سورئہ بروج کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ يَوْمُ عَرَفَةَ وَالشَّاهِدُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَمَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَی يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْهُ فِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اللَّهَ بِخَيْرٍ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَلَا يَسْتَعِيذُ مِنْ شَيْئٍ إِلَّا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ الْأَسَدِيُّ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ الرَّبَذِيُّ يُکْنَی أَبَا عَبْدِ الْعَزِيزِ وَقَدْ تَکَلَّمَ فِيهِ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مَنْ الْأَئِمَّةِ عَنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ-
عبد بن حمید، روح بن عبادة و عبیداللہ بن موسی، موسیٰ بن عبیدة، ایوب بن خالد، عبداللہ بن رافع، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یوم موعود قیامت کا دن ہے اور یوم مشہود عرفات کا دن اور شاہد جمعہ کا دن ہے۔ سورج اس سے افضل (یعنی سے افضل) دن میں نہ طلوع ہوا اور نہ غروب۔ اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مومن اس وقت اللہ تعالیٰ سے اچھی دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر کسی چیز سے (بندہ مومن) پناہ مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے پناہ دیتے ہیں۔ اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ حدیث میں ضعیف ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ کو یحیی بن سعید وغیرہ نے حافظے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے جبکہ شعبہ، سفیان ثوری اور کئی آئمہ، موسیٰ بن عبیدہ سے احادیث نقل کرتے ہیں۔ علی بن حجر بھی قران بن تمام اسدی سے اور وہ موسیٰ بن عبیدہ سے اسی سند سے اسی طرح کی حدیث نقل کرتے ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ زیدی کی کنیت ابوعبدالرزاق ہے۔ یحیی بن سعید قطان وغیرہ نے اسکے حفظ میں کلام کیا ہے۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah's Messenger (SAW) said, 'the Promised Day' is the Day of Resurrection while 'the witnessed day' is, the day of Arafah, and 'the witness' is( the day of) the day of Friday. The sun has neither risen nor set on a day more excellent than it (Friday). There is a moment on it on which if a Believing slave (of Allah) supplicates Allah for some thing good then Allah answers him with approval and if he seeks refuge from anything then Allah grants him refuge from it."
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی الْعَصْرَ هَمَسَ وَالْهَمْسُ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ تَحَرُّکُ شَفَتَيْهِ کَأَنَّهُ يَتَکَلَّمُ فَقِيلَ لَهُ إِنَّکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ هَمَسْتَ قَالَ إِنَّ نَبِيًّا مِنْ الْأَنْبِيَائِ کَانَ أُعْجِبَ بِأُمَّتِهِ فَقَالَ مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلَائِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْهُمْ بَيْنَ أَنْ أَنْتَقِمَ مِنْهُمْ وَبَيْنَ أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ فَاخْتَارُوا النِّقْمَةَ فَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتَ فَمَاتَ مِنْهُمْ فِي يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفًا قَالَ وَکَانَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ الْآخَرِ قَالَ کَانَ مَلِکٌ مِنْ الْمُلُوکِ وَکَانَ لِذَلِکَ الْمَلِکِ کَاهِنٌ يَکْهَنُ لَهُ فَقَالَ الْکَاهِنُ انْظُرُوا لِي غُلَامًا فَهِمًا أَوْ قَالَ فَطِنًا لَقِنًا فَأُعَلِّمَهُ عِلْمِي هَذَا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ فَيَنْقَطِعَ مِنْکُمْ هَذَا الْعِلْمُ وَلَا يَکُونَ فِيکُمْ مَنْ يَعْلَمُهُ قَالَ فَنَظَرُوا لَهُ عَلَی مَا وَصَفَ فَأَمَرُوهُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِکَ الْکَاهِنَ وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْهِ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهِ وَکَانَ عَلَی طَرِيقِ الْغُلَامِ رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ قَالَ مَعْمَرٌ أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ کَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَسْأَلُ ذَلِکَ الرَّاهِبَ کُلَّمَا مَرَّ بِهِ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی أَخْبَرَهُ فَقَالَ إِنَّمَا أَعْبُدُ اللَّهَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَمْکُثُ عِنْدَ الرَّاهِبِ وَيُبْطِئُ عَنْ الْکَاهِنِ فَأَرْسَلَ الْکَاهِنُ إِلَی أَهْلِ الْغُلَامِ إِنَّهُ لَا يَکَادُ يَحْضُرُنِي فَأَخْبَرَ الْغُلَامُ الرَّاهِبَ بِذَلِکَ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ إِذَا قَالَ لَکَ الْکَاهِنُ أَيْنَ کُنْتَ فَقُلْ عِنْدَ أَهْلِي وَإِذَا قَالَ لَکَ أَهْلُکَ أَيْنَ کُنْتَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّکَ کُنْتَ عِنْدَ الْکَاهِنِ قَالَ فَبَيْنَمَا الْغُلَامُ عَلَی ذَلِکَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنْ النَّاسِ کَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْهُمْ دَابَّةٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ تِلْکَ الدَّابَّةَ کَانَتْ أَسَدًا قَالَ فَأَخَذَ الْغُلَامُ حَجَرًا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنْ کَانَ مَا يَقُولُ الرَّاهِبُ حَقًّا فَأَسْأَلُکَ أَنْ أَقْتُلَهَا قَالَ ثُمَّ رَمَی فَقَتَلَ الدَّابَّةَ فَقَالَ النَّاسُ مَنْ قَتَلَهَا قَالُوا الْغُلَامُ فَفَزِعَ النَّاسُ وَقَالُوا لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْهُ أَحَدٌ قَالَ فَسَمِعَ بِهِ أَعْمَی فَقَالَ لَهُ إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَکَ کَذَا وَکَذَا قَالَ لَهُ لَا أُرِيدُ مِنْکَ هَذَا وَلَکِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْکَ بَصَرُکَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّهُ عَلَيْکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَدَعَا اللَّهَ فَرَدَّ عَلَيْهِ بَصَرَهُ فَآمَنَ الْأَعْمَی فَبَلَغَ الْمَلِکَ أَمْرُهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَالَ لَأَقْتُلَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ قِتْلَةً لَا أَقْتُلُ بِهَا صَاحِبَهُ فَأَمَرَ بِالرَّاهِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي کَانَ أَعْمَی فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَی مَفْرِقِ أَحَدِهِمَا فَقَتَلَهُ وَقَتَلَ الْآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَی ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلَامِ فَقَالَ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی جَبَلِ کَذَا وَکَذَا فَأَلْقُوهُ مِنْ رَأْسِهِ فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَی ذَلِکَ الْجَبَلِ فَلَمَّا انْتَهَوْا بِهِ إِلَی ذَلِکَ الْمَکَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوهُ مِنْهُ جَعَلُوا يَتَهَافَتُونَ مِنْ ذَلِکَ الْجَبَلِ وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّی لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا الْغُلَامُ قَالَ ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَرَ بِهِ الْمَلِکُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِهِ إِلَی الْبَحْرِ فَيُلْقُونَهُ فِيهِ فَانْطُلِقَ بِهِ إِلَی الْبَحْرِ فَغَرَّقَ اللَّهُ الَّذِينَ کَانُوا مَعَهُ وَأَنْجَاهُ فَقَالَ الْغُلَامُ لِلْمَلِکِ إِنَّکَ لَا تَقْتُلُنِي حَتَّی تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَأَمَرَ بِهِ فَصُلِبَ ثُمَّ رَمَاهُ فَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَهُ عَلَی صُدْغِهِ حِينَ رُمِيَ ثُمَّ مَاتَ فَقَالَ أُنَاسٌ لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا مَا عَلِمَهُ أَحَدٌ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَقِيلَ لِلْمَلِکِ أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَکَ ثَلَاثَةٌ فَهَذَا الْعَالَمُ کُلُّهُمْ قَدْ خَالَفُوکَ قَالَ فَخَدَّ أُخْدُودًا ثُمَّ أَلْقَی فِيهَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ تَرَکْنَاهُ وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ فَجَعَلَ يُلْقِيهِمْ فِي تِلْکَ الْأُخْدُودِ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِيهِ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ حَتَّی بَلَغَ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ قَالَ فَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّهُ دُفِنَ فَيُذْکَرُ أَنَّهُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأُصْبُعُهُ عَلَی صُدْغِهِ کَمَا وَضَعَهَا حِينَ قُتِلَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ-
محمود بن غیلان وعبدابن حمید، عبدالرزاق، معمر، ثابت بنانی، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز سے فراغت کے بعد آہستہ آہستہ کچھ پڑھا کرتے تھے۔ (ہمس کے معنی بعض کے نزدیک اسطرح ہونٹ ہلانا ہے کہ ایسا معلوم ہو کہ کوئی بات کر رہے ہیں۔) ۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز پڑھ کر ہونٹوں کو حرکت دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک نبی کو امت کی کثرت کا عجب ہوا تو انہوں نے دل ہی دل میں کہا کہ ان کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ انہیں اختیار دیدیں کہ یا تو خود پر کسی دشمن کا مسلط ہونا اختیار کرلیں یا پھر ہلاکت۔ انہوں نے ہلاکت اختیار کی اور ان میں سے ایک ہی دن میں ستر ہزار آدمی مر گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہ حدیث بیان کرتے تو یہ بھی بیان کیا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جس کا ایک کاہن تھا وہ اسے غیب کی خبریں بتایا کرتا تھا۔ اس کاہن نے کہا کہ میرے لیے ایک سمجھدار لڑکا تلاش کرو یا کہا کہ ذہین و فطین لڑکا تلاش کرو جسے میں اپنا یہ علم سکھا سکوں تاکہ ایسا نہ ہو کہ اگر میں مر جاؤں تو تم لوگوں میں سے یہ علم اٹھ جائے اور اس کا جاننے والا کوئی نہ رہے۔ لوگوں نے اس کے بتائے ہوئے اوصاف کے مطابق لڑکا تلاش کیا اور اسے کہا کہ روزانہ اس کاہن کے پاس حاضر ہوا کرو اور اس کے پاس آتے جاتے رہا کرو۔ اس نے آنا جانا شروع کر دیا۔ اس کے راستے میں ایک عبادت خانہ تھا جس میں ایک راہب ہوتا تھا۔ معمر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ان دنوں عبادت خانوں کے لوگ مسلمان ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا جب بھی وہان سے گزرتا تو اس راہب سے دین کے بارے میں کچھ باتیں سیکھتا یہاں تک کہ اس راہب نے اسے بتایا کہ میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ اس پر اس لڑکے نے راہب کے پاس زیادہ ٹھہرنا شروع کر دیا اور کاہن کے پاس کم کاہن نے اس کے گھر والوں کو پیغام بھیجا کہ اب وہ کم حاضر ہوتا ہے۔ لڑکے نے راہب کو یہ بات بتائی تو اس نے کہا کہ ایسا کرو کہ اگر تمہارے گھر والے پوچھیں کہ کہاں تھے۔ تو تم کہو کہ کاہن کے پاس اگر کاہن پوچھے تو کہو کہ گھر تھا۔ وہ اسی طرح کرتا رہا کہ ایک دن اس کا ایک ایسی جماعت پر گزر ہوا جنہیں کسی جانور نے روک رکھا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ جانور شیر تھا۔ اس لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا کہا کہ یا اللہ اگر راہب کی بات سچ ہے تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں اسے قتل کر سکوں۔ پھر اس نے پتھر مارا جس سے وہ جانور مر گیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اسے کس نے قتل کیا کہنے لگے کہ اس لڑکے نے۔ لوگ حیران ہوگئے اور کہنے لگا کہ اس نے ایسا علم سیکھ لیا ہے جو کسی نے نہیں سیکھا۔ یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اسے کہنے لگا کہ اگر تم میری بینائی لوٹا دو تو میں تمہیں اتنا، اتنا مال دوں گا۔ لڑکا کہنے لگا کہ میں تم سے اسکے علاوہ کچھ نہیں چاہتا کہ اگر تمہاری آنکھیں تمہیں مل جائیں تو تم اس پر ایمان لے آؤ جس نے تمہاری بینائی لوٹائی ہو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس لڑکے نے دعا کی اور اسکی آنکھوں کی بینائی آگئی۔ اور وہ اس پر ایمان لے آیا۔ جب یہ خبر بادشاہ تک پہنچی تو اس نے سب کو بلوایا اور کہنے لگا کہ میں تم سب کو مختلف طریقوں سے قتل کر دوں گا۔ چنانچہ اس نے راہب اور اس سابق نابینا شخص میں سے ایک کو آرے سے چروا (قتل کر) دیا اور دوسرے کو کسی اور طریقے سے قتل کروا دیا۔ پھر لڑکے کے متعلق حکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر گرا دو۔ وہ لوگ اسے پہاڑ پر لے گئے اور جب اس جگہ پہنچے جہاں سے اسے گرانا چاہتے تھے تو خود گرنے لگے یہاں تک کہ لڑکے کے علاوہ سب مر گئے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس واپس گیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ وہ لوگ اسے لے کر سمندر کی طرف چل پڑے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو غرق کر دیا اور اس لڑکے کو بچا لیا۔ پھر وہ لڑکا بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم مجھے اس وقت تک قتل نہیں کر سکتے جب تک مجھے باندھ کر تیر نہ چلاؤ اور تیر چلاتے وقت یہ نہ پڑھو بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ (اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔) چنانچہ بادشاہ نے اسے باندھنے کا حکم دیا اور تیر چلاتے وقت اسی طرح کیا جس طرح لڑکے نے بتایا تھا۔ جب تیر مارا گیا تو اس نے اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھا اور مر گیا لوگ کہنے لگے کہ اس لڑکے نے ایسا علم حاصل کیا جو کسی کے پاس نہیں تھا۔ لہذا ہم سب بھی اسی کے معبود پر ایمان لاتے ہیں۔ تم تو تین آدمیوں کی مخالفت سے گبھرا رہے تھے لو یہ سارا عالم تمہارا مخالف ہوگیا ہے۔ اس پر بادشاہ نے خندق گھدوائی اور اس میں لکڑیاں جمع کر کے آگ لگوا دی۔ پھر لوگوں کو جمع کیا اور کہنے لگا کہ جو اپنے نئے دین کو چھوڑ دے گا۔ ہم بھی اسے چھوڑ دیں گے اور جو اس پر قائم رہے گا ہم اسے آگ میں پھینک دیں گے اس طرح وہ انہیں اس خندق میں ڈالنے لگا۔ (اس کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ Ć النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ Ĉ اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌ Č وَّهُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ Ċ وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّا اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ Ď ) 84۔ البروج : 4 تا 8) (خندقوں والے ہلاک ہوئے جس میں آگ تھی بہت ایندھن والی، جبکہ وہ ان کے کناروں پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ایمانداروں سے جو کچھ کہہ رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے اور ان سے اسی کا تو بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اللہ زبردست خوبیوں والے پر ایمان لائے تھے۔) راوی کہتے ہیں کہ لڑکا تو دفن کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی نعش حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں نکلی تھی اور اس کی انگلی اس وقت بھی اسی طرح اس کی کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی جس طرح اس نے قتل ہوتے وقت رکھی تھی۔
Sayyidina Suhayb reported that after he had offered the salah of asr, Allah’s Messenger used to susurrus which according to some is to move the lips as though something will be said). Someone said, 0 Messenger of Allah, when you offer asr, you susurrus.’ He said, “A Prophet among the Prophets was pleased with the large number of his followers (ummah) and he thought, Who can match them? So, Allah revealed to him that heshould give them choice to choose between self-destruction and subjugution under an enemy. They chose self-destruction. So Allah put death over them and just in a day seventy thousand of them died.” When Allah’s Messenger narrated this Hadith, he also narrated : There was king among the kings.This king had a soothsayer who said to him that he should get him an intelligent boy to whom he might teach his knowledge. He said, “Let it not be that when I die, this knowledge should be lost to you. And there be no one to teach it you.” So, they seasched out a boy as described by the soothsayer. They ordered him to go to that soothsayer every day) and maintain contact with him. So, he went to him regularly. Now, on the path of the boy was a monk in his cathedral. Mamar said that he thought that the worshippers in the cathederal useti to be Muslims in those days. This boy used to make enquiries from the monk whenever he passed by him. He was not dettered till the monk disclosed to him that he worshipped Allah. The boy began to tarry with the monk a little longer, and gave lesser time to the soothsayer. The soothersayer sent message to the boy’s family that he thought that the boy might not come to him anymore. The boy informed the monk about it. He said to him, “When the soothsayer asks you where you were, say that you were with your family and whem your people ask you where you were, tell them that you were with the soothsayer.” While the boy was at it, one day he passed by a group of people whom an animal prevented from advancing forward. Some said that it was a lion. The boy picked up a stone and said. “0 Allah! If what the monk says is true then I ask You to kill it,” and he threw the stone. He killed the animal. The people asked, “Who killed it?” Others said, “The boy!” The people were surprised and commented that the boy had acquired knowledeg that no one else had learnt. A blind man heard of it. He said, “If you return to me my sight then for you is this and that. The boy said, “I do not wish for that from you, but wish of you that if your sight is restored to you then you believe in Him Who restores it to you.” He said, “Yes” So he prayed to Allah and He restored to him his eye-sight. The blind man then believed. Their affair was conveyed to the king and he sent for them and they were presented to him. He said, “I will slay each one of you in different ways.” He had the monk and the man who had been blind killed-one of them sawed through and the other in some other way. Then he ordered that the boy should be taken to the top of a particular mountain and thrown down from the top. When they took him there and were at the place from where he was to be thrown down, (the montain shook and) they began to fall down and all of them, except the boy, died. The boy returned to the king who commanded that he should be thrown into the sea. They took him there, but Allah drowned all of them and saved the boy. The boy came to the king and said, “You cannot slay me till you bind me and shoot an arrow and while shooting it, you say: (In the name of Allah, the Lord of this boy). So, the king ordered that he should be tied up (somewhere). Then they shot the arrow, saying the while tj (In the name of Allah, Lord of this boy). The boy placed his hand on his temple while the arrow was shot. He died. The people said, “This boy learnt knowledge that no one else learnt. So, we believe in the Lord of this boy.” Then it was said to the king, “You were worried at the opposition of three men. Now, this whole world opposes you!” The king had trenches dug up. Firewood was thrown into it and it was put on fire. Then, people were brought together and he said, “He who reverts to his (original) religion, we will leave him alone, but he who does not revert to his religion, we shall hurl him in this fire.” So, they began hurling them in the fire, The Prophet said that Allah, the Blessed and Exalted said about it. Persh the compainions of the pit! of the fuel-fed fire, when they sat around it, and they were witnesses to what they did with the believers, and they avenged them not except for this that they believed in Allah, the Mighty, the Praised. (85:4-8) As for the boy, he was buried. It is said that his corpse was dug out in the times of Umar ibn Khattab and his finger was placed on his temple just as he had placed it on the day he was slain. [Muslim 3005, Ahmed 18955] --------------------------------------------------------------------------------