سورئہ نور کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ کَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَرْثَدُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ وَکَانَ رَجُلًا يَحْمِلُ الْأَسْرَی مِنْ مَکَّةَ حَتَّی يَأْتِيَ بِهِمْ الْمَدِينَةَ قَالَ وَکَانَتْ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ بِمَکَّةَ يُقَالُ لَهَا عَنَاقٌ وَکَانَتْ صَدِيقَةً لَهُ وَإِنَّهُ کَانَ وَعَدَ رَجُلًا مِنْ أُسَارَی مَکَّةَ يَحْمِلُهُ قَالَ فَجِئْتُ حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی ظِلِّ حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ مَکَّةَ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ قَالَ فَجَائَتْ عَنَاقٌ فَأَبْصَرَتْ سَوَادَ ظِلِّي بِجَنْبِ الْحَائِطِ فَلَمَّا انْتَهَتْ إِلَيَّ عَرَفَتْهُ فَقَالَتْ مَرْثَدٌ فَقُلْتُ مَرْثَدٌ فَقَالَتْ مَرْحَبًا وَأَهْلًا هَلُمَّ فَبِتْ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ قَالَ قُلْتُ يَا عَنَاقُ حَرَّمَ اللَّهُ الزِّنَا قَالَتْ يَا أَهْلَ الْخِيَامِ هَذَا الرَّجُلُ يَحْمِلُ أَسْرَاکُمْ قَالَ فَتَبِعَنِي ثَمَانِيَةٌ وَسَلَکْتُ الْخَنْدَمَةَ فَانْتَهَيْتُ إِلَی کَهْفٍ أَوْ غَارٍ فَدَخَلْتُ فَجَائُوا حَتَّی قَامُوا عَلَی رَأْسِي فَبَالُوا فَظَلَّ بَوْلُهُمْ عَلَی رَأْسِي وَأَعْمَاهُمْ اللَّهُ عَنِّي قَالَ ثُمَّ رَجَعُوا وَرَجَعْتُ إِلَی صَاحِبِي فَحَمَلْتُهُ وَکَانَ رَجُلًا ثَقِيلًا حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی الْإِذْخِرِ فَفَکَکْتُ عَنْهُ کَبْلَهُ فَجَعَلْتُ أَحْمِلُهُ وَيُعْيِينِي حَتَّی قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْکِحُ عَنَاقًا فَأَمْسَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا حَتَّی نَزَلَتْ الزَّانِي لَا يَنْکِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِکَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْکِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَرْثَدُ الزَّانِي لَا يَنْکِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِکَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْکِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ فَلَا تَنْکِحْهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ-
عبد بن حمید، روح بن عبادة، عبیداللہ بن اخنس، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام مرثد بن ابی مرثد تھا وہ قیدیوں کو مکہ سے مدینہ پہنچایا کرتا تھا۔ مکہ میں ایک زانیہ عورت تھی جس کا نام عناق تھا وہ اس کی دوست تھی۔ مرثد نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اسے مدینہ پہنچائے گا۔ مرثد کہتے ہیں کہ میں (مکہ) آیا اور ایک دیوار کی اوٹ میں ہوگیا۔ چاند نی رات تھی کہ اتنے میں عناق آئی اور دیوار کے ساتھ میرے سائے کی سپاہی کو دیکھ لیا۔ جب میرے قریب پہنچی تو پہچان گئی اور کہنے لگی کہ تم مرثد ہو؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں۔ کہنے لگے اھلا وسہلا ومرحبا (خوش آمدید) ۔ آج کی رات ہمارے یہاں قیام کرو۔ مرثد فرماتے ہیں کہ میں نے کہا عناق ! اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے اس نے زور سے کہا خیمے والو ! یہ آدمی تمہارے قیدیوں کو لے جاتا ہے۔ چنانچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے دوڑے۔ میں (خندمہ) ایک پہاڑ کی طرف بھاگا اور وہاں پہنچ کر ایک غار دیکھا اور اس میں گھس گیا۔ وہ لوگ آئے اور میرے سر پر کھڑے ہوگئے اور وہاں پیشاب بھی کیا جو میرے سر پر ٹھہرنے لگے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں مجھے دیکھنے سے اندھا کر دیا اور واپس چلے گئے۔ پھر میں بھی اپنے قیدی ساتھی کے پاس گیا اور اسے اٹھایا۔ وہ کافی بھاری تھا۔ میں اسے لے کر اذخر کے مقام تک پہنچا۔ پھر اس کی زنجیریں توڑیں اور اسے پیٹھ پر لادلیا۔ وہ مجھے تھکادیتا تھا یہاں تک کہ مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں عناق سے نکاح کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک یہ آیات نازل ہوئیں (اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ) 24۔ النور : 3) (بدکار مرد نہیں نکاح کرتا مگر عورت بدکار سے یا شرک والی سے اور بدکار عورت سے نکاح نہیں کرتا مگر بدکار مرد یا مشرک اور یہ حرام ہوا ہے ایمان والوں پر۔) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے نکاح نہ کرو۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
Amr ibn Shu’ayb reported on the authority of his father who from his grandfather that there was a man named Marthad ibn Abu Marthad. He used to carry captives from Makkah to Madinah. There was an immodest woman in Makkah, called Anaq, who was his friend. He had promised one of the captives of Makkah that he would.carry him (away). He said: I came (to Makkah) and concealed myseif in the shade of one of the walls of Makkah in a mooonilt night. Now, Anaq came and she detected the back of my shadow on the side of the wall. When she ended up near me, She recognised me and asked, “Marthad?” I said, “Marthad.’ She said, “Welcome. Come spend the night with us.” I said, ‘Anaq, Allah has forbidden adultery.’ She called out, “0people of the tents! This man carries away your captives.” So eight men pursued me and I made towards (the mount) Khandamah and ended up in a cave. I entered it. They pursued me till they stood over my head. They passed urine on my head but Allah blinded them from detecting me. Then they returned and I returned to my man and carried him away. He was a heavy man. I took him to Azkhir where I broke his fetters. Then I put him on my back and he tired me till I came to Madinah. I came to Allah’s Messenger r1 &ic (SAW) and said, “O Messenger of Allah! I will marry Anaq.” He did not say anything and made no reply to me till this revelation: The adulterer weds not but an adulteress or an associatoress, and the adulterssnone weds her but an adulterer or an associator.(24 : 3) So, Allah’s Messenger (SAW) said, “"O Marthad! The adulterer weds not but an adulteress or an associatoress, and the adulteress none weds her but an adulterer or an associator. So, do not marry her.” [Abu Dawud 2051, Nisai 3225]
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سُئِلْتُ عَنْ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ فَقُمْتُ مِنْ مَکَانِي إِلَی مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَقِيلَ لِي إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ کَلَامِي فَقَالَ لِيَ ابْنَ جُبَيْرٍ ادْخُلْ مَا جَائَ بِکَ إِلَّا حَاجَةٌ قَالَ فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِکَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَی امْرَأَتَهُ عَلَی فَاحِشَةٍ کَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَکَلَّمَ تَکَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وَإِنْ سَکَتَ سَکَتَ عَلَی أَمْرٍ عَظِيمٍ قَالَ فَسَکَتَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُکَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَکُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ حَتَّی خَتَمَ الْآيَاتِ قَالَ فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ وَوَعَظَهُ وَذَکَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَ لَا وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا کَذَبْتُ عَلَيْهَا ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ وَوَعَظَهَا وَذَکَّرَهَا وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَتْ لَا وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ کَانَ مِنْ الْکَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْکَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ہناد، عبدة بن سلیمان، عبدالملک بن ابی سلیمان، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کی امارت کے زمانے میں مجھ سے کسی نے لعان کرنے والے مرد وعورت کا حکم پوچھا کہ کیا انہیں الگ کر دیا جائے؟ میں جواب نہ دے سکا تو اٹھا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ جب اجازت چاہی تو کہا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے میری آواز سن لی تھ۔ فرمانے لگے ابن جبیر ! آجاؤ، تم کسی کام ہی سے آئے ہوگے۔ میں گھر میں داخل ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کجاوے کے نیچے بچھایا جانے والا ٹاٹ بچھا کر اس پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا ابوعبدالرحمن کیا لعان کرنے والوں درمیان تفریق کر دی جاتی ہے۔ وہ فرمانے لگے سُبْحَانَ اللَّهِ ! ہاں اور جس نے سب سے پہلے یہ مسئلہ پوچھا وہ فلاں بن فلاں ہیں۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو برائی (بے حیائی، زنا) کرتے ہوئے دیکھے تو کیا کرے؟ اگر وہ بولے تو بھی یہ بہت بڑی بات ہے اور اگر خاموش رہے تو بھی بہت بڑی چیز پر خاموش رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد (کچھ دنوں بعد) وہ دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جس چیز کے متعلق پوچھا تھا میں اس میں مبتلا ہوگیا ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے سورت نور کی یہ آیات نازل فرمائیں وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَکُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ الآیۃ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ نے اس شخص کو بلایا اور یہ آیات پڑھ کر سنانے کے بعد اسے نصیحت کی سمجھایا اور بتایا کہ دنیاوی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے اس پر جھوٹی تہمت نہیں لگائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورت کی طرف مڑے اور اسے بھی اسی طرح سمجھایا لیکن اس نے بھی یہی کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میرا شوہر سچا نہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد سے شروع کیا اور اس نے چار شہادتین دیں کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔ پھر عورت نے بھی چار شہادتیں دیں کہ وہ جھوٹا ہے اور اگر وہ سچا ہو تو اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
Sa’eed ibn Jubayr narrated: During the rule of Mus’ab in Zubayr, someone asked me about a man and woman who have cursed one another-are they separated. I did not know what to say. So, I got up from my place and went to the house of Abdullah Ibn Umar. I sought permission to meet him, but I was told that he was having a nap. However, he had heard me and said to me, “Ibn Jubayr, come in! Nothing but a need has brought you.” I went in. He was lying down on a packsaddle. I asked him, “0Abdur Rahman! Are the two who curse one another to be separated”? He said, “Glory be to Allah! Yes! The first person to ask about it was so-and-so son of so-and so. He came to Allah’s Messenger and asked, ‘O Messenger of Allah! What do you say about one of us who sees his wife commit indecency? What should he do? If he speaks, he speaks of a great affair but if he keeps quiet then he keeps quiet about a grave affair.’ The Prophet (SAW) did not say anything and gave him no answer. Then after that, he came to the Prophet (SAW) and said. ‘As for the question I had asked you.’ So Allah revealed the verses of surah an-Nur: And those who accuse their wives and there are no witneses for them except themselves, the testimony of one of them shall be swearing by Allah four times . (24 : 6 to the end of 9) The Prophet (SAW) called the man and recited to him these verses and gave him advice, saying. ‘The worldly punishment is softer then the punishment of the Hereafter.’ The man said, ‘No, by Him who has sent you with the Truth, I have not lied against her.’ Then the Prophet (SAW) turned towards the woman and gave her advice and admonition and informed her that the punishment of the world was softer than the punishment of the hereafter. She said, ‘No! By Him Who with the Truth, he does not speak the truth. So, he began with the man. He swore by Allah, four testimonies, that he was among the truthful, and the fifth that Allah’s curse be on him if he was among the liars. Then he followed up with the woman. She bore testimony four testimonies, by Allah that he was among the liars, and the fifth that Allah’s wrath be on her if he was of the truthful. Then, he separated the two of them. [Muslim 1493, Nisai 470] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنِي عِکْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيکِ بْنِ السَّحْمَائِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِکَ قَالَ فَقَالَ هِلَالٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا رَأَی أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَی امْرَأَتِهِ أَيَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِکَ قَالَ فَقَالَ هِلَالٌ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيَنْزِلَنَّ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنْ الْحَدِّ فَنَزَلَ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَکُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ قَالَ فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَجَائَا فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَکُمَا کَاذِبٌ فَهَلْ مِنْکُمَا تَائِبٌ ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ فَلَمَّا کَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ قَالُوا لَهَا إِنَّهَا مُوجِبَةٌ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَتَلَکَّأَتْ وَنَکَسَتْ حَتَّی ظَنَّنَا أَنْ سَتَرْجِعُ فَقَالَتْ لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَکْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيکِ بْنِ السَّحْمَائِ فَجَائَتْ بِهِ کَذَلِکَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا مَا مَضَی مِنْ کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَکَانَ لَنَا وَلَهَا شَأْنٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ وَهَکَذَا رَوَی عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ أَيُّوبُ عَنْ عِکْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ-
محمد بن بشار، محمد بن ابی عدی، ہشام بن حسان، عکرمة، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا تو گوہ پیش کرو یا پھر تم حد جاری کی جائے گی۔ ہلال نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو کیا گواہ تلاش کرتا پھرے؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ یا پھر تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ ہلال نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں یقینا سچا ہوں اور میرے متعلق ایسی آیات نازل ہوں گی جو میری پیٹھ کو حد سے نجات دلائیں گی، چنانچہ یہ آیات نازل ہوئیں (وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَا ءُ اِلَّا اَنْفُسُهُمْ ) 24۔ النور : 6) (او رجو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے لئے سوائے پنے اور کوئی گوہ نہیں تو ایسے شخص کی گواہی کی یہ صورت ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ بے شک وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے تو۔ عورت کی سزا کو یہ بات دور کر دے گی کہ اللہ کو گواہ کرکے چار مرتبہ یہ کہے کہ بے شک وہ سراسر جھوٹا اور پانچویں مرتبہ کہے کہ بے شک اس پر اللہ کا غضب پڑے اگر وہ سچا ہے۔) تو لوگوں نے کہا کہ یہ گواہی اللہ کے غضب کو لازم کر دے گی۔ چنانچہ وہ ہچکچائی اور ذلت کی وجہ سے سر جھکالیا۔ یہاں تک کہ ہم لوگ سمجھے کہ یہ اپنی گواہی سے لوٹ کر (زنا کا اقرار کرلے گی) لیکن وہ کہنے لگی میں اپنی قوم کا سارا دن رسوا نہیں کروں گی۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر یہ ایسا بچہ پیدا کرے جس کی آنکھیں سیاہ کولہے موٹے اور رانیں موٹی ہوں تو وہ شریک بن سحماء کا نطفہ (ولد الزنا) ہے۔ پھر ایسا ہی ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعان کا حکم نازل ہوچکا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا (یعنی حد جاری کی جاتی) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ عباد بن منصور یہ حدیث عکرمہ رضی اللہ عنہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ ایوب بھی یہ حدیث عکرمہ سے نقل کرتے ہیں لیکن یہ مرسل ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Hilal ibn Umayyah accused his wife of committing adultery with Shank ibn Sahma. So Allah’s Messenger (SAW) said, “Either you bring wit-ness or you will face the hadd (lashes) on your back.” He said, “If one of us sees a man over his wife, will he seek witnesses”? But, Allah’s Messenger (SAW) insisted, “Witness, or the prescribed punishment on you back.” So Hilal said, “By Him who has sent you with the truth, this is true (I am true) and surely there will be revealed for my case that which will free my back from the prescribed punishment.” So, the revelation came: " And for those who launch a charge against their spouses, and have (in support) no evidence but their own,- their solitary evidence (can be received) if they bear witness four times (with an oath) by Allah that they are solemnly telling the truth." (24:6) And he recited till he came to; "And the fifth (oath) should be that she solemnly invokes the wrath of Allah on herself if (her accuser) is telling the truth." (24:9) The Prophet (SAW) left and summoned both of them. The came and Hill stood up and gave the testimony. The Prophet (SAW) said, "Surely Allah knows that one of you is a liar. So is there among you two, who repents?" Then the woman stood up and bore testimony. When she was about to give the fifth testimony that Allah's wrath be upon her if he is the truthful, the people around her said to her, "It will make punishment definite." Ibn Abbas said, "She hesitated and stopped short of taking oath. So we presumed that she would repent and withdraw her testimony." But she said, "I shall not fail my people all through the day." The Prophet (SAW) said, "Watch her, if she bears a child with large black eyes, fat hips and thick thighs then the child belongs to Sharik bin Sharma." Indeed, that is what happened. The Prophet (SAW) said, "If what has been prescribed in the Book of Allah had not come down, then there would have been something else between us and her." (I would have given her the Hadd)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ذُکِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُکِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَهْلِي مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ وَکَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِکَ الرَّجُلِ فَقَالَ کَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ کَانُوا مِنْ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّی کَادَ أَنْ يَکُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ فَلَمَّا کَانَ مَسَائُ ذَلِکَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَکِ فَسَکَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّانِيَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَکِ فَسَکَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّالِثَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَکِ فَقَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيکِ فَقُلْتُ فِي أَيِّ شَيْئٍ قَالَتْ فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ قُلْتُ وَقَدْ کَانَ هَذَا قَالَتْ نَعَمْ وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَی بَيْتِي وَکَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا کَثِيرًا وَوُعِکْتُ فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلْنِي إِلَی بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَکْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَقَالَتْ أُمِّي مَا جَائَ بِکِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ فَأَخْبَرْتُهَا وَذَکَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْکِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا کَانَتْ امْرَأَةٌ حَسْنَائُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ قُلْتُ وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَکَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَکْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ فَقَالَ لِأُمِّي مَا شَأْنُهَا قَالَتْ بَلَغَهَا الَّذِي ذُکِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ أَقَسَمْتُ عَلَيْکِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَی بَيْتِکِ فَرَجَعْتُ وَلَقَدْ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي فَقَالَتْ لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا کَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّی تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْکُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَی تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِکَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا کَشَفْتُ کَنَفَ أُنْثَی قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَتْ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّی دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اکْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ کُنْتِ قَارَفْتِ سُوئًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَی اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ قَالَتْ وَقَدْ جَائَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ فَقُلْتُ أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْکُرَ شَيْئًا فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَی أَبِي فَقُلْتُ أَجِبْهُ قَالَ فَمَاذَا أَقُولُ فَالْتَفَتُّ إِلَی أُمِّي فَقُلْتُ أَجِيبِيهِ قَالَتْ أَقُولُ مَاذَا قَالَتْ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَکُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاکَ بِنَافِعِي عِنْدَکُمْ لِي لَقَدْ تَکَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُکُمْ وَلَئِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَائَتْ بِهِ عَلَی نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَکُمْ مَثَلًا قَالَتْ وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ قَالَتْ وَأُنْزِلَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ فَسَکَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ الْبُشْرَی يَا عَائِشَةُ فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَائَتَکِ قَالَتْ فَکُنْتُ أَشَدَّ مَا کُنْتُ غَضَبًا فَقَالَ لِي أَبَوَايَ قُومِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُکُمَا وَلَکِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَائَتِي لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْکَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ وَکَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَکَتْ فِيمَنْ هَلَکَ وَکَانَ الَّذِي يَتَکَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي کَانَ يَسُوسُهُ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی هَذِهِ الْآيَةَ وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَةِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَی قَوْلِهِ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ بَلَی وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَعَادَ لَهُ بِمَا کَانَ يَصْنَعُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ-
محمود بن غیلان، ابواسامة، ہشام بن عروة، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں جب میرے متعلق لوگوں میں تذکرہ ہونے لگا جس کی مجھے بالکل خبر نہ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ اور تشہد کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا لوگو ! مجھے ان لوگوں کے متعلق مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی پر تہمت لگائی ہے۔ اللہ کی قسم ! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ اور اس میں بھی کوئی برائی نہیں دیکھی جس کے ساتھ ان لوگوں نے اس کو متہم کیا وہ میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر میں داخل نہیں ہوا۔ پھر وہ ہر سفر میں میرے ساتھ شریک رہا ہے۔ اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کی گردنیں اتار دوں۔ قبیلہ خزرج کا ایک شخص کھڑا ہوا (حسان بن ثابت کی والدہ ان کی برادری سے تعلق رکھتی تھیں) اور (سعد سے) کہنے لگا اللہ کی قسم ! تم جھوٹ بولتے ہو کیوں کہ اللہ کی قسم ! اگر ان لوگوں کا تعلق قبیلہ اوس سے ہوتا تم کبھی یہ بات نہ کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسجد ہی میں اوس وخزرج کے درمیان لڑائی کا خدشہ ہوگیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے اس کا علم بھی نہ تھا۔ اس روز شام کے وقت ام مسطح کے ساتھ کسی کام کے لئے نکلی (چلتے ہوئے) ام مسطح کو ٹھوکر لگی تو کہنے لگی کہ مسطح ہلاک ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کیا بات آپ نے اپنے بیٹے کو کیوں کوس رہی ہیں وہ خاموش ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد کچھ ٹھوکر لگی اور مسطح کی ہلاکت کی بددعا کی۔ میں نے دوبارہ ان سے پوچھا لیکن اس مرتبہ بھی وہ خاموش رہیں۔ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو میں نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ آپ اپنے بیٹے کے لئے بدعا کرتی ہیں۔ ام مسطح کہنے لگیں اللہ کی قسم ! میں اسے تمہاری وجہ سے ہی کوس رہی ہوں۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔) میں نے پوچھا میرے متعلق کس وجہ سے؟ اس پر انہوں نے ساری حقیقت کھول کر بیان کر دی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی یہی بات ہے؟ وہ کہنے لگیں ہاں اللہ کی قسم ! میں واپس لوٹ گئی اور جس کام کیلئے نکلی تھی اسکی ذرا سی بھی حاجت باقی نہ رہی اور پھر مجھے بخار ہوگیا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے میرے والد کے گھر بھیج دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ساتھ ایک غلام کو بھیج دیا۔ میں گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ) نیچے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوپر قرآن کریم پڑھ رہے ہیں (والدہ) نے پوچھا بیٹی کیسے آئی ہو؟ میں نے ان کے سامنے پورا قصہ بیان کیا۔ اور بتایا کہ اس کا لوگوں میں چرچا ہو چکا ہے۔ انہیں بھی اس سے اتنی تکلیف ہوئی جتنی مجھے ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے کہنے لگیں۔ بیٹی گھبرانا نہیں اس لئے کہ اللہ کی قسم کوئی خوبصورت عورت ایسی جس سے اسکی سوکنوں کے ہوتے ہوئے اس کا شوہر محبت کرتا ہو اور وہ (سوکنیں) اس سے حسد نہ کریں اور اس کے متعلق باتیں نہ بنائی جائیں یعنی انہیں وہ اذیت نہیں پہنچی جو مجھے ہوئی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا میرے والد بھی یہ بات جانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ بات جانتے ہیں۔ اس پر میں اور زیادہ غمگین ہوئی اور رونے لگی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے رونے کی آواز سنی تو نیچے تشریف لائے اور میری والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اسے اپنے متعلق پھیلنے والی بات کا علم ہوگیا ہے۔ لہذا اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ۔ میں واپس گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میری خادمہ سے میرے متعلق دریافت کیا تو اسنے کہا اللہ کی قسم ! مجھے ان میں کسی عیب کا علم نہیں اتنا ضرور ہے کہ وہ (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سو جایا کرتی تھیں اور بکری اندر داخل ہو کر آٹا کھا جایا کرتی تھی۔ (راوی کو شک ہے کہ خمیر تھا کہا یا عجینتھا تھا) اس پر بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سچ بولو۔ یہاں تک کہ بعض نے اسے (یعنی خادمہ کو) برا بھلا کہا۔ وہ کہنے لگی سُبْحَانَ اللَّهِ۔ اللہ کی قسم ! میں انکے (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے) متعلق اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار خالص اور سرخ سونے کو پہچانتا ہے۔ پھر اس شخص کو بھی یہ بات پتہ چل گئی۔ جس کے بارے میں واقعہ کہا گیا تھا۔ وہ بھی کہنے لے سُبْحَانَ اللَّهِ اللہ کی قسم ! میں نے کبھی کسی عورت کا ستر نہیں کھولا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر وہ شخص اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا۔ اس کے بعد صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے۔ وہ ابھی میرے پاس ہی تھے کہ عصر کی نماز پڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ میرے والدین میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشھد پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی اور فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگر برائی کے قریب گئی ہو یا تم نے اپنے اوپر ظلم کیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک انصاری عورت آئی اور دروازے میں بیٹھ گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ اس عورت کی موجودگی میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حیاء نہیں فرماتے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وعظ ونصیحت کی تو میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور عرض کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیجئے۔ انہوں نے بھی یہی کہا۔ جب دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے تشہد پڑھ کر حمد وثناء بیان کرنے کے بعد کہا اللہ کی قسم ! اگر میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر حضرات سے یہ کہوں کہ میں نے یہ کام نہی کیا تب بھی یہ بات مجھے فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اس لئے کہ بات تم لوگوں کے سامنے کہی جا چکی ہے اور تمہارے دلوں میں سرائیت کر گئی ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ ہاں میں نے یہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ کہ میں نے نہیں کیا تم لوگ کہو گے کہ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ اللہ کی قسم ! میں تمہارے اور اپنے متعلق کوئی مثال نہی جانتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں پھر میں نے یعقوب علیہ السلام کا نام لینا چاہا تو میرے ذہن میں نہیں آیا۔ اتنا ہی آیا کہ وہ ابویوسف علیہ السلام ہیں۔ (یعنی میرا قصہ بھی انہی کی طرح ہے جیسے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کھو نے کے بعد فرمایا فصبر جمیل یعنی صبر ہی بہتر ہے اور جس طرح تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ مددگار رہے گا) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر اسی وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور ہم لوگ خاموش ہوگئے۔ جب وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھتے ہوئے فرمانے لگے۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہیں بشارت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکیزگی اور برات نازل فرما دی ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں بہت غصہ میں تھی کہ میرے والدین نے مجھ سے کہا کہ اٹھو اور کھڑی ہو جاؤ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کرو) عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم ! نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ (ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہ) دونوں کا بلکہ اللہ رب العالمین کا شکریہ ادا کرونگی اور اسکی ہی تعریف کروں گی جس نے میری برات نازل کی۔ آپ لوگوں نے تو میرے متعلق یہ بات سن کر نہ اسکا انکار کیا اور نہ اسے روکنے کی کوشش کی۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے اسکی دینداری کی وجہ سے بچالیا اور اس نے اس موقع پر اچھی بات کہی لیکن انکی بہن حمنہ برباد ہونے والوں کے ساتھ ہوگئیں۔ اس تہمت کو پھیلانے والوں میں مسطح، حسان بن ثابت اور عبداللہ بن ابی شامل تھے۔ عبداللہ بن ابی (منافق) ہی شوشے چھوڑتا اور خبریں جمع کرتا اور اس میں اسی کا زیادہ ہاتھ تھا۔ حمنہ بھی اسکے ساتھ شریک تھیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قسم کھائی کہ اب مسطح کو کبھی فائدہ نہ پہنچائیں گے تو یہ آیات نازل ہوئیں (وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْ ا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ) 24۔ النور : 22)۔ (اہل فضل اور رزق میں کشادگی رکھنے والے قسم نہ کھائیں (مراد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں) کہ رشتہ داروں، مساکین اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے) اس سے مراد مسطح ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 24۔ النور : 22) (کیا تن لوگ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تم کو معاف کر دے اور وہ بہت معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔) اس پر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں اے اللہ ! اللہ کی قسم ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور پھر مسطح کو پہلے کی طرح دینے لگے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ یونس بن یزید، معمر اور کئی راوی یہ حدیث زہری سے وہ عروہ بن زبیر سے وہ سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبداللہ بن عبداللہ سے اور یہ سب حضرات عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہشام بن عروہ کی حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی حدیث نقل کرتے ہیں۔
Sayyidah Ayshah narrated: When whatever was said about me and I was unaware of it, Allah’s Messenger (SAW) got up to address the people about me. He began with the tashahhud (testimony of Allah’s Unity and of the messenger ship). He praised Allah and glorified Him as He is worthy of it. He then said, ‘To proceed: Give me advice about those people who slander my wife. By Allah, I do not know of any evil in my wife, not at all! And they accuse her of being with a man of whom I know no evil, not at all! he never enters my house except when I am there. He never undertook a journey except with me.” Sa'd ibn Mu’adh stood up and said. “Permit me, O Messenger of Allah that I may sever their necks.” A man from the Khazraj also got up-the mother of Hassan ibn Thabit was of the same tribe are this man-and he said, “You lie. By Allah, if those people were from the Aws, you would not have loved to strike at their necks.” This went so far that there nearly was evil between Aws and Khazraj in the mosque. But I did not know of it. When it was evening of that day, I went out to attend to one of my needs with Umm Mistah. She stumbled and exclaimed, “May Mistah perish.” I said to her, “0Mother, do you revile your son?” But she did not say anything. She stumbled a second time and said, “May Mistah be ruined.” I said to her, “0Mother, do you revile your son?” She did not answer. Again, she stumbled the third time and said, “May Mistah perish!” So, I rebuked her for that, saying, “0Mother, you revile your son?” She said, “By Allah, I do not revile him except for your sake.” I asked her, “What about me?” She narrated the hadith (account of what had transpired). I asked “And is that really so?” She confirmed that it was so. I returned home not at all being pressed to follow that for which I had gone out. I fell ill and the said to Allah’s Messenger, “Send me to the house of my father.” He sent me there and sent a slave with me. I entered the house and found Umm Ruman my mother) downstairs and Abu Bakr upstairs reciting (the Qur’an). She asked me “What is with you, 0daughter?” I informed her, relating the entire account but she was not as hurt by it as I was. She to me, “0my daughter, do not take it too hard. It is always that a beautiful woman who is loved by her husband and she has co-wives will find jealousy surrounding her. Her faults are picked.” But she was not as hurt about it as I was. I asked her if my father knew about it. She said, “Yes.” I was more grieved at that and wept loudly. Abu Bakr heard my voice. He was upstairs reciting the Quran. He came down and asked my mother how it was with me. She told him that I had learnt of the matter. Tears came to his daughter, go back to your home.” So, I went back eyes. He said, “I adjure you, 0home. Allah’s Messenger -‘ had already come home and aked my maidservant about me She said, “By Allah, I do not know of any defect in her except that she goes to sleep and the sheep enters the house devouring her flour or her dough.” Some of the Prophet’s sahabah scolded her, saying. “Speak the truth before Allah’s Messenger. They were rude to her and she said, “Subahan Allah". By Allah, I know about her as a jeweler knows pure gold.” When that man of whom the accusation was made learnt of this, he said, “Subhan Allah! I have never seen a woman’s satr (concealed body).” He was then martyred in Allah’s cause (in a battle). In the morning my parents came to me. They remained with me till Allah’s Messenger (SAW) came, having offered the salah of asr. He came in and my parents were sitting on either side of me. The Prophet recited the tashahhud, glorified Allah in words worthy of Him. Then he said, “Amma ba’d (To proceed), O Ayshah! If you have committed an evil deed or wronged (yourself) then repent to Allah, for, indeed Allah accepts repentance from His slaves.” Meanwhile, an Ansar woman came and sat down by the door. I said (to him), “Do you not feel shy to speak so in the presence of this woman?” And he did deliver words of advice and admonition. I turned to my father and requested him to answer him, but he said, “What may I say?” Then I turned to my mother and asked her to say something, but she said, “Say what?” When they gave no reply, I recited the tashahhud, praised Allah and glorified Him with words worthy of Him. Then I said, “Now, if I were to tell you that I have done no such thing and Allah is witness that I am truthful that would be of no avail to me before you because you have spoken about it and your hearts have already accepted that. But if I say that I have done it, and Allah knows that I have not done it, you would say surely that I have confessed to the crime. By Allah, I do not find an example for myself and for you,” and I intended to take the name of Ya’qub but I could not recall it except Abu Yusuf (father of Yusuf) when he said: ‘(For me) goodly patience! And Allah is He Whose help is ever there to seek against that which you describe. (12 : 18) At that very instant, revelation descended on Allah’s Messenger (SAW). We kept silent. When it was over, I detected signs of relief on the Prophet’s (SAW) face. He was wiping his forchead when he said,”Good tings to you, 0Ayshah! Allah has indeed revealed your acquital.” But I was in sever anger. My parents said to me, “Get up and go to him,” but I refused. “No, by Allah! By Allah, I will not go to him.” Neither do I praise him nor do I praise you two, but I praise Allah Who has revealed my innocence. You all did hear it, yet you did not deny or change it.” Sayyidah Ayshah used to say. “As for Zaynab bint Jahsh, Allah protected her because of her religious attitude and she did not say anything but good (words). As for her sister, Hamnah, she was ruined along with those who were ruined. And those who spoke about the affair (a derogatory speech) were Mistah, Hassan ibn Thabit and the hypocrite Abdullah ibn Ubayy, who circulated the rumour and incited others to do likewise. He and Hamnah were in the lead in this affair.” She added that Abu Bakr swore never to show favour to Mistah (with help), but Allah revealed this verse let not the possessors of bounty and abundance among you: that is, Abu Bakr swear off giving to the kinsmen and the needy and the emigrants in the way of Allah: "That is, Mistah let them pardon and overlook. Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is Forgiving, Merciful." (24 : 22) So, Abu Bakr said, “Certainly, by Allah, 0our Lord! We love that You forgive us.” And he restored to him (Mistah) whatever he was accustomed to give. 184757, Muslim 2770, Ahmed 24371]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَ عُذْرِي قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَذَکَرَ ذَلِکَ وَتَلَا الْقُرْآنَ فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَيْنِ وَامْرَأَةٍ فَضُرِبُوا حَدَّهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ-
محمد بن بشار، ابن ابی عدی، محمد بن اسحاق، عبداللہ بن ابی بکر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ محمد بن اسحاق سے وہ عبداللہ بن ابی بکر سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ جب میری برات نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا تذکرہ کرنے کے بعد آیات تلاوت کیں پھر نیچے تشریف لائے اور دو مردوں اور ایک عورت پر حد قذف جاری کرنے کا حکم دیا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
-