ابن صیاد کا بیان

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ کَتَبَ رَجُلٌ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنْ الْقَدَرِ ح و حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَی قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يُحَدِّثُنَا عَنِ النَّضْرِ ح و حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ قَبِيصَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ عَنْ أَبِي الصَّلْتِ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ کَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ قَالَ کَتَبَ رَجُلٌ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنْ الْقَدَرِ فَکَتَبَ أَمَّا بَعْدُ أُوصِيکَ بِتَقْوَی اللَّهِ وَالِاقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرْکِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ وَکُفُوا مُؤْنَتَهُ فَعَلَيْکَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ فَإِنَّهَا لَکَ بِإِذْنِ اللَّهِ عِصْمَةٌ ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعْ النَّاسُ بِدْعَةً إِلَّا قَدْ مَضَی قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلَافِهَا وَلَمْ يَقُلْ ابْنُ کَثِيرٍ مَنْ قَدْ عَلِمَ مِنْ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ فَارْضَ لِنَفْسِکَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِهِمْ فَإِنَّهُمْ عَلَی عِلْمٍ وَقَفُوا وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ کَفُّوا وَهُمْ عَلَی کَشْفِ الْأُمُورِ کَانُوا أَقْوَی وَبِفَضْلِ مَا کَانُوا فِيهِ أَوْلَی فَإِنْ کَانَ الْهُدَی مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ وَلَئِنْ قُلْتُمْ إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ مَا أَحْدَثَهُ إِلَّا مَنْ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ فَإِنَّهُمْ هُمْ السَّابِقُونَ فَقَدْ تَکَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَکْفِي وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِکَ لَعَلَی هُدًی مُسْتَقِيمٍ کَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنْ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ فَعَلَی الْخَبِيرِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَعْتَ مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ وَلَا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا وَلَا أَثْبَتُ أَمْرًا مِنْ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ لَقَدْ کَانَ ذَکَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلَائُ يَتَکَلَّمُونَ بِهِ فِي کَلَامِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَی مَا فَاتَهُمْ ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الْإِسْلَامُ بَعْدُ إِلَّا شِدَّةً وَلَقَدْ ذَکَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ وَلَا حَدِيثَيْنِ وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ فَتَکَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ وَتَضْعِيفًا لِأَنْفُسِهِمْ أَنْ يَکُونَ شَيْئٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ وَلَمْ يُحْصِهِ کِتَابُهُ وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ وَإِنَّهُ مَعَ ذَلِکَ لَفِي مُحْکَمِ کِتَابِهِ مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ وَلَئِنْ قُلْتُمْ لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ کَذَا لِمَ قَالَ کَذَا لَقَدْ قَرَئُوا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِکَ کُلِّهِ بِکِتَابٍ وَقَدَرٍ وَکُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ وَمَا يُقْدَرْ يَکُنْ وَمَا شَائَ اللَّهُ کَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَکُنْ وَلَا نَمْلِکُ لِأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِکَ وَرَهِبُوا-
محمد بن کثیر، سفیان، عمر بن عبدالعزیز (یہ حدیث تین سند سے مروی ہے۔ سفیان ثوری کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے۔ دوسری سند۔ سفیان ثوری نضر سے روایت کرتے ہیں کہ۔ تیسری سند) ابورجاء نے ابوالصلت سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں پوچھنے کے لیے تو انہوں نے لکھا کہ اما بعد۔ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس کے معاملہ میں راہ اعتدال پر چلنے کی۔ اور اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کی وصیت کرتا ہوں اور اہل بدعت و مبتدعین نے جو کچھ دین میں ایجاد کرلیا ہے اسے چھوڑنے کی۔ سنت نبوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاری ساری ہونے کے بعد اور اس کی مشقت سے وہ سبکدوش ہوگئے تھے۔ پس تم پر لازم ہے کہ سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھو کیونکہ وہ تمہارے لیے اللہ کے حکم سے بچاؤ ہے پھر جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں ایجاد کی پچھلے زمانہ میں اس کے بطلان پر دلیل نہ ہو۔ یا اس کے اندر لوگوں کو عبرت نہ ہوئی ہو کیونکہ سنت کا اجراء ایسے شخص اور ہستی نے کیا تھا جسے معلوم تھا کہ اس کی سنت کے خلاف میں کیا کیا خطائیں لغزشیں، حماقتیں اور گہرائیاں ہیں پس تم اپنے نفس کے لیے اس چیز کو پسند کیا تھا کیونکہ وہ علم دین سے واقف تھے اور بہت باریک بین تھے اور غور و فکر سے کام لے کر ممنوعات سے رک گئے تھے اور وہ احکام دین کا مطلب سمجھنے پر ہم سے زیادہ اقوی اور قادر تھے اور ان کے اندر جو فضائل تھے ان کی بناء پر وہ اور زیادہ بہتر تھے اور تم جس طریقہ پر رہو اگر اس میں ہدایت ہوتی تو تم ان پر سبقت کر گئے اور اگر تم یہ کہو کہ جس نے ان کے بعد نئی نئی باتیں ایجاد کیں تو وہ ان کے طریقہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض وبیزاری کا اظہار کیا تو بے شک ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وہی سبقت لے جانے والے ہیں پس انہوں نے جتنا کافی ہے اتنا بیان کردیا اس بارے میں جتنا شافی ہے وہ کہہ دیا پس ان کے پیچھے بھی کوئی کمی نہیں اور ان کے اوپر بھی کوئی زیادتی نہیں اور بے شک ایک قوم نے کوتاہی کی ان کے نیچے تو انہوں نے جفا اور ظلم کیا اور بعض لوگ ان سے اونچے ہوگئے تو انہوں نے غلو سے کام لیا۔ اور بے شک اسلام امت ان کے دونوں کے درمیان صراط مستقیم پر تھے تم نے تقدیر کے اقرار کے بارے میں سوال لکھا ہے تو اللہ کے حکم سے تم نے ایک عالم اور ایک باخبر آدمی سے پوچھا ہے تو جہاں تک میرے علم میں ہے لوگوں نے جتنی بدعات اور نئی باتیں ایجاد کی ہیں ان میں تقدیر پر اقرار کا بیان خوب واضح ہے اور مضبوط ہے دور جاہلیت میں اس کا تذکرہ تھا حتی کہ جہلاء اس کے بارے میں کلام کرتے تھے اپنی گفتگو میں اور اپنے اشعار میں اور اس کے ذریعہ سے اپنی ضائع اور فوت ہوجانے والی اشیاء پر صبر کرتے تھے پھر اسلام نے اس میں سوائے شدت کے کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اور بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا تذکرہ کیا ہے ایک یا دو حدیثوں میں نہیں اور مسلمانوں نے اس کو سنا آپ سے اور اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور وفات کے بعد گفتگو بھی کرتے رہے اپنے پروردگار پریقین رکھتے ہوئے اور تسلیم کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو کمزور کرتے ہوئے کہ کوئی ایسی چیز ہو جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو اور اس کی کتاب نے اسے شمار نہ کیا ہو اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوئی ہو اور ان کے اس ایمان کے باوجود اللہ کی محکم کتاب میں تقدیر کا ذکر موجود ہے اس سے ہی انہوں نے اقتباس لیا اس بارے میں اور اس سے تقدیر کا علم سیکھا اور اگر تم یہ کہو کہ اللہ نے فلاں آیت کیوں نازل کی؟ اور فلاں بات کیوں کہی؟ تو بے شک وہ اس میں یہ آیتیں پڑھ چکے ہیں جو تم پڑھتے ہو اور اس کی تاویل ومطلب بھی جانتے تھے جس سے تم جاہل ہو اور اس سب کے باوجود کتاب اللہ اور تقدیر کے قائل رہے اور جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو وہ نہیں چاہے گا نہیں ہوگا اور ہم اپنے آپ کے لیے نفع کے ہیں اور نہ نقصان پر قدرت رکھتے ہیں پھر اسی یقین کے ساتھ اس کے بعد رغبت کرتے رہے اور ڈرتے رہے۔ (اعمال شر سے)
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ مَوْلَی بَنِي تَيْمٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فَذَکَرَ نَحْوَهُ قَالَ فَإِذَا قَالُوا ذَلِکَ فَقُولُوا اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ کُفُوًا أَحَدٌ ثُمَّ لِيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا وَلْيَسْتَعِذْ مِنْ الشَّيْطَانِ-
محمد بن عمرو، ابن فضل، ابن اسحاق، عتبہ بن مسلم، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سابقہ حدیث کی مانند ہی بیان کیا۔ اس میں یہ فرق ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب لوگ اللہ کے بارے میں ایسی بات کہیں (کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا) تو کہو کہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ کسی نے اس کو جنا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہم سر ہے۔ پھر یہ کلمات کہے اور اپنے بائیں جانب تھوکے تین مرتبہ تھوکے اور اللہ کی پناہ مانگے شیطان سے۔
Narrated AbuHurayrah: I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say: He then mentioned a tradition like it. This version adds: When they propound that, say: "Say Allah is one. Allah is He to Whom men repair. He has not begotten and He has not been begotten, and no one is equal to Him." Then one should spit three times on his left side and seek refuge in Allah from Satan.