مقتول کے ولی کو اختیار ہے چاہے تو قصاص لے ورنہ معاف کردے

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَيَحْيَی بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مَکَّةَ قَامَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يَعْفُوَ وَإِمَّا أَنْ يَقْتُلَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي شُرَيْحٍ خُوَيْلِدِ بْنِ عَمْرٍو-
محمود بن غیلان، یحیی بن ابی کثیر، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ نے جب اپنے رسول کو مکہ پر فتح مکہ پر عطا فرمائی تو آپ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا جس کا کوئی رشتہ دار قتل ہو جائے وہ معاف کرنے یا قتل کرنے میں جس کو بہتر سمجھے اختیار کرے اس باب میں حضرت وائل بن حجر، انس، ابوشریح، اور خویلد بن عمر سے بھی احادیث منقول ہیں۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that when Allah gave victory to His Messenger (SAW) over Makkah, he stood among the people, praised Allah and glorified Him, and said thereafter, ‘If someone’s man is killed then he has a choice of two things either to pardon or to kill (the murderer).” [Bukhari 2434, Muslim 13551
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْکَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْفِکَنَّ فِيهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَنَّ فِيهَا شَجَرًا فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ فَقَالَ أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ أَحَلَّهَا لِي وَلَمْ يُحِلَّهَا لِلنَّاسِ وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ هِيَ حَرَامٌ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِنَّکُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الرَّجُلَ مِنْ هُذَيْلٍ وَإِنِّي عَاقِلُهُ فَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاهُ شَيْبَانُ أَيْضًا عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا وَرُوِي عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَلَهُ أَنْ يَقْتُلَ أَوْ يَعْفُوَ أَوْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ وَذَهَبَ إِلَی هَذَا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ-
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، ابی ذئب، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوشریح کعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت کی جگہ ٹھہرایا ہے لوگوں نے نہیں پس جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ یہاں کسی کا خون نہ بہائے اور نہ ہی اس میں سے کوئی درخت اکھاڑے اور اگر کوئی میرے مکہ کو فتح کرنے کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اپنے لیے رخصت کی راہ نکالے۔ کہ اللہ نے اسے میرے لیے حلال کیا ہے لوگوں نے نہیں اور پھر میرے لیے بھی اس کی حرمت کو دن کے ایک مخصوص حصے میں حلال کیا گیا ہے اور اس کے بعد قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا اے قبیلہ بنوخزاعہ تم نے بنوہذیل کے فلاں شخص کو قتل کر دیا ہے میں اس کی دیت دلوانے کا اعلان کرتا ہوں آج کے بعد اگر کسی شخص کو کوئی قتل کر گیا تو اس کے اہل عیال کو اختیار ہے اگر وہ چاہیں تو قاتل کو قتل کریں ورنہ دیت لے لیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور حدیث ابوہریرہ بھی حسن صحیح ہے۔ شیبان بھی یحیی بن کثیر سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں ابوشریح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ چاہیں تو قاتل کو قتل کر دیں یا معاف کر دیں یا دیت لے لیں۔ بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں امام احمد، اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔
Sayyidina Abu Shurayh Ka’bi (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, ‘Indeed, Allah has made Makkah sacred. The people have not made it so. He who believes in Allah and the Last Day must not shed blood here, nor uproot a tree. If anyone cites (my conquest of Makkah) as a leave saying that it was made lawful for Allah’s Messenger (SAW) then Allah made it lawful for me and He did not make it lawful for the people and it was made lawful for me only for a part of the day. Thereafter, it is forbidden till the Day of Resurrection. Then, you, O company of Khuza’ah killed this man of Hudhayl. I am his aaqil (that is, I will pay his blood wit). If, after today, anyone’s man is killed then his people have the choice of two things, either to kill or take bloodwit.” [Bukhari 1832, Muslim 1354]
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قُتِلَ رَجُلٌ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَی وَلِيِّهِ فَقَالَ الْقَاتِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهُ إِنْ کَانَ قَوْلُهُ صَادِقًا فَقَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ فَخَلَّی عَنْهُ الرَّجُلُ قَالَ وَکَانَ مَکْتُوفًا بِنِسْعَةٍ قَالَ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ قَالَ فَکَانَ يُسَمَّی ذَا النِّسْعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالنِّسْعَةُ حَبْلٌ-
ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے کسی کو قتل کر دیا تو اسے مقتول کے ورثاء کے حوالہ کیا گیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی قسم میں نے اسے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر یہ سچ کہتا ہے اور تم نے اس کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا تم جہنم میں جاؤ گے۔ اس پر اس نے اسے معاف کر دیا، چنانچہ اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور وہ انہیں کھینچتا ہوا وہاں سے نکلا اس کے بعد اس کا نام ذالنسخہ مشہور ہوگیا۔ یعنی تسمے والا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Huraryrah (RA) reported that a man killed someone in the era of Allah’s Messenger (SAW). He was handed over to the guardian of the slain man. The murderer pleaded, “0 Messenger of Allah (SAW), by Allah! I had no intention to kill him.” Allah’s Messenger (SAW) said, “Know that if he is true and you kill him (in retaliation) then you will go to the Fire.” So, he forgave him. His hands were bound at the back with laces and he came out pulling at them. So, he came to be called dhun nis’ah (one with laces). [Abu Dawud 4498, Nisai 4736, Abu Dawud 2690]