ظہر وعصر میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دینا

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ وَهُوَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ اثْنَتَيْنِ فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ أَقُصِرَتْ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ کَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ کَبَّرَ فَرَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَابْنِ عُمَرَ وَذِي الْيَدَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْکُوفَةِ إِذَا تَکَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلًا أَوْ مَا کَانَ فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلَاةَ وَاعْتَلُّوا بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ کَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْکَلَامِ فِي الصَّلَاةِ قَالَ وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَرَأَی هَذَا حَدِيثًا صَحِيحًا فَقَالَ بِهِ و قَالَ هَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّائِمِ إِذَا أَکَلَ نَاسِيًا فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي وَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَفَرَّقَ هَؤُلَائِ بَيْنَ الْعَمْدِ وَالنِّسْيَانِ فِي أَکْلِ الصَّائِمِ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ و قَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنْ تَکَلَّمَ الْإِمَامُ فِي شَيْئٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ يَرَی أَنَّهُ قَدْ أَکْمَلَهَا ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يُکْمِلْهَا يُتِمُّ صَلَاتَهُ وَمَنْ تَکَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنْ الصَّلَاةِ فَعَلَيْهِ أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْفَرَائِضَ کَانَتْ تُزَادُ وَتُنْقَصُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّمَا تَکَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ وَهُوَ عَلَی يَقِينٍ مِنْ صَلَاتِهِ أَنَّهَا تَمَّتْ وَلَيْسَ هَکَذَا الْيَوْمَ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتَکَلَّمَ عَلَی مَعْنَی مَا تَکَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ لِأَنَّ الْفَرَائِضَ الْيَوْمَ لَا يُزَادُ فِيهَا وَلَا يُنْقَصُ قَالَ أَحْمَدُ نَحْوًا مِنْ هَذَا الْکَلَامِ و قَالَ إِسْحَقُ نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي هَذَا الْبَابِ-
انصاری، معن، مالک، ایوب بن ابی عمیمہ، محمد بن سیرین، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ذوالیدین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کم ہوگئی یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھول گئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا ذوالیدین نے صحیح کہا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور باقی کی دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہہ کر سجدے میں گئے جیسے کہ وہ سجدہ کیا کرتے تھے یا اس سے طویل بھی تکبیر کہی اور اٹھے اور اس کے بعد دوسرا سجدہ بھی اسی طرح کیا جیسے پہلے کیا کرتے تھے یا اس سے طویل کیا اس باب میں عمران بن حصین ابن عمر اور ذوالیدین سے بھی روایت ہے امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابوہریرہ حسن صحیح ہے اہل علم کا اس حدیث بارے میں اختلاف ہے بعض اہل علم کا اس حدیث کے بارے میں اختلاف ہے بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ اگر کلام کر لیا بھول کر یا جہالت کی وہ سے یا کسی بھی وجہ سے تو دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث سے اصح ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر روزہ دار کچھ بھول کر کھا پی لے تو قضا نہ کرے کیونکہ یہ تو اللہ کا اس کو عطا کردہ رزق ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ حضرات روز دار کے عمدا اور بھول کر کھانے میں تفریق کرتے ہیں ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے امام احمد حضرت ابوہریرہ کی حدیث باب کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگر امام نے اس گمان کے ساتھ بات کی کہ وہ نماز پڑھ چکا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ نماز پوری نہیں ہوئی تو نماز کو مکمل کرے اور جو مقتدی یہ جانتے ہوئے بات کرے کہ اس کی نماز نا مکمل ہے تو وہ دوبارہ نماز پڑھے ان کا استدلال اس سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں فرائض میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی پس ذوالیدین کا بات کرنا اس موقع پر ایسی نہیں تھا کہ ان کے خیال میں نماز مکمل ہو چکی تھی لیکن اس موقع پر ایسا نہیں تھا کسی کے لئے اب جائز نہیں ہے کہ وہ ایسی صورت میں باتے کرے کیونکہ فرائض میں کمی بیشی کا سوال ہی پید نہیں ہوتا امام احمد کا کلام بھی اسی کے مشابہ ہے اسحاق کا قول بھی امام احمد کی طرح ہے
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that the Prophet turned in salutation after offering two raka’at. So, DhuI Yadayn (RA) submitted to him, ‘Has the prayer been curtailed or have you forgotten Messenger of Allah?” The Prophet (SAW) asked, “Is Dhul Yadayn correct?” The people said, “Yes!” So, he stood up and offered the remaining two raka’at. Then, he ended with the salutation. Then he called the takbir and went into prostration as he used to make prostrations, or longer than that. Then he called the takbir and got up and then made the second prostration like he was used to do, or lengthier than that.