سورت حج کی تفسیر

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَتْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْئٌ عَظِيمٌ إِلَی قَوْلِهِ وَلَکِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ قَالَ أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةُ وَهُوَ فِي سَفَرٍ فَقَالَ أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِکَ فَقَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذَلِکَ يَوْمَ يَقُولُ اللَّهُ لِآدَمَ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ فَقَالَ يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَی النَّارِ وَوَاحِدٌ إِلَی الْجَنَّةِ قَالَ فَأَنْشَأَ الْمُسْلِمُونَ يَبْکُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَارِبُوا وَسَدِّدُوا فَإِنَّهَا لَمْ تَکُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا کَانَ بَيْنَ يَدَيْهَا جَاهِلِيَّةٌ قَالَ فَيُؤْخَذُ الْعَدَدُ مِنْ الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنْ تَمَّتْ وَإِلَّا کَمُلَتْ مِنْ الْمُنَافِقِينَ وَمَا مَثَلُکُمْ وَالْأُمَمِ إِلَّا کَمَثَلِ الرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ أَوْ کَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَکُونُوا رُبْعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَکَبَّرُوا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَکُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَکَبَّرُوا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَکُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَکَبَّرُوا قَالَ لَا أَدْرِي قَالَ الثُّلُثَيْنِ أَمْ لَا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ابن جدعان، حسن، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (يٰ اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ ) 22۔ الحج : 1) (اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو بے شک قیامت کا زلزلہ ایک بڑی چیز ہے جس دن اسے دیکھو گے ہر دو دو ھ پلانے والی اپنے دودھ پینے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈالے دے گی اور تجھے لوگ مدہوش نظر آئیں گے اور وہ مدہوش نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوگا۔ ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا کیا تم لوگ جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ دوزخ کے لئے لشکر تیار کرو۔ وہ عرض کریں گے یا اللہ وہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے نو سو نناوے آدمی دوزخ میں اور ایک جنت میں جائے گا۔ مسلمان یہ سن کر رونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قربت اختیار کرو اور سیدھی راہ اختیار کرو اس لئے کہ ہر نبوت سے پہلے جاہلیت کا زمانہ تھا لہذا انہیں سے دوزخ کی گنتی پوری کی جائے گی۔ اگر پوری ہوگئی تو ٹھیک ورنہ منافقین سے پوری کی جائے گی پھر پچھلی امتوں کے مقابلے میں تمہاری مثال اس طرح ہے جیسے گوشت کا وہ ٹکڑا جو کسی جانور کے ہاتھ میں اندر کی طرف ہوتا ہے۔ یا پھر جیسے کسی اونٹ کے پہلو میں تل۔ پھر فرمایا مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کی چوتھائی تعداد ہو۔ اس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللَّهُ أَکْبَرُ کہا۔ پھر فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہوں گے۔ اس پر بھی سب نے تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف حصہ ہوں گے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پھر تکبیر کہی۔ پھر راوی کہتے ہیں کہ معلوم ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوتہائی کہا یا نہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے حسن سے عمران بن حصین کے حوالے سے مرفوعاً منقول ہے۔
Sayyidina Imran ibn Husayn (RA) reported about these verses: "O Mankind! Fear you Lord. Surely the earthquake of the Hour (of Resurrection) is a mighty thing. On the day when you behold it, every suckling woman shall neglect the babe she suckled, and every pregnant woman shall lay down her burden, and you shall see mankind as drunk, yet they shall not be drunk, but the chastisement of Allah shall be severe." (22:1-2) He said: When they were revealed to the Prophet, he was on a journey, he asked, “Do you know what day that is?” They said, “Allah and His Messenger know best.” He said, “That is the day when Allah will say to Aadam, ‘Send! (Prepare) the batch for Hell.” He will ask, ‘O Lord what is the batch for Hell’. He will say ‘Nine hundred and ninety-nine are in Hell while one is in Paradise’.” The Muslims will begin to weep and Allah’s Messenger (SAW) will say, “Adopt nearness and the straight path, for, Prophet Hood come only after ignorance. So, the number will be made up from there. So if that is achieved (good), otherwise it will be completed through the hypocrites. And your example against past ummahs is like a piece of flesh on the inside of an animal’s foreleg, or a mole on the side of a camel. And I hope that you comprise one-fourth of the people of Paradise.” They all exclaimed, “Allah is the Greatest.” He then said, “I hope that you form one-third of the people of Paradise.” They again extolled Allah (saying Allah is Akbar). Then he said, “I hope that you make up half the number of inhabitants of Paradise.” They exclaimed, “Allah is the Greatest.” They narrator said that he could not say if he hoped that there were two-thirds or not. --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَتَفَاوَتَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فِي السَّيْرِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْئٌ عَظِيمٌ إِلَی قَوْلِهِ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ أَصْحَابُهُ حَثُّوا الْمَطِيَّ وَعَرَفُوا أَنَّهُ عِنْدَ قَوْلٍ يَقُولُهُ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِکَ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذَاکَ يَوْمٌ يُنَادِي اللَّهُ فِيهِ آدَمَ فَيُنَادِيهِ رَبُّهُ فَيَقُولُ يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ فَيَقُولُ مِنْ کُلِّ أَلْفٍ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ فَيَئِسَ الْقَوْمُ حَتَّی مَا أَبَدَوْا بِضَاحِکَةٍ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بِأَصْحَابِهِ قَالَ اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّکُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا کَانَتَا مَعَ شَيْئٍ إِلَّا کَثَّرَتَاهُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَمَنْ مَاتَ مِنْ بَنِي آدَمَ وَبَنِي إِبْلِيسَ قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ الْقَوْمِ بَعْضُ الَّذِي يَجِدُونَ فَقَالَ اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا کَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ أَوْ کَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، ہشام بن عبد اللہ، قتادة، حسن، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آگے پیچھے ہوگئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے یہ دو آیتیں پڑھیں (يٰ اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ ) 22۔ الحج : 1) جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کہنے والے ہیں لہذا اپنی سواریوں کو دوڑا کر (آگے آگئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے وہ جواب دیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے آدم علیہ السلام جہنم کے لئے لشکر تیار کرو۔ وہ کہیں گے اے اللہ ! وہ کونسا لشکر ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہر ہزار آدمیوں میں سے نوسونناوے جہنمی اور ایک جنتی ہے۔ اس بات سے لوگ مایوس ہوگئے۔ یہاں تک کہ کوئی مسکرا بھی نہیں سکا۔ چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو غمگین دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل کرو اور بشارت دو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے تمہارے ساتھ دو مخلوقیں ایسی ہوں گی جو جس کسی کے ساتھ مل جائیں ان کی تعداد زیادہ کر دیں گی۔ ایک یاجوج ماجوج اور دوسری جو شخص نبی آدم اور اولاد، ابلیس سے مر گئے۔ راوی فرماتے ہیں یہ سن کر صحابہ کرام کی پریشانی ختم ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل کرو اور بشارت دو کیوں کہ تمہاری دوسری امتوں کے مقابلے میں تعداد صرف اتنی ہے جیسے کسی اونٹ کے پہلو میں تل کسی جانور کے ہاتھ کے اندر کا گوشت۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Imran ibn Husayn (RA) narrated: We were with the Prophet (SAW) on a journey. The sahabah separated from each other (outpacing or lagging behind). Allah’s Messenger (SAW) raised his voice with these two verses: "O Mankind! Fear you Lord. Surely the earthquake of the Hour (of Resurrection) is a mighty thing. On the day when you behold it, every suckling woman shall neglect the babe she suckled, and every pregnant woman shall lay down her burden, and you shall see mankind as drunk, yet they shall not be drunk, but the chastisement of Allah shall be severe." (22:1-2)When the sahabah heard him, they knew that he was to say something and they directed their mounts towards him. He asked them if they knew what day that would be. They said that only Allah and His Messenger knew that. He said, “That’s a day when Allah will call Aadam.” His Lord will summon him, saying, “0Aadam! Send forth the group of Hell.” He will ask, “O Lord! And what is the group of Hell?” So, He will say, “Out of every thousand, nine hundred and ninety-nine will go to Hell and one to Paradise.” That brought grief to the people so that none could smile. When Allah’s Messenger (SAW) observed the state of his sahabah, he said, “Perform deeds and give good tidings, for, by Him in Whose hand is the soul of Muhammad, you will be (in relation) with two kinds of creatures who will multiply whatever they are with. They are Ya’juj and Ma’juj, and who died among the children of Aadam and the progeny of Iblis.” So, something of what was found over the people was mitigated from them. he said, “Perform deeds and convey glad tidings, for, by Him Who has Muhammad’s soul in His Hand! You are not as many compared to other ummah but as a mole on the side of camel, or an overgrown flesh on the inside of an animal's foreleg.’ [Ahmed 19922, Bukhari 3348, Muslim 222] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا سُمِّيَ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ لِأَنَّهُ لَمْ يَظْهَرْ عَلَيْهِ جَبَّارٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ-
محمد بن اسماعیل وغیرواحد، عبداللہ بن صالح، لیث، عبدالرحمن بن خالد، ابن شہاب، محمد بن عروة بن زبیر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیت اللہ کا نام اس لئے بیت العتیق رکھا گیا کہ وہاں کوئی ظالم آج تک غالب نہیں آسکا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ زہری اس حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلا روایت کرتے ہیں۔ قتیبہ بھی لیث سے وہ عقیل سے وہ زہری سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مانند حدیث نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Abdullah ibn Zubayr (RA) reported that Allah’s Messenger said, “The House (of Allah) is named al-Atiq only because no tyrant has taken over it.’
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي وَإِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّةَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ لَيَهْلِکُنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَی نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الْآيَةَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ سَيَکُونُ قِتَالٌ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ رَوَاهُ بَطْرُ يَحِدَةِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلًا وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ-
سفیان بن وکیع، وکیع، اسحاق بن یوسف ازرق، سفیان ثوری، اعمش، مسلم بطین، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکالا گیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکال دیا ہے یہ ہلاک ہو جائیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ ) 22۔ الحج : 39) (جن سے کافر لڑتے ہیں انہیں بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اس لئے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں جان گیا تھا کہ اب باہم قتال ہوگا۔ یہ حدیث حسن ہے۔ کئی راوی اس حدیث کو سفیان سے وہ اعمش سے وہ مسلم بطین سے وہ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مرسلاً نقل کرتے ہیں اور اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں۔
Sayyidina Ibn Abbas reported that when the Prophet was driven out of Makkah, Abu Bakr said, “They have driven out their Prophet so they will perish certainly.” So, Allah revealed: Permission (to fight) is given to those -who are fought against because they have been wronged. And surely Allah is able to help them. (22: 39) So, Abu Bakr said, “Surely I knew that it was to be fighting.”
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ قَالَ رَجُلٌ أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ فَنَزَلَتْ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ-
مسنگ
-