سورئہ احزاب کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ مَا عَنَی بِذَلِکَ قَالَ قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُصَلِّي فَخَطَرَ خَطْرَةً فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَهُ أَلَا تَرَی أَنَّ لَهُ قَلْبَيْنِ قَلْبًا مَعَکُمْ وَقَلْبًا مَعَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ نَحْوَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ-
عبداللہ بن عبدالرحمن، صاعد حرانی، زہیر، قابوس بن ابی ظبیان، ابوظیان کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے (مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِه ) 33۔ الاحزاب : 4) (اللہ نے کس شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے۔ الاحزاب۔ آیت) انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ کوئی چیز بھول گئے چنانچہ منافقین جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہنے لگے تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ ان کے دو دل ہیں۔ ایک تمہارے ساتھ اور ایک کسی اور کے ساتھ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِه ) 33۔ الاحزاب : 4) الا یہ عبد بن حمید بھی احمد بن یونس سے ساور وہ زہیر سے اسی کی مثل حدیث نقل کرتے ہیں۔ یہ حدیث حسن ہے۔
Ibn Abu Zabyan reported from his father (Abu Zabyan) that he asked Sayyidina Ibn Abbas (RA) what he thought of the words of Allah, the Glorious, the Majestic: “Allah has not assigned to any man two hearts within his body.” (33 :4) He said, “The Prophet (SAW) stood up one day and offered salah, but forgot something. So, the hypocrites who were praying with him said. ‘Do you not see that he has two hearts. a heart with you and a heart with them.’ So, Allah revealed: “Allah has not assigned to any man two hearts within his body.” (33:4)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عَمِّي أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ سُمِّيتُ بِهِ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَبُرَ عَلَيَّ فَقَالَ أَوَّلُ مَشْهَدٍ شَهِدَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِبْتُ عَنْهُ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ أَرَانِي اللَّهُ مَشْهَدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَعْدُ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أَصْنَعُ قَالَ فَهَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَهَا فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْقَابِلِ فَاسْتَقْبَلَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ يَا أَبَا عَمْرٍو أَيْنَ قَالَ وَاهًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُهَا دُونَ أُحُدٍ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ فَوُجِدَ فِي جَسَدِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ فَقَالَتْ عَمَّتِي الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلَّا بِبَنَانِهِ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن محمد، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن مغیرة، ثابت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر جنب کے نام پر میرا نام رکھا گیا وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے اور یہ بات ان پر بہت گراں گزری۔ وہ کہنے لگے کہ پہلی جنگ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے میں نہ جاسکا۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ آئندہ مجھے کسی جنگ میں شریک کریں تو دیکھیں کہ میں کیا کرتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ اس سے زیادہ کہنے سے ڈر گئے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے جو ایک سال بعد ہوا۔ وہاں راستے میں انہیں سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے تو انہوں نے فرمایا ایابوعمرو (انس) کہاں جا رہے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا واہ واہ میں احد میں جنت کی خوشبو پا رہا ہوں پھر انہوں نے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ انکے جسم پر چوٹ، نیزے اور تیروں کے اسی (ا) سے زیادہ نشان تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری پھوپی ربیع بنت نضر کہتی ہیں کہ میں اپنے بھائی کی لاش صرف انگلیوں کے پوروں سے پہچان سکی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَه وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ڮ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا) 33۔ الاحزاب : 23) (ایمان والوں میں کتنے مرد ہیں کہ سچ کر دکھلایا جس بات کا عہد کیا تھا اللہ سے پھر کوئی تو ان سے پورا کر چکا اپنا ذمہ اور کوئی ہے ان میں راہ دیکھ رہا ہے اور بدلا نہیں ایک ذرہ۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Anas in Maalik narrated: My uncle, Anas ibn Nadr after whom I am named, did not participate in (the Battle of) Badr with Allah’s Messenger This weighed heavily on him. He said, ‘This was the first battle and Allah’s Messenger did indeed take part in it but I absented myself from it. By Allah, if Allah causes me to participate in a battle with His Messenger then He will see what I do.” (The narrator said:) He was afraid to say more than that. So, he participated with Allah’s Messenger J’ in the Battle of Uhud in the year following. He met Sa’dibn Mu’adh i who asked him, "O Abu Amr, whereto?” He said, “How wonderful! I perceive the fragrance of Paradise at Uhud.” So he fought till he was killed, and on his body something over eighty wounds were counted from blunt strike, spears and arrows. My aunt, Rabi bint Nadr, said, “I did not recognize my brother but through his fingertips.” This verse was revealed: Men who are true to the covenant they made with Allah: so of them is he who fulfilled his vow ‘by (martyrdom) and of them is he who waits, and they have not altered in the least. -------------------------------------------------------------------------------- (33 : 23) [Ah3014, M1903]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ فَقَالَ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِکِينَ لَئِنْ اللَّهُ أَشْهَدَنِي قِتَالًا لَلْمُشْرِکِينَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ کَيْفَ أَصْنَعُ فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْکَشَفَ الْمُسْلِمُونَ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْکَ مِمَّا جَائَ بِهِ هَؤُلَائِ يَعْنِي الْمُشْرِکِينَ وَأَعْتَذِرُ إِلَيْکَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَائِ يَعْنِي أَصْحَابَهُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَلَقِيَهُ سَعْدٌ فَقَالَ يَا أَخِي مَا فَعَلْتَ أَنَا مَعَکَ فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَصْنَعَ مَا صَنَعَ فَوُجِدَ فِيهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَةٍ بِسَيْفٍ وَطَعْنَةٍ بِرُمْحٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ فَکُنَّا نَقُولُ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ نَزَلَتْ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ قَالَ يَزِيدُ يَعْنِي هَذِهِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ عَمِّهِ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ-
عبد بن حمید، یزید بن ہارون، حمید طویل، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میتے چچا جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تو کہنے لگے کہ پہلی جنگ نو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی میں اس میں شامل نہی ہوا اگر اللہ تعالیٰ مجھے کسی جنگ میں شریک ہونے کا موقع کیں تو دیکھیں کہ میں کیا کرتا ہوں۔ چنانچہ جنگ احد ہوئی تو مسلمان شکست کھا گئے اور اس موقع پر انہوں نے کہا اے اللہ تجھ سے اس بلا سے پناہ مانگتا ہوں جسے یہ مشرک لائے ہیں۔ اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل پر معذرت چاہتا ہوں۔ پھر بڑھے (یعنی انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا بھائی آپ نے کیا کیا؟ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں لیکن (سعد کہتے ہیں کہ) میں وہ نہ کرسکا جو انہوں نے کیا۔ ان کے جسم پر تلوار، نیزے اور تی کے اسی (ا) سے زیادہ زخم تھے۔ ہم کہا کرتے تھے کہ حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انکے ساتھیوں سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی (فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَه وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ) 33۔ الاحزاب : 23) یزید کہتے ہیں کہ اس سے مراد پوری آیت ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا کا نام انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔
Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) narrated that his uncle was absent from the Battle of Badr. So, he lamented. “I was absent from the first battle that Allah’s Messenger (SAW) fought against the idolaters. If Allah causes me to participate in a battle against the idolaters, He will see how I perform.” So, when it was the day of Uhud, the Muslims suffered defeat, and he prayed, "O Allah, I absolve myself with you from that which they (the idolators) have brought, and I seek pardon from you for what they (the Muslims) have done.” Then he advanced and met Sa’d. He asked. "O Brother, what have you done? I am with you.” But Sa’d said, “I could not do what he did. There were found on him some more than eighty wounds from swords, spears and arrows, We used to say about him and his friends that this verse was revealed about them:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ يَحْيَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی مُعَاوِيَةَ فَقَالَ أَلَا أُبَشِّرُکَ فَقُلْتُ بَلَی قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَی نَحْبَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ-
عبدالقدوس بن محمد عطار بصری، عمرو بن عاصم، اسحاق بن یحیی بن طلحہ، حضرت موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں گیا تو انہوں نے فرمایا کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سناؤں؟ میں کہا کیوں نہیں۔ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ طلحہ ان لوگوں میں سے ہے۔ جنہوں نے اپنی نذر پوری کر دی۔ یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اس حدیث کو موسیٰ بن طلحہ بھی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں۔
Musa ibn Talhah narrated: I went to Mu awiyah. He said. Shall I not give you good news?’ I said, “Yes.” He said “I heard Allah’s Messenger (SAW) say that Talhah is among those who have fulfilled their vow.” [Ibn e Majah 127]
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُکَيْرٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَی عَنْ مُوسَی وَعِيسَی ابْنَيْ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِمَا طَلْحَةَ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِأَعْرَابِيٍّ جَاهِلٍ سَلْهُ عَمَّنْ قَضَی نَحْبَهُ مَنْ هُوَ وَکَانُوا لَا يَجْتَرِئُونَ عَلَی مَسْأَلَتِهِ يُوَقِّرُونَهُ وَيَهَابُونَهُ فَسَأَلَهُ الْأَعْرَابِيُّ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ إِنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ وَعَلَيَّ ثِيَابٌ خُضْرٌ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَمَّنْ قَضَی نَحْبَهُ قَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ هَذَا مِمَّنْ قَضَی نَحْبَهُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ بُکَيْرٍ-
ابوکریب، یونس بن بکیر، طلحہ بن یحیی، موسیٰ وعیسی بن طلحہ، حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اعرابی سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھو کہ جو لوگ اپنا کام کر چکے ہیں وہ کون ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سوال پوچھنے کی جرائت نہیں رکھتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے اور آپ سے ڈرتے تھے۔ جب اعرابی نے آپ سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی طرف سے رخ پھیر لیا۔ پھر اس نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی طرف سے رخ پھیر لیا۔ اس نے تیسری مرتبہ یہی پوچھا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد کے دروازے سے داخل ہوا، میرے بدن پر سبز کپڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوال کرنے والا کون ہے؟ اعرابی نے عرض کیا میں ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے فرمایا یہ (یعنی طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ان لوگوں میں سے ہے جو اپنا کام کر چکے ہیں۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف یونس بن بکیر کی روایت سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Talhah (RA) reported that the sahabah requested an ignorant villager to ask Allah’s Messenger (SAW) about him who has fulfilled his vow, “Who is he?” They did not dare to ask directly, for they held him in respect and awe. so, the villager did ask him, but he did not pay attention to him He asked again, but the Prophet ,.9J looked the other way. The third time he asked and he turned away. (Talhah said:) I entered through the door of the mosque wearing green coloured garments. When the Prophet saw me, he asked “Where is the one who asked about him who fulfilled his vow”? The villager said, “I, O Messenger of Allah!” He said, “This is he who fulfilled his vow.”
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنِّي ذَاکِرٌ لَکِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْکِ أَنْ لَا تَسْتَعْجِلِي حَتَّی تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْکِ قَالَتْ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَايَ لَمْ يَکُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ قَالَتْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ حَتَّی بَلَغَ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا فَقُلْتُ فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ وَفَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا أَيْضًا عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا-
عبد بن حمید، عثمان بن عمر، یونس بن یزید، زہری، ابوسلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی بیویوں کو ختیار دینے کا حکم کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ابتداء کی اور فرمایا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں تم اسکے جواب میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ اپنے والدین سے مشورہ کر لو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علیحدگی کا حکم نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33۔ الاحزاب : 28) (اے نبی اپنی بیویوں سے کہ دو اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اسکی آرائش منظور ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھی طرح رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ اور اسکے رسول اور آخرت کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک بختوں کے لئے بڑا اجر تیار کیا ہے۔) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں کس چیز کے متعلق اپنے والدین سے مشورہ کروں میں اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخرت کو اختیار کرتی ہوں۔ پھر دوسری ازواج نے بھی اسی طرح کیا جس طرح میں نے کیا تھا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ زہری بھی اس حدیث کو عروہ سے اور وہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidah Ayshah (RA) narrated: When Allah’s Messenger was commanded to give option to his wives, he began with me and said. "O Ayshah I tell you something, but do not make haste to answer it till you seek advice from your parents.” He knew that my parents would never ask me to separate from him. He added that Allah has said: O Prophet, say to you wives, “If you desire the life of this world and its adornment, come! I will provide for your comfort and allow you to depart by a fair departing. But if you desire Allah and His Messenger and the abode of the Hereafter then surely Allah has repaired for the good doers among you a mighty reward.” (33:28-29) So, I said, about what of it shall I consult my parents? For, I wish for Allah and His Messenger (SAW). And the (other) wives of the Prophet (SAW) did as I had done. [Bukhari 4785, Nisai 3201, Ahmed 25354]
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيرًا فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَائٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَائٍ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَائِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ أَنْتِ عَلَی مَکَانِکِ وَأَنْتِ عَلَی خَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَطَائٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ-
قتیبہ، محمد بن سلیمان اصبہانی، یحیی بن عبید، عطاء بن ابی رباح، حضرت عمر بن ابوسلمہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ربیب ہیں فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا) 33۔ الاحزاب : 33) (اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں اے نبی کے گھر والو اور تمہیں پاک کرے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امہ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا اور ان سب پر ایک چادر ڈال دی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے پھر ان پر بھی چادر ڈال دی اور عرض کیا یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے گناہ کی نجاست دور کر دے اور انکو بخوبی پاک کر دے۔ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ان کیساتھ ہوں (یعنی چادر میں آنے کا ارادہ کیا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اپنی جگہ رہو تم خیر پر ہو۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ علماء اس حدیث کو عمر بن ابوسلمہ سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Umar ibn Abu Salamah (RA) the Prophet’s stepson, reported that when this verse was revealed to the Prophet (SAW): "Allah only desires to take away from you all abomination, O people of the household (of Muhammad), and to purify you with a thorough purifying." (33:33) He was in the house of Umm Salamah (RA).He summoned Fatimah ,(RA), Hasan (RA); and Husayn (RA) and put his cloak over all of them. Ali was behind him and he put the clok over him too. Then he said, ‘O Allah, they are the people of my house. Remove from them abomination and purify them with a thorough purifying.” Umm Salamah (RA) said, “And I am with them, O Prophet of Allah.” He said, “Stay where you are. You are on what is good.” [Muslim 2424]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَی صَلَاةِ الْفَجْرِ يَقُولُ الصَّلَاةَ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيرًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْحَمْرَائِ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ-
عبد بن حمید، عفان بن مسلم، حماد بن سلمة، علی بن زید، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ ماہ تک یہ عادت رہی کہ جب فجر کی نماز کیلئے نکلتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر کے دروازے سے گزرتے ہوئے فرماتے اہل بیت اللہ تعالیٰ تم سے گناہ کی گندگی کو دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت سے جانتے ہیں۔ اس باب میں ابوحمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی احادیث منقول ہیں۔
Sayyidina Anas ibn Maalik reported that for six months Allah’s Messenger (SAW). passed by the door of Sayyidah Fatimah when he went out for the salah of fajr. He would call, “The salah” (and recited): "Allah only desires to take away from you all abomination, O people of the household (of Muhammad), and to purify you with a thorough purifying." (33:33)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَاتِمًا شَيْئًا مِنْ الْوَحْيِ لَکَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْإِسْلَامِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْعِتْقِ فَأَعْتَقْتَهُ أَمْسِکْ عَلَيْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِکَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ إِلَی قَوْلِهِ وَکَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَهَا قَالُوا تَزَوَّجَ حَلِيلَةَ ابْنِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ فَلَبِثَ حَتَّی صَارَ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ زَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَائَهُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيکُمْ فُلَانٌ مَوْلَی فُلَانٍ وَفُلَانٌ أَخُو فُلَانٍ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ يَعْنِي أَعْدَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَوْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَاتِمًا شَيْئًا مِنْ الْوَحْيِ لَکَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ هَذَا الْحَرْفُ لَمْ يُرْوَ بِطُولِهِ-
علی بن حجر، داؤد بن زبرقان، داؤد بن ابی ہند، شعبی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہء کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی میں سے کچھ چھپاتے ہوتے تو یہ آیت ضرور چھپاتے ( وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ) 33۔ الاحزاب : 37) (اور جب تو نے اس شخص سے کہا جس پر اللہ نے احسان کیا اور تونے احسان کیا۔ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر۔ اور تو اپنے دل میں ایک چیز چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے درتا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے۔ پھر جب زید اسے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اسکا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو جبکہ وہ ان سے حاجت پوری کر لیں اور اللہ کا حکم ہو کر رہنے والا ہے۔ الاحزاب۔ آیت) اللہ کے انعام سے مراد اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انعام سے مراد انہیں آزاد کرنا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید کی بیوی سے (ان کی طلاق کے بعد) نکاح کیا تو لوگوں کہنے لگے کہ دیکھو اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مَا كَانَ مُحَ مَّ دٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّ بِيّ ن) 33۔ الاحزاب : 40) (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتمے پر ہیں اور اللہ ہر بات جانتا ہے۔) جب زید چھوٹے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا تھا پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے پاس رہے۔ یہاں تک کہ جوان ہوگئے اور لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کر پکارنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَا ى ِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْ ا اٰبَا ءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ)33۔ الاحزاب : 5) (یعنی انہیں اسطرح پکارا کرو فلاں شخص فلاں شخص کا دوست ہے اور فلاں، فلاں کا بھائی ہے) او اقسط عند اللہ سے مراد یہی ہے کہ اللہ کے نزدیک یہی عدل کی بات ہے۔ یہ حدیث داؤد بن ابی ہندہ سے منقول ہے وہ شعبی سے وہ مسروق سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی سے کچھ چھپاتے ہوتے تو یقینا یہ آیت چھپاتے ( وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ) 33۔ الاحزاب : 37)
Sayyidah Ayshah (RA) narrated: If Allah’s Messenger (SAW) were to conceal anything of the revelation then he would have surely concealed this verse: And (recall) when you (O Prophet) said to him (Zayd ibn Harithah) whom Allah has blessed (with Islam) and to whom you had shown favour (with freedom), “Keep you wife to yourself and fear Allah, and while you were concealing in your mind that which Allah was going to disclose, and you were fearing mankind, whereas Allah has a better right for you to fear Him. So when Zayd had had his want fulfilled of her, we joined her in marriage to you, in order that there should be no blame for the believers in marrying the wives of their adopted sons who have had their want fulfilled of them. And Allah’s commandment is ever performed. (33: 33) When Allah’s Messenger married her, they said, “He has married his son’s wife.” So, Allah revealed: "Muhammad is not the father of anyone of you men, but he is the Messenger of Allah, and the last of the Prophets." (33: 40) Allah's Messenger (SAW) had adopted him when he was a young child and he stayed with him till he attained manhood. He was called Zayd bin Muhammad so Allah revealed; "Assert their relationship to their fathers; this is more equitable with Allah; but if you do not know their fathers, then they are your brethren in faith and your friends;" (33:5) Thus (call in this manner) so-and-so friend of so-and-so, and so-and-so brother of so-and-so. “That is more equitable in the sight of Allah. (33: 5) That is, more fair in Allah’s sight. --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا بِذَلِکَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَضَّاحٍ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَاتِمًا شَيْئًا مِنْ الْوَحْيِ لَکَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبداللہ وضاح کوفی، عبداللہ بن ادریس، داؤد بن ابی ہندہ، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہایہ حدیث روایت کی ہم سے عبداللہ وضاح کوفی نے ان سے عبداللہ بن ادریس نے وہ داؤد بن ابی ہندہ سے وہ شعبی سے وہ مسروق سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی سے کچھ چھپاتے تو یہ آیت ہی چھپاتے ( وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ) 33۔ الاحزاب : 37)
Muhammad in Aban reported from Ibn Abu Adi, from Dawud ibn Abu Hind, from Sha’bi, from Masruq, from Sayyidah Ayshah (RA). diii that she said, “If .the Prophet(SAW) was to hide anything of the revelation then he would have hid this verse surely: ) (33 :37) (Translation as in hadith # 3218).” [Muslim 177, 8885, Ahmed 26099
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَا کُنَّا نَدْعُو زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَّا زَيْدَ ابْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّی نَزَلَ الْقُرْآنُ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
قتیبہ، یعقوب بن عبدالرحمن، موسیٰ بن عقبہ، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کہ کر پکارا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئی ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ۔ الْآيَةَ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Ibn Umar (RA) said, “We used to call Zayd ibn Harithah, Zayd ibn Muhammad till the Qur’an was revealed: "Call them by (the names of) their fathers: that is more equitable in the sight of Allah." (33:5) [Ahmed 5480, Bukhari 4782, Muslim 2425]
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ قَالَ مَا کَانَ لِيَعِيشَ لَهُ فِيکُمْ وَلَدٌ ذَکَرٌ-
حسن بن قزعہ بصری، مسلمہ بن علقمہ، داؤد بن ابی ہند، حضرت عامر شعبی اللہ تعالیٰ کے قول مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ۔ الْآيَةَ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بیٹا زندہ نہیں رہا۔
Aamir Shabi (RA) said in explanation of this verse: "Muhammad is not the father of anyone of your men." (33:40). none of his sons survived him among you.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ کَثِيرٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ أَنَّهَا أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مَا أَرَی کُلَّ شَيْئٍ إِلَّا لِلرِّجَالِ وَمَا أَرَی النِّسَائَ يُذْکَرْنَ بِشَيْئٍ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَإِنَّمَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ-
عبد بن حمید، محمد بن کثیر، سلیمان بن کثیر، حسین، عکرمہ، حضرت ام عمارہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وجہ ہے کہ سب چیزیں مردوں کیلئے ہیں اور قرآن میں عورتوں کا کہیں ذکر نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ) 33۔ الاحزاب : 35) (تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں اور بندگی کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنیوالے مرد اور صبر کرنیوالی عورتیں اور دبے رہنے والے مرد اور دبی رہنے والی عورتیں۔) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
Sayyidah Umm Umarah Ansariyah (RA) came to the Prophet (SAW)and said, “I do not see but everything is about men and I do not find any mention of women.’ So this verse was revealed: "For Muslim men and women for beliand women. (33 35) the verse to the end).[Ahmed 26636)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَلَمَّا قَضَی زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا قَالَ فَکَانَتْ تَفْخَرُ عَلَی أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ زَوَّجَکُنَّ أَهْلُوکُنَّ وَزَوَّجَنِي اللَّهُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، محمد بن فضل، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا) 33۔ الاحزاب : 37) (پھر جب زید تمام کر چکا اس عورت سے اپنی غرض۔ ہم نے اسکو تیرے نکاح میں دے دیا۔) تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوسری ازواج مطہرات پر فخر کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ تم لوگوں کا نکاح تو تمہارے عزیزوں جبکہ میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان سے کیا ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Anas reported about this verse: "But you did hide in your heart." (33 : 37) It was about Zaynab bint Jahsh.”O Zayd came (to the Prophet) and complained (about her) having resolved to divorce her. The Prophet advised him to: "Retain you your wife, and fear Allah." (33 : 37) [Ahmed 12513, Bukhari 4787]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ قَالَتْ خَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَذَرْتُ إِلَيْهِ فَعَذَرَنِي ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَکَتْ يَمِينُکَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالَاتِکَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ الْآيَةَ قَالَتْ فَلَمْ أَکُنْ أَحِلُّ لَهُ لِأَنِّي لَمْ أُهَاجِرْ کُنْتُ مِنْ الطُّلَقَائِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ-
عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، سدی، ابوصالح، حضرت ام ہانی بنت ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پیغام نکاح بھیجا تو میں نے معذوری ظاہر کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا عذر قبول کرلیا اور پھر یہ آیت نازل ہوئی ( اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِيْ هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ ) 33۔ الاحزاب : 50) (اے نبی ہم نے حلال رکھیں تجھ پر تیری عورتیں جن کے مہر تو دے چکا ہے اور جو مال ہو تیرے ہاتھ کا، جو ہاتھ لگا دے تیرے اللہ (یعنی لونڈیاں) اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے وطن چھوڑا تیرے ساتھ۔) حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ اسطرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے حلال نہیں رہی کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی اور ان لوگوں میں سے تھی جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اس حدیث کو سدی کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
Sayyidah Umm Hani (RA) daughter of Abu Talib narrated: Allah’s Messenger sent me proposal of marriage. But I excused myself and he accepted my excuse. Then, Allah revealed: "We have made lawful to you your wives to whom you have paid their dowers, and those whom your right hand possesses out of the prisoners of war whom Allah has assigned to you; and daughters of your paternal uncles and aunts, and daughters of your maternal uncles and aunts, who migrated (from Makkah) with you, and any believing woman who dedicates her soul to the Prophet." (33 : 50) She said, “I was not lawful to him because I had not migrated. I was among those who had embraced Islam after the conquest of Makkah.”
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِکَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَی النَّاسَ فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ جَائَ زَيْدٌ يَشْکُو فَهَمَّ بِطَلَاقِهَا فَاسْتَأْمَرَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْسِکْ عَلَيْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللَّهَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن عبدة ضبی، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت (وَتُخْ فِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ) 33۔ الاحزاب : 37) زینب بنت حجش کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت زید نبی اکم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شکایت کی اور طلاق کا ارادہ ظاہر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Anas (RA) reported that when the verse about Zaynab bint Jahsh was "Then when Zayd had dissolved (his marriage) with her, with the necessary (formality), we joined her in marriage to you." (33 37) she boasted before the other wives of the Prophet (SAW) saying. “You were given in marriage by your family but I was given in marriage by Allah from above the seven heavens.’ [Bukhari 7420]
حَدَّثَنَا عَبْدٌ حَدَّثَنَا رَوْحٌ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نُهِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَصْنَافِ النِّسَائِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ الْمُهَاجِرَاتِ قَالَ لَا يَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ يَمِينُکَ وَأَحَلَّ اللَّهُ فَتَيَاتِکُمْ الْمُؤْمِنَاتِ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ وَحَرَّمَ کُلَّ ذَاتِ دِينٍ غَيْرَ الْإِسْلَامِ ثُمَّ قَالَ وَمَنْ يَکْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَکَتْ يَمِينُکَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْکَ إِلَی قَوْلِهِ خَالِصَةً لَکَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَحَرَّمَ مَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ أَصْنَافِ النِّسَائِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ قَالَ سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَذْکُرُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ لَا بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ-
عبد، روح، عبدالحمید بن بہرام، شہربن حوشب، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کرنے والی اور مومن عورتوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے لَا يَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ يَمِينُکَ وَأَحَلَّ اللَّهُ فَتَيَاتِکُمْ الْمُؤْمِنَاتِ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ۔ (حلال نہیں تجھ کو عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ ان کے بدلے اور عورتوں۔ اگرچہ خوش لگے تجھ کو ان کی صورت مگر جو مال ہو تیرے ہاتھ کا اور ہے اللہ ہر چیز پر نگہبان۔ اور مومن جو ان عورتیں حلال کیں اور وہ ایمان والی عورت جس نے خود کو آپ صلی اللہ علیہ کے سپر کر دیا۔ پھر اسلام کے علاوہ کسی بھی دین سے تعلق رکھنے والی عورت کو حرام کیا اور پھر فرمایا کہ جو شخص (ایمان لانے سے) انکار کرے گا اس کا عمل برباد ہوگیا۔ اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہے۔ نیز فرمایايَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَکَتْ يَمِينُکَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْکَ۔) یہ حسن ہے ہم اس حدیث کو صرف عبدالحمید بن بہرام کی روایت ہیں کہ عبدالحمید بن بہرام کی شہربن حوشب سے منقول احادیث میں کوئی حرج نہیں
Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated; Allah's Messenger (SAW) was disallowed to marry women other then the believing emigrant women. "It is not lawful for you (to marry more) women after this, nor to change them for (other) wives,even though their beauty attract you, except any your right hand should possess." (33 : 52) Believing young women were allowed. "And any believing woman who declares her soul to the Prophet." (33 : 50) And everyone of any religion other than Islam was forbidden. Then ALLAH said: "If anyone rejects faith, fruitless is his work, and in the Hereafter. He will be in the ranks of those who have lost." (5: 6) And also: "We have made lawful to you, your wives to whom you have paid their dowers, and those whom your right hand possesses out of the prisoners of war whom Allah has assigned to you; and daughters of your paternal uncles and aunts, and daughters of your maternal uncles and aunts, who migrated (from Makkah) with you and any believing woman who dedicates her soul to the Prophet if the Prophet wishes to wed her-this only for you and not for the Believers (at large)."(33 : 50) And Allah forbade all other women. [Ahmed 2925)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَائٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أُحِلَّ لَهُ النِّسَائُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، عمرو، عطاء، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمام عورتیں حلال ہوگئیں تھیں۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
Sayyidah Ayshah (RA) reported that till he died, the women were lawful to Allah’s Messenger (SAW). [Nisai 3204]
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ بَيَانٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَنَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ فَأَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ قَوْمًا إِلَی الطَّعَامِ فَلَمَّا أَکَلُوا وَخَرَجُوا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْطَلِقًا قِبَلَ بَيْتِ عَائِشَةَ فَرَأَی رَجُلَيْنِ جَالِسَيْنِ فَانْصَرَفَ رَاجِعًا قَامَ الرَّجُلَانِ فَخَرَجَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ وَرَوَی ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ-
عمربن اسماعیل بن مجالد بن سعید، ان کے والد، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیوی کے دروازے پر تشریف لے گئے جن کے ساتھ شادی کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک گروہ کو پایا تو واپس تشریف لے گئے، اپنا کوئی کام کیا پھر واپس تشریف لائے اور اپنا کوئی کام کرکے دوبارہ تشریف لائے اس مرتبہ لوگ جاچکے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے اور میرے اور اپنے درمیان ایک پردہ ڈال دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کیا تو وہ فرمانے لگے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کے بارے میں کچھ نازل ہوگا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر پردے کے متعلق آیت نازل ہوئی۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے اور عمرو بن سعید کو اصلع کہتے ہیں۔ حدیث حسن غریب ہے اور اس میں ایک قصہ ہے۔ ثابت انس رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث طویل نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) narrated: I was with the Prophet (SAW). He came to the door of his wife with whom he had consummated his marriage. There (still) were some people inside, so he returned, Attended to some task and came there (again) but they were still there. He went away, attended to his task and came there. They had gone away. He went in and put a screen between himself and me. I mentioned this to Abu Talhah who said, “If it is as you say then something will be revealed about it.” Indeed, the verse of hijab was then revealed. (Hijab is to observe the veil by a woman). [Bukhari 5166, Muslim 1428, Ahmed 13478]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَشْهَلُ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَاهُ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَی بَابَ امْرَأَةٍ عَرَّسَ بِهَا فَإِذَا عِنْدَهَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَی حَاجَتَهُ فَاحْتُبِسَ ثُمَّ رَجَعَ وَعِنْدَهَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَی حَاجَتَهُ فَرَجَعَ وَقَدْ خَرَجُوا قَالَ فَدَخَلَ وَأَرْخَی بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا قَالَ فَذَکَرْتُهُ لِأَبِي طَلْحَةَ قَالَ فَقَالَ لَئِنْ کَانَ کَمَا تَقُولُ لَيَنْزِلَنَّ فِي هَذَا شَيْئٌ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَعَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ يُقَالُ لَهُ الْأَصْلَعُ-
محمد بن مثنی، اشہل بن حاتم، ابن عون، عمرو بن سعید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیوی کے دروازے پر تشریف لے گئے جن کے ساتھ شادی کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک گروہ کو پایا تو واپس تشریف لے گئے، اپنا کوئی کام کیا پھر واپس تشریف لائے اور اپنا کوئی کام کرکے دوبارہ تشریف لائے اس مرتبہ لوگ جاچکے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے اور میرے اور اپنے درمیان ایک پردہ ڈال دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کیا تو وہ فرمانے لگے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کے بارے میں کچھ نازل ہوگا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر پردے کے متعلق آیت نازل ہوئی۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے اور عمرو بن سعید کو اصلع کہتے ہیں۔
Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) narrated: Allah’s Messenger married and went to his wife. My mother prepared haysO and put it in a bowl of stone and said, "O Anas, go with this to the Prophet and tell him, ‘My mother has sent me to you with this and she has conveyed salaam to you. She says that we have sent very little to you.’“ So, I went to him and said, ‘My mother offers to you her salaam and says that this is from us, a little.’ He said, ‘Put it the men. So I invited whoever he had named and whoever I met. The sub narrator said that he asked him how many they were and he said that they were around three hundred men. The Prophet (SAW) said to me, "O Anas, give me the vessel.” (Meanwhile,) they came in till the courtyard and the room was full. He instructed them that they should sit ten each in a circle, and everyone should eat from what was before him. They ate till they were satiated. A batch went out and another entered till all of them had eaten. Then he said, "O Anas, pick up the vessel.” So, I took it up and I could not determine if it was more than I had brought (or lesser). A group of them (the invitees) sat down chatting in the house of Allah’s Messenger who was also sitting and his wife sat facing the wall. This was unbearable by Allah’s Messenger. So, he went out to his wives, greeted them and returned. When they saw Allah’s Messenger return, they imagined that it was unbearable to him, so they took to the door and went out, all of them. And Allah’s Messenger J’ came, drew the curtain and entered. I was sitting there in the room. Not much time had passed when he came to me and these verses were revealed: O you who believe Enter not the Prophet’s houses until leave is give you for a meal, (and then) not (so early as) to wait for its preparation: but when you are invited, enter: and when you have taken your meal, disperse, without seeking familiar talk. Such (behaviour) annoys the Prophet: he is ashamed to dismiss you, but Allah is not ashamed (to tell you) the truth. And when you ask (his wives) for anything you want, ask them from before a screen: that makes for greater purity for your hearts and for theirs. Nor is it right for you that you should annoy Allah’s Messenger, or that you should marry his widows after him at any time. Truly such a thing is in Allah’s sight an enormity. (33: 53) Ja’d reported that Anas (RA) said, “I was the first of the people to get these verses and the Prophet’s (SAW) wives took up the veil (that day).” [Bukhari 5163, Muslim 1428, Nisai 3387] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ الْجَعْدِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ قَالَ فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ فَقَالَتْ يَا أَنَسُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُ بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْکَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا لَکَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا مِنَّا لَکَ قَلِيلٌ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ فَسَمَّی رِجَالًا قَالَ فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّی وَمَنْ لَقِيتُ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ عَدَدُ کَمْ کَانُوا قَالَ زُهَائَ ثَلَاثِ مِائَةٍ قَالَ وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَنَسُ هَاتِ التَّوْرَ قَالَ فَدَخَلُوا حَتَّی امْتَلَأَتْ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ وَلْيَأْکُلْ کُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ قَالَ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا قَالَ فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّی أَکَلُوا کُلُّهُمْ قَالَ فَقَالَ لِي يَا أَنَسُ ارْفَعْ قَالَ فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ کَانَ أَکْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ قَالَ وَجَلَسَ مِنْهُمْ طَوَائِفُ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَی الْحَائِطِ فَثَقُلُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَی نِسَائِهِ ثُمَّ رَجَعَ فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَعَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ قَالَ فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا کُلُّهُمْ وَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَرْخَی السِّتْرَ وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّی خَرَجَ عَلَيَّ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَاتُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَی النَّاسِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ الْجَعْدُ قَالَ أَنَسٌ أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآيَاتِ وَحُجِبْنَ نِسَائُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْجَعْدُ هُوَ ابْنُ عُثْمَانَ وَيُقَالُ هُوَ ابْنُ دِينَارٍ وَيُکْنَ أَبَا عُثْمَانَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ رَوَی عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ-
قتیبہ بن سعید، جعفر بن سلیمان ضبعی، جعد ابوعثمان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک بیوی سے نکاح کیا اور ان کے پاس تشریف لے گئے تو میری والدہ نے حیس (کھجور اور ستو کا کھانا) تیار کیا اور اسے کسی پتھر کے پیالہ میں ڈال کر مجھے دیا اور کہا کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ اور کہو کہ میری ماں نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو سلام کہتی ہے اور عرض کرتی ہیں کہ ہماری طرف سے یہ آپ کے لئے بہت تھوڑا ہے یا رسول اللہ ! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور والدہ کا سلام پہنچایا اور وہ بات بھی عرض کر دی جو انہوں نے کہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے رکھ دو۔ پھر مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور فلاں فلاں کو بلا کر لاؤ۔ میں گیا اور جن جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا انہیں بھی اور جو مجھے مل گئے انہیں بھی بلا کر لے آیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کتنے آدمی ہوں گے۔ انہوں نے فرمایا تین سو کے قریب ہوں گے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ وہ برتن لاؤ۔ اتنے میں وہ سب لوگ داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ چبوترہ اور حجرہ مبارک بھر گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ دس دس آدمیوں کا حلقہ بنالیں اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان سب نے کھایا اور سیر ہوگئے۔ پھر ایک جماعت نکل گئی اور دوسری آگئی یہاں تک کہ سب نے کھالیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ انس (برتن) اٹھاؤ۔ میں نے اٹھایا تو میں نہیں جانتا کہ جس وقت لایا تھا اس وقت زیادہ تھا یا اٹھاتے وقت زیادہ تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر کئی لوگ وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بھی دیوار کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا اس طرح بیٹھے رہنا گراں گذرا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور تمام ازواج مطہرات کے حجروں پر گئے اور سلام کرے واپس تشریف لے آئے۔ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس آتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا بیٹھنا گراں گذرا ہے۔ لہذا جلدی سے سب (لوگ) دروازے سے باہر چلے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اوپر پردہ ڈال کر اندر داخل ہوگئے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں بھی حجرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر گذری تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس میرے پاس آئے اور یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر جا کر لوگوں کو یہ آیات سنائیں ( يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّا اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْ تَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ ) 33۔ الاحزاب : 53) (اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں اس وقت تک مت جایا کرو جب تک تمہیں کھانے کی دعوت نہ دی جائے (وہ بھی) اس طرح کہ تیاری کے منتظر نہ رہو لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب جاؤ اور کھالینے کے بعد اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں میں دل لگا کر بیٹھے نہ رہا کرو کیوں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ناگوار گذرتا ہے وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے مانگا کرو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کو پاک رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پھر تمہارے لئے جائز نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔) جعد کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ آیات سب سے پہلے مجھے پہنچیں اور ازواج مطہرات اسی دن سے پردہ کرنے لگیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور جعد عثمان کے بیٹے ہیں۔ انہیں ابن دینار بھی کہتے ہیں۔ ان کی کنیت ابوعثمان بصری ہے۔ یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ یونس بن عبید شعبہ اور حماد بن زید ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔
Sayyidina Anas bin Malik (RA) narrated: Allah's Messenger (SAW) consummated his marriage with one of his wives and sent me to invite people to the meal. When they had eaten and went out, Allah's Messenger (SAW) stood up to go towards the house of (Sayyidah) Ayshah, but he saw two men still seated. So, he returned. The two men got up and went away. This was revealed then; "O you who believe! Enter not the Prophet’s houses until leave is given you, for a meal, (and then) not (so early as) to wait for its preparation." (33 : 53) There is a lengthier account.
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الَّذِي کَانَ أُرِيَ النِّدَائَ بِالصَّلَاةِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْکَ فَکَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْکَ قَالَ فَسَکَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَالسَّلَامُ کَمَا قَدْ عُلِّمْتُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَکَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَبِي سَعِيدٍ وَزَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ وَيُقَالُ ابْنُ جَارِيَةَ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک بن انس، نعیم، محمد بن عبداللہ بن زید انصاری و عبداللہ بن زید (یہ دوسرے ہیں جن کو خواب میں اذان سکھلائی گئی تھی، حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ بشیر بن سعد نے عرض کیا نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے، ہم کس طرح درود بھیجا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ کاش یہ سوال نہ پوچھا جاتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح پڑھا کرو اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (ترجمہ اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر اس طرح رحمت بھیج جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی، بے شک تو تعریف والا اور بزرگ وبرتر ہے۔ اے اللہ ! تو محمد اور ان کی آپ پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد پر برکت نازل فرمائی، بے شک تو تعریف والا اور بزرگ وبرتر ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلام اسی طرح ہے جس طرح تم (التحیات میں) جان ہی چکے ہو۔ اس باب میں علی بن حمید کعب بن عجرہ طلحہ بن عبیداللہ ابوسعید زید بن خارجہ اور بریدہ رضی اللہ عنہم بھی احادیث بھی منقول ہے۔ زید بن خارجہ ابن جاریہ بھی کہتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Abu Mas’ud Ansari .i narrated: We were sitting with Sa’d ibn Ubadah when Allah’s Messenger (SAW) came to us. Bashir ibn Sa’d (RA) said to him, “Allah has commanded us to invocate blessing on you. How should we do that? He kept quiet till we wished that he had not asked the question. Then he said: Say: "O Allah! Shower blessing on Muhammad and on the family of Muhammad as You did shower blessing on Ibrahim and on the family of Ibrahim. And shower favours on Muhammad and on the family of Muhammad as You did shower favours on Ibrahim and on the fimaly of Ibrahim in the worlds. Surely, You are Praise worthy, Glorious. He said: As for salaam, it is as you have learnt (in the tashahhud). [Bukhari 6357, Muslim 405, Abu Dawud 980, Nisai 1282, Ahmed 22415]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ عَوْفٍ عَنْ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ وَخِلَاسٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام کَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سَتِيرًا مَا يُرَی مِنْ جِلْدِهِ شَيْئٌ اسْتِحْيَائً مِنْهُ فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا وَإِنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام خَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَی حَجَرٍ ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَی ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ فَأَخَذَ مُوسَی عَصَاهُ فَطَلَبَ الْحَجَرَ فَجَعَلَ يَقُولُ ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ حَتَّی انْتَهَی إِلَی مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ النَّاسِ خَلْقًا وَأَبْرَأَهُ مِمَّا کَانُوا يَقُولُونَ قَالَ وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ وَلَبِسَهُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ عَصَاهُ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِکَ قَوْلُهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
عبد بن حمید، روح بن عبادة، عوف، حسن ومحمد وخلاس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور پردہ پوش (یعنی پردہ کرنے والے) تھے ان کی شرم کی وجہ سے ان کے بدن کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ انہیں بنو اسرائیل کے کچھ لوگوں نے تکلیف پہنچائی۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ اپنے بدن کو اس لئے ڈھانپے رکھتے ہیں کہ ان کی جلد میں کوئی عیب ہے۔ یا تو برص کے ہیں یا ان کے خصیے بڑے ہیں، یا پھر کوئی اور عیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس عیب سے بری کریں۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ غسل کرنے لگے اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ کر غسل کرنے لگے۔ جب غسل کرکے فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لئے پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا لیا اور اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے کہنے لگے اے پتھر میرے کپڑے ! یہاں تک کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے پاس پہنچ گیا اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا کہ وہ صورت وشکل میں سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں بری کر دیا اور پتھر بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے اپنے کپڑے لئے اور پہن کر عصا سے اسے مارنے لگے، اللہ قسم ! ان کی مار سے پتھر پر تین یا چار نشان پڑگئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا لآیہ (اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بری کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے معزز تھے۔ الاحزاب،) یہ حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کے واسطے سے منقول ہے۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that the Prophet said: Musa was very shy. He kept himself covered, nothing of his body was ever seen because of his modesty. But some of the Banu lsra’il annoyed him, saying, “He conceals his body to this extent only because of a defect on his skin, perhaps leprosy or scrotal hermia, or some other malady.” But, surely, Allah decided to absolve him of what they alleged. 0ne day, Musa secluded himself all alone and took ff his garments placing them on a stone. Then he had a bath. When he had finished, he approached his clothes that he might take them. But the stone fled with his garments. Musa took his staff and pursued the stone saying, “My garments, O stone! My garments, O stone!” He ended up at a company of Banu Israil and the observed hini naked, the best of men in creation. And he was cleared of what (calumnies) the’ used to allege. The stone stopped and he took his garments and wore them. Then he struck the stone with his staff. By Allah, the stone yet has marks of the beating three or four or five. This is as Allah’s words: "O you who believe! Be not like those who annoyed Musa, but Allah cleared him of what they said, and he was honoured in Allah’s sight." (33: 69) [Ahmed 10683, Bukhari 678, Muslim 339] --------------------------------------------------------------------------------