سورئہ روم کی تفسیر

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ظَهَرَتْ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ فَأَعْجَبَ ذَلِکَ الْمُؤْمِنِينَ فَنَزَلَتْ الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَی قَوْلِهِ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ قَالَ فَفَرِحَ الْمُؤْمِنُونَ بِظُهُورِ الرُّومِ عَلَی فَارِسَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ کَذَا قَرَأَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ غَلَبَتْ الرُّومُ-
نصر بن علی جہضمی، معتمر بن سلیمان، سلیمان اعمش، عطیة، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ بدر کےء موقع ہر رومی اہل فارس پر غلب ہوگئے تو مومنوں کو یہ چیز اچھی لگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ال مّ غُلِبَتِ الرُّوْمُ Ą ) 30۔ الروم : 31) (الم مغلوب ہوگئے رومی، ملتے ہوئے ملک میں اور وہ اس مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہونگے چند برسوں میں اللہ کے ہاتھ میں ہیں سب کام پہلے اور پچھلے اور اس دن خوش ہونگے مسلمان اللہ کی مدد سے، مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے۔) چنانچہ کو مومن اہل روم کے فارس پر غالب ہو جانے پر خوش ہوگئے۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ نصر بن علی غلبت الروم ہی پڑھتے تھے۔
Sayyidina Ibn Abbas reported that Allah’s Messenger said to Abu Bakr about the bet he waged relative to (30:1) “Why did you not exercise caution, O Abu Bakr (RA) Indeed, is between three and nine.” (The word & is found in these verses as a few years.)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ قَالَ غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ کَانَ الْمُشْرِکُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْهَرَ أَهْلُ فَارِسَ عَلَی الرُّومِ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ الْأَوْثَانِ وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْهَرَ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ لِأَنَّهُمْ أَهْلُ الْکِتَابِ فَذَکَرُوهُ لِأَبِي بَکْرٍ فَذَکَرَهُ أَبُو بَکْرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ سَيَغْلِبُونَ فَذَکَرَهُ أَبُو بَکْرٍ لَهُمْ فَقَالُوا اجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَکَ أَجَلًا فَإِنْ ظَهَرْنَا کَانَ لَنَا کَذَا وَکَذَا وَإِنْ ظَهَرْتُمْ کَانَ لَکُمْ کَذَا وَکَذَا فَجَعَلَ أَجَلًا خَمْسَ سِنِينَ فَلَمْ يَظْهَرُوا فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَلَا جَعَلْتَهُ إِلَی دُونَ قَالَ أُرَاهُ الْعَشْرَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَالْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ قَالَ ثُمَّ ظَهَرَتْ الرُّومُ بَعْدُ قَالَ فَذَلِکَ قَوْلُهُ تَعَالَی الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَی قَوْلِهِ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ قَالَ سُفْيَانُ سَمِعْتُ أَنَّهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ-
حسین بن حریث، معاویة بن عمرو، ابواسحاق فزاری، سفیان، حبیب بن ابی عمرة، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان الم غُلِبَتْ الرُّومُ۔ الْآيَةَ کی تفسیر میں فرماتے میں فرماتے ہیں کہ دونوں طرح پڑھا گیا غلبت اور غلبت مشرکین اہل فارس کی رومیوں پر برتری سے خوش ہوتے تھے کینکہ وہ دونوں بت پرست تھے جبکہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی غالب ہو جائیں کیونکہ اہل کتاب تھے۔ لوگوں نے اسکا تذکرہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عنقریب رومی غالب ہو جائیں گے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشرکین سے اسکا ذکر کیا تو کہنے لگے ہمارے اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کرلو اور اگر اس مدت میں ہم غالب ہوگئے تو تم ہمیں اتنا اتنا دو گے اور اگر تم لوگ (اہل روم) پر غالب ہوگئے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ چنانچہ پانچ برس کی مدت متعین کر دی گئی۔ لیکن اس مدت میں روم غالب نہ ہوئے۔ جب اسکا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تم نے زیادہ مدت کیوں مقرر نہیں کی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس کے قریب کہا۔ سعید کہتے ہیں کہ بضع دس سے کم کو کہتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اسکے بعد روم، اہل فارس پر غالب آگئے الم غُلِبَتْ الرُّومُ۔ الْآيَةَ سے یہی مراد ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ اہل روم غزوہ بدر کے دن غالب ہوئے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
Sayyidina Abu Sa’eed reported that while the Battle of Badr was being fought, the Romans defeated the Persians. This pleased the Believers and this was revealed: "Alif Laam Mim. The Romans have been defeated in the land close by, and after (this) defeat of theirs, they will soon be victorious, within a few years. To Allah belongs the command before and after and on that day the Believers will rejoice, in Allah's help. (30: 1-5) The Believers were pleased at the victory of the Romans over the Persian.
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِي بَکْرٍ فِي مُنَاحَبَةِ الم غُلِبَتْ الرُّومُ أَلَا احْتَطْتَ يَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّ الْبِضْعَ مَا بَيْنَ ثَلَاثٍ إِلَی تِسْعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ-
ابوموسی محمد بن مثنی، محمد بن خالد بن عثمہ، عبداللہ بن عبدالرحمن جمحی، ابن شہاب زہری، عبیداللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تم نے شرط لگانے میں الم غُلِبَتْ الرُّومُ۔ الْآيَةَ کی حتیاط کیوں نہیں کی۔ حالا نکہ بضع تین سے نو تک کو کہتے ہیں۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ زہری اس حدیث کو عبیداللہ سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔
Sayyidina Ibn Abbas explained the words of Allah: “Alif Laam Mim. The Romans have been defeated in the land.” (80:1-2) He said: This is read غُلِبَتْ as also غَلَبَتْ The idolaters loved that the Persians should gain victory over Rome because they and the Persians were idolaters. The Muslims loved that the Romans should become victorious over the Persians because they were People of the Book. They mentioned it to Abu Bakr (RA) who mentioned it to Allah’s Messenger. He said ‘They will soon be victorious.” Abu Bakr mentioned this to the idolaters and they said, “Cause between us and them a term. If we win during that time then for us is this-and-that and if you gain victory then for you is this-and that.” Then he fixed the times as five years; but it did not transpire, so he mentioned that to the Prophet). He said, ‘Why did you not fix a longer period”? The narrator supposed that he put it at ten years. And Sa’eed said that (bitl’) is a number less than ten Then Rome emerged victorious over Persia. This is why Allah said; "Alif Laam Mim. The Romans have been defeated in the land close by, and after (this) defeat of theirs, they will soon be victorious, within a few years. To Allah belongs the command before and after and on that day the Believers will rejoice, in Allah's help. (30: 1-5) Sufyan said, “I heard that the Romans emerged victorious on the day of Badr.” [Ahmed 2495, Bukhari 115]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ نِيَارِ بْنِ مُکْرَمٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ فَکَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَاهِرِينَ لِلرُّومِ وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَيْهِمْ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ کِتَابٍ وَفِي ذَلِکَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَی وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ وَکَانَتْ قُرَيْشٌ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ لَيْسُوا بِأَهْلِ کِتَابٍ وَلَا إِيمَانٍ بِبَعْثٍ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی هَذِهِ الْآيَةَ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَکَّةَ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ لِأَبِي بَکْرٍ فَذَلِکَ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ زَعَمَ صَاحِبُکَ أَنَّ الرُّومَ سَتَغْلِبُ فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ أَفَلَا نُرَاهِنُکَ عَلَی ذَلِکَ قَالَ بَلَی وَذَلِکَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الرِّهَانِ فَارْتَهَنَ أَبُو بَکْرٍ وَالْمُشْرِکُونَ وَتَوَاضَعُوا الرِّهَانَ وَقَالُوا لِأَبِي بَکْرٍ کَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلَاثُ سِنِينَ إِلَی تِسْعِ سِنِينَ فَسَمِّ بَيْنَنَا وَبَيْنَکَ وَسَطًا تَنْتَهِي إِلَيْهِ قَالَ فَسَمَّوْا بَيْنَهُمْ سِتَّ سِنِينَ قَالَ فَمَضَتْ السِّتُّ سِنِينَ قَبْلَ أَنْ يَظْهَرُوا فَأَخَذَ الْمُشْرِکُونَ رَهْنَ أَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا دَخَلَتْ السَّنَةُ السَّابِعَةُ ظَهَرَتْ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی أَبِي بَکْرٍ تَسْمِيَةَ سِتِّ سِنِينَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَی قَالَ فِي بِضْعِ سِنِينَ وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِکَ نَاسٌ کَثِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ نِيَارِ بْنِ مُکْرَمٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ-
محمد بن اسماعیل، اسماعیل بن ابی اویس، ابن ابی زناد، ابوزناد، عروة بن زبیر، حضرت نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب (ال مّ غُلِبَتِ الرُّوْمُ Ą فِيْ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ Ǽ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ) 30۔ الروم : 1) نازل ہوئی تو اہل فارس، اہل روم پر غالب تھے اور مسلمان اہل فارس کو مغلوب دیکھنے کے خواہش مند تھے اس لئے کہ رومی اہل کتاب تھے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( وَيَوْمَى ِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ Ć بِنَصْرِ اللّٰهِ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ) 30۔ الروم : 4-5) (اور اس دن خوش ہونگے مسلمان اللہ کی مدد ہر وہ جسکی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ ہے زبر دست رحم والا۔) جبکہ قریش کی چاہت تھی کہ اہل فارس ہی غالب رہیں کیونکہ وہ قریش دونوں نہ اہل کتاب تھے اور نہ کسی نبوت پر ایمان رکھنے والے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ آیات زور زور سے پڑھتے ہوئے گھومنے لگے۔ مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان شرط ہے۔ تمہارے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہنا ہے کہ چند سال میں رومی اہل فارس پر غالب آجائیں گے کیا ہم تم سے اس پر شرط نہ لگائیں۔ اور یہ شرط حرام ہونے سے پہلے کا قصہ ہے۔ اس طرح ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مشرکین کے درمیان شرط لگ گئی اور دونوں نے اپنا اپنا شرط کا مال کسی جگہ رکھوا دیا۔ پھر انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ بضع تین سے نو تک کے عدد کو کہتے ہیں لہذا ایک درمیانی مدت مقرر کرلو۔ چنانچہ چھ سال کی مدت میں روم غالب نہ آسکے۔ اس پر مشرکین نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ نے چھ سال کی مدت کیوں طے کی تھی۔ انہوں نے فرمایا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بضع سنین فرمایا راوی کہتے ہیں کہ اس موقع پر بہت لوگ مسلمان ہوئے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف عبدالرحمن بن ابی زناد کی روایت سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Niyar ibn Mukram al-Aslami (RA) narrated: When the verses "Alif Laam Mim. The Romans have been defeated in the land close by, and after (this) defeat of theirs, they will soon be victorious, within a few years. To Allah belongs the command before and after and on that day the Believers will rejoice, in Allah's help. (30: 1-5) were revealed, the Persians were the conquerors of Rome. The Muslims loved to see that Rome overran the Persians because they (the Romans) were People of the Book like them (the Muslim). This is what Allah’s words concern: "And on that day the Believers will rejoice in Allah’s help. He helps whom He will. And He is the Mighty, the Merciful.” (30: 4-5) But the Quraysh loved the upper hand of Persia because they and the Quraysh were not People of he Book and did not believe in prophethood. When these verses were revealed, Abu Bakr Siddiq is recited (them) aloud in the surroundings of Makkah: "Alif Laam Mim. The Romans have been defeated in the land close by, and after (this) defeat of theirs, they will soon be victorious, within a few years. To Allah belongs the command before and after and on that day the Believers will rejoice, in Allah's help. (30: 1-5) Some of the Quraysh said to him, “Let that be (a deciding factor) between us and you. Your friend imagines that Rome will conquer Persia in a few years. Shall we not wage a bet with you over that?” He said, “Yes!” and that was before gambling was prohibited. Thus, Abu Bakr and the idolaters waged the bet and placed the wager somewhere. They asked Abu Bakr. “How much do you regard the (bid’) to be between three and nine years? So name a middle period for us and you at which it should terminate.” So they named six years between them. The six years were over before the victory (of the Romans). So the idolators took hold of Abu Bakr’s is wager. When the seventh year began, Rome defeated Persia. So the Muslims asked Abu Bakr (RA) why he had determined six years. He said, “Because Allah the Exalted said: “in a few years.” Many people embraced Islam when that happened. --------------------------------------------------------------------------------