَجَائَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الْأَرْضِ جَائَ مِنْهُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِکَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَی وَبَيْنَ ذَلِکَ وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ-
مسدد یزید، زریع، یحیی بن سعید، عوف، قسامہ بن زہیر، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم کو مٹھی بھر خاک سے جسے ساری زمین سے لیا تھا پیدا کیا پس بنی آدم زمین کی مٹی پر آئے (یعنی ہر ایک کی تخلیق اس کی مٹی کے حساب سے ہوئی) پس ان میں سے کوئی سفید آیا تو کوئی سرخ اور کوئی کالا ان کے درمیان کوئی نرم خو ہے تو کوئی بدخلق ہے کوئی ناپاک (کافر) ہے تو کوئی پاک (مسلمان) ہے۔ یحیی بن سعید کی روایت میں (بین ذالک کے بجائے) وبین ذالک ہے اور اخبار یزید بن زریع کی حدیث میں ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ کُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَجَعَلَ يَنْکُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا کَتَبَ اللَّهُ مَکَانَهَا مِنْ النَّارِ أَوْ مِنْ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ کُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَفَلَا نَمْکُثُ عَلَی کِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَکُونَنَّ إِلَی السَّعَادَةِ وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَکُونَنَّ إِلَی الشِّقْوَةِ قَالَ اعْمَلُوا فَکُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَی وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَی وَکَذَّبَ بِالْحُسْنَی فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَی-
مسدد بن مسرہد، معمتر، منصور بن معتمر، سعید بن عبید بن عبداللہ بن حبیب ابوعبدالرحمن سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازہ میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شریک تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے آپ کے ساتھ ایک چھوٹی سی لکڑی تھی آپ نے لکڑی سے زمین کو کریدنا شروع کردیا پھر اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی نہیں ہے کوئی ذی نفس جو پیدا کیا گیا ہے نہیں ہے مگر یہ کہ جہنم یا جنت میں اس کا مقام متعین ہے مگر یہ کہ لکھ دیا گیا ہے وہ سعید (روح) یا شقی (بدبخت) حضرت علی فرماتے ہیں کہ قوم میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ کے نبی۔ تو کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں پس جو اہل سعادت میں سے ہوگا وہ ضرور سعادت پر ہی رہے گا جو بدبخت لوگوں میں سے ہوگا وہ بدبخت ہی رہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ عمل کیا کرو کیونکہ ہر ایک کو اللہ کی طرف سے توفیق دی جاتی ہے جو اہل سعادت ہیں انہیں سعادت والے اعمال کی توفیق ملتی ہے اور جو اہل شقاوت ہیں انہیں اعمال شر کی توفیق ملتی ہے پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں۔ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَی وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَی وَکَذَّبَ بِالْحُسْنَی فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَی
-
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا کَهْمَسٌ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ قَالَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ تَکَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَائِ فِي الْقَدَرِ فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلًا فِي الْمَسْجِدِ فَاکْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَکِلُ الْکَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَالْأَمْرَ أُنُفٌ فَقَالَ إِذَا لَقِيتَ أُولَئِکَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيئٌ مِنْهُمْ وَهُمْ بُرَآئُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ ثُمَّ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَی عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا نَعْرِفُهُ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُکْبَتَيْهِ إِلَی رُکْبَتَيْهِ وَوَضَعَ کَفَّيْهِ عَلَی فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَی الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَائَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنْ السَّائِلُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ دِينَکُمْ-
عبیداللہ بن معاذ، ابوکہمس، ابن بریدہ، حضرت یحیی بن یعمر فرماتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے تقدیر کے مسئلے میں گفتگو کی (انکار کیا) وہ معبد جہنی تھا بصرہ میں۔ پس میں اور حمید بن عبدالرحمن الحمیری حج یا عمرہ کے ارادہ سے چلے تو ہم نے (دل میں) کہا کہ اگر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی سے ملاقات کی تو ہم نے ان سے ان لوگوں کے بارے میں جو تقدیر کے بارے میں کرتے ہیں کہ پوچھیں گے پس اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کو ہمارے لیے آسان کردیا جو مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں جاگھیرا۔ میں نے سوچا کہ میرا ساتھی گفتگو کے لیے مجھے وکیل بنائے گا اس لیے کہ میں نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن ہماری طرف کچھ لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور علم کی گہرائیاں بھی کھنگالتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ تقدیر کچھ نہیں اور تمام امور اسی وقت ہو جاتے ہیں پہلے کوئی ارادہ یا مشیت خداوندی نہیں ہوتی نعوذ باللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب تم ان سے ملو تو انہیں بتلا دینا کہ میں ان سے اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کی عبداللہ قسم کھاتا ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائیں گے یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئیں پھر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے بیان کیا ہم ایک مرتبہ رسول اللہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص سفید براق کپڑے پہنے نمودار ہوا نہایت سیاہ بالوں والا، اس پر سفر کے کچھ آثار نہیں تھے کہ معلوم ہوتا کہ دور دراز کا سفر کر کے آرہا ہے اور نہ ہی ہم اسے جانتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رانوں پر رکھ دیا اور کہا کہ اے محمد مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (اسلام یہ ہے کہ) تو گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہی نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ تو نماز قائم کرے، زکواة ادا کیا کرے، رمضان کے روزے رکھا کرے اور اگر تو طاقت رکھے تو بیت اللہ کا حج کرے اس نے کہا کہ کہ آپ نے سچ فرمایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پس ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ خود سوال کرتا ہے اور خود ہی آپ کی تصدیق کر رہا ہے پھر اس نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیے تو آپ نے فرمایا کہ (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ پر ایمان لائے اور اس کے فرشتوں پر ایمان لائے اور اس کی (آسمانی) کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر، اور تقدیر پر ایمان لائے اچھی ہو یا بری، اس نے کہا کہ آپ نے سچ کہا پھر اس نے کہا کہ مجھے احسان کے بارے میں بتلائیے آپ نے فرمایا کہ (احسان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اس طرح کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور یہ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے اس نے کہا کہ مجھے قیامت کے بارے میں بتلائیے کہ قیامت کب آئے گی آپ نے فرمایا کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ اس کے بارے میں علم نہیں رکھتا اس نے کہا کہ اچھا قیامت کی علامت کیا ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی علامتوں میں سے ہے کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی۔ اور تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں چلنے والے ننگے بھوکے لوگ، محتاج اور بکریاں چرانے والے لمبی لمبی عمارتیں بنانے لگیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ وہ پھر چلا گیا پس میں تین دن یا تین راتیں ٹھہرارہا ایک روایت میں مل گیا ہے کہ کچھ دیر ٹھہرا رہا پھر آپ نے فرمایا کہ اے عمر تم کیا جانتے ہو کہ سائل کون تھا۔ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے اور تمہارے پاس آئے تھے کہ تمہیں دین کی تعلیم دیں۔
-
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَا لَقِيَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَذَکَرْنَا لَهُ الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَذَکَرَ نَحْوَهُ زَادَ قَالَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ أَفِي شَيْئٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَی أَوْ فِي شَيْئٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ قَالَ فِي شَيْئٍ قَدْ خَلَا وَمَضَی فَقَالَ الرَّجُلُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ فَفِيمَ الْعَمَلُ قَالَ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ-
مسدد، یحیی، عثمان بن غیاث، عبداللہ بن بریدہ، حضرت یعلی بن یعمر اور حضرت حمید بن عبدالرحمن الحمیری دونوں کہتے ہیں کہ ہم دونوں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے اور انہیں تقدیر کے بارے میں وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں بتلایا آگے سابقہ حدیث کے مانند ذکر کیا اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ سے قبیلہ مزنیہ یا جہینیہ کے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ ہم اعمال کرتے ہیں کیا یہ جان کر کریں کہ اس پر تقدیر واقع ہوچکی ہے یا یہ کہ یہ عمل بغیر تقدیر کے بس ابھی ایسا ہوگیا آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ سمجھ کر تقدیر میں متعین ہوچکا ہے تو اس شخص نے یا چند لوگوں نے کہا کہ پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بے شک اہل جنت کو جنت میں لے جانے والے اعمال کی توفیق ملتی ہے اور اہل دوزخ کو دوزخ میں لے جانے والے اعمال کی توفیق ملتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ ابْنِ يَعْمَرَ بِهَذَا الْحَدِيثِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ قَالَ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ إِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَائُ الزَّکَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ وَالِاغْتِسَالُ مِنْ الْجَنَابَةِ قَالَ أَبُو دَاوُد عَلْقَمَةُ مُرْجِئٌ-
محمود بن خالد فریابی، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ یحیی بن یعمر سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں کہ کچھ کمی وزیادتی کے ساتھ اس میں یہ اضافہ ہے کہ اس نے کہا کہ پھر اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نماز قائم کرنا، زکواة ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت سے غسل کرنا، امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی علقمہ بن مرثد مرجئہ ہیں۔
-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيِّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَيْ أَصْحَابِهِ فَيَجِيئُ الْغَرِيبُ فَلَا يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّی يَسْأَلَ فَطَلَبْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ قَالَ فَبَنَيْنَا لَهُ دُکَّانًا مِنْ طِينٍ فَجَلَسَ عَلَيْهِ وَکُنَّا نَجْلِسُ بِجَنْبَتَيْهِ وَذَکَرَ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ فَذَکَرَ هَيْئَتَهُ حَتَّی سَلَّمَ مِنْ طَرَفِ السِّمَاطِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا مُحَمَّدُ قَالَ فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
عثمان بن ابوشیبہ، جریر، ابوفرزہ ہمدانی، ابوزرعہ، عمر بن جریر، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان اس طرح تشریف فرما ہوتے کہ کوئی اجنبی شخص آتا تو جان نہ پاتا کہ حضور کون ہیں جب تک کہ پوچھو نہ لے ہم نے چاہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مسند وغیرہ بنا دیں جس کی وجہ سے اجنبی شخص جب آپ کے پاس آئے تو آپ کو پہچان لے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے۔ آگے حدیث جبرائیل کے مانند بیان کیا کہ ایک شخص سامنے سے آیا اور اس کی ہیئت بیان کیا یہاں تک کہ اس نے لوگوں کے ایک طرف سے سلام کیا اور کہا کہ السلام علیک یا محمد۔ راوی کہتے ہیں آپ نے سلام کا جواب دیا۔
Narrated AbuDharr ; AbuHurayrah: The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) used to sit among his Companions. A stranger would come, but did recognise him (the Prophet) until he asked (about him). So we asked the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) to make a place where he might take his seat so that when a stranger came, he might recognise him. So we built a terrace of soil on which he would take his seat, and we would sit beside him. He then mentioned something similar to this Hadith saying: A man came, and he described his appearance. He saluted from the side of the assembly, saying: Peace be upon you, Muhammad. The Prophet (peace_be_upon_him) then responded to him.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ عَنْ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْئٌ مِنْ الْقَدَرِ فَحَدِّثْنِي بِشَيْئٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي قَالَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ کَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْکَ حَتَّی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيبَکَ وَلَوْ مُتَّ عَلَی غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِکَ-
محمد بن کثیر، سفیان عن وہب بن خالد حمصی، ابن الدیلمی کہتے ہیں کہ میں حضرت ابی ابن کعب کے پاس حاضر ہوا اور ان سے کہا کہ میرے دل میں تقدیر سے متعلق کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بارے میں مجھے کچھ بتلائیں شاید اللہ تعالیٰ میرے دل سے ان مشتبہات کو نکال دیں تو ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہیں تو عذاب دے سکتے ہیں اور وہ ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہوں گے اور اگر وہ ان پر رحم فرمائیں تو ان کی رحمت ان کے لیے ان کے اپنے اعمال سے بہتر ہوں گے اور اگر تو احد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو اللہ کی راہ میں وہ تجھ سے قبول نہیں فرمائیں گے یہاں تک کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے اور یہ نہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (مصیبت وغیرہ پہنچی) وہ تجھ سے خطا ہونے والی نہ تھی اور جو تکلیف وغیرہ تجھے نہیں پہنچی وہ تجھے ہرگز پہنچنے والی نہیں تھی اور اگر اس اعتقاد کے بغیر تو مر گیا تو ضرور بالضرور تو آگ میں داخل ہوگا ابن الدیلمی کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح فرمایا پھر میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کے پاس آیا تو انہوں نے بھی تقریبا یہی کہا پھر میں حضرت زید بن ثابت کے پاس انہوں نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی حدیث نقل کی مجھ سے۔
-
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ عَنْ أَبِي حَفْصَةَ قَالَ قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ إِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الْإِيمَانِ حَتَّی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيبَکَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ اکْتُبْ قَالَ رَبِّ وَمَاذَا أَکْتُبُ قَالَ اکْتُبْ مَقَادِيرَ کُلِّ شَيْئٍ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ مَاتَ عَلَی غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي-
جعفر بن مسافر ہذلی، حسان، ابولولید، ابورباح، ابراہیم بن ابوعلبہ، ابوحفصہ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن صامت نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے تو ہرگز ایمان کی حقیقت کی حلاوت نہیں پائے گا یہاں تک کہ تو یہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (تکلیف یا مال وغیرہ) پہنچا وہ تجھ سے ہرگز چھٹنے والا نہ تھا اور جو تجھ سے رہ گیا وہ ہرگز تجھے ملنے والا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیداکی وہ قلم ہے پھر اس سے فرمایا کہ لکھ اس نے کہا کہ اے میرے رب میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز کی تقدیر لکھ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے اے میرے بیٹے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو اس (اعتقاد و یقین کے بغیر) مر گیا تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ح و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ الْمَعْنَی قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَی فَقَالَ مُوسَی يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنْ الْجَنَّةِ فَقَالَ آدَمُ أَنْتَ مُوسَی اصْطَفَاکَ اللَّهُ بِکَلَامِهِ وَخَطَّ لَکَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ تَلُومُنِي عَلَی أَمْرٍ قَدَّرَهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً فَحَجَّ آدَمُ مُوسَی قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوُسٍ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ-
مسدد، سفیان، احمد بن صالح، سفیان بن عیینہ، عمر بن دینار، طاؤس حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام نے بحث ومباحثہ کیا موسیٰ نے فرمایا کہ اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں ناکام کیا اور ہمیں جنت میں سے نکلوایا آدم نے فرمایا کہ آپ وہ موسیٰ ہیں جن کو اللہ نے اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کر لیا اور تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا آپ کے لیے آپ مجھ سے ایسے معاملہ پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میرے اوپر مقدر کردیا تھا میری تخلیق سے چالیس برس قبل ہے۔ پس آدم، موسیٰ پر غالب آگئے۔ احمد بن صالح نے کہا کے عمرو عن طاؤس سے یہ روایت ہے کہ طاؤس نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا۔
-
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مُوسَی قَالَ يَا رَبِّ أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنْ الْجَنَّةِ فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ فَقَالَ أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ فَقَالَ لَهُ آدَمُ نَعَمْ قَالَ أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيکَ مِنْ رُوحِهِ وَعَلَّمَکَ الْأَسْمَائَ کُلَّهَا وَأَمَرَ الْمَلَائِکَةَ فَسَجَدُوا لَکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا حَمَلَکَ عَلَی أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَکَ مِنْ الْجَنَّةِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ وَمَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي کَلَّمَکَ اللَّهُ مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَکَ وَبَيْنَهُ رَسُولًا مِنْ خَلْقِهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِکَ کَانَ فِي کِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْئٍ سَبَقَ مِنْ اللَّهِ تَعَالَی فِيهِ الْقَضَائُ قَبْلِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِکَ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَی فَحَجَّ آدَمُ مُوسَی-
احمد بن صالح، ابن وہب، ہشام بن سعد، حضرت زید بن اسلم اپنے والد اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے) اور وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ نے فرمایا کہ اے رب ہمیں آدم دکھلائیے جنہوں نے ہمیں جنت سے نکلوایا اور اپنے آپ کو بھی نکلوایا تو اللہ نے انہیں آدم کی روئیت کرا دی تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا آپ ہمارے باپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدم ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ ہی وہ ہیں جن میں اللہ نے اپنی روح پھونکی اور آپ کو چیزوں کے تمام نام سکھلائے۔ اور ملائکہ کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ تو موسیٰ نے عرض کیا کہ آپ کو پھر کس چیز نے اس بات پر ابھارا کہ آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کو جنت سے نکلوایا آدم نے کہا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں کہ آپ بنی اسرائیل کے وہ نبی ہو جن سے اللہ نے پردہ کے پیچھے گفتگو فرمائی تھی کہ آپ کے اور اللہ کے درمیان کوئی (فرشتہ) نہیں تھا اسکی مخلوق میں سے؟ انہوں نے کہا جی ہاں آدم نے فرمایا کہ تو کیا آپ نے یہ بات نہیں پائی کہ مجھے پیداکیے جانے سے قبل ہی کتاب اللہ میں یہ بات لکھ دی گئی تھی۔ موسیٰ نے فرمایا جی ہاں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پھر آپ کیوں مجھے ایسے معاملہ پر ملامت کرتے ہو جس کے بارے میں اللہ کا مجھ سے پہلے ہی فیصلہ ہوچکا تھا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے ان دونوں پر سلامتی فرمائے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أُنَيْسَةَ أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ قَالَ قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ الْآيَةَ فَقَالَ عُمَرُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَائِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَائِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَفِيمَ الْعَمَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَمُوتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّی يَمُوتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّار-
عبد اللہ، القعنبی، مالک، زید بن ابی انیسہ، عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید، حضرت مسلم بن یسار الجہنی سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کے بارے میں پوچھا۔ ( وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ) 7۔ الاعراف : 172) قعنبی (جوراوی ہیں اس حدیث کے) نے یہ آیت پڑھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ سے اسی آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ نے آدم کو پیدا فرمایا پھر اپنا دایاں ہاتھ ان کی پشت پر پھیرا اور ان کی اولاد کو نکالا پھر فرمایا کہ میں نے ان سب کو جنت میں داخل کردیا اور جنت کے اعمال کے لیے پیدا کیا پھر دوبارہ ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ایک اور اولاد نکالی اور فرمایا کہ انہیں میں نے دوزخ کے اعمال کے لیے پیدا کیا جو یہ کریں گے یہ سن کر ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب بندہ کو جنت کے لیے پیدا کرتے ہیں تو اس سے اہل جنت کے اعمال کرواتے ہیں یہاں تک کہ وہ اہل جنت کے اعمال میں سے کسی عمل کے ذریعہ جنت میں داخل کرتے ہیں کہ اور جب کسی بندہ کو دوزخ کے لیے پیدا کرتے ہیں کہ تو اس سے اہل دوزخ کے اعمال کرواتے ہیں یہاں تک کہ اسے دوزخ والوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر ہی موت آتی ہے تو اللہ سے دوزخ میں داخل کر دیتے ہیں۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: Muslim ibn Yasar al-Juhani said: When Umar ibn al-Khattab was asked about the verse "When your Lord took their offspring from the backs of the children of Adam" - al-Qa'nabi recited the verse--he said: I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say when he was questioned about it: Allah created Adam, then passed His right hand over his back, and brought forth from it his offspring, saying: I have these for Paradise and these will do the deeds of those who go to Paradise. He then passed His hand over his back and brought forth from it his offspring, saying: I have created these for Hell, and they will do the deeds of those who go to Hell. A man asked: What is the good of doing anything, Apostle of Allah? The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: When Allah creates a servant for Paradise, He employs him in doing the deeds of those who will go to Paradise, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Paradise, for which He will bring him into Paradise. But when He creates a servant for Hell, He employs him in doing the deeds of those who will go to Hell, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Hell, for which He will bring him into Hell.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّی حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ جُعْثُمٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ نُعَيْمِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ مَالِکٍ أَتَمُّ-
محمد بن مصفی، بقیہ، عمر بن جعثم قرشی، زید بن ابوانیسہ، عبدالحمید بن عبدالرحمن، مسلم بن یسار، نعیم بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب کے پاس تھا آگے سابقہ حدیث ہی بیان کی ہے جبکہ مالک کی حدیث زیادہ مکمل ہے۔
-
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغُلَامُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ کَافِرًا وَلَوْ عَاشَ لَأَرْهَقَ أَبَوَيْهِ طُغْيَانًا وَکُفْرًا-
قعنبی، معتمر، رقبہ بن مصقلہ، ابواسحاق، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس بچہ کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا۔ وہ کفر پر پیدا کیا گیا تھا اور اگر وہ زندہ رہتا ہے تو اپنے والدین کو سرکشی اور کفر میں پھنسا دیتا۔
-
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ عَنْ إِسْرَائِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ وَکَانَ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ کَافِرًا-
محمود بن خالد، اسرائیل، ابواسحاق، سعید بن جبیرا بن عباس، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر میں(وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ) 18۔ الکہف : 80) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بچہ اپنی پیدائش کے روز ہی سے کفر پر پیدا ہوا تھا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلَامًا يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَتَنَاوَلَ رَأْسَهُ فَقَلَعَهُ فَقَالَ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً الْآيَةَ-
محمد بن مہران الرازی، سفیان بن عیینہ، عمر، سعید بن جبیر، ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو بچوں کے ساتھ کھیلتا دیکھا تو اس کا سر پکڑ کر قلم کر دیا تو حضرت موسیٰ نے علیہ السلام فرمایا کہ آپ نے ایک پاک نفس کو قتل کر دیا؟ بغیر کسی وجہ کے۔ (اس نے کوئی خون بھی نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے اسے قتل کردیا جاتا ۔
-
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الْمَعْنَی وَاحِدٌ وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ إِنَّ خَلْقَ أَحَدِکُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَکُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَکُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ مَلَکٌ فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ فَيُکْتَبُ رِزْقُهُ وَأَجَلُهُ وَعَمَلُهُ ثُمَّ يُکْتَبُ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّی مَا يَکُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْکِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا وَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّی مَا يَکُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْکِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا-
حفص بن عمر نمری، محمد بن کثیر، سفیان معنی، سفیان، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کیا کہ آپ صادق ومصدوق ہیں کہ تم میں سے کسی پیدا ہونے والے کانطفہ اپنی ماں کی پیٹ میں چالیس روز تک جمع کیا جاتا ہے پھر وہ اسی طرح گندے خون کا ایک لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اسی طرح (چالیس روز میں) گوشت کا ایک لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجتے ہیں تو اسے چار باتوں کا حکم کیا جاتا ہے تو اس کے رزق کو اس کی موت کے وقت اور اس کے دنیا میں اعمال کو لکھتا ہے پھر لکھتا ہے کہ آیا وہ شقی ہے۔ یا سعات مند پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے بیشک تم میں سے کوئی اہل جنت والے اعمال کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ برابر فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی کتاب کا لکھا ہوا اس پر چل جاتا ہے پھر وہ جہنمیوں کے اعمال کرنے لگ جاتا ہے یہاں تک کہ اس میں داخل ہو جاتا ہے اور بیشک تم میں سے کوئی کام تو اہل دوزخ کے کر رہا ہوتا ہے حتی کہ اس کے درمیان اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ برابر فاصلہ رہ جاتا ہے تو پھر قلم کا لکھا اس پر سبقت کرتا ہے اور وہ اہل جنت کے اعمال کرنے لگ جاتا ہے پس اس میں داخل ہو جاتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَزِيدَ الرِّشْکِ قَالَ حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ قَالَ کُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ-
مسدد، حماد بن زید، یزیدرشک، مطرف، حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حصین سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا معلوم ہوچکا ہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کون ہیں؟ فرمایا کہ ہاں۔ تو کہنے والے نے کہا پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ہر ایک کو انہی اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا۔ (اگر جنت کے لیے پیدا کیا گیا تو جنت والے اعمال کی توفیق ملتی ہے اور اگر دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا تو دوزخ والے اعمال کی توفیق ملتی ہے)
-
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلَا تُفَاتِحُوهُمْ-
مسنگ
-