دودھ مرد کی طرف منسوب ہے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَائَ عَمِّي مِنْ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّی أَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَلِجْ عَلَيْکِ فَإِنَّهُ عَمُّکِ قَالَتْ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ قَالَ فَإِنَّهُ عَمُّکِ فَلْيَلِجْ عَلَيْکِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ کَرِهُوا لَبَنَ الْفَحْلِ وَالْأَصْلُ فِي هَذَا حَدِيثُ عَائِشَةَ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ-
حسن بن علی، ابن نمیر، ہشام، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میرے پاس میرے رضاعی چچا تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے بغیر انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تمہارے پاس داخل ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ تو تمہارے چچا ہیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں آپ نے فرمایا انہیں چاہیے کہ وہ تمہارے پاس آجائیں اس لیے کہ وہ تمہارے چچا ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء کا اس پر عمل ہے کہ انہوں نے رضاعی رشتہ والے مرد کے سامنے ہونے کو مکروہ کہا ہے بعض اہل علم نے اس کی جازت دی ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
Sayyidah Ayshah(RA)said that her paternal uncle through fosterage sought permission to meet her. She declined to allow him (admittance to her home) till she had asked Allah’s Messenger (SAW). So, Allah’s Messenger (SAW) said, “He can come to you, for, he is your paternal uncle.” She submitted, “Only a woman had suckled me’. He said (again). “He is your paternal uncle and may visit you.” [Ahmed 25677, Bukhari 2644, Muslim 1445, Nisai 3298]
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِکٌ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ لَهُ جَارِيتَانِ أَرْضَعَتْ إِحْدَاهُمَا جَارِيَةً وَالْأُخْرَی غُلَامًا أَيَحِلُّ لِلْغُلَامِ أَنْ يَتَزَوَّجَ بِالْجَارِيَةِ فَقَالَ لَا اللِّقَاحُ وَاحِدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا تَفْسِيرُ لَبَنِ الْفَحْلِ وَهَذَا الْأَصْلُ فِي هَذَا الْبَابِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ-
قتیبہ، مالک بن انس، مالک بن انس، ابن شہاب، عمرو بن شرید، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص کے پاس دو لونڈیاں ہیں ان میں سے ایک نے لڑکی کو اور دوسرے نے ایک لڑکے کو دودھ پلایا کیا اس لڑکے کے لیے وہ لڑکی حلال ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ نہیں کیونکہ منی تو ایک ہی ہے (یعنی وہ شخص دونوں باندیوں کے ساتھ صحبت کرتا ہے) یہ مرد کے دودھ کی تفسیر ہے اس باب میں یہی اصل ہے امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
It is reported that Sayyidina Ibn Abbas was asked about a man who had two female slaves. One of them suckled a female child and the other a male child. “Is it lawful for the boy to marry the girl?” He said, “No. The semen is the tame.”