سورت مجادلہ کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوانِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ کُنْتُ رَجُلًا قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَائِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ تَظَاهَرْتُ مِنْ امْرَأَتِي حَتَّی يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُصِيبَ مِنْهَا فِي لَيْلَتِي فَأَتَتَابَعَ فِي ذَلِکَ إِلَی أَنْ يُدْرِکَنِي النَّهَارُ وَأَنَا لَا أَقْدِرُ أَنْ أَنْزِعَ فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَکَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْئٌ فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَی قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي فَقُلْتُ انْطَلِقُوا مَعِي إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرَهُ بِأَمْرِي فَقَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ نَتَخَوَّفُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَةً يَبْقَی عَلَيْنَا عَارُهَا وَلَکِنْ اذْهَبْ أَنْتَ فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَکَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي فَقَالَ أَنْتَ بِذَاکَ قُلْتُ أَنَا بِذَاکَ قَالَ أَنْتَ بِذَاکَ قُلْتُ أَنَا بِذَاکَ قَالَ أَنْتَ بِذَاکَ قُلْتُ أَنَا بِذَاکَ وَهَا أَنَا ذَا فَأَمْضِ فِيَّ حُکْمَ اللَّهِ فَإِنِّي صَابِرٌ لِذَلِکَ قَالَ أَعْتِقْ رَقَبَةً قَالَ فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ عُنُقِي بِيَدِي فَقُلْتُ لَا وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا أَمْلِکُ غَيْرَهَا قَالَ صُمْ شَهْرَيْنِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي إِلَّا فِي الصِّيَامِ قَالَ فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْکِينًا قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ وَحْشَی مَا لَنَا عَشَائٌ قَالَ اذْهَبْ إِلَی صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَقُلْ لَهُ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْکَ فَأَطْعِمْ عَنْکَ مِنْهَا وَسْقًا سِتِّينَ مِسْکِينًا ثُمَّ اسْتَعِنْ بِسَائِرِهِ عَلَيْکَ وَعَلَی عِيَالِکَ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَی قَوْمِي فَقُلْتُ وَجَدْتُ عِنْدَکُمْ الضِّيقَ وَسُوئَ الرَّأْيِ وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَالْبَرَکَةَ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِکُمْ فَادْفَعُوهَا إِلَيَّ فَدَفَعُوهَا إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ مُحَمَّدٌ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ قَالَ وَيُقَالُ سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ وَيُقَالُ سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ وَفِي الْبَاب عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَهِيَ امْرَأَةُ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ-
عبد بن حمید وحسن بن علی حلوانی، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق، محمد بن عمرو بن عطاء، سلیمان بن یسار، حضرت سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک ایسا مرد ہوں جسے عورتوں سے جماع کی (وہ قوت) عطا کی گئی ہے جو کسی اور کو نہیں دی گئی۔چنانچہ جب رمضان آیا تو میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا تاکہ رمضان ٹھیک سے گزر جائے اور ایسا نہ ہو کہ میں اس سے رات کو جماع شروع کرو اور دن ہو جائے اور میں اسے چھوڑ بھی نہ سکوں۔ ایک رات وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اس کی کوئی چیز منکشف ہوگئی، پھر میں نے اسکے ساتھ جماع کیا اور صبح ہوئی تو اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں بتا کر کہا میرے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چلو تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اس فعل کے متعلق بتاؤ۔
Salamah ibn Sakhr Ansari (RA) narrated: I was a man who was given potentiat for sexual intercourse with women that was not given to others. When the month of Ramadan began I made zihar with my wife so that (the month may pass and) I may not indulge in sexual intercourse with her in the night and continue with it into the day being unable to stop. However, while she was serving me one night, something of her body was spotted by me and I leaped on her. When it was morning. I went to my people and, informed them of the happening and asked them to accompany me to Allah's Messenger (SAW) that we might inform him of my plight. They said, "No, By Allah, we shall not do that for fear that the Qur'an night be revealed about us, or Allah's Messenger (SAW) might say something to us: words that could reflect on us. But, you go alone and do what seems correct to you. So I want and met Allah's Messenger (SAW) and informed him of my doings. He asked, "You alone did it"? I said, "Yes I did it myself. And, here I am, so impose on me Allah's command. I am patient over that." He said, "Emancipate a slave." I struck my neck with my hand and submitted, "By Him who has sent you with Truth. I do not own anything other than ths (my) neck." He said, "Then keep fast for two months." I pleaded, "O Messenger of Allah, has anything afflicted me except through fasting"? He said, "Then feed sixty poor people." I pleaded, "By Him who has sent you with the Truth, indeed, we spent our this night in hunger. We had no mea) for the night." He said, "Go to the officer collecting zakah of Banu Zurayq and ask him for it. He will give it to you and you feed with that a wassq each to sixty poor people and with that which remains with you help yourself and your family." Then I returned to my people and said to them, "I found with you constriction and wicked opinion, but I found with Allah's Messenger generosity and blessing. He has commanded me to collect your iakah. So pay it to me." Thus they paid their zakah to me.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ فَقَالَ السَّامُ عَلَيْکُمْ فَرَدَّ عَلَيْهِ الْقَوْمُ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَدْرُونَ مَا قَالَ هَذَا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ سَلَّمَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ لَا وَلَکِنَّهُ قَالَ کَذَا وَکَذَا رُدُّوهُ عَلَيَّ فَرَدُّوهُ قَالَ قُلْتَ السَّامُّ عَلَيْکُمْ قَالَ نَعَمْ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِکَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْکُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ فَقُولُوا عَلَيْکَ مَا قُلْتَ قَالَ وَإِذَا جَائُوکَ حَيَّوْکَ بِمَا لَمْ يُحَيِّکَ بِهِ اللَّهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، یونس، شیبان، قتادة، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا السَّامُ عَلَيْکُمْ (یعنی تم پر موت آئے) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تم جانتے ہو کہ اس نے کیا کہا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ جانتے ہیں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نے سلام کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انہیں بلکہ اس نے ایسی بات کہی ہے اسے میرے پاس لاؤ۔ جب اسے لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تم نے السَّامُ عَلَيْکُمْ کہا۔ اس نے کہا کہ ہاں السَّامُ عَلَيْکُمْ کہا تھا۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اہل کتاب میں سے جو بھی سلام کرے اسے یہ جواب دیا کرو کہ عَلَيْکَ مَا قُلْتَ (یعنی جو تم نے کہا تم ہی پر ہو) پھر یہ آیت پڑھی ( وَاِذَا جَا ءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ ) 58۔ المجادلہ : 8) (اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے لفظوں سے سلام کرتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام نہیں دیا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ اس پر کیوں عذاب نہیں دیتا جو ہم کر رہے ہیں۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) reported that a Jew came to the Prophet (SAW) and his sahabah. He wished them 'Assaam Alikum' and they reciprocated (the salutation). The Prophet (SAW) asked them, "Do you realise what he had said ?" They said, "Allah and His Messenger know best. He saluted us, a Messenger of Allah." He said, "No, but his words were 'this' or 'that', Bring him to tile." He was brought and he asked, "Did you say 'Assaam Alikum?" He confirmed that he had said so. The Prophet (SAW) said, "In that case, when one of the people of the scirpture greets you, say 'On you what you said'." Then he recited: "And when they come to you (0 Prophet) they greet you with a greeting wherewith Allah greets you not)." (58: 8) [Ahmed 11948, Bukhari 6926, 1Muslim 3687, Muslim 2163, Ahmed 5207] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلْقَمَةَ الْأَنْمَارِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَی دِينَارًا قُلْتُ لَا يُطِيقُونَهُ قَالَ فَنِصْفُ دِينَارٍ قُلْتُ لَا يُطِيقُونَهُ قَالَ فَکَمْ قُلْتُ شَعِيرَةٌ قَالَ إِنَّکَ لَزَهِيدٌ قَالَ فَنَزَلَتْ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ الْآيَةَ قَالَ فَبِي خَفَّفَ اللَّهُ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَمَعْنَی قَوْلِهِ شَعِيرَةٌ يَعْنِي وَزْنَ شَعِيرَةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَبُو الْجَعْدِ اسْمُهُ رَافِعٌ-
سفیان بن وکیع، یحیی بن آدم، عبیداللہ اشجعی، سفیان ثوری، عثمان بن مغیرة ثقفی، سالم بن ابی الجعد، علی بن علقمہ انماری، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةً) 58۔ المجادلہ : 12) (اے ایمان والو جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دے لیا کرو، یہ تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے۔) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سے مشورہ لیا کہ صدقہ کی کتنی مقدار مقرر کی جائے، ایک دینار۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ ایک دینار نہیں دے سکیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نصف دینار۔ میں نے عرض کیا نصف دینار بھی نہیں دے سکیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر کتنی مقدار مقرر کی جائے۔ میں نے عرض کیا ایک جو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم تو بہت کمی کرنے والے ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوتی۔ (ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ) 58۔ المجادلہ : 13) (کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دینے سے ڈر گئے۔ پھر جب تم نے نہ کیا اور اللہ نے تمہیں معاف بھی کر دیا تو (بس) نماز ادا کرو اور زکوة دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔) یہ حدیث حسن غیرب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور ایک جو سے مراد جو کے برابر سونا ہے۔
Sayyidina Ali ibn Abu Talib (RA) narrated: When this was revealed; "O you who believe, when you counsel in private with the Messenger give alms before you counselling." (58: 12) The Prophet (SAW) said to me, "Do you advise a dinar? I said, "The people will not be able to pay that much." He asked, "Then half a dinar?" I repeated that they would not bear that much, so he asked me, "How much?" I said, "One barley." He remarked, "You are one to reduce too much." Then these words were revealed: "Is it that ye are afraid of spending sums in charity before your private consultation (with him)? If, then, ye do not so, and Allah forgives you, then (at least) establish regular prayer; practise regular charity; and obey Allah and His Messenger. And Allah is well-acquainted with all that ye do." (58: 13) Thus, because of me, Allah made it light on this ummah (and the earlier verse was abrogated).