ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت میں سے اپنے لیے چن لیتے تھے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ فَارِسٍ الْمَعْنَی قَالَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ حَدَّثَنِي مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَی النَّهَارُ فَجِئْتُهُ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَی سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَی رِمَالِهِ فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ يَا مَالِ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِکَ وَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْئٍ فَأَقْسِمْ فِيهِمْ قُلْتُ لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِکَ فَقَالَ خُذْهُ فَجَائَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَکَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا ثُمَّ جَائَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَکَ فِي الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا يَعْنِي عَلِيًّا فَقَالَ بَعْضُهُمْ أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْهُمَا قَالَ مَالِکُ بْنُ أَوْسٍ خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِکَ النَّفَرَ لِذَلِکَ فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ اتَّئِدَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی أُولَئِکَ الرَّهْطِ فَقَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی عَلِيٍّ وَالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ فَقَالَا نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنْ النَّاسِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَی وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ وَلَکِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَی مَنْ يَشَائُ وَاللَّهُ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ وَکَانَ اللَّهُ أَفَائَ عَلَی رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْکُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَکُمْ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً وَيَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی أُولَئِکَ الرَّهْطِ فَقَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِکَ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی الْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِکَ قَالَا نَعَمْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَی أَبِي بَکْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَکَ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ فَوَلِيَهَا أَبُو بَکْرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو بَکْرٍ قُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَکْرٍ فَوَلِيتُهَا مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُکُمَا وَاحِدٌ فَسَأَلْتُمَانِيهَا فَقُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْکُمَا عَلَی أَنَّ عَلَيْکُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلِيهَا فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَی ذَلِکَ ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَکُمَا بِغَيْرِ ذَلِکَ وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَکُمَا بِغَيْرِ ذَلِکَ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ قَالَ أَبُو دَاوُد إِنَّمَا سَأَلَاهُ أَنْ يَکُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ لَا أَنَّهُمَا جَهِلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ فَإِنَّهُمَا کَانَا لَا يَطْلُبَانِ إِلَّا الصَّوَابَ فَقَالَ عُمَرُ لَا أُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ أَدَعُهُ عَلَی مَا هُوَ عَلَيْهِ-
حسن بن علی، محمد بن یحیی بن فارس، بشر بن عمر، حضرت مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے دن چڑھے مجھے بلانے کے لیے ایک شخص کو بھیجا۔ پس میں آیا تو میں نے ان کو بستر کے بغیر ایک تخت پر بیٹھے ہوئے پایا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر کہا اے مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے پس میں نے ان کو کچھ دینے کا حکم کیا۔ سو تم ان میں تقسیم کر دو میں نے عرض کیا کا ش! آپ اس کام کے واسطے کسی اور کو حکم فرماتے۔ آپ نے فرمایا نہیں لے لو۔ (یعنی گھبراؤ نہیں یہ مال لو اور ان میں تقسیم کر دو) اتنے میں یرفاء آیا (یرفاء حضرت عمر کا آزاد کردہ غلام اور دربان) اور بولا عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص آپ سے ملنا چاہتے ہیں کیا آپ ان کو آنے کی اجازت دیتے ہیں آپ نے کہا ہاں انکو آنے دے۔ جب یہ سب حضرات آگئے تو یرفاء پھر آیا اور بولا عباس اور علی بھی آنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا ان کو بھی آنے دے پس جب سب لوگ آ گئے تو حضرت عباس نے کہا اے امیر المؤمنین! میرے اور ان کے یعنی علی کے درمیان فیصلہ کر دیجئے۔ اتنے میں دوسرے لوگ بھی بول اٹھے ہاں امیر المؤمنین آپ ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ان دونوں کو آرام پہنچائیے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباس نے ہی ان بقیہ حضرات کو اسی کام کے لیے آگے بھیجا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا ذرا صبر کرو۔ کچھ دیر کے بعد حضرت عمر ان سب حضرات کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں تم کو اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کہ کیا تم یہ بات جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہم (یعنی انبیاء) میراث چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ جو کچھ چھوڑ تے ہیں وہ صدقہ ہے۔ سب نے تائید کرتے ہوئے کہا ہاں بیشک آپ نے ایسا ہی فرمایا تھا پھر وہ حضرت علی اور حضرت عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے بھی قسم دے کر یہی بات پوچھی کہ کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ تے ہیں وہ سب صدقہ ہے ان دونوں حضرات نے بھی اس کی تائید کی۔ تو حضرت عمر نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ایسی خصوصیت مر حمت فرمائی جو آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں بخشی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ نے کافروں سے جو مال اپنے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ جس پر چاہتا ہے اپنے رسولوں کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے اللہ نے اپنے رسول کو بنی نضیر کا مال دلایا بخدا آپ نے اس مال میں تم میں سے کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی خود لے لیا بلکہ آپ نے اس میں سے ایک سال کا خرچ لیا۔ یا یہ کہا کہ۔ آپ نے اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لیے ایک سال کا خرچ لیا اور جو باقی بچا وہ سب کا برابر کا حق قرار دیا۔ اس کے بعد حضرت عمران صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا میں تم سے اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کہ کیا تم یہ بات جا نتے ہو؟ (یعنی آپ نے اس مال میں اسی طرح تصرف کیا جس طرح بیان کیا گیا) تو سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم یہ بات جانتے ہیں۔ پھر وہ حضرت علی اور حضرت عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا کہ میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کہ کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو؟ (جس طرح یہ سب لوگ جانتے ہیں؟) تو ان دونوں حضرات نے بھی کہا ہاں ہم بھی یہ بات جانتے ہیں۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت ابوبکر نے کہا اب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہوں تو (اے عباس) تم اور یہ (علی) ابوبکر کے پاس گئے تھے تم اپنے بھیتیجے کی میراث طلب کر رہے تھے اور یہ علی اپنی بیوی کے لیے ان کے والد بزرگوار کی میراث طلب کر رہے تھے تو ابوبکر نے تم دونوں سے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا بلکہ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر سچے نیک ہدایت یا فتہ اور حق کے تابع تھے پس ابوبکر اس مال کے متولی رہے جب ابوبکر کی بھی وفات ہوگئی تو میں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر دونوں کا خلیفہ ہوں پھر میں ان اموال کا متولی رہا جب تک اللہ کو میرا متولی رہنا منظور ہوا پھر اے عباس تم اور علی آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تم دونوں کا مقصد بھی ایک ہے تم دونوں نے یہ کہا کہ وہ مال ہمارے قبضہ میں دے دو۔ میں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں وہ مال تمھاری تولیت میں دیئے دیتا ہوں مگر اس شرط پر کہ تم کو قسم ہے اللہ کی اس مال میں اسی طرح کام کرنا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مال میں متولی رہتے تھے۔ تم نے اس شرط پر وہ مال مجھ سے لے لیا پھر اب تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تمھارا فیصلہ اس کے علاوہ دوسری صورت میں کروں (یعنی تم دونوں کے درمیان تقسیم کر دوں) تو خدا کی قسم میں قیامت تک بھی اس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر فیصلہ نہیں کروں گا۔ البتہ اگر تم عاجز ہو جاؤ (یعنی تم سے ان مالوں کا اہتمام نہ ہو سکے) تو پھر مجھ ہی کو لوٹا دینا۔ ابوداؤد فرماتے ہیں کہ ان دونوں حضرات نے یہ درخواست کی تھی کہ اس کا انتظام ہمارے درمیان تقسیم کر دیجئے۔ یہ نہیں کہ انھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو مال چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ معلوم نہ تھی بلکہ یہ دونوں حضرات بھی حق ہی کی تلاش میں تھے اس پر حضرت عمر نے یہ فرمایا کہ میں اس پر تقسیم کا عنوان نہیں آنے دوں گا بلکہ سابقہ حالت پر ہی رہنے دوں گا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ وَهُمَا يَعْنِي عَلِيًّا وَالْعَبَّاسَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ قَالَ أَبُو دَاوُد أَرَادَ أَنْ لَا يُوقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ قَسْمٍ-
محمد بن عبید، محمد بن ثور، معمر، زہری، حضرت مالک بن اوس سے اس قصہ میں مروی ہے کہ وہ دونوں یعنی حضرت علی اور حضرت عباس اس مال میں جھگڑا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نضیر کے اموال میں سے اپنے رسول کو عطا فرمایا تھا ابوداؤد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کا مقصد یہ تھا کہ اس میں تقسیم کا نام نہ آئے (کیونکہ تقسیم ملکیت میں جاری ہوتی ہے اور وہ ملکیت میں نہ تھا)
-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْمَعْنَی أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَهُمْ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ عَنْ عُمَرَ قَالَ کَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ کَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا يُنْفِقُ عَلَی أَهْلِ بَيْتِهِ قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ يُنْفِقُ عَلَی أَهْلِهِ قُوتَ سَنَةٍ فَمَا بَقِيَ جَعَلَ فِي الْکُرَاعِ وَعُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ فِي الْکُرَاعِ وَالسِّلَاحِ-
عثمان بن ابی شیبہ، احمد بن عبدہ، سفیان بن عیینہ، عمر بن دینار، حضرت عمر سے روایت ہے کہ بنی نضیر کا مال ایسا تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا فرمایا اور اس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی یہ مال بغیر جنگ کے حاصل ہوا تھا) یہ مال صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال کو اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے۔ اور ابن عبدہ کی روایت یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال کا خرچ اپنے گھر والوں پر صرف کرتے اور باقی ماندہ مال کو گھوڑوں کی خریداری اور جہاد کی تیاری پر صرف فرماتے۔ ابن عبدہ نے کہا گھوڑوں پر اور اسلحہ کی تیاری وخریداری) پر صرف فرماتے۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: Malik ibn Aws al-Hadthan said: One of the arguments put forward by Umar was that he said that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) received three things exclusively to himself: Banu an-Nadir, Khaybar and Fadak. The Banu an-Nadir property was kept wholly for his emergent needs, Fadak for travellers, and Khaybar was divided by the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) into three sections: two for Muslims, and one as a contribution for his family. If anything remained after making the contribution of his family, he divided it among the poor Emigrants.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عُمَرُ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ قَالَ عُمَرُ هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرَی عُرَيْنَةَ فَدَکَ وَکَذَا وَکَذَا مَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَی فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاکِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَلَلْفُقَرَائِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَائُوا مِنْ بَعْدِهِمْ فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ قَالَ أَيُّوبُ أَوْ قَالَ حَظٌّ إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِکُونَ مِنْ أَرِقَّائِکُمْ-
مسدد، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، زہری، حضرت عمرنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا جس پر تم نے اپنے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے۔ اس آیت کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عرینہ کے چند گاؤں خاص ہوئے جیسا کہ فدک وغیرہ اور دوسری آیتیں جیسے یہ فرمایا جو اللہ نے عنایت فرمایا اپنے رسول کو گاؤں والوں سے تو وہ اللہ رسول کے لیے ہے اور رشتہ داروں یتیموں اور مسافروں کے لیے ہے۔ نیز یہ بھی ارشاد ہوا! ان فقیروں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے ہیں اور فرمایا جو لوگ دارالاسلام میں آ گئے اور مسلمان ہو گئے ہیں پہلے اور جو لوگ ان کے بعد آئے۔ اس آیت کے عموم میں تمام مسلمان شریک ہو گئے اب کوئی مسلمان ایسا نہیں جو مال فئی میں حقدار نہ ہو بجز غلاموں اور باندیوں کے جن کے تم مالک ہو۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: Malik ibn Aws al-Hadthan said: One of the arguments put forward by Umar was that he said that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) received three things exclusively to himself: Banu an-Nadir, Khaybar and Fadak. The Banu an-Nadir property was kept wholly for his emergent needs, Fadak for travellers, and Khaybar was divided by the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) into three sections: two for Muslims, and one as a contribution for his family. If anything remained after making the contribution of his family, he divided it among the poor Emigrants.
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ح و حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ح و حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَی وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ کُلُّهُمْ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ کَانَ فِيمَا احْتَجَّ بِهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ کَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ صَفَايَا بَنُو النَّضِيرِ وَخَيْبَرُ وَفَدَکُ فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ فَکَانَتْ حُبُسًا لِنَوَائِبِهِ وَأَمَّا فَدَکُ فَکَانَتْ حُبُسًا لِأَبْنَائِ السَّبِيلِ وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَجْزَائٍ جُزْأَيْنِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَجُزْئًا نَفَقَةً لِأَهْلِهِ فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ-
ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عبدالعزیز بن اسامہ بن زید، زہری، حضرت مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے (حضرت عباس اور حضرت علی کے قضیہ میں) جس چیز سے استدلال کیا وہ ان کا یہ قول تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تین صفایا مخصوص تھے۔ بنونضیر خیبر اور فدک۔ پس بنونضیر کا مال تو آپکی ضرویات کے لیے مخصوص تھا اور فدک کا مال ضروت مند مسافروں کے لیے اور خیبر کے مال کے آپ نے تین حصے فرما دئیے دو حصے مسلمانوں کے لیے ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے خرچ کیلئے آپ کے اہل عیال کے خرچ سے جو بچتا وہ مہاجرین فقراء پر صرف کیا جاتا۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: Malik ibn Aws al-Hadthan said: One of the arguments put forward by Umar was that he said that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) received three things exclusively to himself: Banu an-Nadir, Khaybar and Fadak. The Banu an-Nadir property was kept wholly for his emergent needs, Fadak for travellers, and Khaybar was divided by the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) into three sections: two for Muslims, and one as a contribution for his family. If anything remained after making the contribution of his family, he divided it among the poor Emigrants.
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَی أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَکَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي کَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَی فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام مِنْهَا شَيْئًا-
یزید بن خالد، عبداللہ بن موہب، لیث بن اسعد، عقیل بن خالد، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ نے اپنے والد کی میراث طلب کرنے کے لیے حضرت ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپ نے کو مدینہ میں فدک اور خیبر کے باقی ماندہ پانچویں حصہ میں عنایت فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکرنے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو مال ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ لہذا اس مال میں سے آل محمد صرف کھانے کے بقدر لیں گے اور خدا کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صدقہ کو اس حال سے نہ بدلوں گا جو آپ کے عہد میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات میں کرتے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابوبکر نے اس مال میں سے کچھ بھی فاطمہ کو دینے سے انکار کر دیا۔ (یہ انکار بطریق وراثت دینے میں تھا بطریق ولایت نہیں)
Narrated Aisha, Ummul Mu'minin: Fatimah was demanding (the property of) sadaqah of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) at Medina and Fadak, and what remained from the fifth of Khaybar. Aisha quoted AbuBakr as saying: The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: We are not inherited; whatever we leave is sadaqah. The family of Muhammad will eat from this property, that is, from the property of Allah. They will not take more then their sustenance.
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَالَ وَفَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام حِينَئِذٍ تَطْلُبُ صَدَقَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ وَفَدَکَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ وَإِنَّمَا يَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ يَعْنِي مَالَ اللَّهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَی الْمَأْکَلِ-
عمرو بن عثمان، شعیب بن ابی حمزہ، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے یہی حدیث مروی ہے۔ اس میں ہے کہ حضرت فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس صدقہ کو طلب کر رہی تھیں جو مدینہ اور فدک میں تھا اور جو خیبر کے پانچویں حصہ میں سے بچ رہا تھا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور اس مال میں سے یعنی اللہ کے مال میں سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد صرف کھانے (اور پہننے) کے بقدر لے گی۔ ان کے لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ کھانے پینے سے بڑھ کر اس مال میں سے کچھ لیں۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فِيهِ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهَا ذَلِکَ وَقَالَ لَسْتُ تَارِکًا شَيْئًا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ إِنِّي أَخْشَی إِنْ تَرَکْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَغَلَبَهُ عَلِيٌّ عَلَيْهَا وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَکُ فَأَمْسَکَهُمَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَی مَنْ وَلِيَ الْأَمْرَ قَالَ فَهُمَا عَلَی ذَلِکَ إِلَی الْيَوْمِ-
حجاج بن ابی یعقوب ابن ابراہیم، سعد، صالح، ابن شہاب، حضرت عروہ نے حضرت عائشہ سے یہی حدیث روایت کی ہے اس میں یہ ہے کہ حضرت ابوبکر نے (حضرت فاطمہ کو میراث دینے سے) انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا جس کو رسول اللہ انجام دیتے تھے۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں کوئی ایسا کام چھوڑ دوں گا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو گمراہ ہوجاؤں گا۔ پھر حضرت عمرنے (اپنے زمانہ خلافت میں) اس صدقہ کو جو مدینہ میں تھا حضرت علی اور حضرت عباس کے حوالہ کر دیا (بطریق ولایت نہ کہ بطریق میراث) مگر علی اس پر قابض رہے اور خیبر وفدک کے مال کو حضرت عمرنے اپنے ہی پاس رکھا اور فرمایا یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہیں جو آپ کی ضروریات اور دیگر مقاصد میں استعمال ہوتے تھے اس کا اختیار اس کو رہے گا جو ولی امر ہوگا (یعنی خلیفہ) راوی کا بیان ہے کہ یہ دونوں یعنی خیبر اور فدک آج تک اسی صورت حال پر برقرار ہیں۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ فِي قَوْلِهِ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ قَالَ صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ فَدَکَ وَقُرًی قَدْ سَمَّاهَا لَا أَحْفَظُهَا وَهُوَ مُحَاصِرٌ قَوْمًا آخَرِينَ فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ بِالصُّلْحِ قَالَ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ يَقُولُ بِغَيْرِ قِتَالٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَکَانَتْ بَنُو النَّضِيرِ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا لَمْ يَفْتَحُوهَا عَنْوَةً افْتَتَحُوهَا عَلَی صُلْحٍ فَقَسَمَهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ لَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا رَجُلَيْنِ کَانَتْ بِهِمَا حَاجَةٌ-
محمد بن عبید ابن ثور، معمر، حضرت زہری سے روایت ہے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم نے ان مالوں کے حصول میں اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (یعنی جنگ کے بغیر حاصل کیے اس کا قصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اور گاؤں والوں سے صلح کی اس حال میں کہ آپ ایک قوم کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرے شیخ نے اس گاؤں کا نام لیا تھا لیکن مجھے یاد نہیں رہا۔ ان لوگوں نے آپ کے پاس بطور صلح مال بھیجا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ۔ ان مالوں پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے یعنی بغیر جنگ کے یہ مال ہاتھ آیا۔ زہری کہتے ہیں کہ بنونضیر کے اموال بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خاص تھے کیونکہ مسلمانوں نے اس کو بزور بازو حاصل نہ کیا تھا بلکہ صلح کر کے حاصل کیا تھا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو مہاجرین میں تقسیم فرمایا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا سوائے ان دو شخصوں کے جو ضرورت مند تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتْ لَهُ فَدَکُ فَکَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَی صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَی فَکَانَتْ کَذَلِکَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی مَضَی لِسَبِيلِهِ فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّی مَضَی لِسَبِيلِهِ فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّی مَضَی لِسَبِيلِهِ ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ عُمَرُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَأَنَا أُشْهِدُکُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَی مَا کَانَتْ يَعْنِي عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو دَاوُد وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْخِلَافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ وَلَوْ بَقِيَ لَکَانَ أَقَلَّ-
عبداللہ بن جراح، جریر، حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو انھوں نے مروان کے بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو فدک تھا آپ اس کے مال سے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے بنوہاشم کے چھوٹے بچوں پر صرف فرماتے اور بیوہ عورتوں کے نکاح میں خرچ کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ نے فدک کو اپنے لیے طلب کیا مگر آپ نے نہیں دیا (بلکہ اپنے ہی قبضہ میں رکھا) اور آپ کی زندگی بھر ایسا ہی رہا۔ یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی۔ پھر جب آپ کے بعد ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے بھی فدک کا وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی میں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہو گئی۔ پھر جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو انھوں نے بھی فدک کے مال میں اسی طرح تصرف کیا جس طرح ان کے دونوں پیشرو کرتے رہے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر) یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد مروان نے اس کو اپنے ذاتی تصرف میں لے لیا۔ پھر وہ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا میں نے ایک ایسا کام ہوتے دیکھا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو بھی منع فرما دیا تھا تو میرے لیے بھی جائز نہیں (یعنی فدک کو اپنے ذاتی تصرف میں رکھنا (اور میں تم کو اس پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو (یعنی فدک کو) اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس حالت پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تھا (یعنی ذاتی تصرف سے نکال کر وقف کردیا)۔
Narrated Umar ibn AbdulAziz: Al-Mughirah (ibn Shu'bah) said: Umar ibn AbdulAziz gathered the family of Marwan when he was made caliph, and he said: Fadak belonged to the Apostle of Allah (peace_be_upon_him), and he made contributions from it, showing repeated kindness to the poor of the Banu Hashim from it, and supplying from it the cost of marriage for those who were unmarried. Fatimah asked him to give it to her, but he refused. That is how matters stood during the lifetime of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) till he passed on (i.e. died). When AbuBakr was made ruler he administered it as the Prophet (peace_be_upon_him) had done in his lifetime till he passed on. Then when Umar ibn al-Khattab was made ruler he administered it as they had done till he passed on. Then it was given to Marwan as a fief, and it afterwards came to Umar ibn AbdulAziz. Umar ibn AbdulAziz said: I consider I have no right to something which the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) refused to Fatimah, and I call you to witness that I have restored it to its former condition; meaning in the time of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him).
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ جَائَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَی أَبِي بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ-
عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، ولید بن جمیع، حضرت ابوالطفیل سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر کے پاس حضرت فاطمہ اپنی میراث طلب کرنے آئیں جو (ان کے خیال میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کو پہنچی تھی۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے۔ بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کو ملتی ہے جو اس کا قائم مقام ہوتا ہے۔
Narrated AbuBakr: AbutTufayl said: Fatimah came to AbuBakr asking him for the inheritance of the Prophet (peace_be_upon_him). AbuBakr said: I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say: If Allah, Most High, gives a Prophet some means of sustenance, that goes to his successor.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ قَالَ أَبُو دَاوُد مُؤْنَةُ عَامِلِي يَعْنِي أَکَرَةَ الْأَرْضِ-
عبداللہ بن مسلمہ، مالک، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میرے وارث اس ایک دینار کو بھی تقسیم نہ کریں گے جو میں اپنے بعد چھوڑجاؤں بجز اپنی بیویوں کے خروج اور عامل کی محنت کے۔ باقی سب صدقہ ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ حَدِيثًا مِنْ رَجُلٍ فَأَعْجَبَنِي فَقُلْتُ اکْتُبْهُ لِي فَأَتَی بِهِ مَکْتُوبًا مُذَبَّرًا دَخَلَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ عَلَی عُمَرَ وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ وَسَعْدٌ وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ عُمَرُ لِطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعْدٍ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ إِلَّا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَکَسَاهُمْ إِنَّا لَا نُورَثُ قَالُوا بَلَی قَالَ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَی أَهْلِهِ وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَلِيَهَا أَبُو بَکْرٍ سَنَتَيْنِ فَکَانَ يَصْنَعُ الَّذِي کَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَکَرَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِ مَالِکِ بْنِ أَوْسٍ-
عمرو بن مرزوق، شعبہ، عمرو بن مرہ، حضرت ابوالبختری سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص سے ایک حدیث سنی جو مجھے پسند آئی میں نے کہا مجھے یہ حدیث لکھ کر دے دو تو وہ اس حدیث کو صاف صاف لکھ کر لایا۔ اس حدیث میں تھا کہ حضر عباس اور حضرت علی حضرت عمر کے پاس آئے اس وقت ان کے پاس حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد اور حضرت عبدالرحمن بن عوف موجود تھے۔ یہ دونوں (یعنی حضرت عباس اور حضرت علی) آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضرت عمر نے حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن اور حضرت سعد سے پوچھا کہ کیا تم کو یہ بات نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نبی کا تمام مال صدقہ ہوتا ہے بجز اس کے جو خود اس کے اور اس کے اہل وعیال کے کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے کے لیے ضروری ہو اور ہم لوگوں (یعنی گروہ انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ان سب حضرات نے کہا ہاں بیشک آپ نے یہ فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے مزید فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل وعیال پر صرف کرتے تھے اور جو اس سے باقی بچتا وہ صدقہ فرما دیتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی اور اس مال کے متولی دو سال تک حضرت ابوبکر قرار پائے اور آپ اس میں سے اسی طرح تصرف کرتے رہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد راوی نے مالک بن اوس کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: AbulBakhtari said: I heard from a man a tradition which I liked. I said to him: Write it down for me. So he brought it clearly written to me. (It says): Al-Abbas and Ali entered upon Umar when Talhah, az-Zubayr, AbdurRahman and Sa'd were with him. They (Abbas and Ali) were disputing. Umar said to Talhah, az-Zubayr, AbdurRahman and Sa'd: Do you not know that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: All the property of the Prophet (peace_be_upon_him) is sadaqah (alms), except what he provided for his family for their sustenance and their clothing. We are not to be inherited. They said: Yes, indeed. He said: The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) used to spend from his property on his family, and give the residue as sadaqah (alms). The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) then died, and AbuBakr ruled for two years. He would deal with it in the same manner as the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) did. He then mentioned a little from the tradition of Malik ibn Aws.
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ-
قعنبی، مالک بن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو آپ کی ازواج نے چاہا کہ حضرت ابوبکر کے پاس اپنا آٹھواں حصہ طلب کرنے کیلئے حضرت عثمان بن عفان کو بھیجیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کو بطور میراث پہنچتا تھا۔ تو حضرت عائشہ نے ان سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ۔ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو مال چھوڑجائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ فَارِسٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ قُلْتُ أَلَا تَتَّقِينَ اللَّهَ أَلَمْ تَسْمَعْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ وَإِنَّمَا هَذَا الْمَالُ لِآلِ مُحَمَّدٍ لِنَائِبَتِهِمْ وَلِضَيْفِهِمْ فَإِذَا مُتُّ فَهُوَ إِلَی وَلِيِّ الْأَمْرِ مِنْ بَعْدِي-
محمد بن یحیی بن فارس، ابراہیم بن حمزہ، حاتم بن اسماعیل، اسامہ بن زید، ابن شہاب سے بھی یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مروی ہے جیسا کہ پہلی حدیث۔ اس میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ نے ان ازواج سے کہا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتیں؟ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ۔ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے اور یہ مال آلِ محمد کی ضروریات اور ان کے مہمانوں کے لیے ہے۔ جب میں مرجاؤں تو یہ مال اس کے پاس رہے گا جو میرے بعد ولی امر (یعنی خلیفہ) ہوگا۔
-