تفسیر سورت بنی اسرائیل

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُسْرِيَ بِي لَقِيتُ مُوسَی قَالَ فَنَعَتَهُ فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ قَالَ مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ قَالَ وَلَقِيتُ عِيسَی قَالَ فَنَعَتَهُ قَالَ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ کَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ يَعْنِي الْحَمَّامَ وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ قَالَ وَأُتِيتُ بِإِنَائَيْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنٌ وَالْآخَرُ خَمْرٌ فَقِيلَ لِي خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ فَقِيلَ لِي هُدِيتَ لِلْفِطْرَةِ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر بن زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مجھے معراج کے لئے لے جایا گیا تو میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حلیہ بیان کیا اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ گویا کہ وہ شنوہ قبیلے کے لوگوں میں سے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری ملاقات عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ میانہ قد اور سرخ ہیں گویا کہ ابھی دیماس یعنی حمام سے نکلے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا۔ میں ان کی اولاد کے بہت مشابہ ہوں۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ ان دونوں میں سے جو چاہو لے گو۔ میں نے دودھ لیا اور پی لیا۔ چنانچہ مجھ سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فطرت کے راستے پر چلایا گیا یا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فطرت کو پہنچے کیوں کہ اگر شراب پی لیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گمراہ ہو جاتی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that the Prophet (SAW) said, “When I was taken for the isra, I met Musa.” The narrator reported that the Prophet then described him and also thought that he said, “Musa’s hairs were disheveled as though he was a member of the shanu’ah.” He then said, “And I met Eesa,” and he described him, “He is medium-height, red complexioned as though he has just emerged from the bath. And, I saw Ibrahim. I resemble his offspring. Then, two vessels were brought to me, one containing milk and the other wine. I was told, ‘Pick whichever one you like. So, I chose milk and drank it. I was told, “You are guided or nature or, ‘you walked the path of guidance. If you had chosen wine then your ummah would have gone astray’.” [Ahmed 10652, Bukhari 3394, Muslim 168, Nisai 5657] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَی اللَّهِ مِنْهُ قَالَ فَارْفَضَّ عَرَقًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ-
اسحاق بن منصور، عبدالرزاق، معمر، قتادة، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شب معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے براق لایا گیا جس کو لگام ڈالی ہوئی اور زین کسی ہوئی تھی۔ اس نے شوخی کی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کیا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ایسی شوخی کر رہا ہے۔ آج تک تجھ پر اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ عزیز سوار نہیں ہوا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اسے پسینہ آگیا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف عبد الرزاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Anas reported that the Buraq was brought for the Prophet (SAW) on the night of the isra (mi’raj, ascension), bridled and saddled. It showed some resistance, so, Jibril asked it, “Will you do that with Muhammad? No one nobler than he in Allah’s sight has ridden you.”That brought it perspiration. [Ahmed 12672]
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ جُنَادَةَ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ جِبْرِيلُ بِإِصْبَعِهِ فَخَرَقَ بِهِ الْحَجَرَ وَشَدَّ بِهِ الْبُرَاقَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ-
یعقوب بن ابراہیم دورقی، ابوتمیلة، زبیر بن جنادہ، ابن بریدہ، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (شبِ معراج کو) ہم جب بیت المقدس پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھا۔ یہ حدیث غریب ہے۔
Sayyidina Buraydah (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “When we came to Bayt al-Maqdis, Jibril gestured with his finger. So, he made (thereby) a hole in a stone and tied the Buraq to it.”
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمَّا کَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَّی اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ مَالِکِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ-
قتیبہ، لیث، عقیل، زہری، ابوسلمہ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں ایک پتھر پر کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا۔ چنانچہ میں اسے دیکھتے ہوئے انہیں اس کی نشانیاں بتانے لگا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں مالک بن صعصعہ ابوسعید ابن عباس ابوذر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے۔
Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “When the Quraysh rejected me, I stood by the stone. The Bayt al-Maqdis was brought before me and I informed them of its details (signs) while I looked at it.” [Bukhari 3886, Muslim 170, Ahmed 15038]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاکَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ قَالَ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، عمرو بن دینار، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے قول (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ) 17۔ اسراء : 60) (اور وہ خواب جو ہم نے تمہیں دکھایا اور وہ خبیث درخت جس کا ذکر قرآن میں ہے ان سب کو ان لوگوں کے لئے فتنہ بنا دیا۔) کے متعلق فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں مذکور ملعون درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) explained the words of Allah, the Exalted: "And We made not the vision We showed you but as a trial for mankind." (17: 60) He said, “This is a vision that the Prophet (SAW) saw with his eyes on the night of isra to Bayt al_Maqdis.” And he said about: “As also the tree cursed in the Qur’an. (He said,) “It is tree of zaqqum." [Ahmed 1916, Bukhari 3888]
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ قُرَشِيٌّ کُوفِيٌّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُودًا قَالَ تَشْهَدُهُ مَلَائِکَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِکَةُ النَّهَارِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ حَدَّثَنَا بِذَلِکَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ فَذَکَرَ نَحْوَهُ-
عبید بن اسباط بن محمد قرشی کوفی، ان کے والد، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا ) 17۔ اسراء : 78) (بے شک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے روبرو۔ ) کی تفسیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور علی بن مسہر اسے اعمش سے وہ ابوصالح سے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نقل کرتے ہیں۔ علی بن حجر نے بواسطہ مسہر اور اعمش سے اسی طرح ذکر کیا ہے۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported the Prophet’s (SAW) explanation of the words of Allah: "And the recital of the Quran at dawn surely the recital of the Quran at dawn is witnessed."(17: 78) (He said,) The angels of the night and the angels of the day witness it.’ [Ahmed 10139, Ibn e Majah 670]
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی يَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ قَالَ يُدْعَی أَحَدُهُمْ فَيُعْطَی کِتَابَهُ بِيَمِينِهِ وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا وَيُبَيَّضُ وَجْهُهُ وَيُجْعَلُ عَلَی رَأْسِهِ تَاجٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَتَلَأْلَأُ فَيَنْطَلِقُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَيَرَوْنَهُ مِنْ بَعِيدٍ فَيَقُولُونَ اللَّهُمَّ ائْتِنَا بِهَذَا وَبَارِکْ لَنَا فِي هَذَا حَتَّی يَأْتِيَهُمْ فَيَقُولُ أَبْشِرُوا لِکُلِّ رَجُلٍ مِنْکُمْ مِثْلُ هَذَا قَالَ وَأَمَّا الْکَافِرُ فَيُسَوَّدُ وَجْهُهُ وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا عَلَی صُورَةِ آدَمَ فَيُلْبَسُ تَاجًا فَيَرَاهُ أَصْحَابُهُ فَيَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا اللَّهُمَّ لَا تَأْتِنَا بِهَذَا قَالَ فَيَأْتِيهِمْ فَيَقُولُونَ اللَّهُمَّ أَخْزِهِ فَيَقُولُ أَبْعَدَکُمْ اللَّهُ فَإِنَّ لِکُلِّ رَجُلٍ مِنْکُمْ مِثْلَ هَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ-
عبداللہ بن عبدالرحمن، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، سدی، ان کے والد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت (يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِهِمْ ) 17۔ اسراء : 71) (جس دن ہم فرقہ کو ان کے سرداروں کے ساتھ بلائیں گے۔ سوجسے اس کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا سو وہ لوگ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے۔) کی تفسیر میں فرمایا کہ ایک شخص کو بلا کر نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس کا بدن ساٹھ گز لمبا کر دیا جائے گا۔ پھر اس کا چہرہ روشن کرکے اس کے سر پر موتیوں کا ایک تاج پہنایا جائے گا۔ جو چمک رہا ہوگا۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف جائے گا تو وہ اسے دو ہی سے دیکھ کہیں گے کہ یا اللہ ہمیں بھی ایسی نعمت عطا فرما اور ہمارے لئے اس میں برکت دے یہاں تک کہ وہ آئے اور ان سے کہے گا کہ تم میں سے ہر شخص کے لئے ایسے انعام کی خوشخبری ہے لیکن کافر کا منہ سیاہ ہوگا اور اس کا جسم ساٹھ گز تک بڑھا دیا جائے گا۔ جیسے کہ آدم علیہ السلام کا قد وجسم تھا۔ پھر اسے بھی ایک تاج پہنایا جائے گا۔ جسے اللہ کے دوست دیکھیں گے تو کہیں گے کہ ہم اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اے اللہ ! ہمیں یہ چیز نہ دینا اور جب وہ ان کے پاس جائے گا تو وہ کہیں گے کہ یا اللہ ! اسے ہم سے دور کر دے۔ وہ کہے گا اللہ تمہیں دور کرے تم میں سے ہر شخص کے لئے اس کے مثل ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے اور سدی کا نام اسماعیل بن عبدالرحمن ہے۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported the Prophet’s (SAW) saying about these words of Allah: "On the day when We shall summon every people with their record."(17: 71) He said, “A man will be summoned and his body made sixty cubits tall and his face will be brightened and a crown will be placed on his head. It will be made of rubies, shining. He will go towards his people and they will see him from afar and say, 0 Allah, give us like this and bless with this’. He wil come nearer to them and say to them, ‘Good news for each one of you like this’. But, as for the disbeliever, his face will be blackened, his height increased to sixty cubits on the pattern of Aadam and he will be made to wear a crown. His people will see him and say, ‘We seek refuge in Allah from the mischief of this one. 0 Allah, do not give us this’. He will come closer to them and they will say, ‘O Allah, put him away’. He will say, ‘May Allah put you away and for each of you be the like of it’.”
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ عَسَی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا سُئِلَ عَنْهَا قَالَ هِيَ الشَّفَاعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ-
ابوکریب، وکیع، داؤد بن یزید زعافی، ان کے والد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17۔ اسراء : 79) (قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقامِ محمود میں پہنچادے۔) کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے مراد شفاعت ہے۔ یہ حدیث حسن ہے اور داؤد زعافری سے مراد داؤد داؤدی ہیں یہ عبداللہ بن ادریس کے چچا ہیں۔
Sayyidina Abu Hurayrah reported that Allah’s Messenger (SAW) was asked about Allah’s words: "Soon your Lord will raise you to a Station Praised." (17: 79) He said, “It is intercession.”
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَکَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَحَوْلَ الْکَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْعَنُهَا بِمِخْصَرَةٍ فِي يَدِهِ وَرُبَّمَا قَالَ بِعُودٍ وَيَقُولُ جَائَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقًا جَائَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ-
ابن ابی عمر، سفیان، ابن نجیح، مجاہد، ابومعمر، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتحِ مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ (بت) پتھر نصب تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی یا لکڑی تھی اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بتوں کو مارتے اور گراتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقًا (حق آیا اور باطل بھاگ گیا بے شک جھوٹ ہے نکل بھاگنے والا۔ بنی اسرائیل) یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں ابن رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
Sayyidina lbn Masud (RA) narrated: Allah’s Messenger (SAW) entered Makkah with its conquest while three hundred and sixty idols were rooted around the Ka’bah. He began to strike them with his staff or a stick, as the narrator was unsure, he recited at the same time. "The Truth has come, and falsehood has vanished away; surely falsehood is ever certain to vanish."(17:81) He also said, “And falsehood would never return now.”
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَکَّةَ ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِيرًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن منیع، جریر، قابوس بن ابی ظبیان، ابوظبیان، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے پھر ہجرت کا حکم دیا گیا اور یہ آیت نازل ہوئی (وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْ رَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا) 17۔ اسراء : 80) (کہہ اے ! رب داخل کر مجھ کو سچا داخل کرنا اور نکال مجھ کو سچا نکالنا اور عطا کر دے مجھ کو اپنے پاس سے حکومت کی مدد۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet (SAW) was in Makkah. Then he was commanded to migrate to Madinah. This verse was revealed to him at that time. "And say, ‘O my Lord, cause me to enter a truthful entrance, and cause me to go forth a truthful out-going, and grant me from your presence an authority to help (me)." (17: 30)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي هِنْدٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَهُودَ أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ هَذَا الرَّجُلَ فَقَالَ سَلُوهُ عَنْ الرُّوحِ قَالَ فَسَأَلُوهُ عَنْ الرُّوحِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی وَيَسْأَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا قَالُوا أُوتِينَا عِلْمًا کَثِيرًا أُوتِينَا التَّوْرَاةَ وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا کَثِيرًا فَأُنْزِلَتْ قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ إِلَی آخِرِ الْآيَةَ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ-
قتیبہ، یحیی بن زکریابن ابی زائدہ، داؤد بن ابی ہند، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قریش نے یہود سے فرمائش کی کہ ہمیں کوئی ایسی چیز بتاؤ کہ ہم اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں، انہوں نے کہا کہ ان سے روح کے متعلق پوچھیں۔ چنانچہ جب انہوں نے پوچھا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ (وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا) 17۔ اسراء : 85) (اور تجھ سے پوچھتے ہیں روح کو کہہ دے روح ہے میرے رب کے حکم سے اور تم کو علم دیا ہے تھوڑا سا اور اگر ہم چاہیں تو لے جائیں اس چیز کو جو ہم نے تجھ کو وحی بھیجی، پھر نہ تو پائے اپنے واسطے اس کے لادینے کو ہم پر کوئی ذمہ۔) وہ کہنے لگے ہمیں تو بہت علم دیا گیا۔ ہمیں تورات دی گئی اور جسے تورات ملی اسے بہت کچھ دیا گیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ قل لوکان البحر الآیۃ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Quraysh requested the Jews, Teach us something about which we may ask this man.’ They said, Ask him about the spirit (Ruh).” So, Allah, the Exalted, revealed:" And they ask you concerning the spirit Say "The Spirit is by the command of my Lord and you have not been given of knowledge except a little." (17: 85) They said, “We have been given plenty of knowledge. Indeed, we are given the Torah and he who is given the Torah is given much good.” So, this verse was revealed: "Say, 'If the sea were ink for the words of my Lord, the sea would certainly be exhausted before the words of my Lord are exhausted - though we brought the like of it for support." (18: 109) [Ahmed 2309]
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَکَّأُ عَلَی عَسِيبٍ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَوْ سَأَلْتُمُوهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا تَسْأَلُوهُ فَإِنَّهُ يُسْمِعُکُمْ مَا تَکْرَهُونَ فَقَالُوا لَهُ يَا أَبَا الْقَاسِمِ حَدِّثْنَا عَنْ الرُّوحِ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَی السَّمَائِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُوحَی إِلَيْهِ حَتَّی صَعِدَ الْوَحْيُ ثُمَّ قَالَ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک ٹہنی پر ٹیک لگائے ہوئے چل رہے تھے کہ یہودیوں کی ایک جماعت پر سے گذر ہوا۔ بعض کہنے لگے کہ ان پوچھا چاہئے جب کہ دوسرے کہنے لگے کہ مت سوال کرو کیوں کہ وہ ایسا جواب دیں گے جو تمہیں برا لگے گا۔ لیکن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق سوال کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر کھڑے رہے پھر سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی جارہی ہے یہاں تک کہ وحی کے آثار ختم ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي الآیۃ (یعنی روح میرے رب کے حکم سے ہے) ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abdullah - narrated: I was walking with the Prophet (SAW) in a field of Madinah. He leaned on a branch of a date tree (as he walked). We came across a company of Jews. Some of them said to the others, “Would that you ask him something”,some others said, “Do not ask him, for he makes you hear what you dislike.” But, they said, “O Abul Qasim, tell us about the spirit.” So, the Prophetd (SAW) paused for a moment, raised his heard towards the sky and I realised that he was receiving a revelation till the (bringer of) revelation went up and he recited: "The Spirit is by the command of my Lord and you have not been given of knowledge except a little." (17: 85) [Ahmed 3688, R 125, Muslim 2794]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةَ أَصْنَافٍ صِنْفًا مُشَاةً وَصِنْفًا رُکْبَانًا وَصِنْفًا عَلَی وُجُوهِهِمْ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَيْفَ يَمْشُونَ عَلَی وُجُوهِهِمْ قَالَ إِنَّ الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَی أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَی أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَی وُجُوهِهِمْ أَمَا إِنَّهُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ کُلَّ حَدَبٍ وَشَوْکٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی وُهَيْبٌ عَنْ ابْن طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْ هَذَا-
عبد بن حمید، حسن بن موسیٰ وسلیمان بن حرب، حماد بن سلمة، علی بن زید، اوس بن خالد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ تین اصناف میں منقسم ہو کر جمع ہوں گے۔ پیدل سوار اور چہروں پر گھسٹتے ہوئے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ! چہروں پر کیسے چلیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے انہیں پیروں پر چلایا وہ انہیں سروں پر چلانے پر بھی قادر ہے۔ جان لو کہ وہ اپنے منہ سے ہر بلندی اور کانٹے سے بچ کر چلیں گے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ اس حدیث کو ابن طاؤس اپنے والد سے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Abu Hurayrah reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “On the Day of Resurrection, mankind will be gathered in three categories - a category of those walking on foot, another of riders and the third of those walking on their faces.” Someone asked, “O Messenger of Allah, how would they walk on their faces?” He said, ‘Surely, he who makes them walk on their feet is Able to make them walk on their faces. Know that they will walk on their faces safeguarding from every ascent and thorn.” [Ahmed 8763]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَکِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّکُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالًا وَرُکْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَی وُجُوهِکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ-
احمد بن منیع، یزید بن ہارون، حضرت بہز بن حکیم اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم لوگ پیدل سوار اور چہروں کے بل گھسیٹتے ہوئے اکٹھے کئے جاؤ گے۔ یہ حدیث حسن ہے۔
Bahz ibn Hakim reported from his father who from his grand father that Allah’s Messenger , said, “You will be assembled (on the Day of Resurrection) walking, riding and dragging on your face.” [Ahmed 20051]
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَأَبُو الْوَلِيدِ وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ يَهُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَی هَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُهُ فَقَالَ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَهَا تَقُولُ نَبِيٌّ کَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَی تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُشْرِکُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيئٍ إِلَی سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَهُ وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً وَلَا تَفِرُّوا مِنْ الزَّحْفِ شَکَّ شُعْبَةُ وَعَلَيْکُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ خَاصَّةً لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ فَقَبَّلَا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ وَقَالَا نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُکُمَا أَنْ تُسْلِمَا قَالَا إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللَّهَ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمود بن غیلان، یزید بن ہارون و ابوداؤد و ابوالولید، شعبة، عمرو بن مرة، عبداللہ بن سلمہ، حضرت صفوان بن عسال مرادی فرماتے ہیں کہ وہ یہودیوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ چلو اس نبی کے پاس چلتے ہیں اور کچھ پوچھتے ہیں۔ دوسرا کہنے لگا کہ انہیں نبی مت کہو اگر انہوں نے سن لیا تو خوشی سے انکی چار آنکھیں ہو جائیں گی۔ پھر وہ دونوں آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍ بَيِّنٰتٍ ) 17۔ اسراء : 101) (البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ یہ ہیں (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ (2) زنا مت کرو (3) چوری مت کرو (4) جادو مت کرو (5) کسی بے گناہ کو حاکم کے پاس نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کرے (6) سود خوری نہ کرو (7) کسی پاکباز عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ (8) دشمنوں سے مقابلے کے وقت راہِ فرار اختیار نہ کرو۔ اور شعبہ کو شک ہے کہ نویں بات یہ تھی کہ یہودیوں کے لئے خاص حکم یہی کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کریں۔ چنانچہ وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا کہ پھر کس چیز نے تمہیں مسلمان ہونے سے روکا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ نبی ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہو۔ ہمیں خوف ہے کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو یہودی ہمیں قتل نہ کر دیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Safwan ibn Assal al-Muradi reported that of two Jews one said to the other, “Come let us go to this Prophet that we may question him.” The other said, “Do not call him a Prophet, for, if he hears you say Prophet he will be overjoyed.’ So they came to him and asked him about the words of Allah the Exalted: "And certainly we gave Musa nine manifest signs." (17:101) He said that they were: (1) Associate nothing with Allah, (2) Do not commit fornication, (3) Do not unjustly take the life of one whose killing has been forbidden by Allah, (4) Do not steal, (5) Do not practice magic, (6) Do not take an innocent to the king with false charges) that he might execute him, (7) Do not devour interest, (8) Do not accuse a chaste woman falsely of fornication, (9) And, do not desert the battlefield. Shu’bah was unsure if this was included: And particularly for you, O Jews, that you do not contravene (the injunctions on) the Sabbath (Saturday). So, they kissed his hand and his feet, saying, “We bear testimony that you are a Prophet. He asked. ‘Then what prevents you from submitting (in Isaim)?” They said, ‘Dawood had prayed that Prophets should not cease to come in his offspring and we fear that if we submit the Jews will kill us.’ [Ahmed 18814]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَلَمْ يَذْکُرْ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهُشَيْمٍ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ قَالَ نَزَلَتْ بِمَکَّةَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ سَبَّهُ الْمُشْرِکُونَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَائَ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَائَ بِهِ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِکَ بِأَنْ تُسْمِعَهُمْ حَتَّی يَأْخُذُوا عَنْکَ الْقُرْآنَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، سلیمان بن داؤد، شعبہ، ابوبشر، سعید بن جبیر، ہشیم، ابوبشر، سعید بن جبیر، ابن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (وَلَا تَجْ هَرْ بِصَلَاتِكَ) 17۔ اسراء : 110) (اور اپنی نماز میں نہ چلا کر پڑھ اور نہ بالکل ہی آہستہ پڑھ اور اس کے درمیان اختیار کر۔) مکہ میں نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر بلند آواز سے قرآن پڑھتے تو مشرکین قرآن کو اس کو نازل کرنے والے اور اسے لانے والے کو گالیاں دینے لگتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نہ قرآن اتنی بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین قرآن کو اس کو نازل کرنے والے اور اسے لانے والے کو گالیاں دینے لگیں اور نہ اتنا آہستہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہ سن نہ سکیں۔ یعنی اتنی آواز پر پڑھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیکھ سکیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina lbn Abbas (RA) reported about the verse: "And speak not your prayer aloud, nor speak it low." (17:110) He said, “This was revealed at Makkah. When Allah’s Messenger (SAW) raised his voice while reciting the Qur’an, the idolaters reviled it and him who revealed it and Him who brought it. So Allah revealed: "And do not raise your voice in your salah." Lest they abuse the Quran, Him who has revealed it and him who brought it. "And do not keep your voice low." from your companions that they do not hear you. Keep it such that they take the Qur’an from you. [Ahmed 1853, Bukhari 4772, Muslim 446, Nisai 1007]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِکَ سَبِيلًا قَالَ نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَکَّةَ فَکَانَ إِذَا صَلَّی بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ فَکَانَ الْمُشْرِکُونَ إِذَا سَمِعُوهُ شَتَمُوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَائَ بِهِ فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ أَيْ بِقِرَائَتِکَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِکُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِکَ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِکَ سَبِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن منیع، ہشیم، ابوبشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر دعوت دیتے تھے اور صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن بلند آواز سے پڑھتے۔ چنانچہ مشرکین جب قرآن سنتے تو اسے اور اس کے لانے والے کو گالیاں دینے لگتے ہیں لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم دیا کہ اتنی بلند آواز مت پڑھئے کہ مشرکین سنیں اور اسے گالیاں دیں اور اتنی آہستہ بھی پڑھئے کہ مشرکین سنیں اور اسے گالیاں دیں اور اتنی آہستہ بھی نہ پڑھئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سن نہ سکیں بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے (یعنی درمیانی آواز سے پڑھئے) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas said about the words of Allah: "And speak not your prayer aloud, not speak it low, but seek a middle course between." (17:110) That it was revealed to Allah’s Messenger (SAW) when he was hiding in Makkah and raised his voice when he offered salah with his sahabah while reciting the Quran. When the idolaters heard him, they abused the Qur’an and him who brought it, Allah said to His Prophet: "And do not raise your voice in your salah, that is in your recital." Lest the idolaters hear it and revile the Qur’an, "And do not speak low", with your sahabah, but "Seek a middle course between." [Ahmed 1853, Bukhari 4722, Muslim 446, Nisai 1007]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَصَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ لَا قُلْتُ بَلَی قَالَ أَنْتَ تَقُولُ ذَاکَ يَا أَصْلَعُ بِمَ تَقُولُ ذَلِکَ قُلْتُ بِالْقُرْآنِ بَيْنِي وَبَيْنَکَ الْقُرْآنُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ مَنْ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ قَالَ سُفْيَانُ يَقُولُ فَقَدْ احْتَجَّ وَرُبَّمَا قَالَ قَدْ فَلَجَ فَقَالَ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی قَالَ أَفَتُرَاهُ صَلَّی فِيهِ قُلْتُ لَا قَالَ لَوْ صَلَّی فِيهِ لَکُتِبَتْ عَلَيْکُمْ الصَّلَاةُ فِيهِ کَمَا کُتِبَتْ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ حُذَيْفَةُ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّهْرِ مَمْدُودَةٍ هَکَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ فَمَا زَايَلَا ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّی رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَهُمَا عَلَی بَدْئِهِمَا قَالَ وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، مسعر، عاصم بن ابی نجود، حضرت زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی۔ انہوں نے فرمایا نہیں۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ انہوں نے فرمایا گنجے تم ہاں کہتے ہو تو تمہاری کیا دلیل ہے؟ میں نے کہا قرآن۔ میرے اور تیرے درمیان قرآن ہے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ کامیاب ہوگیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ کبھی راوی یہ بھی کہتے تھے کہ جس نے دلیل قرآن سے لی واقعی اس نے دلیل پیش کی پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی (سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَه ) 17۔ اسراء : 1) (وہ پاک ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک سیر کرائی۔ بنی اسرائیل، آیت) اور پوچھا کہ کیا اس میں کہیں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نماز پڑھی۔ وہ فرمانے لگے نہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی ہوتی تو تم لوگوں پر بھی بیت المقدس میں نماز پڑھنا واجب ہو جاتا جیسے کہ مسجدِ حرام میں پڑھنا واجب ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لمبی پیٹھ والا جانور لایا گیا اس کا قدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر ہوتی اور پھر وہ دونوں جنت دوزخ اور آخرت کے متعلق ہونے والے وعدوں کی چیزیں دیکھنے تک اس کی پیٹھ سے نہیں اترے پھر واپس ہوئے۔ لوگ کہتے کہ انہوں نے اسے بیت المقدس میں باندھ دیا تھا۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ کیا وہ بھاگ جاتا؟ جب کہ اسے عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسخر کر دیا تھا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Zirr ibn Hubaysh narrated: I asked Sayyidina Hudhayfah (RA) ibn Yaman whether Allah’s Messenger had offered salah in Bayt al-Maqdis He said, “No.” I said to him, “Yes, indeed” He remarked “You say that O Bald man, How do you say so?” I said “By the Qur’an. Between you and me is the Qur’an.” He said, “He who cites evidence from the Qur’an, indeed, prospers.” Sufyan narrated that the sub-narrator said (perhaps), “He has indeed given an argument” - or he said, “He has prospered.” Then Hudhayfah recited: "Glorified be He who carried His servant (Muhammad) by night from the Sacred Mosque (of Makkah) to the Remote Mosque (of Jerusalem)." (17: 1) Then he asked, “Do you trump up from this that he offered salah there?” I said, “No.” He said, “If he had offered salah there then that would have become wajib on you to offer salah there just as it is wajib to offer salah in the Masjid al-Haram.” Hudhayfah said further that a long-backed animal was brought to Allah’s Messenger (SAW) . Its stride was as long as the reach of its sight. And both of them did not dismount from the Buraq’s back till they had seen Paradise and Hell and the promises of the Hereafter. Then it returned leaving both of them to where they had begun. He said, “People say that it was tied in Bayt al-Maqdis (though it was not necessary). Why? Would it have escaped? Indeed, the Knower of the unknown and the known had subjected it to him, (the Prophet).
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَائُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ قَالَ فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ فَيَقُولُ إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَی الْأَرْضِ وَلَکِنْ ائْتُوا نُوحًا فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُ إِنِّي دَعَوْتُ عَلَی أَهْلِ الْأَرْضِ دَعْوَةً فَأُهْلِکُوا وَلَکِنْ اذْهَبُوا إِلَی إِبْرَاهِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ إِنِّي کَذَبْتُ ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْهَا کَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِينِ اللَّهِ وَلَکِنْ ائْتُوا مُوسَی فَيَأْتُونَ مُوسَی فَيَقُولُ إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا وَلَکِنْ ائْتُوا عِيسَی فَيَأْتُونَ عِيسَی فَيَقُولُ إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَکِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا قَالَ فَيَأْتُونَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ قَالَ أَنَسٌ فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا فَيُقَالُ مَنْ هَذَا فَيُقَالُ مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي وَيُرَحِّبُونَ بِي فَيَقُولُونَ مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا فَيُلْهِمُنِي اللَّهُ مِنْ الثَّنَائِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي ارْفَعْ رَأْسَکَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِکَ وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ عَسَی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا قَالَ سُفْيَانُ لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا هَذِهِ الْکَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ-
ابن ابی عمر، سفیان، علی بن زید بن جدعان، ابونضرة، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور میرے پاس حمد کا جھنڈا ہوگا۔ میں ان (انعامات پر) فخر نہیں کرتا۔ پھر اس دن کوئی نبی نہیں ہوگا اور آدم علیہ السلام سمیت تمام انبیاء میرے جھنڈے تلے ہوں گے۔ میرے ہی لئے (بعثت کے وقت) سب سے پہلے زمین شق ہوگی۔ پھر فرمایا کہ لوگ تین مرتبہ سخت گھبراہٹ میں مبتلا ہوں گے چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ ہمارے باپ ہیں۔ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے۔ وہ فرمائیں کہ میں نے ایک گناہ کیا تھا جس کی وجہ سے مجھے جنت سے نکال کر زمین میں پر اتار دیا گیا (میں سفارش نہیں کرسکتا) تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میں نے تین مرتبہ (بظاہر) جھوٹ خلاف واقعہ بات کہی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی ایسا جھوٹ نہیں بولا بلکہ ان کا مقصد صرف دین کی تائید تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ کہیں گے کہ میں نے ایک شخص کو قتل کیا تھا۔ تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ اللہ کے سوا میری عبادت کی گئی۔ لہذا تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤ۔ پھر وہ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں ان کے ساتھ جاؤں گا۔ ابن جدعان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنت کا دروازہ پکڑ کر کھڑا ہوں گا اور اسے کھٹکھٹاؤں گا۔ پوچھا جائے گا کون ہے؟ کہا جائے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ پھر وہ میرے لئے دروازہ کھولیں گے اور مجھے خوش آمدید کہیں گے۔ پھر میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ اور اللہ تعالیٰ مجھے اپنی حمد وثنا کرنے کے لئے الفاظ سکھائیں گے۔ پھر مجھے کہا جائے گا کہ سر اٹھاؤ اور مانگو جو مانگو گے دیا جائے گا۔ شفاعت کرو گے تو قبول کی جائے گی اور اگر کچھ کہو گے تو سنا جائے گا۔ اور یہی مقامِ محمود ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17۔ اسراء : 79) (یعنی عنقریب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز کریں گے۔) ۔ حضرت سفیان کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ میں جنت کا دروازہ پکڑ کر کھڑا ہوں گا اور اس سے کھٹکھٹاؤں گا۔ یہ حدیث حسن ہے۔ بعض راوی اس حدیث کو ابونضرہ سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مکمل روایت کرتے ہیں۔
Sayyidina Abu Saa’eed Khudri reported that Allah’s Messenger (SAW) said : I will be the chief of the children of Aadam on the Day of Resurrection - no boast about it. And, in my hand will be the standard of hamd (praise) and this is no boast. There will be no Prophet that day, including Aadam, but will be under my standard, and I will be the first for whom the earth will be split open (on resurrection) - and this is no boast. People will be terrified three times. They will come to Aadam and say, “You are our father. So intercede for us with your Lord.” He will say, “I committed a sin for which I was sent down to the earth. But go to Nuh. So, they will come to Nuh and he will say. “I had prayed against the people of the earth (to be punished) and they were destroyed. But, go to Ibrahim.” They will come too Ibrahim and he will say, “I lied three times.” Allah’s Messenger (SAW) said: None of that was a lie except that he helped Allah’s religion with it. (Ibrahim will tell them.) “But, go to Musa.” So, they will come to Musa and he will say, “I had killed a soul. But go to Eesa.” They will go to Eesa. He will say, “I was worshipped at the exclusion of Allah. But go to Muhammad (SAW).“ So, they will come to me and I will go with them. Ibn Jad’an reported that Anas said, “As though I see Allah’s Messenger!" (The Prophet’s saying continues:) I will take hold of the latch of the gate of Paradise and knock at it. It will asked, “Who is there?” Someone will answer, “(He is) Muhammad.” So, it will be opened for me and I will be welcomed. They will say, “Welcome!” And I will fall down in prostration and Allah will inspire me with (words of His) praise and glorification. I will be told, “Raise your head and ask. You will be given. Intercede and t will be accepted. And say, your word will be heard.” This is al-Maqaam al-Mahmud (Praised Station) about which Allah has said: "Soon your Lord will raise you to a Station Praised." (17: 79) Sufyan said that the version of Anas also has the Prophet’s (SAW) saying. “I will take hold of the latch of the gate of Paradise and knock at it.” [Ahmed 10987, Ibn e Majah 4308, Muslim 2278]