سورئہ تحریم کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا حَتَّی حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنْ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ فَقَالَ لِي وَاعَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَکَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَکْتُمْهُ فَقَالَ هِيَ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي الْحَدِيثَ فَقَالَ کُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ فَتَغَضَّبْتُ عَلَی امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَقَالَتْ مَا تُنْکِرُ مِنْ ذَلِکَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ قَالَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِکَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَتْ قَالَ وَکَانَ مَنْزِلِي بِالْعَوَالِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ وَکَانَ لِي جَارٌ مِنْ الْأَنْصَارِ کُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِکَ قَالَ وَکُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا قَالَ فَجَائَنِي يَوْمًا عِشَائً فَضَرَبَ عَلَی الْبَابِ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ أَجَائَتْ غَسَّانُ قَالَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِکَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ قَالَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ قَدْ کُنْتُ أَظُنُّ هَذَا کَائِنًا قَالَ فَلَمَّا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّی دَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْکِي فَقُلْتُ أَطَلَّقَکُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَا أَدْرِي هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرَبَةِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَأَتَيْتُ غُلَامًا أَسْوَدَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ قَالَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ قَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَإِذَا حَوْلَ الْمِنْبَرِ نَفَرٌ يَبْکُونَ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ أَيْضًا فَجَلَسْتُ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَوَلَّيْتُ مُنْطَلِقًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي فَقَالَ ادْخُلْ فَقَدْ أُذِنَ لَکَ فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّکِئٌ عَلَی رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ رَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَائَکَ قَالَ لَا قُلْتُ اللَّهُ أَکْبَرُ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَی امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْکَرْتُ ذَلِکَ فَقَالَتْ مَا تُنْکِرُ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ قَالَ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَانَا الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ فَقُلْتُ قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِکَ مِنْکُنَّ وَخَسِرَتْ أَتَأْمَنُ إِحْدَاکُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَکَتْ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَکِ وَلَا يَغُرَّنَّکِ إِنْ کَانَتْ صَاحِبَتُکِ أَوْسَمَ مِنْکِ وَأَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَتَبَسَّمَ أُخْرَی فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْتَأْنِسُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَمَا رَأَيْتُ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أُهُبَةً ثَلَاثَةً قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَی أُمَّتِکَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَی فَارِسَ وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَهُ فَاسْتَوَی جَالِسًا فَقَالَ أَفِي شَکٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِکَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا قَالَ وَکَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَی نِسَائِهِ شَهْرًا فَعَاتَبَهُ اللَّهُ فِي ذَلِکَ وَجَعَلَ لَهُ کَفَّارَةَ الْيَمِينِ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي قَالَ يَا عَائِشَةُ إِنِّي ذَاکِرٌ لَکِ شَيْئًا فَلَا تَعْجَلِي حَتَّی تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْکِ قَالَتْ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ الْآيَةَ قَالَتْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَکُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ فَقُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تُخْبِرْ أَزْوَاجَکَ أَنِّي اخْتَرْتُکَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا بَعَثَنِي اللَّهُ مُبَلِّغًا وَلَمْ يَبْعَثْنِي مُتَعَنِّتًا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ-
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان دو عورتوں کے متعلق پوچھوں کہ ازواج مطہرات میں سے کون ہیں جن کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی (اِنْ تَتُوْبَا اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا) 66۔ التحریم : 4) (اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو تو جھک پڑے ہیں دل تمہارے۔) یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا میں ان کے ساتھ ہی تھا۔ پھر میں نے برتن سے ان کو وضو کرانے کے لئے پانی ڈالنا شروع کیا اور اسی دوران ان سے عرض کیا کہ اے میرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ دو بیویاں کون سی ہیں جن کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے تعجب ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ تمہیں یہ بھی معلوم نہیں۔ زہری کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ برا لگا لیکن انہوں نے چھپایا نہیں اور فرمایا وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر قصہ سنانے لگے کہ ہم قریش والے عورتوں کو دبا کر رکھتے تھے۔ جب ہم لوگ مدینہ آئے تو ایسے لوگوں سے ملے جن کی عورتیں ان پر غالب رہتی تھیں۔ میں ایک دن اپنی بیوی کو غصہ ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی۔ مجھے یہ بہت ناگوار گزرا۔ وہ کہنے لگی تمہیں کیوں ناگوار گزرا ہے۔ اللہ کی قسم ازواج مطہرات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہیں دن سے رات تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (بات کرنا) ترک کر دیتی ہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ جس نے ایسا کیا وہ تو نقصان میں رہ گئی۔ میں قبیلہ بنوامیہ کے ساتھ عوالی کے مقام پر مقیم تھا۔ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا۔ میں اور وہ باری باری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دن وہ اور ایک دن میں اور دونوں ایک دوسرے کو وحی وغیرہ کے متعلق بتایا کرتے تھے۔ ہم لوگوں میں (ان دنوں) اس بات کا چرچا تھا کہ غسان ہم لوگوں سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک دن میرا پڑوسی آیا اور رات کے وقت میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نکلا تو کہنے لگا کہ ایک بڑی بات ہوگئی ہے۔ میں نے کہا کیا ہوا۔ کیا غسان آگیا ہے۔ کہنے لگا اس سے بھی بڑی اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ناکام اور محروم ہوگئی۔ میں پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ یہ ہونے والا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز پڑھی اور کپڑے وغیرہ لے کر نکل کھڑا ہوا۔ جب حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں پہنچا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ کہنے لگی مجھے نہیں معلوم۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جھرو کے میں الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے ہیں، پھر میں ایک کالے لڑکے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اجازت مانگو۔ وہ اندر گیا اور واپس آکر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں مسجد گیا تو دیکھا کہ منبر کے گرد چند آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں بھی ان کے قریب بیٹھ گیا لیکن وہی سوچ غالب ہوئی تو وہ دوبارہ اس لڑکے کو اجازت لینے کے لئے بھیجا۔ اس نے واپس آ کر وہی جواب دیا۔ میں دوبارہ مسجد کی طرف آ گیا لیکن اس مرتبہ اور شدت سے اس فکر کا غلبہ ہوا اور میں پھر لڑکے کے پاس آیا اور اسے اجازت لینے کے لئے بھیجا۔ اس مرتبہ بھی اس نے واپس آکر وہی جواب دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں جانے کے لئے مڑا تو دفعةً اس لڑکے نے مجھے پکارا اور کہا کہ اندر چلے جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ میں داخل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چٹائی پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ جس کے نشانات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں جانب واضح تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھئے ہم قریش والے عورتوں پر غالب رہتے تھے پھر جب ہم مدینہ آگئے تو ہم ایسی قوم سے ملے جن کی عورتیں ان پر غالب ہوتی ہیں۔ اور انکی عادتیں ہماری عورتیں بھی سیکھنے لگیں۔ چنانچہ میں ایک مرتبہ اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی تو مجھے بہت برا لگا تو کہنے لگی کہ تمہیں کیوں برا لگتا ہے۔ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہیں۔ اور ایسی بھی ہیں جو پورا پورا دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خفا رہتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہو؟ انہوں نے کہا ہاں اور ہم میں سے ایسی بھی ہیں۔ جو دن سے رات تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خفا رہتی ہیں۔ میں نے کہا بے شک تم میں سے جس نے ایسا کیا وہ برباد ہوگئی۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے نہیں ڈرتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ اس سے ناراض نہ ہو جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے مت بولنا، ان سے کوئی چیز مت مانگنا۔ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے مانگ لیا کرو اور اس خیال میں مت رہو کہ تمہاری سوکن تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے۔ (یعنی اس کی برابری نہ کر) اس مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں بیٹھا رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو گھر میں تین کھانوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سے دعا کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر کشادگی (وسعت رزق) کرے اس نے فارس اور روم کو اس کی عبادت نہ کرنے کے باوجود خوب مال دیا ہے۔ اس مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اے ابن خطاب کیا تم ابھی تک شک میں ہو، وہ لوگ تو ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکیوں کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے عتاب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قسم کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ زہری کہتے ہیں کہ مجھے عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے بتایا کہ جب انتیس دن گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے ابتداء کی اور فرمایا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں تمہارے سامنے ایک بار کا ذکر کرتا ہوں تم جواب دینے میں جلدی نہ کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دینا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33۔ الاحزاب : 28) (یعنی اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ متاع (مال) دے کر بخوبی رخصت کر دوں اور اگر اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آخرت کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے نیک کر داروں کے لئے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھی طرح جانتے تھے کہ میرے ماں باپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑنے کا حکم نہیں دیں گے۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ اس میں والدین سے مشورہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آخرت کو ترجیح دیتی ہوں۔ معمر کہتے ہیں کہ مجھے ایوب نے بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری بیویوں کو نہ بتایئے گا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پیغام پہنچانے کے لئے بھیجا ہے نہ کہ مشفت میں ڈالنے کے لئے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور کئی سندوں سے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated: I did not cease to long to ask Umar about the two women of the Prophet’s wives of whom Allah said: "If you two turn towards Allah repentant, your hearts are indeed so inclined." (66:4) Umar (RA) performed Hajj and I was with him. While I poured water from a vessel for him and he performed ablution, I asked him, “O Chief of the Believers! Who are the two women of the Prophet’s wives of whom Allah said: "If you two turn towards Allah repentant, your hearts are indeed so inclined." (66:4)He said, “I am surprised at you, O Ibn Abbas!” Zuhri said that Umar felt bad about it but he did not conceal it. He said, “They were Ayshah and Hafsah.” Then he began to narrate to me the Hadith. He said, “We people of Quraysh got our wives under our thumbs, but when we came to Madinah, we came across a people whom their women dominated. Our women picked up their habits. One day, I was angry at my wife when she answered back and I did not like it. She said, “Why do you mind it? By Allah, even the wives of the Prophet (SAW) argue with him and stop speaking to him during the day till nightfall.” I said to myself, “Whoever does so has indeed lost and harms herself.” I was staying at Awali among the Banu Umayyah and had an Ansar as a neighbour, and he and I took turns to serve Allah’s Messenger (SAW) (on alternate days). We used to report to one another about revelation and other things. One day, he came as usual and said that the Ghassan prepared their horses to fight us. He came one day after isha and knocked at my door and I came out to him. He said that a great thing had happened. I asked if the Ghassan had invaded and he said that it was more serious than that, “Allah’s Messenger (SAW) has divorced his wives!” I said too myself that Hafsah has failed and is at a loss. Indeed, I was apprehensive all along that this could happen. When I had offered the fajr salah and put over my garment, I moved out till I was at Hafsah’s home. She was weeping. I asked her if Allah’s Messenger had divorced them and she said that she did not know. She said that he had secluded himself in an upper chamber. I went up and came upon a black slave whom I asked, ‘Seek permission for Umar’. He went in only to say on return that he gave no answer. So, I went to the mosque where a few men sat by the pulpit, weeping. I sat down among them. But I was overcome by thoughts and came back to the slave and asked him to seek permission for Umar. He went in and, on returning, he said, ‘I mentioned you to him but he did not say anything in response’. So, I came back to the mosque and sat down. Again, I was overcome by thoughts, and I came to the slave and requested him to seek permission for Umar. He went in and, on coming out to me, he said, “I mentioned you to him but he made no reply. So, I turned to go away when, suddenly, the slave called me, saying. ‘Go in! Indeed, he has given permission to you’. So, I went in and found the Prophet (SAW) reclining on a mat and I detected its imprints on his sides. I said, ‘O Messenger of Allah! Have you divorced your wives?’ He said, ‘No.’ I exclaimed ‘Allahu Akbar! If you observe, 0 Messenger of Allah, we - the company of Quraysh always got our wives under our thumbs, but when we came to Madinah, we met a people dominated by their wives and our women picked up their traits. One day, as I became angry at my wife for arguing with me, she retorted, ‘Why do you feel bad about it? By Allah, even the Prophet’s (SAW) wives argue with him and do not speak to him throughout a day till night’. I also said to him that I asked Hafsah if she argued with him and she said, ‘Yes and one of us also stops speaking to him all day till it is night’. I told him that I said to her, ‘She among you who does this is at a loss. Could any of you be at peace if Allah is angry at her because of the displeasure of His Messenger? She will be ruined’. The Prophet smiled. I told him that I asked Hafsah not to argue with him and not to demand any thing from him, but she should ask me for whatever she wants; and, ‘Do not let it occupy your mind that your co-wife is more beautiful than you and dearer to Allah’s Messenger (SAW) than you’. He again smiled. I asked him, “O Messenger of Allah, may I stay here a little longer?’ He said, ‘Yes’. I raised my head and I did not find but three pieces of hide (hanging down). I said, ‘O Messenger of Allah. Pray to Allah that He may increase the provision of your ummah, for, it is bestowed liberally to the Persians and Romans while they do not worship Him’. He sat up straight and said, ‘Are you in doubt O Ibn Khattab? They are a people to whom the reward of their good deed is hastened in the life of this world’. The Prophet (SAW) had vowed not go to his wives for a month. Allah asked him about that and commanded him to make expiation for his oath. Zuhri reported that Urwah informed him on the authority of Sayyidah Ayshah (RA) when twenty-nine days were over, Allah’s Messenger r1J1 3L came to me, beginning (this visits) with me. He said, “O Ayshah, I mention to you something. Do not make haste in giving an answer before you consult your parents.” Then he recited this verse: "O Prophet, say to your wives, ‘If you desire the life of this world, and its adornment, come I will provide for your comfort and allow you to depart by a fair departing. -------------------------------------------------------------------------------- (33:28) He knew that my parents would never command me to separate from him, so I said, “Shall I consult my parents about this? Desire Allah and His Messenger and the hereafter.’ Ma'mar reported that Ayyub informed him that Sayyidah Ayshah (RA) said to the Prophet (SAW) O Messenger of Allah, do not inform your wives that I have chosen you.” The Prophet (SAW) said, “Indeed, Allah has sent me only to convey and not to put into difficulty.” [Bukhari 89, Muslim 1479, Nisai 3128, Ahmed 222] --------------------------------------------------------------------------------