تفسیر سورت الجن

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْجِنِّ وَلَا رَآهُمْ انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَی سُوقِ عُکَاظٍ وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمْ الشُّهُبُ فَرَجَعَتْ الشَّيَاطِينُ إِلَی قَوْمِهِمْ فَقَالُوا مَا لَکُمْ قَالُوا حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ فَقَالُوا مَا حَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ إِلَّا أَمْرٌ حَدَثَ فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ قَالَ فَانْطَلَقُوا يَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا يَبْتَغُونَ مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ فَانْصَرَفَ أُولَئِکَ النَّفَرُ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدًا إِلَی سُوقِ عُکَاظٍ وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْفَجْرِ فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ فَقَالُوا هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ قَالَ فَهُنَالِکَ رَجَعُوا إِلَی قَوْمِهِمْ فَقَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَی نَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنْ الْجِنِّ وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الْجِنِّ-
عبد بن حمید، ابوالولید، ابوعوانہ، ابوبشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ جنوں کو دیکھا اور نہ ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عکاظ کے بازار جانے کے لئے نکلے تو شیطانوں اور وحی کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا اور ان پر شعلے برسنے لگے اس پر شیاطین اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کہنے لگے ہم سے آسمان کی خبریں روک دی گئی ہیں اور شعلے برسائے جا رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کسی نئے حکم کی وجہ سے ہے لہذا تم لوگ مشرق و مغرب میں گھوم پھر کر دیکھو کہ وہ کیا چیز ہے۔ جس کی وجہ سے ہم سے خبریں روک دی گئی ہیں وہ نکلے جو لوگ تہامہ کی طرف جا رہے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نخلہ کے مقام پر پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے بازار کی طرف جا رہے تھے۔ کہ اس جگہ فجر کی نماز پڑھنے لگے۔ جب جنوں نے قرآن سنا تو کان لگا کر سننے لگے کہ اللہ کی قسم یہی چیز ہے جو تم لوگوں تک خبریں پہنچنے سے روک رہی ہے پھر وہ واپس اپنی قوم کی طرف چلے گئے اور کہنے لگے اے قوم ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے ہم اس پر ایمان لائے اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی (قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَ مَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْ ا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا) 72۔ الجن : 1) (تو کہہ مجھ کو حکم آیا کہ سن گئے کتنے لوگ جنوں کے۔ پھر کہنے لگے ہم نے سنا ہے ایک قرآن عجیب کہ سمجھاتا ہے نیک راہ۔ سو ہم اس پر یقین لائے اور ہرگز نہ شریک بتلائیں گے ہم اپنے رب کا کسی کو۔ الجن۔) یعنی اللہ تعالیٰ نے جنوں کا قول ہی نازل کر دیا۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that neither did Allah’s Messenger (SAW) recite to the jinns nor did he see them. While Allah’s Messenger (SAW) came out with a group of his sahabah intending to go to the market of Ukkaz, a screen was put up between the devils and the news from heaven (revelation), and flames were fired upon them. So, the devils returned to their kind. They asked, “What is with you?” And they answered, “There is a screen between us and news from heaven and flames of fire are aimed at us.” They said, “Nothing is interrupting between us and heavenly news but a fresh event (or command). So, travel to the east of the earth and its west and observe what is it that intervenes between you and news from heaven. So they travelled to the easts of the earth and its wests seeking to investigate what hindered them from heavenly news. They who had set out towards Tihamah came upon Allah’s Messenger (SAW) while he was at Nakhlah headed for the market of Ukkaz. He was praying the salah of fajr with his sahabah. When they heard the Qur’an, they paid attention to it and said to each other, “This, by Allah, is what came up between us and news from heaven.” They returned to their kind and said to them: 0 our people: "They said, 'We have really heard a wonderful Recital! It gives guidance to the Right, and we have believed therein: we shall not join (in worship) any (gods) with our Lord." (72 : 1-2) So, Allah the Blessed and the Exalted, revealed to His Prophet (SAW) "Say: It has been revealed to me that a company of Jinns listened (to the Qur'an). (72: 1) And the words of the jinns were revealed to the Prophet exactly (as they were). And, through the same isnad, it is reproted by Ibn Abbas (RA the saying of the jinns to their fellow-beings: "Yet when the Devotee of Allah stands forth to invoke Him, they just make round him a dense crowd." (72 :19) That is, when they saw him offer salah and his sahabah also offering salah with him, prostrating with his prostration, they were surprised at their obedience. They said, to their kind: "Yet when the Devotee of Allah stands forth to invoke Him, they just make round him a dense crowd."(72: 79) [Bukhari 773, Muslim 449]
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَوْلُ الْجِنِّ لِقَوْمِهِمْ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ کَادُوا يَکُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا قَالَ لَمَّا رَأَوْهُ يُصَلِّي وَأَصْحَابُهُ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ فَيَسْجُدُونَ بِسُجُودِهِ قَالَ تَعَجَّبُوا مِنْ طَوَاعِيَةِ أَصْحَابِهِ لَهُ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ کَادُوا يَکُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
پھر اسی سند سے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے منقول ہے کہ یہ بھی جنوں کا ہی قول تھا (وَّاَنَّه لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا) 72۔ الجن : 19) (اور یہ کہ جب کھڑا ہو اللہ کا بندہ کہ اسکو پکارے لوگوں کا بندھنے لگتا ہے اس پر ٹھٹہ۔) فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی پڑھنے لگے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کرتے تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی سجدہ کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرتے تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی رکوع کرتے۔ تو ان لوگوں کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اطاعت پر تعجب ہوا اور اپنی قوم سے کہنے لگے لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ کَادُوا يَکُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا الآیۃ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الْجِنُّ يَصْعَدُونَ إِلَى السَّمَاءِ يَسْتَمِعُونَ الْوَحْيَ فَإِذَا سَمِعُوا الْكَلِمَةَ زَادُوا فِيهَا تِسْعًا فَأَمَّا الْكَلِمَةُ فَتَكُونُ حَقًّا وَأَمَّا مَا زَادُوهُ فَيَكُونُ بَاطِلًا فَلَمَّا بُعِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنِعُوا مَقَاعِدَهُمْ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِإِبْلِيسَ وَلَمْ تَكُنْ النُّجُومُ يُرْمَى بِهَا قَبْلَ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُمْ إِبْلِيسُ مَا هَذَا إِلَّا مِنْ أَمْرٍ قَدْ حَدَثَ فِي الْأَرْضِ فَبَعَثَ جُنُودَهُ فَوَجَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا يُصَلِّي بَيْنَ جَبَلَيْنِ أُرَاهُ قَالَ بِمَكَّةَ فَلَقُوهُ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ هَذَا الَّذِي حَدَثَ فِي الْأَرْضِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمد بن یحیی ، محمد بن یوسف ، اسرائیل ، ابواسحاق ، سعید بن جبیر ، ابن عباس سے روایت ہے کہ جن آسمان کی طرف چڑھا کرتے تھے کہ وحی کی باتیں سن سکیں چنانچہ ایک کلمہ سن کر نو بڑھا دیتے ۔ لہذا جو بات سنی ہوتی وہ سچ ہوجاتی اور زیادہ کرتے تو جھوٹی ہوجاتی ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو انکی بھینٹ چھن گئی انہوں نے ابلیس سے اس کا تذکرہ کیا ۔ اس سے پہلے انہیں تاروں سے بھی نہں مارا جاتا تھا ابلیس کہنے لگا کہ یہ کسی نئے حادثے کی وجہ سے ہوا ہے جو زمین پر واقع ہوا ہے پھر اس نے اپنے لشکر روانہ کئے ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان کھڑے ہو کر قرآن پڑھتے ہوئے پایا ۔ چنانچہ واپس آئے اور اس سے ملاقات کرکے بتایا ۔ وہ کہنے لگے یہی نیا واقعہ ہے جو زمین پر ہوا ہے ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
Sayyidina lbn Abbas narrated: The jinns used to climb up to the heaven and overhear the revelation. They heard one expression, but added nine to it. Thus the (heard) expression was true, but as for their additions, they were false. When Allah’s Messenger (SAW) was sent, their sitting place was denied to them. They mentioned that to Iblis and, before that, they were not hit by (shooting) stars. lblis said to them, “This is not but that something has happened on earth newly.” he sent his army who found Allah’s Messenger standing in salah between two mountains perhaps in Makkah. So, they (returned and) met him and informed him. He said. “This is the new thing that has occured on earth.” [Ahmed 2482] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائَ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَجُثِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَی قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرٍ وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ-
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابوسلمہ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے متعلق بتاتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں چلا جا رہا تھا کہ آسمان سے ایک آواز آتی سنائی دی میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہی فرشتہ ہے جو میرے پاس غارحرا میں آیا تھا ۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس سے ڈر گیا اور لوٹ آیا۔ پھر میں نے کہا کہ مجھے کمبل اوڑھاؤ۔ پھر مجھے کمبل اوڑھا دیا گیا اور یہ آیات نازل ہوئیں (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ Ą وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ Ǽ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ Ć وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ Ĉ ) 74۔ المدثر : 1تا5) (اے لحاف میں لیٹنے والے کھڑا ہو پھر ڈر سنا دے اور اپنے رب کی بڑائی بول اور اپنے کپڑے پاک رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ المدثر۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کو یحیی بن ابی کیثر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے بھی نقل کرتے ہیں۔
Savyidina Jabir ibn Abdullah (RA) narrated: I heard Allah’s Messenger (SAW) while he described the period of suspension of revelation. While talking (about it), he said, ‘I was walking when I heard voices from the heaven. I raised my head and, behold, there was the angel who had come to me at Hira, sitting on a chair between heaven and earth. I was scared of him, so I returned (home). I said (there, ‘Wrap me up, put a blanket over me’. Then Allah revealed: "O thou wrapped up (in the mantle)! Arise and deliver thy warning! And thy Lord do thou magnify! And thy garments keep free from stain! And all abomination shun!" (74: 1-5) This was before salah was prescribed. [Ahmed 15037, Bukhari 4, Muslim 161]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّعُودُ جَبَلٌ مِنْ نَارٍ يَتَصَعَّدُ فِيهِ الْکَافِرُ سَبْعِينَ خَرِيفًا ثُمَّ يُهْوَی بِهِ کَذَلِکَ فِيهِ أَبَدًا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ وَقَدْ رُوِيَ شَيْئٌ مِنْ هَذَا عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْقُوفٌ-
عبد بن حمید، حسن بن موسی، ابن لہیعہ، دراج، ابوالہیثم، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صعود جہنم میں ایک پہاڑ کا نام ہے دوزخی کو اس پر ستر برس میں چڑھایا جائے گا۔ اور پھر دھکیل دیا جائے گا اور پھر ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہے گا۔ یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف ابن لہیعہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ عطیہ نے بھی ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً نقل کیا ہے۔
Sayyidina Abu Sa’eed (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said: "'Sa’ud' is a mountain in Hell. The inhabitant of Hell will be made to climb it for seven years. Then he will be pushed down, and it will go on like that for ever.
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ نَاسٌ مِنْ الْيَهُودِ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّکُمْ کَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ قَالُوا لَا نَدْرِي حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ غُلِبَ أَصْحَابُکَ الْيَوْمَ قَالَ وَبِمَا غُلِبُوا قَالَ سَأَلَهُمْ يَهُودُ هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّکُمْ کَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ قَالَ فَمَا قَالُوا قَالَ قَالُوا لَا نَدْرِي حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا قَالَ أَفَغُلِبَ قَوْمٌ سُئِلُوا عَمَّا لَا يَعْلَمُونَ فَقَالُوا لَا نَعْلَمُ حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا لَکِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا نَبِيَّهُمْ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً عَلَيَّ بِأَعْدَائِ اللَّهِ إِنِّي سَائِلُهُمْ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ وَهِيَ الدَّرْمَکُ فَلَمَّا جَائُوا قَالُوا يَا أَبَا الْقَاسِمِ کَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ قَالَ هَکَذَا وَهَکَذَا فِي مَرَّةٍ عَشَرَةٌ وَفِي مَرَّةٍ تِسْعَةٌ قَالُوا نَعَمْ قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ قَالَ فَسَکَتُوا هُنَيْهَةً ثُمَّ قَالُوا خْبْزَةٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخُبْزُ مِنْ الدَّرْمَکِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ-
ابن ابی عمر، سفیان، مجالد، شعبی، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ چند یہودیوں نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے نبی کو معلوم ہے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہمیں علم نہیں لیکن ہم پوچھیں گے۔ پھر ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آج ہار گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس طرح؟ کہنے لگا کہ یہودیوں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارا نبی جاتا ہے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کیا جواب دیا؟ کہنے لگا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے بغیر نہیں بتا سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ قوم ہار گئی جس سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا گیا جو وہ نہیں جاتے؟ (یعنی اس میں تو ہار نے والی کوئی بات نہیں) بلکہ یہودیوں نے تو اپنے نبی سے کہا تھا کہ ہمیں اعلانیہ اللہ کا دیدار کرائے۔ اللہ کے ان دشمنوں کو میرے پاس لاؤ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جنت کی مٹی کس چیز کی ہے؟ اور وہ میدہ ہے۔ پھر جب وہ لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھوں سے دو مرتبہ اشارہ کیا۔ ایک مرتبہ دس انگلیوں سے اور ایک مرتبہ نو انگلیوں سے (یعنی) یہودی کہنے لگے ہاں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کس چیز کی ہے؟ وہ چند لمحے چپ رہے اور پھر کہنے لگے ایابوقاسم روٹی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میدے کی روٹی ہے۔ اس حدیث کو ہم صرف مجالد کی روایت سے اس سند سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Jabir reported that some Jews asked a few sahabah whether their Prophet (SAW) knew how many keepers of Hell were there. The sahabah said, “We do not know but we shall ask him.” So, a man went to the Prophet and asked, “O Muhammad, your sahabah were defeated today.” He asked, “How were they defeated?” The man said, “The Jews asked them whether their Prophet knew the number of keepers of Hell.” He asked, “What did they say?” The man said that they said, “We do not know till we ask our Prophet." He asked, “Are a people defeated when they are questioned about something they do not know? They only said that they did not know till they asked their Prophet while they (the Jews) had asked their Prophet, show us Allah in public’. Bring these enemies of Allah to me. I will ask them about the dust of paradise. It is fine earth (or flour).” When they came to him, they asked, “O Abul Qasim, how many keepers are there over Hell?” He said through gesture (of his fingers) showing ten once and nine the second time.1 They said, ‘Yes. The Prophet (SAW) asked them, “What is the dust of Paradise?” They kept quiet some time and then asked, “Is it bread, O Abul Qasim?” He said, “Bread of flour.” --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُطَعِيُّ وَهُوَ أَخُو حَزْمِ بْنِ أَبِي حَزْمٍ الْقُطَعِيُّ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةَ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَی وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَی فَمَنْ اتَّقَانِي فَلَمْ يَجْعَلْ مَعِي إِلَهًا فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَسُهَيْلٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ ثَابِتٍ-
حسن بن صباح بزار، زید بن حباب، سہیل بن عبداللہ قطعی، ثابت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت (هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ) 74۔ المدثر : 56) (وہی ہے جس سے ڈرنا چاہیے اور وہی ہے بخشنے کے لائق) کی تفسیر نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس لائق ہوں کہ بندے مجھ سے ڈریں۔ پس جو مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرایا تو میں اس کا اہل ہوں کہ اسے معاف کر دوں۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ سہیل محدثین کے نزدیک قوی نہیں اور سہیل نے یہ حدیث ثابت سے نقل کی ہے۔
Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said about this verse: "He is the Lord of Righteousness, and the Lord of Forgiveness." (74: 56) That Allah, the Blessed and the Exalted says: I am Worthy that they (My slaves) fear me. And he who fears me, does not join another God with me, and (to him) I am Worthy of pardoning him. [Ahmed 12445, Ibn e Majah 99] --------------------------------------------------------------------------------