باب سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَال سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَلَمَّا أَفَقْتُ قُلْتُ کَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي فَسَکَتَ عَنِّي حَتَّی نَزَلَتْ يُوصِيکُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ-
عبد بن حمید، یحیی بن آدم، ابن عیینہ ، محمد بن منکدر، محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ میں بیمار ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کیلئے تشریف لائے۔ مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ جب افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا کہ اپنے مال کے متعلق کیا فیصلہ دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیات نازل ہوئیں يُوصِيکُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتے ہیں کہ مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ دو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو محمد بن منکدر سے روایت کیا ہے۔
Muhammad ibn Munkadir reported that he heard Sayyidina Jabir ibn Abdullah say: I had fallen ill and Allah’s Messenger (SAW) paid me a sick visit. I lay unconscious. When I recovered, I asked him how I should decide about my wealth. He did not say anything till the verse was revealed: "Allah enjoins you concerning your children, for the male is the share equivalent of that of two females." (4: 11) [Ahmed 14190,Bukhari 6723,Muslim 1616,Abu Dawud 2886,Nisai 138, Ibn e Majah 2728]
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَفِي حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ الصَّبَّاحِ کَلَامٌ أَکْثَرُ مِنْ هَذَا-
فضل بن صباح بغدادی نے بواسطہ سفیان، ابن عیینہ اور محمد بن منکدر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے ہم معنی روایت نقل کی۔ فضل بن صباح کی روایت میں اس سے زیادہ کلام ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمُ أَوْطَاسٍ أَصَبْنَا نِسَائً لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي الْمُشْرِکِينَ فَکَرِهَهُنَّ رِجَالٌ مِنَّا فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ-
عبد بن حمید، حبان بن ہلال، ہمام بن یحیی، قتادة، ابوالخلیل، ابوعلقمة ہاشمی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس کے موقع پر ہم لوگوں نے مال غنیمت کے طور پر ایسی عورتیں پائیں جن کے شوہر مشرکین میں موجود تھے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان سے صحبت (جماع) کرنا مکروہ سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَا ءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ )4۔ النساء : 24) (ترجمہ۔ اور حرام ہیں خاوند والی عورتیں مگر یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کر دیا ہے) یہ حدیث حسن ہے۔
Sayyidina Abu Saeed Khudri narrated: In the Battle of Awtas, we got possession of women who had their husbands among the polytheists. So, some men of them (sahabah) thought that it was makruh (to have intercourse with them) till Allah revealed: "And (also forbidden) are all marled women except those whom your right hands posses." (4:24) [Ahmed 11797,Muslim 1456,Abu Dawud 2155,Nisai 3330]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهَکَذَا رَوَی الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا ذَکَرَ أَبَا عَلْقَمَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا مَا ذَکَرَ هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ-
احمد بن منیع، ہشیم، عثمان البتی، ابوالخلیل، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس میں کچھ ایسی عورتیں ہمارے پاس قیدی بن کر آئیں جن کے شوہر انکی قوم میں موجود تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو یہ آیت نازل ہوئی (وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَا ءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ) 4۔ النساء : 24) (اور خاوند والی عورتیں (حرام) ہیں مگر جن کے مالک ہو جائیں تمہارے ہاتھ۔ اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کر دیا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے ثوری بھی اسے عثمان بتی سے وہ ابوخلیل سے وہ ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی حدیث کی مانند نقل کرتے ہیں۔ اور اس حدیث میں ابوعلقمہ کا ذکر نہیں۔ ہمیں علم نہیں کہ علقمہ کا ذکر ہمام کے علاوہ کسی اور نے بھی کیا ہے۔ وہ ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ ابوخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔
Sayyidina Abu Sa’eed Khudri (RA) narrated : In the Battle of Awtas female captives came to our hand. They had their husbands among their people. The sahabah mentioned that to Allahs Messenger (SAW). So, this verse was revealed. "And (also forbidden) are all marled women except those whom your right hands posses." (4:24) [Ahmed 11691]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَکْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْکَبَائِرِ قَالَ الشِّرْکُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَقَوْلُ الزُّورِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَرَوَاهُ رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ شُعْبَةَ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ وَلَا يَصِحُّ-
محمد بن عبدالاعلی صنعانی، خالد بن حارث، شعبة، عبیداللہ بن ابی بکر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، قتل کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہیں۔ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ روح بن عبادہ، شعبہ سے اور وہ عبداللہ بن ابی بکر سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں۔
Sayyidina Anas (RA) ibn Malik reported from the Prophet (SAW) about the major sins. He said (that they are :) ascribing partners to Allah, disobeying parents, killing someone and bearing false testimony. [Ahmed 12338,Bukhari 2653,Muslim 88,Nisai 4016]
حَدّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ قَالُوا بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْإِشْرَاکُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ قَالَ وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِئًا قَالَ وَشَهَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَالَ قَوْلُ الزُّورِ قَالَ فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّی قُلْنَا لَيْتَهُ سَکَتَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ-
حمید بن مسعدة، بشربن مفضل، جریری، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کو ناراض کرنا، راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے تھے اور اٹھ کر بیٹھ گئے پھر فرمایا جھوٹی گواہی یا جھوٹی بات۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو جائیں۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
Sayyidina Abu Bakrah (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “Shall I not tell you of the gravest of major sins?” The sahabah said, “Of course, O Messenger of Allah (SAW) .” He said, “To associate partner with Allah and to disobey parents.” He had been reclining, but sat up straight and added, “And a false testimony” or, he said, “A false word.” AIlah’a Messenger (SAW) did not cease to say that till they hoped that he would stop. [Bukhari 2654, Muslim 87]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ الْتَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ الشِّرْکُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ وَمَا حَلَفَ حَالِفٌ بِاللَّهِ يَمِينَ صَبْرٍ فَأَدْخَلَ فِيهَا مِثْلَ جَنَاحِ بَعُوضَةٍ إِلَّا جُعِلَتْ نُکْتَةً فِي قَلْبِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيُّ هُوَ ابْنُ ثَعْلَبَةَ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَهُ وَقَدْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ-
عبد بن حمید، یونس بن محمد، لیث بن سعد، ہشام بن سعد، محمد بن زید بن مہاجر بن قنفذ التیمی، ابوامامة انصاری، حضرت عبداللہ بن انیس جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کبیرہ گناہوں میں سے بڑے گناہ یہ ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کو ناراض کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ کوئی قسم کھانے والا اگر قسم کھائے اور فیصلہ اسی قسم پر موقوف ہو پھر وہ اس قسم میں مچھر کے پر کے برابر بھی جھوٹ شامل کر دے تو اس کے دل پر ایک (سیاہ) نکتہ بنا دیا جاتا ہے جو قیامت تک رہے گا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ابوامامہ انصاری ثعلبہ کے بیٹے ہیں۔ ہم انکا نام نہیں جانتے۔ انہوں نے بہت سی احادیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں۔
Sayyidian Abdullah ibn Unays Juhanni reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “Of the gravest of the major sins are to ascribe partner to Allah, to displease parents and Stake a false oath, And, if anyone awears an oath on Allah a firm oath introducing therein so much lie as a gnat’s wing then a spot is put in his heart till the Day of Resurrection.” [Ahmed 16043]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْکَبَائِرُ الْإِشْرَاکُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَالَ الْيَمِينُ الْغَمُوسُ شَکَّ شُعْبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبة، فراس، شعبی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں۔ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی یا فرمایا جھوٹی قسم کھانا۔ (یہ شعبہ کا شک ہے۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abdullah ibn Amr (RA) repoted from the Prophet (SAW) that he said, “The major sins are to associate something with Allah and to disobey parents” or, he said, “A false oath.” Shu’bah was in doubt (about it). [Ahmed 690, 675,Nisai 4017]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا قَالَتْ يَغْزُو الرِّجَالُ وَلَا تَغْزُو النِّسَائُ وَإِنَّمَا لَنَا نِصْفُ الْمِيرَاثِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ قَالَ مُجَاهِدٌ وَأَنْزَلَ فِيهَا إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَکَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَوَّلَ ظَعِينَةٍ قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ مُهَاجِرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلٌ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ قَالَتْ کَذَا وَکَذَا-
ابن ابی عمر، سفیان، ابن ابی نجیح، مجاہد، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا مرد جہاد کرتے ہیں اور عورتیں جہاد نہیں کرتیں۔ پھر ہم عورتوں کی لئے وراثت میں سے بھی مرد سے آدھا حصہ ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ۔ (اور ہوس مت کرو جس چیز میں بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر۔ النساء مجاہد کہتے ہیں کہ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ۔ بھی انہی (ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ پہلی عورت ہیں جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئیں۔ یہ حدیث مرسل ہے بعض راوی اسے ابونجیح سے اور وہ مجاہد سے مرسلاً نقل کرتے ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس طرح فرمایا۔
Sayyidah Umm Salamah (RA) narrated: I said “Men engage in jihad, but women do not. And we have half of the legacy.” So, Allah, the Blessed and Exalted revealed: "And covet not that whereby Allah has excelled some of you above the others. (4:32) Mujahid said that this verse was revealed about it: "Surely the Muslim men and the Muslim women." (33 : 35) And, Umm Salamah was the first woman who migrated to Madinah. [Ahmed 26798]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا أَسْمَعُ اللَّهَ ذَکَرَ النِّسَائَ فِي الْهِجْرَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ-
ابن ابی عمر، سفیان، عمرو بن دینار، ایک حضرت ام سلمة کی اولاد میں سے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے نہیں سنا کی اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی ہجرت کا ذکر کیا ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( اَنِّىْ لَا اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ ) 3۔ آل عمران : 195) (میں تم سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت تم میں سے بعض بعض سے ہیں) ۔
Sayyidah Umm Salamah (RA) reported that she submitted, “O Messenger of Allah (SAW) , I have not heard Allah mention women making the hijrah.” So, Allah, the Blessed, the Exalted, revealed: "Never will I waste the work of any worker among you, be he male or female, the one of you being from the other." (3:195)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْهِ وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُورَةِ النِّسَائِ حَتَّی إِذَا بَلَغْتُ فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَائِ شَهِيدًا غَمَزَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَکَذَا رَوَی أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَإِنَّمَا هُوَ إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ-
ہناد، ابوالاحوص، اعمش، حضرت ابراہیم علقمہ سے اور وہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں قرآن پڑھوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سورت نساء کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچا (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰ ؤُلَا ءِ شَهِيْدًا) 4۔ النساء : 41) (پھر کیا حال ہوگا جب بلاویں گے ہم ہر امت میں سے احوال کہنے والا اور بلاویں گے تجھ کو ان لوگوں پر احوال بتانے والا۔ النساءآیت) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ابوالاحوص بھی اعمش وہ ابراہیم وہ علقمہ اور وہ عبداللہ سے اسی طرح حدیث نقل کرتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ابراہیم، عبیداللہ سے اور وہ عبداللہ سے روایت کرتے ہیں۔
Ibrahim reported from Alqamah and he from Abdullah that he said, “Allah’s Messenger (SAW) commanded me that I should recite to him while he was on the pulpit. So, I recited tohim from surah an-Nisa till I reached the verse: “How then shall it be, when we bring from each people a witness, and we bring you as a witness against these”? (4 :41) Allah’s Messenger (SAW) indicated to me with his hand to stop. I looked at him and saw tears dropping from his eyes.” [Bukhari 4582, Ibn e Majah 4194]
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَأْ عَلَيَّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَعَلَيْکَ أُنْزِلَ قَالَ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَائِ حَتَّی إِذَا بَلَغْتُ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَائِ شَهِيدًا قَالَ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَهْمِلَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ هِشَامٍ-
محمود بن غیلان، معاویة بن ہشام، سفیان، اعمش، ابراہیم، عبیدة، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قرآن پڑھوں جبکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی پر نازل ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے سنوں۔ پھر میں نے سورت نساء پڑھنا شروع کی جب اس آیت (وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيدًا) 4۔ النساء : 41)۔ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ یہ حدیث ابوالاحوص کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اس حدیث کو سویر بن نضر، ابن مبارک سے وہ سفیان سے وہ اعمش سے اور وہ معاویہ بن ہشام سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔
Ibrahim reported from Ubaydah, from Abdullah who narrated: Allah’s Messenger (SAW) said to Me, “Recite to me.” I said, “O Messenger of Allah (SAW) shall I recite to you while the Qur’an is revealed to you”? He said, “I love to hear it from others.” So, I recited Surah an-Nisa till I came to (4 : 41): "And We brought thee as a witness against these people!" I observed the eyes of the Prophet (SAW)’ were tearful. [Ahmed 3550,Bukhari 5049,Muslim 800,Abu Dawud 3668]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنْ الْخَمْرِ فَأَخَذَتْ الْخَمْرُ مِنَّا وَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَقَدَّمُونِي فَقَرَأْتُ قُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُکَارَی حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، عبدالرحمن بن سعد، ابوجعفر رازی، عطاء بن سائب، ابوعبدالرحمن سلمی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبدالرحمن بن عوف نے ہماری دعوت کی اور اس میں شراب پلائی۔ ہم مدہوش ہوگئے تو نماز کا وقت آ گیا سب نے مجھے امامت کے لئے آگے کر دیا۔ تو میں نے سورت کافرون اس طرح پڑھی (قُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ) 109۔کافرون : 1) پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ) 4۔ النساء : 43) (اے ایمان والو نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو۔ سورت نساء آیت۔) ۔ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
Sayyidina Ali ibn Abu Talib (RA) narrated: Abdur Rhaman ibn Awf prepared a meal for us and invited us to it, and also seved us wine. The wine intoxicated us. and they put me forward (to lead the congregation). I recited : So, Allah revealed: "O you who believe! Draw not near salah while you are intoxicated, until you know what you arsaying. (4:43) [Abu Dawud 3671]
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ سَرِّحْ الْمَائَ يَمُرُّ فَأَبَی عَلَيْهِ فَاخْتَصَمُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ اسْقِ يَا زُبَيْرُ وَأَرْسِلْ الْمَائَ إِلَی جَارِکَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ کَانَ ابْنَ عَمَّتِکَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا زُبَيْرُ اسْقِ وَاحْبِسْ الْمَائَ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی الْجُدُرِ فَقَالَ الزُّبَيْرُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِکَ فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ قَدْ رَوَی ابْنُ وَهْبٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَيُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ الزُّبَيْرِ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ-
قتیبہ ، لیث، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن زبیر سے نقل کرتے ہیں کہ ایک انصاری کا ان سے پانی پر جھگڑا ہوگیا جس سے وہ اپنی کھجوروں کو پانی دیا کرتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی کو چلتا ہوا چھوڑ دو لیکن حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کر دیا۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم (اپنے باغ کو) سیراب کرو اور پھر اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دو۔ اس فیصلے سے انصاری ناراض ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ یہ فیصلہ اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوگیا اور پھر فرمایا اے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ کو سیراب کرو اور پانی روک لیا کرو یہاں تک کہ منڈیر تک واپس لوٹ جائے۔ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اللہ کی قسم میرے خیال میں یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَ رَ بَيْنَھُمْ) 4۔ النساء : 65) (ترجمہ۔ سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے۔ پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلے سے اور قبول کریں خوشی سے۔) میں نے امام بخاری سے سنا انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث ابن وہب، لیث بن سعد سے وہ یونس سے وہ زہری سے اور وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ شعیب بن حمزہ اسے زہری سے اور وہ عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہوئے عبداللہ بن زبیر کا ذکر نہیں کرتے۔
Urwah ibn Zubayr reported that Abdullah ibn Zubayr narrated to him that a man of the Ansar disputed with Zubayr about a streamlet that watered the palm-trees. He said, “Let the water flow”, but Zubayr (RA) disagreed. So they brought the dispute to Allah’s Messenger (SAW). He said to Zubayr (RA) “Water your field O Zubayr, then let the water run to your neighbour.” The ansar was angered and exclaimed. “O Messenger of Allah (SAW) it is because he is your cousin.” The colour of the face of Allah’s Messenger (SAW) changed and he said “O Zubayr, water your field, then keep it back so that it returns to the walls.” Zubayr said, “By Allah, I think that this verse is revealed conerrning that: "But no, by your Lord, they will not believe until they make your the judge of what is in disputebetween them." (4:65) [Ahmed 1419,Bukhari 2359,Muslim 2357,Abu Dawud 363]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِي هَذِهِ الْآيَةِ فَمَا لَکُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ قَالَ رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ فَکَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فَرِيقَيْنِ فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْهُمْ وَفَرِيقٌ يَقُولُ لَا فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فَمَا لَکُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَقَالَ إِنَّهَا طِيبَةُ وَقَالَ إِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ کَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيَدَ هُوَ الْأَنْصَارِيُّ الْخَطْمِيُّ وَلَهُ صُحْبَةٌ-
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبة، عدی بن ثابت، عبداللہ بن یزید، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فَمَا لَکُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ۔ (ترجمہ۔ پھر تم کو کیا ہوا کہ منافقوں کے معاملہ میں دو فریق ہو رہے ہو اور اللہ نے ان کو الٹ دیا ہے بسبب ان کے اعمال کئے کیا تم چاہتے ہو کہ راہ پر لاؤ جس کو گمراہ کیا اللہ نے اور جس کو گمراہ کرے اللہ ہرگز نہ پاوے گا تو اس کیلئے کوئی راہ۔ (النساء) ۔ کی تفسیر میں فرمایا کہ غزوہ احد کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے کچھ لوگ میدان جنگ سے واپس ہوگئے۔ ان کے متعلق لوگوں کے دو فریق بن گئے۔ ایک جماعت کہتی تھی کہ انہیں قتل کر دیا جائے اور دوسرا فریق کہتا تھا نہیں پس یہ آیت نازل ہوئی۔ (فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ) 4۔ النساء : 88)۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مدینہ پاک ہے اور یہ ناپاکی کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح لوہے کی میل کو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
It is reported from Sayyaidina Zayd ibn Thabit (RA) about this verse:"What is the matter with you (0 Believers), that there are two parties (among you) concerning the hypocrites ?" (4 : 88) He explained : The companions of the Prophet (SAW) returned from the Battle of Uhud and there were two opinions among them about the hypocrites. One of them said, “They should be killed”, while another group said, “No!” So the verse (4 : 88) was revealed: Allah’s Messenger (SAW) said, “Madinah is pure and it removes impurity just as fire removes erosion from steel.” [Bukhari 1884,Muslim 1384,Ahmed 21655]
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ حَدَّثَنَا وَرْقَائُ بْنُ عُمَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَجِيئُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا يَقُولُ يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي حَتَّی يُدْنِيَهُ مِنْ الْعَرْشِ قَالَ فَذَکَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ قَالَ مَا نُسِخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَا بُدِّلَتْ وَأَنَّی لَهُ التَّوْبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنَ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ-
حسن بن محمد زعفرانی، شبابة، ورقاء بن عمر، عمرو بن دینار، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن مقتول، قاتل کی پیشانی کے بال اور سر سے پکڑ کر لائے گا۔ قاتل کے گلے سے خون بہہ رہا ہوگا۔ پھر مقتول عرض کرے گا۔ اے میرے رب مجھے اس نے قتل کیا ہے۔ یہاں تک کہ اسے عرش الہی کے قریب لے جاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ اسکی توبہ قبول ہوگی تو انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَا ؤُه جَهَنَّمُ ) 4۔ النساء : 93) (ترجمہ۔ اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو جان کر تو اسکی سزا دوزخ ہے، پڑا رہے گا اسی میں اور اللہ کا اس پر غضب ہوا اور اسکو لعنت کی اور اس کے واسطے تیار کیا بڑا عذاب۔) پھر اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہ تو یہ آیت منسوخ ہوئی اور نہ ہی بدلی گئی اور ایسے آدمی کی توبہ کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ بعض لوگوں نے یہ حدیث عمربن دینار سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں لیکن یہ مرفوع نہیں۔
Sayyidina Ibn Abbas reported that the Prophet (SAW) said that on the Day of Resurrection, the murdered would drag the murderer by his forelocks and head, blood flowing from the neck of the murderer. The slain person would say, “O Lord! He had killed me”, and he will take him up to the throne. The narrator went on to say that people asked Sayyidina Ibn Abbas (RA) “Will his repentance not be accepted?” He recited the verse: "And whosoever slays a believer wilfully, his recompence is Hell ." (4: 93) He added, “This verse is neither abrogated nor changed. How then may his repentance be accepted?” [Ahmed 1941]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غَنَمٌ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ قَالُوا مَا سَلَّمَ عَلَيْکُمْ إِلَّا لِيَتَعَوَّذَ مِنْکُمْ فَقَامُوا فَقَتَلُوهُ وَأَخَذُوا غَنَمَهُ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَيْکُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ-
عبد بن حمید، عبدالعزیز بن ابی رزمة، اسرائیل، سماک بن حرب، عکرمة، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنوسلیم کے ایک شخص کا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزر ہوا اس کے ساتھ بکریاں تھیں اس نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس نے ہم سے بچنے کیلئے سلام کیا ہے۔ چنانچہ وہ اٹھے اور اسے قتل کر کے اسکی بکریاں لے لیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰ ى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا) 4۔ النساء : 94) (اے ایمان والو جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کرو اور مت کہو اس شخص کو جو تم سے سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں۔ النساءآیت) یہ حدیث حسن ہے اور اس باب میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas reported that a man of Banu Sulaym passed by some of sahabah (RA) . He had his sheep with him and he offered salaam to them, but they said to each other that he had not offered salaam but only to earn protection from them. So, they stood up and killed him, and took away his sheep. They went to Allah’s Messenger (SAW) with the sheep. Allah, the Exalted revealed this verse appropriate to the occasion: "O those who believe, when you go out in the way of Allah, be careful, and do not say, to the one who offers you the salaam, You are not a believer. (4 : 94) [Ahmed 2023,Muslim 4591,Muslim 3,Abu Dawud 3974]
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ الْآيَةَ جَائَ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَکَانَ ضَرِيرَ الْبَصَرِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَأْمُرُنِي إِنِّي ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی هَذِهِ الْآيَةَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ الْآيَةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيْتُونِي بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوْ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُقَالُ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَيُقَالُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَائِدَةَ وَأُمُّ مَکْتُومٍ أُمُّهُ-
محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ابواسحاق ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ) 4۔ النساء : 95) (ترجمہ۔ برابر نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے۔ سورت النساء۔ آیت) تو عمر بن ام مکتوم آئے جو نابینا تھے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نابینا ہوں میرے لئے کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ) 4۔ النساء : 95)۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شانے کی ہڈی اور دوات لاؤ فرمایا تختی اور دوات۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس میں عمرو بن ام مکتوم ہے جبکہ بعض روایات میں عبداللہ بن ام مکتوم ہے اور عبداللہ زائدہ کے بیٹے ہیں۔ ام مکتوم انکی والدہ ہیں۔
Sayyidina Bara ibn Aazib o reported concerning the verse:"Those among the believers who sit back at home - unless thcy have an injury are not the equals of those who struggle hard in the way of Allah." (4:95) Amr ibn Umm Maktum came to the Propjet (when it was revealed). He had lost his eyesight. He said, ‘0OMessenger of Allah (SAW), what do you command me (to do)? I am blind.” So Allah revealed the words: "Unless they are handicapped." (4: 95) So, the Prophet (SAW) said, “Get me a shoulder-scapulabone and an inkpot or a tablet and an inkpot.” [Bukhari 4594,Muslim 1898,Nisai 3098]
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْکَرِيمِ سَمِعَ مِقْسَمًا مَوْلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ عَنْ بَدْرٍ وَالْخَارِجُونَ إِلَی بَدْرٍ لَمَّا نَزَلَتْ غَزْوَةُ بَدْرٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَحْشِ وَابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ إِنَّا أَعْمَيَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَهَلْ لَنَا رُخْصَةٌ فَنَزَلَتْ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَی الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً فَهَؤُلَائِ الْقَاعِدُونَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَی الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَاتٍ مِنْهُ عَلَی الْقَاعِدِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرِ أُولِي الضَّرَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمِقْسَمٌ يُقَالُ هُوَ مَوْلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ وَيُقَالُ هُوَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ وَکُنْيَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ-
حسن بن محمد زعفرانی، حجاج بن محمد، ابن جریج، عبدالکریم، مقسم مولی عبداللہ بن حارث، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ) 4۔ النساء : 95) سے مراد اہل بدر اور اس میں شریک نہ ہونے والے ہیں اس لئے کہ جب غزوہ بدر ہوا اور عبداللہ بن جحش اور ابن مکتوم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم دونوں اندھے ہیں کیا ہمارے لئے اجازت ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( برابر نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے اور اللہ نے بڑھا دیا لڑنے والوں کا اپنے مال اور جان سے، بیٹھ رہنے والوں پر درجہ۔) پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ جہاد نہ کرنے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةً) 4۔ النساء : 95) (زیادہ کیا اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں، جو کہ درجے ہیں۔ اللہ کی طرف سے۔) پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہاں بھی مراد اہل عذر اور مریض لوگ نہیں ہیں۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ مقسم بعض محدثین کے نزدیک عبداللہ بن حارث کے مولی ہیں اور بعض کے نزدیک عبداللہ بن عباس کے مولی ہیں۔ انکی کنیت ابوالقاسم ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) said about the verse (4:95) i that it refers to the people of Badr and those who did not participate in it. When the Battle of Badr took place, Abdullah ibn Jahsh . and Ibn Umm Maktum (RA) said. “We are blind, O Messenger of Allah (SAW) . So, are we excused? So this verses was revealed:"Such of the believers who sit back at home - unless they have an injury." (4:95)Allah has preferred in rank those who struggle hard with their riches and lives over those who sit back at home, and yet to each Alaah has promised a fair reward. And Allah has preferred those who struggle hard over those who sit back at home.These sitters at home are those who have no excuse."Allah has preferred those who struggle hard over those who sit back at home with a might reward." (4 : 95) Ibn Abbas said that they are not those who have an excuse or are handi-capped.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّی جَلَسْتُ إِلَی جَنْبِهِ فَأَخْبَرَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْلَی عَلَيْهِ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَجَائَهُ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَهُوَ يُمْلِيهَا عَلَيَّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ وَکَانَ رَجُلًا أَعْمَی فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذُهُ عَلَی فَخِذِي فَثَقُلَتْ حَتَّی هَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ هَکَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ هَذَا وَرَوَی مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ رِوَايَةُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ التَّابِعِينَ رَوَاهُ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ وَمَرْوَانُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مِنْ التَّابِعِينَ-
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ان کے والد، صالح بن کیسان، ابن شہاب، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھنے ہوئے دیکھا تو میں اس کی طرف گیا اور اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے برایا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے لکھو رہے تھے (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ) 4۔ النساء : 95) زید کہتے ہیں کہ رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھوا ہی رہے تھے کی ابن مکتوم آگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں جہاد کر سکتا تو ضرور کرتا۔ وہ نابینا تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران میری ران پر تھی وہ اس قدر بھاری ہوگئی کہ قریب تھا کہ میری ران کچلی جاتی۔ پھر یہ کیفیت ختم ہوگئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ) 4۔ النساء : 95)۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس روایت میں ایک صحابی نے تابعی سے روایت کیا ہے یعنی سیل بن انصاری نے مروان بن حکم سے اور ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماع حاصل نہیں ہے اور وہ تابعی ہیں۔
Sahlibn Sad Sa’idi narrated: Isaw Marwan ibn Hakam sitting in the mosque, so I joined him and sat doown beside him. He informed us that Zayd ibn Thabit had informed him that the Prophet (SAW) had dictated to him the verse. (4 : 95) "Not equal are those of the Believers who sit at home and who struggle hard in Allahs way. Ibn Umm Maktum (RA) came to him while the Prophet (SAW) was thus dictating to Zayd He said, “O Messenger of Allah (SAW) , if I could. I would have waged jihad.” And, he was a blind man. So, Allah revealed to His Messenger (SAW) while his thigh was on Zayds thigh and it became so heavy (because of the revelation) that Zayd was apprehensive it might cause a fracture on his thigh. Then that condition passed over the Prophet (SAW) and Allah (had) revealed: "Unless they have an injury." (4:95) [Bukhari 4592, Muslim 3096]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهُ عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِنَّمَا قَالَ اللَّهُ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَکُمْ وَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ فَقَالَ عُمَرُ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْکُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، عبدالرزاق، ابن جریج، عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی عمار، عبداللہ بن باباہ، حضرت یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) 4۔ النساء : 101) (یعنی اگر تمہیں خوف ہو تو قصر نماز پڑھ لیا کرو) اور اب تو لوگ امن میں ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا۔ پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عنایت کردہ صدقہ ہے پس اسے قبول کرو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Yala ibn Umayyah narrated : I said to Umar (RA) that Allah has said:Shorten the salah if you fear. (4 : 101) “But people experience peace now.’ (How is allowed to shorten prayers now)? Umar (RA) said, “I too had wondered as you wonder now, so I mentioned that to Allah’s Messenger (SAW). He said to me : This is charity that Allah has bestowed on you, so accept His charity.” [Ahmed 175,Muslim 686,Abu Dawud 1199, Ibn e Majah 1065]
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْهُنَائِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بَيْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ إِنَّ لِهَؤُلَائِ صَلَاةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ هِيَ الْعَصْرُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَکُمْ فَمِيلُوا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً وَأَنَّ جِبْرِيلَ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ أَصْحَابَهُ شَطْرَيْنِ فَيُصَلِّيَ بِهِمْ وَتَقُومُ طَائِفَةٌ أُخْرَی وَرَائَهُمْ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ثُمَّ يَأْتِي الْآخَرُونَ وَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَکْعَةً وَاحِدَةً ثُمَّ يَأْخُذُ هَؤُلَائِ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ فَتَکُونُ لَهُمْ رَکْعَةٌ رَکْعَةٌ وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَکْعَتَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَحُذَيْفَةَ وَأَبِي بَکْرَةَ وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَأَبُو عَيَّاشٍ الزُّرَقِيُّ اسْمُهُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ-
محمود بن غیلان، عبدالصمد بن عبدالوارث، سعید بن عبیدلنائی، عبداللہ بن شقیق، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ کیا تو مشرکین آپس میں کہنے لگے کہ یہ لوگ عصر کی نماز کو اپنے باپ بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں لہذا تم لوگ جمع ہو کر ایک ہی مرتبہ دھاوا بول دو۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیں اور نماز پڑھائیں۔ ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھے اور دوسری ان کے پیچھے کھڑی ہو کر اپنے ہتھیار اور ڈھالیں وغیرہ ہاتھ میں لے لیں اور پہلی جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے پھر وہ لوگ ہتھیار لے کر کھڑے ہو جائیں اور دوسری جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک رکعت پڑھے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو اور انکی ایک رکعت ہوگی۔ یہ حدیث عبداللہ بن شفیق کی روایت سے حسن غریب ہے وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور اس باب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوعیاش زرقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور سہل بن ابی خثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی احادیث منقول ہیں۔ ابوعیاش کا نام زید بن صامت ہے۔
Sayyidina Abu Huraira (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) encamped between Dujnan and Usfan. So, the idolators said to each other. “To these people, there is a salah dearer to them than their fathers and their sons. It is the salah of asr. So gather together and launch on them a single concentrated attack.” But, Jibril came to the Prophet (SAW) and ordered him to divide his sahabah into two divisions. He should lead one of them in salah while the other should stand behind them guarding them and carrying the weapons. Then these others should come and offer salah with him one raka’ah and then these should take up their position and weapons. That would be a raka’ah for them but two raka’at for Allah’s Messenger (SAW) . [Ahmed 10769,Nisai 1540] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ قَالَ کَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَّا يُقَالُ لَهُمْ بَنُو أُبَيْرِقٍ بِشْرٌ وَبُشَيْرٌ وَمُبَشِّرٌ وَکَانَ بُشَيْرٌ رَجُلًا مُنَافِقًا يَقُولُ الشِّعْرَ يَهْجُو بِهِ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَنْحَلُهُ بَعْضَ الْعَرَبِ ثُمَّ يَقُولُ قَالَ فُلَانٌ کَذَا وَکَذَا قَالَ فُلَانٌ کَذَا وَکَذَا فَإِذَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ الشِّعْرَ قَالُوا وَاللَّهِ مَا يَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ إِلَّا هَذَا الْخَبِيثُ أَوْ کَمَا قَالَ الرَّجُلُ وَقَالُوا ابْنُ الْأُبَيْرِقِ قَالَهَا قَالَ وَکَانُوا أَهْلَ بَيْتِ حَاجَةٍ وَفَاقَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ وَکَانَ النَّاسُ إِنَّمَا طَعَامُهُمْ بِالْمَدِينَةِ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ وَکَانَ الرَّجُلُ إِذَا کَانَ لَهُ يَسَارٌ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ مِنْ الدَّرْمَکِ ابْتَاعَ الرَّجُلُ مِنْهَا فَخَصَّ بِهَا نَفْسَهُ وَأَمَّا الْعِيَالُ فَإِنَّمَا طَعَامُهُمْ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ فَابْتَاعَ عَمِّي رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ حِمْلًا مِنْ الدَّرْمَکِ فَجَعَلَهُ فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ وَفِي الْمَشْرَبَةِ سِلَاحٌ وَدِرْعٌ وَسَيْفٌ فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْبَيْتِ فَنُقِبَتْ الْمَشْرَبَةُ وَأُخِذَ الطَّعَامُ وَالسِّلَاحُ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّهُ قَدْ عُدِيَ عَلَيْنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَنُقِبَتْ مَشْرَبَتُنَا وَذُهِبَ بِطَعَامِنَا وَسِلَاحِنَا قَالَ فَتَحَسَّسْنَا فِي الدَّارِ وَسَأَلْنَا فَقِيلَ لَنَا قَدْ رَأَيْنَا بَنِي أُبَيْرِقٍ اسْتَوْقَدُوا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَلَا نَرَی فِيمَا نَرَی إِلَّا عَلَی بَعْضِ طَعَامِکُمْ قَالَ وَکَانَ بَنُو أُبَيْرِقٍ قَالُوا وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي الدَّارِ وَاللَّهِ مَا نُرَی صَاحِبَکُمْ إِلَّا لَبِيدَ بْنَ سَهْلٍ رَجُلٌ مِنَّا لَهُ صَلَاحٌ وَإِسْلَامٌ فَلَمَّا سَمِعَ لَبِيدٌ اخْتَرَطَ سَيْفَهُ وَقَالَ أَنَا أَسْرِقُ فَوَاللَّهِ لَيُخَالِطَنَّکُمْ هَذَا السَّيْفُ أَوْ لَتُبَيِّنُنَّ هَذِهِ السَّرِقَةَ قَالُوا إِلَيْکَ عَنْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَمَا أَنْتَ بِصَاحِبِهَا فَسَأَلْنَا فِي الدَّارِ حَتَّی لَمْ نَشُکَّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهَا فَقَالَ لِي عَمِّي يَا ابْنَ أَخِي لَوْ أَتَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتَ ذَلِکَ لَهُ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلَ جَفَائٍ عَمَدُوا إِلَی عَمِّي رِفَاعَةَ بْنِ زَيْدٍ فَنَقَبُوا مَشْرَبَةً لَهُ وَأَخَذُوا سِلَاحَهُ وَطَعَامَهُ فَلْيَرُدُّوا عَلَيْنَا سِلَاحَنَا فَأَمَّا الطَّعَامُ فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَآمُرُ فِي ذَلِکَ فَلَمَّا سَمِعَ بَنُو أُبَيْرِقٍ أَتَوْا رَجُلًا مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَيْرُ بْنُ عُرْوَةَ فَکَلَّمُوهُ فِي ذَلِکَ فَاجْتَمَعَ فِي ذَلِکَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ وَعَمَّهُ عَمَدَا إِلَی أَهْلِ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلِ إِسْلَامٍ وَصَلَاحٍ يَرْمُونَهُمْ بِالسَّرِقَةِ مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ وَلَا ثَبَتٍ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَلَّمْتُهُ فَقَالَ عَمَدْتَ إِلَی أَهْلِ بَيْتٍ ذُکِرَ مِنْهُمْ إِسْلَامٌ وَصَلَاحٌ تَرْمِهِمْ بِالسَّرِقَةِ عَلَی غَيْرِ ثَبَتٍ وَلَا بَيِّنَةٍ قَالَ فَرَجَعْتُ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْ بَعْضِ مَالِي وَلَمْ أُکَلِّمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِکَ فَأَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي مَا صَنَعْتَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ نَزَلَ الْقُرْآنُ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّهُ وَلَا تَکُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا بَنِي أُبَيْرِقٍ وَاسْتَغْفِرْ اللَّهَ أَيْ مِمَّا قُلْتَ لِقَتَادَةَ إِنَّ اللَّهَ کَانَ غَفُورًا رَحِيمًا وَلَا تُجَادِلْ عَنْ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا يَسْتَخْفُونَ مِنْ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنْ اللَّهِ إِلَی قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا أَيْ لَوْ اسْتَغْفَرُوا اللَّهَ لَغَفَرَ لَهُمْ وَمَنْ يَکْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَکْسِبُهُ عَلَی نَفْسِهِ إِلَی قَوْلِهِ إِثْمًا مُبِينًا قَوْلَهُ لِلَبِيدٍ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْکَ وَرَحْمَتُهُ إِلَی قَوْلِهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّلَاحِ فَرَدَّهُ إِلَی رِفَاعَةَ فَقَالَ قَتَادَةُ لَمَّا أَتَيْتُ عَمِّي بِالسِّلَاحِ وَکَانَ شَيْخًا قَدْ عَشَا أَوْ عَسَی فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکُنْتُ أُرَی إِسْلَامُهُ مَدْخُولًا فَلَمَّا أَتَيْتُهُ بِالسِّلَاحِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَعَرَفْتُ أَنَّ إِسْلَامَهُ کَانَ صَحِيحًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ لَحِقَ بُشَيْرٌ بِالْمُشْرِکِينَ فَنَزَلَ عَلَی سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ ابْنِ سُمَيَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَی وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِيرًا إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَکَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ يَشَائُ وَمَنْ يُشْرِکْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا فَلَمَّا نَزَلَ عَلَی سُلَافَةَ رَمَاهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بِأَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِهِ فَأَخَذَتْ رَحْلَهُ فَوَضَعَتْهُ عَلَی رَأْسِهَا ثُمَّ خَرَجَتْ بِهِ فَرَمَتْ بِهِ فِي الْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَتْ أَهْدَيْتَ لِي شِعْرَ حَسَّانَ مَا کُنْتَ تَأْتِينِي بِخَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيِّ وَرَوَی يُونُسُ بْنُ بُکَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ مُرْسَلٌ لَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ هُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّهِ وَأَبُو سَعِيدٍ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِکِ بْنِ سِنَانٍ-
حسن بن احمد بن ابی شعیب ابومسلم حرانی، محمد بن سلمة حرانی، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر بن قتادة، ان کے والد، حضرت قتادہ بن نعمان فرماتے ہیں کہ ہم انصار میں سے ایک گھر والے تھے جنہیں بنوا بیرق کہا جاتا تھا۔ وہ تین بھائی تھے۔ بشر، بشیر، اور مبشر۔ بشیر منافق تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجو میں اشعار کہا کرتے تھا پھر ان شعروں کو بعض عرب شعراء کی طرف منسوب کر دیتا اور کہتا کہ فلاں نے اس طرح کہا ہے فلاں نے اس طرح کہا ہے جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ اشعار سنتے تو کہتے کہ اللہ کی قسم یہ شعر اسی خبیث کے ہیں یا جیسا راوی نے فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے کہ ابن ابیرق ہی نے کہے ہیں۔ وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں محتاج اور فقیر تھے مدینہ میں لوگوں کا طعام کھجور اور جو ہی تھا۔ پھر اگر کوئی خوشحال ہوتا تو شام کی طرف سے آنے والے قافلے سے میدہ خریدتا جسے وہ اکیلا ہی کھاتا اس کے گھر والوں کا کھانا کھجوریں اور جو ہی ہوتے۔ ایک مرتبہ شام کی طرف سے ایک قافلہ آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدےء کا کا ایک بوجھ خریدا اور اسے بالا خانہ میں رکھا جہاں ہتھیار، زرہ اور تلوار بھی تھی۔ (ایک دن) کسی نے ان کے گھر کے نیچے سے نقب لگا کر ان کا میدہ اور ہتھیار وغیرہ چوری کر لئے۔ صبح ہوئی تو چچا رفاعہ آئے اور کہنے لگے بھتیجے آج رات ہم پر ظلم کیا گیا اور ہمارے بالا خانہ سے کھانا اور ہتھیار وغیرہ چوری کر لئے گئے۔ چنانچہ ہم نے اہل محلہ سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ آج رات بنو ابیراق نے آگ جلائی تھی۔ ہمارا تو یہی خیال ہے کہ انہوں نے تمہارے کسی کھانے پر روشنی کی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہیں جس وقت ہم محلے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے تو بنو ابیراق کہنے لگے کہ ہمارے خیال میں تمہارا چور لبید بن سہل ہی ہے۔ جو تمہارا دوست ہے وہ صالح شخص تھا اور مسلمان تھا جب لبید نے یہ بات سنی تو اپنی تلوار نکال لی اور کہا کہ میں چوری کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم یا تو میری تلوار تم میں پیوست ہوگی یا تم ضرور اس چوری کو ظاہر کرو گے۔ بنوا بیراق کہنے لگے تم اپنی تلوار تک رہو۔ (یعنی ہمیں کچھ نہ کہو) تم نے چوری نہیں کی۔ پھر ہم محلے میں پوچھتے رہے یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوگیا کہ یہی بنوا بیراق چور ہیں۔ اس پر میرے چچا نے کہا اے بھتیجے اگر تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاتے اور اس کا ذکر کرتے (تو شاید چیز مل جاتی) حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم میں سے ایک گھر والے نے میرے چچا پر ظلم کیا اور نقب لگا کر ان کا غلہ اور ہتھیار وغیرہ لے گئے۔ جہاں تک غلے کا تعلق ہے تو اسی ہمیں حاجت نہیں لیکن ہمارے ہتھیار واپس کر دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں عنقریب اس کا فیصلہ کروں گا۔ جب بنوا بیراق نے یہ سنا تو اپنی قوم کے ایک شخص اسیر بن عروہ کے پاس آئے اور اس سے اس معاملے میں بات کی پھر اس کیلئے بہت سے لوگ جمع ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتادہ بن نعمان اور اس کے چچا ہمارے گھر والوں پر بغیر دلیل اور بغیر گواہ کے چوری کی تہمت لگا رہے ہیں جبکہ وہ لوگ نیک اور مسلمان ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے کسی مسلمان اور نیک گھرانے پر بغیر کسی گواہ اور دلیل کے چوری کی تہمت لگائی ہے؟ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پھر میں واپس ہوا اور سوچا کہ کاش میرا کچھ مال چلا جاتا اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معاملے میں بات نہ کرتا۔ اس دوران میرے چچا آئے اور پوچھا کہ کیا کہا؟ میں نے انہیں بتایا کہ رسوا اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسطرح فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا اللہ ہی مددگار ہے۔ پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ قرآن کی آیت نازل ہوئی ( اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا اَرٰىكَ اللّٰهُ وَلَا تَكُنْ لِّلْخَا ى ِنِيْنَ خَصِيْمًا) 4۔ النساء : 105) (یعنی بے شک ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاری ہے تاکہ تو لوگوں میں انصاف کرے جو تمہیں اللہ سمجھا دے اور تو بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والا نہ ہو (مراد بنوابیراق) اور اللہ سے بخشش مانگ (یعنی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتادہ سے کہی ہے۔) بیشک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ النساء۔) پھر فرمایا (وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِ يْمًا ١٠٧ ڌ يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ ) 4۔ النساء : 107) (ترجمہ۔ اور ان لوگوں کی طرف سے مت جھگڑ و جو اپنے دل میں دغا رکھتے ہیں، جو شخص دغا باز گنہگار ہو بے شک اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔ یہ لوگ ابسا نو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چھپتے ہیں اور اللہ سے نہیں چھپتے حالانکہ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ جبکہ رات کو چھپ کر اسکی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور ان کے سارے اعمال پر اللہ احاطہ کرنے والا ہے۔ ہاں ہم لوگوں نے ان مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کر لیا پھر قیامت کے دن انکی طرف سے اللہ سے کون جھگڑے گا یا ان کا وکیل کون ہوگا اور جو کوئی برا فعل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اسکے بعد اللہ سے بخشوائے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پاوے۔ اور جو کوئی گناہ کرے سو اپنے ہی حق میں کرتا ہے اور اللہ سب باتوں کا جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور جو کوئی خطاء یا گناہ کرے پھر کس بے گناہ پر تہت لگا دے تو اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا۔ النساء) سے ان کی اس بات کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے لبید سے کہی تھی۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْکَ وَرَحْمَتُهُ۔ الخ (ترجمہ۔ اور اگر تجھ پر اللہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا حالانکہ وہ اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر سکتے تھے۔ اور وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ باتیں سکھائیں ہیں جو تو نہ جا نتا تھا اور اللہ کو تجھ پر بڑا فضل ہے۔ (النساء) جب قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہتھیار لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ ہتھیار حضرت رفاعہ کی طرف لوٹا دیے قتادہ کہتے ہیں کہ جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس آیا (ابوعیسی کو شک ہے کہ عشی کہا یا اعسی) انکی بینائی زمانہ جاہلیت میں کمزور ہوگئی تھی اور بوڑھے ہو چکے تھے۔ میں انکے ایمان میں کچھ خلل کا گمان کیا کرتا تھا۔ لیکن جب میں ہتھیار وغیرہ لے کر انکے پاس گیا تو کہنے لگے بھتیجے یہ میں نے اللہ کی راہ میں دے دیئے ہیں۔ چانچہ مجھے ان کے ایمان کا یقین ہوگیا۔ جب قرآن کی آیات نازل ہوئیں تو بشیر مشرکین کے ساتھ مل گیا اور سلا فہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس ٹھہرا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِه جَهَنَّمَ وَسَا ءَتْ مَصِيْرًا ١١٥ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَا ءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلً ا بَعِيْدًا) 4۔ النساء : 115)۔ (ترجمہ۔ اور جو کوئی رسول اللہ کی مخالفت کرے، بعد اسکے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ کود پھر گیا ہے اور اسے دوزخ میں دالیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ بے شک اللہ اسکو نہیں بخشتا جو کسی کو اسکا شریک بنائے۔ اور اسکے سوا جسے چاہے بخش دے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا، وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ النساء) جب وہ سلافہ کے پاس ٹھہرا تو حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند شعروں میں سلافہ کی ہجو کی۔ چنانچہ سلافہ نے بشیر کا سامان اٹھا کر سر پر رکھا اور اسے باہر جا کر میدان میں پھینک دیا پھر اس سے کہنے لگی کہ کیا تو میرے پاس حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعر ہدیے میں لایا ہے۔ تجھ سے مجھے کبھی خیر نہیں مل سکتی۔ یہ حدیث غریب ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ اس حدیث کو محمد بن قتادہ سلمہ خزانی کے علاوہ کسی اور نے مرفوع کیا ہو۔ یونس بن بکیر اور کئی راوی اسے محمد بن اسحاق سے اور وہ عاصم بن قتادہ سے مرسلاً نقل کرتے ہیں۔ اس میں عاسم کے اپنے والد اور دادا کا واسطہ مذکور نہیں۔ قتاسہ بن نعمان، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخیانی (ماں کی طرف سے) بھائی ہیں۔ ابوسعید کا نام مالک بن سنان ہے۔
Qatadah ibn Numan narrated: There was among us (Ansar) a family called Banu UbayriqBishr, Bushayr and Muhashshir. Bushayr was a hypocrite who read poetry whereby he defamed the sahahah hut he attributed his poetry to earlier Arab poets saying such and such had composed it. The sahahah (RA) on hearing him, said, “By Allah, that poet had not read this poetry. It is only this very evil man who has spoken it” - or as the narrator thought that they said “Ibn Uubayriq has spoken it.’ The people were needy and poor during the jahiliyat and during Islam. The staple food of the people in Madinah was dates and barley. If a man had some means and a Syrian pedlar made the rounds, he would buy from him fine flour exclusively for himself while the family’s meal continued to be dates and barley. Accordingly, when a Syrian pedlar came, my uncle Rifaah ibn Zayd bought from him a bag of fine flour. He placed it in a storeroom where weapons, armour and swords were also kept. Someone made an underground passage and stole his fine flour and weapons, etc. In the morning, my uncle Rifa’ah came and told me about it. I made enquires and learnt that they had seen the sons of Ubayriq with lamps in the night and that they might have done it. Qatadah said that when they made enquries in the house, the children of Ubayriq said, “By Allah, your thief is our pious Muslim Labid ibn Sahi.” When Lahid heard it, he drew his sword and asked, “Am I the thief? By Allah, either my sword pierces you or you disclose the thief.’ The Banu Ubayriq said, Keep your sword to yourself. You have not stolen anything. We then made more enquiries till we were sure that Banu Ubayriq were the thieves. My uncle said, “If you go to the Prophet (SAW) and mention it (perhaps we would get our things).” So, I went to him and recounted my uncle’s plight, saying. ‘We are more concerned about the weapons. He said, “I will decide about it soon.” When Banu Ubayriq heard of it, they went to one of their man, Usayr ibn Urwah and spoke to him about it. Then many people of the neighbourhood gathered for them and pleaded, “O Messenger of Allah (SAW) , Qatadah ibn Nu’man and his uncle have accused our people of theft without argument or evidence though they are pious and Muslim s.” Qatadah said that he went to the Prophet (SAW) and spoke about it and he asked, “Have you accused a Muslim and pious people of theft without proof or evidence?” I wished that I had lost something and not spoken to the Prophet (SAW) about it. Suddenly, my uncle came and asked me what I had done and I told him what Allah’s Messenger (SAW) had said, He submitted. “Allah is our Help.” Not much time had passed when something of the Qur’an was revealed, Allah said: "Surely, we have revealed the Book to you with truth, so that you may judge between people by means of what Allah has shown you. So be not an advocate of the traitors." (4:105) (That is) Banu Ubayriq: “And seek forgiveness of Allah” (that is) about what you said to Qatadah: "Surely Allah is ever Forgiving, Merciful." "And contend not on behalf of those who betray themselves. Surely Allah loves not one who is treacherous, sinful. They seek to conceal (their evil deeds) from people, but they cannot conceal from Allah, for He is with them…(till Allah’s words) "He shall find Allah Forfgiving, Merciful. (that is) If they seek Allah’s forgiveness, He will forgive them. And whosoever earns a sin, earns it against his own soul only.” (till Allah's words, "And whoever earns fault or a sin and then casts it upon the innocent, he indeed has burdened himself with calumny and manifest sin." (that is) their accusation of Labid. "And were it not for the bounty of Allah upon you (0 Prophet) and His mercy." (till Allah’s words) Allah’s bounty upon you is ever great. (4 : 105 - 144) When these words of the Qur’an were revealed they brought to the Prophet (SAW) the weapons and he returned them to Rifa’ah. Qatadah said, “When I came to my uncle with the weapons” - Abu Eesa is doubtful what word was used or - “he was an old man whose eyesight had become weak during the jahiliyah and I had imagined a weakness in his faith, but when I took the weapons, etc. to him-he said, ‘I have give them in Allah’s path. So, I was convinced of his strong faith. When the Qur’an was revealed, Bushayr joined the idolators and lodged with Sulafah daughter of Sad ibri Sumayyah. Allah revealed the verse: And whosoever opposes the Messenger (SAW) after the guidance has become clear to him, and follows a way other then that of the believers, we shall turn him to that to which he has turned, and we shall cast him in Hell; and it is an evil destination. Surely Allah shall not forgive that anything be associated with Him, and He shall forgive all besides that to whom He will. And whosoever associates anything with Allah, he indeed has gone far astray. (4 : 115 - 116) When he lodged with Sulafah, Hassan composed satirical poetry in answer to him. So, Sulafah carried his luggage on her head and cast them out on an open land, saying. “Have you brought Hassan’s poetry as a gift to me? I can never hope for good from you.” --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَکَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ يَشَائُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ وَثُوَيْرٌ يُکْنَی أَبَا جَهْمٍ وَهُوَ رَجُلٌ کُوفِيٌّ مِنْ التَّابِعِينَ وَقَدْ سَمِعَ مِنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنُ مَهْدِيٍّ کَانَ يَغْمِزُهُ قَلِيلًا-
خلاد بن اسلم بغدادی، نضربن شمیل، اسرائیل، ثویر بن ابی فاختة، ان کے والد، حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ قرآن کی آیات میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب یہ آیت ہے۔ (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَا ءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰ ى اِثْمًا عَظِيْمًا) 4۔ النساء : 48) (ترجمہ۔ بے شک اللہ اس کو نہیں بخشتا جو کسی کو اس کا شریک بنائے اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ النساء) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ابوفا ختہ کا نام سعد بن علا قہ ہے اور ثویر کی کنیت ابوجہم ہے یہ کوفی ہیں ان کا اب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماع ہے۔ ابن مہدی ان پر طعن کرتے ہیں۔
Sayyidina Ali ibn Abu Talib (RA) said, ‘Of the verses of the Quran, the dearest to me is this verse: "Surely Allah shall not forgive that anything should be associated with Him, and He shall forgive all besides that to whom He will. (4:48 & 116)
حَدَّثَنَا إِبْنِ أَبِي عُمَرَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ مُحَيْصِنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا نَزَلَ مَنْ يَعْمَلْ سُوئًا يُجْزَ بِهِ شَقَّ ذَلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ فَشَکَوْا ذَلِکَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قَارِبُوا وَسَدِّدُوا وَفِي کُلِّ مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ کَفَّارَةٌ حَتَّی الشَّوْکَةَ يُشَاکُهَا أَوْ النَّکْبَةَ يُنْکَبُهَا ابْنُ مُحَيْصِنٍ هُوَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ-
ابن ابی عمرو عبداللہ بن ابی زیاد، سفیان بن عیینہ ، ابن محصن، محمد بن قیس بن مخرمة، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت من یعمل۔ (ترجمہ۔ جو کوئی برا کام کرے گا۔ اسکی سزا دیجائے گی۔ اور اللہ کے سوا، اپنا کوئی حمائتی اور مددگار نہیں پائے گا۔ النساء۔) نازل ہوئی تو مسلمانوں پر شاق گزرا۔ چنانچہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا اظہار کیا آپ نے فرمایا تمام امور میں افراط وتفریط سے بچو اور استقامت کی دعا کرو۔ مومن کی ہر آزمائش میں اسکے گناہوں کا کفارہ ہے، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا چبھ جائے یا کوئی مشکل پیش آجائے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ابن محیصن کا نام عمر بن عبدالرحمن بن محیصن ہے۔
Sayyidina Abu Huraira (RA) said about the verse: "He who does evil shall be recompensed for it." (4: 123) He said that when it was revealed, it seemed hard upon the Muslim s, They complained to the Prophet (SAW) about it. He said, “Do not go to the extremes. Keep to the straight path. And everything that afflicts a believer is an expiabion, even a thorn that pricks him, or a difficulty he encounters.’
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ أَخْبَرَنِي مَوْلَی ابْنِ سِبَاعٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ مَنْ يَعْمَلْ سُوئًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا بَکْرٍ أَلَا أُقْرِئُکَ آيَةً أُنْزِلَتْ عَلَيَّ قُلْتُ بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَأَقْرَأَنِيهَا فَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنِّي قَدْ کُنْتُ وَجَدْتُ انْقِصَامًا فِي ظَهْرِي فَتَمَطَّأْتُ لَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُکَ يَا أَبَا بَکْرٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَأَيُّنَا لَمْ يَعْمَلْ سُوئًا وَإِنَّا لَمُجْزَوْنَ بِمَا عَمِلْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا أَنْتَ يَا أَبَا بَکْرٍ وَالْمُؤْمِنُونَ فَتُجْزَوْنَ بِذَلِکَ فِي الدُّنْيَا حَتَّی تَلْقَوْا اللَّهَ وَلَيْسَ لَکُمْ ذُنُوبٌ وَأَمَّا الْآخَرُونَ فَيُجْمَعُ ذَلِکَ لَهُمْ حَتَّی يُجْزَوْا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمَوْلَی ابْنِ سِبَاعٍ مَجْهُولٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي بَکْرٍ وَلَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ أَيْضًا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ-
یحیی بن موسیٰ وعبد بن حمید، روح بن عبادة، موسیٰ بن عبیدة، مولی ابن سباع، عبداللہ بن عمر، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی (مَنْ يَّعْمَلْ سُوْ ءًا يُّجْزَ بِه وَلَا يَجِدْ لَه مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا) 4۔ النساء : 123) چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوبکر کیا میں تمہیں ایسی آیت نہ پڑھاؤں جو مجھ پر نازل ہوئی ہے؟ عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ آیت پڑھائی۔ پھر مجھے کچھ معلوم نہیں ہے مگر یہ کہ میں نے اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس کی اور انگڑائی لی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ابوبکر کیا ہوا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں، باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر قربان ہوں۔ ہم میں سے کون ہے جو برائی نہیں کرتا۔ تو کیا ہمیں تمام اعمال کی سزا دی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر تمہیں اور مسلمانوں کو دنیا میں اسکا بدلہ دیا جائے گا تاکہ تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت گناہوں سے پاک ہو۔ لیکن دوسرے لوگوں کی برائیاں جمع کی جائیں گی تاکہ انہیں قیامت کے دن بدلہ دیا جائے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ اور اسکی سند پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ یحیی بن سعید اور امام احمد نے موسیٰ بن عبید کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ ابن سباع کے مولی مجہول ہیں۔ پھر یہ حدیث ایک اور سند سے بھی صحیح نہیں اور اس باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی روایت ہے۔
Sayyidina Abu Bakr as-Siddiq narrated: I was with the Prophet (SAW) when this verse was revealed to him:"He who does evil shall be recompensed for it, and shall not find besides Allah, a protector or a helper." (4: 123) Allah’s Messenger (SAW) said, “O Abu Bakr, shall I not get you to recite a verse revealed to me?” I said, “Of course, O Messenger of Allah (SAW) .” He made me recite it and I do not recall anything but my back broke down and I stretched my limbs. I-Ic asked me, “What is the matter. O Abu Bakr?” I said, “O Messenger of Allah (SAW) may my parents be ransomed to you which of us does riot do evil? Shall we be recompensed with what we do?” Allah’s Messenger (SAW) said, “O Abu Bakr, as for you and the believers, you will be recompensed for it in the world itself so that when you meet your Lord, you do not have a sin against you. And as for the others, their evil will be gathered for them so that they get their recompense on the Day of Resurrection.”
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَشِيَتْ سَوْدَةُ أَنْ يُطَلِّقَهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَا تُطَلِّقْنِي وَأَمْسِکْنِي وَاجْعَلْ يَوْمِي لِعَائِشَةَ فَفَعَلَ فَنَزَلَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ فَمَا اصْطَلَحَا عَلَيْهِ مِنْ شَيْئٍ فَهُوَ جَائِزٌ کَأَنَّهُ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ-
محمد بن مثنی، ابوداؤد طیالسی، سلیمان بن معاذ، سماک، عکرمة، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں طلاق دے دیں گے پس انہوں نے عرض کیا کہ مجھے طلاق نہ دیجئے اپنے نکاح میں رہنے دیجئے اور میری باری عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیجئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ) 4۔ النساء : 128) (یعنی دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح صلح کرلیں اور یہ صلح بہتر ہے۔) لہذا جس چیز پر انکی صلح ہو وہ جائز ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
Sayyidina lbn Abbas (RA) reported that Sayyidah Sawdah (RA) became apprehensive that the Prophet (SAW) might divorce her. She pleaded with him, ‘Do not, divorce me. but retain me and assign my day to Avshah. He did that and the verse was revealed:"There is no blame on the couple if they effect between them a reconciliation; and recomciliation is better (than discord). "(4: 128) Hence, that on which they reconciled is allowed. The quotes are as if the saying of lbn Abbas.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنْ أَبِي السَّفَرِ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ آخِرُ آيَةٍ أُنْزِلَتْ أَوْ آخِرُ شَيْئٍ نَزَلَ يَسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللَّهُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلَالَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ وَيُقَالُ ابْنُ يُحْمِدَ-
عبد بن حمید، ابونعیم، مالک بن مغول، ابوسفر، حضرت براءرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آخری آیت یہ نازل ہوئی۔ (يَسْتَ فْتُوْنَكَ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ) 4۔ النساء : 176) یہ حدیث حسن ہے اور ابوسفر کا نام سعید بن احمد ہے بعض نے انہیں ابن یحمد ثوری بھی کہا ہے۔
Sayvidina Bara (RA) said: The last verse revealed or the last thing revealed was: "They ask you for a pronouncement. Say Allah pronounces to you concerning (the inheritance of) a kalalah (who has no parents and no child)." (4: 176)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللَّهُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلَالَةِ فَقَال لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُجْزِئُکَ آيَةُ الصَّيْفِ-
عبد بن حمید، احمد بن یونس، ابوبکر بن عیاش، ابواسحاق ، حضرت براءرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کی تفسیر کیا ہے (يَسْتَ فْتُوْنَكَ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ) 4۔ النساء : 176) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے وہ آیت کافی ہے جو گرمیوں میں نازل ہوئی۔
Sayyidina Bara (RA) reported that a man came and submitted. ‘O Messenger of Allah (SAW) , explain to me the verse. (4: 176) He said: For you that verse is enough which was revealed during summar.’ --------------------------------------------------------------------------------