تعویز پر اجرت لینا

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ فَسَأَلْنَاهُمْ الْقِرَی فَلَمْ يَقْرُونَا فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا هَلْ فِيکُمْ مَنْ يَرْقِي مِنْ الْعَقْرَبِ قُلْتُ نَعَمْ أَنَا وَلَکِنْ لَا أَرْقِيهِ حَتَّی تُعْطُونَا غَنَمًا قَالَ فَأَنَا أُعْطِيکُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً فَقَبِلْنَا فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرَأَ وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ قَالَ فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْئٌ فَقُلْنَا لَا تَعْجَلُوا حَتَّی تَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْهِ ذَکَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ قَالَ وَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ اقْبِضُوا الْغَنَمَ وَاضْرِبُوا لِي مَعَکُمْ بِسَهْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِکِ بْنِ قُطَعَةَ وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَی تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ أَجْرًا وَيَرَی لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَی ذَلِکَ وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ وَهُوَ أَبُو بِشْرٍ وَرَوَی شُعْبَةُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَکِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ-
ہناد، ابومعاویہ، اعمش، جعفر بن ایاس، ابونضرہ، حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بیجا تو ہم ایک قوم کے پاس ٹھہرے اور ان سے ضیافت طلب کی لیکن انہوں نے ہماری میزبانی کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ان کے سردار کو بچھونے ڈنک مار دیا۔ وہ لوگ ہمارے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی بچھو کے کاٹے پر دم کرتا ہے۔ میں نے کہا ہاں لیکن میں اس صورت میں دم کروں گا کہ تم ہمیں بکریاں دو۔ انہوں نے کہا ہم تمہیں تیس بکریاں دیں گے۔ ہم نے قبول کر لیا اور پھر میں نے سات مرتبہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ ٹیک ہوگیا اور ہم نے بکریاں لے لی پھر ہمارے دل میں خیال آیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم جلدی نہ کریں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ لیں۔ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو میں نے پورا قصہ سنایا۔ فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ سے دم کیا جاتا ہے۔ بکریاں رکھ لو اور میرا حصہ بھی دو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابونضرہ کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے۔ امام شافعی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے قرآن کی تعلیم دینے پر اجرت لینے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسے مقرر کرنا بھی جائز ہے۔ شعبہ ابوعوانہ اور کئی راوی یہ حدیث ابومتوکل سے اور وہ ابوسعید سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Abu Saeed (RA) narrated Allah’s Messenger sent us on an expedition. We halted at a place and requested its people for their hospitality, but they declined to host us. Meanwhile, a scorpion stung their chief, so they came to us and asked if we had anyone who would cure him through ruqyah. I said, “Yes, I will. But, I will not blow on him until you give us sheep.” They said, “We will give you thirty sheep.” We agreed, I recited al-Fatihah over him seven times and he was relieved (of poison), and we took the sheep. Then we had doubt about it and we said, “Do not make haste till we come to Allah’s Messenger (SAW). When we came to him, I mentioned to him what I had done. He asked, “How did you know that it (al-Fatihah) is a ruqyah. Take the sheep and count me with you for my share.” [Bukhari 5749]
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَکِّلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِحَيٍّ مِنْ الْعَرَبِ فَلَمْ يَقْرُوهُمْ وَلَمْ يُضَيِّفُوهُمْ فَاشْتَکَی سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا هَلْ عِنْدَکُمْ دَوَائٌ قُلْنَا نَعَمْ وَلَکِنْ لَمْ تَقْرُونَا وَلَمْ تُضَيِّفُونَا فَلَا نَفْعَلُ حَتَّی تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَجَعَلُوا عَلَی ذَلِکَ قَطِيعًا مِنْ الْغَنَمِ قَالَ فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنَّا يَقْرَأُ عَلَيْهِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَبَرَأَ فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَکَرْنَا ذَلِکَ لَهُ قَالَ وَمَا يُدْرِيکَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ وَلَمْ يَذْکُرْ نَهْيًا مِنْهُ وَقَالَ کُلُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَکُمْ بِسَهْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ وَهَکَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ عَنْ أَبِي الْمُتَوَکِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ-
ابوموسی محمد بن مثنی عبدالصمد بن عبدالوارث، شعبہ، ابوبشر، حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ صحابہ کی جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا، بستی والوں نے ان کی میزبانی نہیں کی۔ پھر ان کا سردار بیمار ہوگیا تو وہ لوگ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تمہارے پاس اس کا علاج ہے۔ ہم نے کہا ہاں۔ لیکن تم لوگوں نے ہمیں مہمان بنانے سے انکار دیا ہے اس لیے ہم اس وقت تک علاج نہیں کریں گے جب تک تم لوگ ہمارے لیے کوئی اجرت مقرر نہ کرو۔ پس انہوں نے اس پر بکریوں کا ایک ریوڑ اجرت مقرر کیا۔ پھر ہم میں سے ایک صحابی نے اس پر سورت فاتحہ پڑھی اور وہ ٹھیک ہوگیا۔ پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ! تمہیں کیسے علم ہوا کہ یہ ( سورت فاتحہ) دم جھاڑ ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بکریاں لینے سے منع نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کھاؤ اور میرا بھی حصہ مقرر کرو۔ یہ حدیث صحیح ہے اور اعمش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ کئی راوی اسے ابوبشر، جعفر بن ابووحشیہ سے وہ ابومتوکل سے وہ ابوسعید سے نقل کرتے ہیں۔ جعفر بن ایاس سے جعفر بن ابی وحشیہ مراد ہیں۔
Sayyidina Abu Sa’eed (RA) reported that a group of the sahabah (RA) passed by a village of Arabs. They did not entertain and host them. Their chief fell ill and they came to the sahabah asking them if they had medicine. They affirmed, “Yes, we have, but you neither entertained us nor hosted us, so will not treat him unless you determine our wages.” So they fixed their wages at a herd of sheep. So, one of them recited over him al-Fatihah and he was cured. When they came to the Prophet (SAW) they mentioned that to him. He said, “And what told you that it is ruqyah.” He did not disallow them that but said, “Eat and determine for me a share with you.” [Bukhari 2276, Muslim 2201]