سورت منافقون کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ کُنْتُ مَعَ عَمِّي فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولٍ يَقُولُ لِأَصْحَابِهِ لَا تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّی يَنْفَضُّوا وَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لِيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعَمِّي فَذَکَرَ ذَلِکَ عَمِّي للنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ فَحَلَفُوا مَا قَالُوا فَکَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي شَيْئٌ لَمْ يُصِبْنِي قَطُّ مِثْلُهُ فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ عَمِّي مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ کَذَّبَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی إِذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ فَبَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهَا ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، ابواسحاق ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ تھا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہیں ان پر خرچ مت کرو۔ یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ہٹ جائیں۔ اور اگر ہم مدینہ واپس آئے تو عزت دار لوگ ذلیل لوگوں (یعنی صحابہ مہاجرین) کو نکال دیں گے۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بات پہنچا دی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلوا کر پوچھا۔ میں نے پوری بات بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اسکے ساتھیوں کو بلوایا۔ انہوں نے آ کر قسم کھائی کہ ہم نے یہ بات نہیں کی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جھٹلایا اور ان کو سچا تسلیم کر لیا۔ حضرت زید فرماتے ہیں مجھے اس کا اتنا دکھ ہوا کہ کبھی زندگی میں اتنا دکھ نہیں ہوا۔ میں اگھر میں بیٹھ گیا تو چچا کہنے لگے کہ تم یہی چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں جھٹلا دیں اور تجھ سے خفا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (اِذَا جَا ءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63۔ المنافقون : 1) (جب آئیں تیرے پاس منافق کہیں ہم قائل ہیں تو رسول ہے اللہ کا اور اللہ جانتا ہے کہ تو اسکا رسول ہے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلوایا اور یہ سورت پڑھنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق کی ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Zayd ibn Arqam (RA) narrated: I was with my uncle when I heard Abdullah ibn Ubayy ibn Salul say to his friends. "Expend not on those who are with Allah’s Messenger until they disperse." (63: 2) "If we return to Al-Madinah, the mightier ones of it will expel there from the meaner ones."(63 : 8) I mentioned that to my uncle who mentioned that to the Prophet (SAW) . The Prophet (SAW) called me and I narrated to him (what I had heard). So, Allah’s Messenger (SAW) sent for Abdullah ibn Ubayy and his friends who swore that they did not say that. Thus, Allah’s Messenger (SAW) belied me and accepted his word. This brought me a feeling as had never affected me, and I confined myself to my home. My uncle said to me. “You had no intention but that Allah’s Messenger should belie you and become angry.” But, Allah revealed: "When the hypocrites come to you...." (63 : 10) Allah’s Messenger sent for me, recited it and said, “Surely, Allah has proved you true.” [Ahmed 19305, Bukhari 4900, Muslim 2772]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ فَکُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَائَ وَکَانَ الْأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْهِ فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَهُ فَيَسْبَقُ الْأَعْرَابِيُّ فَيَمْلَأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَهُ حِجَارَةً وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْهِ حَتَّی يَجِيئَ أَصْحَابُهُ قَالَ فَأَتَی رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا فَأَرْخَی زِمَامَ نَاقَتِهِ لِتَشْرَبَ فَأَبَی أَنْ يَدَعَهُ فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَائِ فَرَفَعَ الْأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَهُ فَضَرَبَ بِهَا رَأْسَ الْأَنْصَارِيِّ فَشَجَّهُ فَأَتَی عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ فَأَخْبَرَهُ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ فَغَضِبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ثُمَّ قَالَ لَا تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّی يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ يَعْنِي الْأَعْرَابَ وَکَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ فَلْيَأْکُلْ هُوَ وَمَنْ عِنْدَهُ ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ قَالَ زَيْدٌ وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فَأَخْبَرْتُ عَمِّي فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفَ وَجَحَدَ قَالَ فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَذَّبَنِي قَالَ فَجَائَ عَمِّي إِلَيَّ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ مَقَتَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَذَّبَکَ وَالْمُسْلِمُونَ قَالَ فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنْ الْهَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَی أَحَدٍ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنْ الْهَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَکَ أُذُنِي وَضَحِکَ فِي وَجْهِي فَمَا کَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَکْرٍ لَحِقَنِي فَقَالَ مَا قَالَ لَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُ عَرَکَ أُذُنِي وَضَحِکَ فِي وَجْهِي فَقَالَ أَبْشِرْ ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ قَوْلِي لِأَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، سدی، ابوسعید ازدی، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے گئے ہمارے ساتھ کچھ دیہاتی بھی تھے۔ ہم لوگ تیزی سے پانی کی طرف دوڑے۔ دیہاتی ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے اور ایک دیہاتی نے پہنچ کر حوض بھرا اور اس کے گرد پتھر لگا کر اس پر چمڑا ڈال دیا۔ (تاکہ کوئی اور پانی نہ لے سکے) صرف اسکے ساتھی ہی وہاں آئیں۔ ایک انصاری اس کے پاس گیا اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کر دی تاکہ وہ پانی پی لے۔ لیکن دیہاتی نے انکار کر دیا۔ اس پر انصاری نے پانی کی روک ہٹا دی (تاکہ پانی بہہ جائے) اس دیہاتی نے ایک لکڑی اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار دی جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا۔ یہ قصہ سن کر عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کے پاس سے چلے جائیں۔ یعنی دیہاتی لوگ۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھانے کے وقت حاضر ہوا کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کھانا اس وقت لے کر جایا کرو جب یہ لوگ جا چکیں جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو وہاں کے عزت دار لوگوں کو چاہیے کہ ذلیل لوگوں (یعنی اعراب) کو وہاں سے نکال دیں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میں نے عبداللہ کی بات سنی اور پر اپنے چچا کو بتا دی۔ چچا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو بلوایا تو اس نے آ کر قسم کھائی اور اس بات کا انکار کر دیا کہ اس نے یہ نہیں کہا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سچا سمجھ کر مجھے جھٹلا دیا۔ پھر میرے چچا میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم یہی چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے ناراض ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمان تمہیں جھٹلا دیں۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ مجھے اس کا اتنا دکھ ہوا کہ کسی اور کو نہ ہوا ہوگا۔ پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سر جھکائے چل رہا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرا کان کھینچ کہ میرے سامنے ہنسنے لگے۔ مجھے اگر دنیا میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری بھی ملتی تو بھی میں اتنا خوش نہ ہوتا جتنا اس وقت ہوا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے ملے اور پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا کچھ فرمایا تو نہیں بس میرا کان ملا اور ہنسنے لگے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ملے۔ انہوں نے بھی اسی طرح پوچھا اور میں نے بھی وہی جواب دیا۔ چنانچہ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورت منافقون پڑھی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Zayd ibn Arqam (RA) narrated: We participated with the Prophet (SAW) in a battle. There were some villagers with us. We rushed towards water but the villagers overtook us there. One of them was the first. He filled the pond, put stones around it and covered it with a piece of leather to prevent all but his co-villagers (from using the water). An Ansar came there and released the reins of his she-camel that she might drink water, but this man did not allow him (the facility). The Ansar removed the stone (to allow water to flow out) and the villager picked up a stick and struck the Ansar on his head causing a wound. He went to Abdullah ibn Ubayy, the chief of the hypocrites, and informed him. He was with his friends and he went into a rage and said, "Do not spend anything upon those who are with the Messenger of Allah (SAW) until they disperse -meaning, the villagers who used to come to Allah's Messenger (SAW) at the time of the meals. He meant that they should take food to the Prophet (SAW) only when the villagers were gone so that only the Prophet (SAW) and those who were with him might eat it. He also said to his friends, "When we return to Madinah, the mighty will certainly drive out the humble from there." (Zayd said) : I was the co-rider with Allah's Messenger (SAW) and I heard him. I informed my uncle and he went and conveyed the news to Allah's Messenger (SAW) who sent for him and he swore that he had not said any such thing. Allah's Messenger (SAW) upheld his word and belied me. My uncle came to me and said that I wanted nothing but the Prophet's (SAW) anger, and that he and the Muslims should belie me. A grief overcame-me as had not overcome anyone. While I was walking with Allah's Messenger (SAW) with my head lowered with sorrow, he drew near me and pulling my ears laughed. This pleased me so much that even tidings of perpetual life in this world would not have pleased me as much. Abu Bakr came to me and asked, "What did Allah's Messenger (SAW) say to you?" I told him that he said nothing except that he pulled my ears and laughed before me. He said, "That's good news for you." Then Umar came and I said to him like what I had told Abu Bakr. When it was morning, Allah's Messenger (SAW) recited surah al-Munafiqun.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَکَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ الْقُرَظِيَّ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ فِي غَزْوَةِ تَبُوکَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَهُ فَحَلَفَ مَا قَالَهُ فَلَامَنِي قَوْمِي وَقَالُوا مَا أَرَدْتَ إِلَّا هَذِهِ فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ وَنِمْتُ کَئِيبًا حَزِينًا فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَتَيْتُهُ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَکَ قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ هُمْ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّی يَنْفَضُّوا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمد بن بشار، محمد بن ابی عدی، شعبہ، حکم بن عتیبہ، محمد بن کعب قرظی، حکم بن عتیبہ سے روایت ہے کہ میں نے محمد بن کعب قرظی سے چالیس سال پہلے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنی کہ عبداللہ بن ابی نے غزوہ تبوک کے موقع پر کہا کہ جب ہم مدینہ جائیں گے تو وہاں کے عزت دار لوگ ذلیل لوگوں کو باہر کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور یہ بات بتائی تو عبداللہ بن ابی نے قسم کھائی کہ میں نے یہ بات نہیں کی۔ اس پر میری قوم کے لوگ مجھے ملامت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اس جھوٹ بولنے سے تمہارا کیا مقصد تھا؟ میں گھر آیا اور غمگین و حزین ہو کر سو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے یا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ نے تمہاری بات کی تصدیق کی ہے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا) 63۔ المنافقون : 7) (وہی ہیں جو کہتے ہیں مت خرچ کرو ان پر، جو پاس رہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں تک کہ متفرق ہو جائیں۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Hakam ibn Utaybah narrated that he had heard the Hadith of Zayd ibn Arqam (RA) forty years prior to Muhammad ibn Ka'b Qurazi. During the Battle of Tabuk, Abdullah ibn Ubayy had said: "If we return to Madinah, surely the more honourable will expel therefrom the humbler."(63: 8) So, Zayd came to the Prophet (SAW) and mentioned that to him. But, he swore that he had not uttered those words. Thus his people blamed Zayd, saying. "What did you intend with that?" He went home and went to sleep grieved. Then the Prophet (SAW) went to him -or he went to the Prophet (SAW) and he said, "Surely Allah has confirmed your truth" and he said that this verse is revealed: "They are the ones who say, "Spend nothing on those who are with Allah's Messenger, to the end that they may disperse (and quit Medina)." (63: 7)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ کُنَّا فِي غَزَاةٍ قَالَ سُفْيَانُ يَرَوْنَ أَنَّهَا غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَالِلْمُهَاجِرِينَ وَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ يَالِلْأَنْصَارِ فَسَمِعَ ذَلِکَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ دَعْوَی الْجَاهِلِيَّةِ قَالُوا رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ کَسَعَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ فَسَمِعَ ذَلِکَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولٍ فَقَالَ أَوَقَدْ فَعَلُوهَا وَاللَّهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّهِ لَا تَنْقَلِبُ حَتَّی تُقِرَّ أَنَّکَ الذَّلِيلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَزِيزُ فَفَعَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے۔ سفیان کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غزوہ بنی مصطلق کا واقعہ ہے۔ اس میں ایک مہاجر نے ایک انصاری کو دھتکار دیا۔ اس پر مہاجر کہنے لگے اے مہاجرو اور انصاری انصار کو پکارنے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ سنا تو فرمایا کیا بات ہے یہ جاہلیت کی پکار کی کیا وجہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو دھتکار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کی (اس عادت) کو چھوڑ دو یہ بری چیز ہے۔ یہ بات عبداللہ بن ابی نے سنی تو کہنے لگا کہ ان لوگوں نے اس طرح کیا ہے؟ جب ہم مدینہ جائیں گے تو وہاں کے معززین، ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جانے دو، ورنہ لوگ کہیں گے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے علاوہ دوسرے راوی کہتے ہیں کہ اس پر عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اس وقت تکیہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ تم ذلیل اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معزز ہیں۔ پھر اس نے اقرار کیا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) reported that they were participating in a battle - Sufyan thought that it was the Battle of Banu Mustaliq. One of the Muhajirs kicked an Ansar, and called out, "O Muhajirs!" And the Ansar called for help. "O Ansars!" The Prophet (SAW) heard it and said, "What is wrong that you raise the cry of the.jahiliyah?" They said that a man of the Muhajirs had kicked one of Ansars. The Prophet (SAW) said, "Give up the practice (of the call), for, it is detestable." Abdullah ibn Ubayy ibn Salul heard that and asked. Have they done it? By Allah: They say, "If we return to Medina, surely the more honourable (element) will expel therefrom the meaner." (63; 8) Umar said, "O Messenger of Allah, permit me to chop off the head of this hypocrite." The Prophet (SAW) said, "Leave him alone else people will say that Muhammad kills his companions." A narrator other than Amr narrated that his son, Abdullah ibn Abdullah said, "By Allah! We shall not turn back till you admit that you are mean and Allah's Messenger (SAW) is honourable." So, he did admit that. [Ahmed 14637, Bukhari 3518, Muslim 2584]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْکَلْبِيُّ عَنْ الضَّحَّاکِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَنْ کَانَ لَهُ مَالٌ يُبَلِّغُهُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّهِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّکَاةُ فَلَمْ يَفْعَلْ يَسْأَلْ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ فَقَالَ رَجُلٌ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ اتَّقِ اللَّهَ إِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجْعَةَ الْکُفَّارُ قَالَ سَأَتْلُو عَلَيْکَ بِذَلِکَ قُرْآنًا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ هُمْ الْخَاسِرُونَ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِلَی قَوْلِهِ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ قَالَ فَمَا يُوجِبُ الزَّکَاةَ قَالَ إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا قَالَ فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ الزَّادُ وَالْبَعِيرُ-
عبد بن حمید، جعفر بن عون، ابوجناب کلبی، ضحاک بن مزاحم، ابن عباس سے روایت ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کے لیے جا سکے یا اس مال پر زکوة واجب ہوتی ہو لیکن وہ نہ حج کرے اور نہ زکوة دے تو موت کے وقت اس کی تمنا ہوگی کہ کاش میں واپس دنیا میں چلا جاؤں۔ ایک شخص نے عرض کیا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اللہ سے ڈرو (دنیا میں) لوٹنے کی تمنا تو کفار کریں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اس کے متعلق تمہارے سامنے قرآن مجید پڑھتا ہوں پھر آیت پڑھی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰ ى ِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ Ḍ وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) 63۔ المنافقون : 9) (اے ایمان والو غافل نہ کر دیں تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہی لوگ ہیں خسارے میں اور خرچ کرو کچھ ہمارا دیا ہوا، اس سے پہلے کہ آپہنچے تم میں کسی کو موت۔ تب کہے اے رب کیوں نہ ڈھیل دی تو نے مجھ کو ایک تھوڑی سی مدت کہ میں خیرات کرتا اور ہو جاتا نیک لوگوں میں اور ہرگز نہ ڈھیل دے گا اللہ کسی جی کو۔ جب آپہنچا اس کا وعدہ اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ) اس شخص نے پوچھا کہ زکوة کتنے مال پر واجب ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر دو سو درہم یا اس سے زیادہ ہو۔ پھر اس نے پوچھا کہ حج کب فرض ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زادراہ اور سواری ہونے پر۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) said that if anyone possesses enough wealth to enable him to go and perform Hajj at the House of his Lord, or to make it obligatory on him to pay zakah but does not do that, at the then time of death he will plead for a return (to earthly life). A man exclaimed, "O Ibn Abbas! Fear Allah. Only the disbelievers will long for a return." So, he said, "I will recite to you from the Qur'an concerning that (what I say)." And he recited: "O ye who believe! Let not your riches or your children divert you from the remembrance of Allah. If any act thus, the loss is their own. And spend something (in charity) out of the substance which We have bestowed on you, before Death should come to any of you and he should say, "O my Lord! why didst Thou not give me respite for a little while? I should then have given (largely) in charity, and I should have been one of the doers of good". But to no soul will Allah grant respite when the time appointed (for it) has come; and Allah is well acquainted with (all) that ye do." (63: 9 -11)The man asked. "What makes zakah obligatory?" He said, "When the property is two hundred (dirhams) or more." "And", he asked, "What makes Hajj obligatory?" He said, "Provision for the journey and (availability of) the conveyance."
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي حَيَّةَ عَنْ الضَّحَّاکِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ و قَالَ هَکَذَا رَوَی سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي جَنَابٍ عَنْ الضَّحَّاکِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَبُو جَنَابٍ اسْمُهُ يَحْيَی بْنُ أَبِي حَيَّةَ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ-
عبد بن حمید ، عبدالرزاق ، ہم سے روایت کی عبد بن حمید نے انہوں نے عبدالرزاق سے وہ ثوری سے وہ یحیی بن ابی حیہ سے وہ ضحاک سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مثل نقل کرتے ہیں ۔ ابن عیینہ اور کئی راوی بھی یہ حدیث ابوخباب سے وہ ضحاک سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح انہی کا قول نقل کرتے ہیں اور عبدالرزاق کی روایت سے یہ زیادہ صحیح ہے اور ابوخباب کا نام یحیی ہے ۔ وہ حدیث میں قوی نہیں
Abd ibni Humayd reported the like of it from Abdur Razzaq, from Thawri, from Yahya ibn Abu Hayyah, from Dahhak, from Ibn Abbas (RA) from the Prophet (SAW). Similarly Sufyan ibn Uyaynah and others reported this Hadith from Abu Janab from Dahhak from Ibn Abbas his saying without making it marfu. This is more sahih than the Hadith of Abdur ‘‘ Razzaq. As for Abu Janab al-Qassab, his name was Yahya ibn Abu Habbah, and he was not sound in Hadith.