باب سورت بقرہ کے متعلق

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الْوَهَّابِ قَالُوا حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيُّ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ فَجَائَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الْأَرْضِ فَجَائَ مِنْهُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِکَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمد بن بشار، یحیی بن سعید و ابن ابی عدی و محمد بن جعفر، عبدالوہاب، عوف بن ابی جمیلة اعرابی، قسامة بن زہیر، حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو (مٹی کی) مٹھی سے پیدا کیا جسے اس نے پوری زمین سے اکٹھا کیا، اس لئے اولادِ آدم میں سے کوئی سرخ رنگ کا ہے کوئی سفید ہے تو کوئی کالا ہے اور کوئی ان رنگوں کے درمیان، اسی طرح کوئی نرم مزاج ہے تو کوئی سخت، کوئی خبیث اور کوئی طیب۔ امام ابوعیسی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Musa al-Ash’ari (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “Indeed, Allah created Adam (AS) from a fistful (of dust) which he took from all over the earth. Thus, there are among them (children of Adam), the red (coloured), the white, the black and those between these (colours) and the mild and the rugged, and the evil and the good.” [Ahmed 19599,Abu Dawud 4693]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا قَالَ دَخَلُوا مُتَزَحِّفِينَ عَلَى أَوْرَاكِهِمْ أَيْ مُنْحَرِفِينَ-
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا (سجدہ کرتے ہوئے دروازے میں داخل ہو جاؤ) کی تفیسر میں فرمایا کہ بنی اسرائیل اپنے کولہوں پر گھسٹے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے یعنی انحراف کرتے ہوئے،
Sayyidina Abu Huraira (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said about the verse ‘Enter the gate prostrating’ (2 :58), “The Banu Isra’il entered dragging themselves on their buttocks - that is, deviating.’ [Bukhari 4641, 3015,Ahmed 8237]
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ قَالَ قَالُوا حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
اس سند سے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ (یعنی ان (ظالم) لوگوں نے اس قول کو بدل دیا جو ان سے کہا گیا تھا) کی تفسیر میں منقول ہے کہ انہوں نے حبة فی شعیرة (جو میں دانہ) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
-
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ السَّمَّانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّی کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَی حِيَالِهِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَکَرْنَا ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ أَبِي الرَّبِيعِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَشْعَثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ-
محمود بن غیلان، وکیع، اشعث سمان، عاصم بن عبید اللہ، حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک اندھیری رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، ہم میں سے کسی کو قبلے کی سمت معلوم نہیں تھی، لہذا جس کا جدھر منہ تھا، اسی طرف نماز پڑھ لی، صبح ہوئی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی (فَاَيْنَ مَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ) 2۔ البقرۃ : 115) (تم جس طرف بھی منہ کرو گے اسی طرف اللہ کا چہرہ ہے) یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اشعث بن سمان ربیع کی روایت سے جانتے ہیں اور یہ ضعیف ہے۔
Sayyidina Aamir ibn Rabi’ah (RA) narrated: We were with the Prophet (SAW) in a journey on a dark night. So, we could not make out where the qiblah was. So, every one of us prayed in the direction he faced. When it was morning, we mentioned that to Allah’s Messenger (SAW). So, the verse was revealed: “So, withersoever you turn, there is Allah’s countenance.” (2: 115) [Muslim 701, Bukhari 1093]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَی رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ وَهُوَ جَائٍ مِنْ مَکَّةَ إِلَی الْمَدِينَةِ ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عُمَرَ هَذِهِ الْآيَةَ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ الْآيَةَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ فَفِي هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ قَالَ قَتَادَةُ هِيَ مَنْسُوخَةٌ نَسَخَهَا قَوْلُهُ فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَيْ تِلْقَائَهُ حَدَّثَنَا بِذَلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ وَيُرْوَی عَنْ مُجَاهِدٍ فِي هَذِهِ الْآيَةِ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ قَالَ فَثَمَّ قِبْلَةُ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِذَلِکَ أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ النَّضْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ عَنْ مُجَاهِدٍ بِهَذَا-
عبد بن حمید، یزید بن ہارون، عبدالملک بن ابی سلیمان، سعید بن جبیر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز سواری پر ہی پڑھ لیتے تھے خواہ اس کا منہ کسی طرف بھی ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف آ رہے تھے پھر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت پڑھی"وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ الْآيَةَ" (اللہ ہی کے لئے مشرق اور مغرب) اور فرمایا یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور قتادہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ آیت "وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَيْنَ مَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ " 2۔ البقرۃ : 115) (اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے) سے منسوخ ہے۔ یہ قول محمد بن عبدالملک بن شوا رب بن یزید بن زریع سے وہ سعید سے اور وہ قتادہ سے نقل کرتے ہیں۔ جب کہ مجاہد اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس مراد یہ ہے کہ جس طرف بھی منہ کرو گے اسی طرف قبلہ ہے یعنی اپنا تمہاری نماز قبول ہوگی۔ یہ قول ابوکریب وکیع سے وہ نضر بن عربی سے اور وہ مجاہد سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that the Prophet (SAW) used to offer the optional salah on his riding beast whichever direction it faced. He was going from Makkah to Madinah. Then, lbn Umar (RA) recited this verse: "And to Allah belong the East and the West." (2 115) Ibn Umar (RA) said, “This verse was revealed concerning this (situation).” [Ahmed 4714,Bukhari 402,Nisai 487, Ibn e Majah 1009]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ صَلَّيْنَا خَلْفَ الْمَقَامِ فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، حجاج بن منہال، حماد بن سلمة، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش کہ ہم مقامِ ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی " وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰه مَ مُصَلًّى" 2۔ البقرۃ : 125) (مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ مقرر کرو) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Anas (RA) narrated that Umar (RA) ibn Khattab yearned, “O Messenger of Allah (SAW) ! Would that we prayed behind the Station of Ibrahim.” So the verse was revealed: “And take ye the station of Abraham as a place of prayer.” (2 : 125)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ-
احمد بن منیع، ہشیم، حمید طویل، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش آپ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بناتے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی" 2۔ البقرۃ : 125) یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
Ahmad ibn Mani’ reported from Hushaym, from Humayed at-Jawil, from Anas (RA) He said that Umar (RA) ibn Khattab narrated : I said, “O Messenger of Allah (SAW) , would that you took the Maqam Ibrahim as a place of prayer (Musallah).” So this verse was revealed: “And take ye the station of Abraham as a place of prayer.” (2 : 125) [Ahmed 1068, 11211, Ibn e Majah 4284]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا قَالَ عَدْلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن منیع، ابومعاویة، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت کریمہ "وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا " (ترجمہ اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا) کی تفسیر میں فرمایا کہ وسطا سے مراد عدلا عادل سے مراد یعنی نہ افراط نہ تفریط بلکہ دونوں کے درمیان) ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Saeed (RA) reported that the Prophet (SAW) said in explanation of “Thus, have We made of you an Ummat justly balanced” (2:143)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْعَی نُوحٌ فَيُقَالُ هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُدْعَی قَوْمُهُ فَيُقَالُ هَلْ بَلَّغَکُمْ فَيَقُولُونَ مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ فَيُقَالُ مَنْ شُهُودُکَ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ قَالَ فَيُؤْتَی بِکُمْ تَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ فَذَلِکَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَی وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُهَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُونَ الرَّسُولُ عَلَيْکُمْ شَهِيدًا وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَهُ-
عبد بن حمید، جعفربن عون، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن حضرت نوح علیہ السلام کو بلایا اور پوچھا جائیگا کہ کیا آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ کہیں گے ہاں۔ پر ان کی قوم کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ کیا نوح علیہ السلام نے تمہیں پیغام پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی ڈرانے والا کوئی اور نہیں آیا۔ پھر نوح علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ آپ کے گواہ کون ہیں۔ وہ عرض کریں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت۔ پھر تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تھا۔ یہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہے "وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا "۔ (اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم پر گواہ ہوں) وسط سے مراد عدل ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ محمد بن بشار بھی جعفر بن عون سے اور وہ اعمش سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔
Sayyidina Abu Sa’eed (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said: Nuh (AS) will be called (on the Day of Resurrection) and asked, “Had you conveyed (My Message)?” He will say, “Yes.” His people will be summoned and asked, “Did he convey to you?” They will say, “No warner came to us. No one came to us.” So, it will be said, “Who is your witness?” He will say, “Muhammad and his ummah.” So, you people will be summoned and you will testify that he did convey. This is as the saying of Allah, the Blessed and Exalted: “Thus, have We made of you an Ummat justly balanced, that ye might be witnesses over the nations, and the Messenger a witness over yourselves.” (2:143) And (wast) mid-most is ‘justly balanced’.
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ صَلَّی نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَی الْکَعْبَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِي السَّمَائِ فَلَنُوَلِّيَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَوُجِّهَ نَحْوَ الْکَعْبَةِ وَکَانَ يُحِبُّ ذَلِکَ فَصَلَّی رَجُلٌ مَعَهُ الْعَصْرَ قَالَ ثُمَّ مَرَّ عَلَی قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُمْ رُکُوعٌ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَقَالَ هُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ صَلَّی مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ قَدْ وُجِّهَ إِلَی الْکَعْبَةِ قَالَ فَانْحَرَفُوا وَهُمْ رُکُوعٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ-
ہناد، وکیع، اسرائیل، ابواسحاق ، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو سولہ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے لیکن چاہتے تھے کہ انہیں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی "قَدْ نَرٰى تَ قَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَا ءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ " 2۔ البقرۃ : 144)۔ (یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ (باربار) آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہذا اپنا چہرہ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیجئے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخ اسی قبلے کی طرف کر دیا گیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے تھے۔ پھر ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی اس کے بعد اس کا گزر انصار کی ایک جماعت پر ہوا جو عصر کی نماز پڑھ رہے تھے اور رکوع میں تھے۔ ان کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا۔ اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے بھی اپنے چہرے قبلے کی طرف پھیر لئے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ سفیان ثوری اسے ابواسحاق سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Bara (RA) narrated: When Allah’s Messenger (SAW) came to Madinah, he offered salah facing Bayt ul-Maqdis for sixteen or seventeen months. And, he loved to turn to the Ka’bah. So, Allah, the Majestic, the Glorious, revealed: “We see the turning of thy face (for guidance to the heavens: now Shall We turn thee to a Qibla that shall please thee. Turn then Thy face in the direction of the sacred Mosque” (2:144) Hence his face was turned towards the qiblah and he used to like that. Thus, a man who had prayed with him the asr thereafter passed by a group of Ansar and they were in ruku in their salah of asr facing Bayt al-Maqdis. So he said to them that he testified that he had prayed with Allah’s Messenger (SAW) and he had faced the ka’bah. So, they turned while they were in ruku. [Ahmed 5941,Bukhari 90,Muslim 525,Nisai 292, Ibn e Majah 1010] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانُوا رُکُوعًا فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَعُمَارَةَ بْنِ أَوْسٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ہناد، وکیع، سفیان، عبداللہ بن دینار، ابن عمر ہم سے روایت کی ہناد نے ان سے وکیع نے ان سے سفیان نے وہ عبداللہ بن دینار سے اور وہ ابن عمر رضی اللّہ تعالیٰ عنہ نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ (لوگ) فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اور رکوع میں تھے۔ اس باب میں حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمارہ بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
Hannad reported from Waki', from Sufyan from Abdullah bin Dinar, from Ibn Umar (RA) that he said, "They were in the Ruku' in the Salah of Fajr."
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا وُجِّهَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی الْکَعْبَةِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ بِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی وَمَا کَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَکُمْ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ہناد و ابوعمار، وکیع، اسرائیل سماک، عکرمة، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب قبلہ تبدیل ہوگیا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ان بھائیوں کا کیا ہوگا جو بیت المقدس کی طرف چہرے (رخ) کر کے نماز پڑھتے تھے اور اس حکم سے (قبلہ کی تبدیلی) پہلے فوت ہوگئے۔ اس پر آیت نازل ہوئی "وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِ يُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ" 2۔ البقرۃ : 143) ۔ (یعنی اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمانوں کو ضائع کر دے) ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated: When the Prophet (SAW) was turned towards the Ka’bah, the sahabah said, “O Messenger of Allah (SAW) , how will it be with our brothers who have died and they had been praying towards Bayt al-Maqdis?” So, Allah, the Exalted revealed: “And never would Allah Make your faith of no effect.” (2:143)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَال سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ مَا أَرَی عَلَی أَحَدٍ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ شَيْئًا وَمَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ وَإِنَّمَا کَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَلَوْ کَانَتْ کَمَا تَقُولُ لَکَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا قَالَ الزُّهْرِيُّ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِأَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَأَعْجَبَهُ ذَلِکَ وَقَالَ إِنَّ هَذَا الْعِلْمُ وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ إِنَّمَا کَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنْ الْعَرَبِ يَقُولُونَ إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ وَقَالَ آخَرُونَ مِنْ الْأَنْصَارِ إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأُرَاهَا قَدْ نَزَلَتْ فِي هَؤُلَائِ وَهَؤُلَائِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، زہری، حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللّہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا کہ میں صفاومروہ کے درمیان سعی نہ کرنے والے پر اس عمل میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھتا۔ نیز میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے درمیان سعی نہ کروں۔ انہوں نے فرمایا اے بھانجے تو نے کتنی غلط بات کہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفاء اور مروہ کے درمیان سعی کی پھر اس کے بعد مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ہاں زمانہ جاہلیت میں جو سرکش مناة (بت) کے لئے لبیک کہتا تھا وہ صفاء و مروہ کے درمیان سعی نہیں کرتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی "فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا۔" 2۔ البقرۃ : 15) (جو حج بیت اللہ کرے یا عمرہ ادا کرے اس پر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے پر کوئی گناہ نہیں) اگر ایسا ہی ہوتا جیسا کہ تم کہ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتے "فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا " (یعنی اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ صفا و مروہ کی سعی نہ کرے) زہری کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابوبکربن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کے سامنے بیان کی تو انہوں نے اسے بہت پسند کیا اور فرمایا اس میں بڑا علم ہے۔ میں نے کچھ علماء کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عرب میں سے جو لوگ صفاومروہ کے درمیان سعی نہیں کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ ان دو پتھروں کے درمیان سعی کرنا امور جاہلیت میں سے ہے اور انصار میں سے کچھ لوگ کہتے کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ صفا ومروہ کا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی "اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَا ى ِرِاللّٰهِ ۔" 2۔ البقرۃ : 158) (یعنی صفاومروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔) ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ آیت انہی لوگوں کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Urwah narrated: I submitted to Sayyidah Aisha (RA), “I see no wrong in one who does not make the round of Safa and Marwah and I do not mind not making these rounds.” She said, ‘O nephew, how sad a thing you have spoken! Allah’s Messenger (SAW) had made the rounds and the Muslim s have been making the rounds. Only he who had called the Labbayk for Manah - the idol in Mushallal - did not make the rounds between Safa and Marwah; so Allah, the Blessed and the Exalted, revealed: “So if those who visit the House in the Season or at other times, should compass them round, it is no sin in them.” (2: 158) And, if it was as you say then it would have been: There is no blame on him if he does not go round them.(But it is not so). [Ahmed 25166,Bukhari 1643,Muslim 1277,Nisai 2967, Ibn e Majah 2986] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَکِيمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ عَنْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَالَ کَانَا مِنْ شَعَائِرِ الْجَاهِلِيَّةِ فَلَمَّا کَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَکْنَا عَنْهُمَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا قَالَ هُمَا تَطَوُّعٌ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاکِرٌ عَلِيمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، یزید بن ابی حکیم، سفیان، حضرت عاصم احول کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صفاومروہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ زمانہ جاہلیت کی نشانیوں میں سے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم نے ان کا طواف چھوڑ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی"إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ" 2۔ البقرۃ : 158) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ان کے درمیان سعی کرنا نفل عبادت ہے اور جو کوئی نفل نیکی کرے اللہ تعالیٰ قبول فرمانے والا ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Aasim Ahwal narrated: I asked Anas (RA) ibn Malik about Saf a and Marwah. He said, “They were the symbols of the jahiliyah. When Islam became (our) religion, we abandoned them, but Allah, Blessed and Exalted, revealed: “Behold! Safa and Marwa are among the Symbols of Allah. So if those who visit the House in the Season or at other times, should compass them round, it is no sin in them.” (2:158) Anas (RA) continued; “And if any one obeyeth his own impulse to good,- be sure that Allah is He Who recogniseth and knoweth.” (2: 158) [Bukhari 1648,Muslim 1278] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَکَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی فَصَلَّی خَلْفَ الْمَقَامِ ثُمَّ أَتَی الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ قَالَ نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ وَقَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، جعفربن محمد، محمد، حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر یہ آیت پڑھی"وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰه مَ مُصَلًّى" 2۔ البقرۃ : 125) (اور تم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ قرار دو) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی پھر آئے اور حجر اسود کو بوسہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہم بھی وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع ) کیا اور یہ آیت پڑھی "إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ۔" 2۔ البقرۃ : 158)یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) narrated: I heard that when Allah’s Messenger (SAW) came to Makkah, he circumambulated the House seven times. He recited: “and take ye the station of Abraham as a place of prayer.” (2 : 125) And he offered salah behind the maqam. Then he came to the Hajar (Black Stone), made the istilam and said, “We begin with what Allah had begun.” And he recited. “Behold! Safa and Marwa are among the Symbols of Allah” (2: 158) [Abu Dawud 3969, Ibn e Majah 1098]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ کَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا کَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرَ لَمْ يَأْکُلْ لَيْلَتَهُ وَلَا يَوْمَهُ حَتَّی يُمْسِيَ وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ کَانَ صَائِمًا فَلَمَّا حَضَرَ الْإِفْطَارُ أَتَی امْرَأَتَهُ فَقَالَ هَلْ عِنْدَکِ طَعَامٌ قَالَتْ لَا وَلَکِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَکَ وَکَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ وَجَائَتْهُ امْرَأَتُهُ فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ خَيْبَةً لَکَ فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ غُشِيَ عَلَيْهِ فَذَکَرَ ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ أُحِلَّ لَکُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَائِکُمْ فَفَرِحُوا بِهَا فَرَحًا شَدِيدًا وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَکُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، عبداللہ بن موسی، اسرائیل بن یونس، ابواسحاق ، حضرت براء رضی اللّہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جب کوئی روزہ رکھتا پھر افطار کئے بغیر سو جاتا تو وہ دوسری شام تک رات دن کچھ نہ کھاتا۔ حضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزہ دار تھے افطار کے وقت اپنی بیوی کے پاس تشریف لائے اور پوچھا کیا تیرے پاس کھانا ہے۔ اس نے کہا۔ نہیں۔ لیکن میں جا کر تلاش کرتی ہوں۔ سارا دن کام کرنے کی وجہ سے حضرت قیس بن صرمہ کو نیند آ گئی۔ جب آپ کی زوجہ واپس آئی تو (سوئے ہوئے) دیکھ کر کہا ہائے تمہاری محروی۔ پھر جب دوسرے دن دوپہر کا وقت ہوا تو وہ بیہوش ہوگئے۔ چنانچہ اسکا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا گیا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ احل لکم۔ تم لوگوں کیلئے روزوں کی راتوں اپنی بیویوں سے (محبت کرنا) حلال کر دیا گیا ہے۔ اس پر وہ لوگ بہت خوش ہوئے نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَا ى ِكُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ) 2۔ البقرۃ : 187) (یعنی کھاؤ) اور پیو یہاں تک کہ تم لوگوں کیلئے سفید خط سیاہ خط سے متمیز ہو جائے۔ (یعنی واضح ہو جائے) ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Bara narrated: If one of the sahabah of the Prophet (SAW) was fasting and when the time of iftar found him sleeping, he would not eat anything in the night nor the next day till it was evening (and time to break fast). Qays ibn Sirmah Ansari was fasting. When it was time for iftar, he went to his wife and asked. “Is there with you anything to eat?” She said, “No, but I will go and seek for you.” He had toiled all day, so sleep overtook him. His wife returned and when she saw him (sleeping). She said, “Your misfortune!” When it was noon next day, he fell unconscious. This was mentioned to the Prophet (SAW) and this verse was revealed. “Permitted to you, on the night of the fasts, is the approach to your wives.” (2 :187) This made them very happy. “And eat and drink, until the white thread of dawn appear to you distinct from its black thread; then complete your fast Till the night appears” (2: 187) [Bukhari 1915,Abu Dawud 2314,Nisai 2167, Ahmed 18634]
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ذَرٍّ عَنْ يُسَيِّعٍ الْکِنْدِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَکُمْ قَالَ الدُّعَائُ هُوَ الْعِبَادَةُ وَقَرَأَ وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِلَی قَوْلِهِ دَاخِرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ہناد، ابومعاویة، اعمش، ذر، یسیع کندی، حضرت نعمان بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ" 40۔غافر : 60) (یعنی تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا) کی تفسیر میں فرمایا کہ دعا ہی اصل عبادت ہے اور یہ آیت "وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِلَی قَوْلِهِ دَاخِرِينَ" 40۔غافر : 60) تک پڑھی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Nu’man ibn Bashir (RA) reported that the Prophet (SAW) said about Allah’s words: “And your Lord says: "Call on Me; I will answer your (Prayer)” (40 : 60) “Prayer (supplication) is worship”, and he recited: "Call on Me; I will answer your (Prayer): but those who are too arrogant to serve Me will surely find themselves in Hell - in humiliation!"(40: 60) [Abu Dawud 1479, Ibn e Majah 3828]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَخْبَرَنَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَکُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا ذَاکَ بَيَاضُ النَّهَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّيْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن منیع، ہشیم، حصین، شعبی حضرت عدی بن حاتم سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی "حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ" 2۔ البقرۃ : 187) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اس سے مراد رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی کا ظاہر ہونا ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sha’bi reported from Adi bn Hatim (RA) that when the verse. “and eat and drink, until the white thread of dawn appear to you distinct from its black thread; then complete your fast Till the night appears” (2: 187)was revealed, the Prophet (SAW) said to him. That is only the light of day emerging out of the darkness of night. [Ahmed 19392,Bukhari 1916,Muslim 1090,Abu Dawud 2349]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِکَ-
احمد بن منیع، ہشیم، مجالد، شعبی، عدی بن حاتم سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے مثل حدیث نقل کرتے ہیں۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّوْمِ فَقَالَ حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَکُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ قَالَ فَأَخَذْتُ عِقَالَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْيَضُ وَالْآخَرُ أَسْوَدُ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِمَا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ سُفْيَانُ قَالَ إِنَّمَا هُوَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، مجالد، شعبی، حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی "حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَکُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔ 2۔ البقرۃ : 187)(ترجمہ۔ یعنی کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ظاہر ہو جائے سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے۔ اس سے مراد ہے کہ رات کی تاریکی چلی جائے اور صبح کی سفیدی نمودار ہو جائے) چنانچہ میں نے دو رسیاں رکھ لیں ایک سفید اور ایک کالی اور رات کے آخر میں انہیں دیکھنے لگتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے کچھ کہا لیکن یہ بات سفیان کو یاد نہیں رہی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے مراد رات اور دن ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Adi ibn Hatim (RA) narrated: I asked Allah’s Messenger (SAW) about fasting. He said: "Until the white thread of dawn appear to you distinct from its black thread.” (2 : 187) So, I took two pieces of cord-a white and a black and kept observing them. Allah’s Messenger (SAW) said something to me - but the sub-narrator Sufyan forgot it. He said, “That is only night and day.” [Bukhari 4510]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ قَالَ کُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَکْثَرُ وَعَلَی أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ وَعَلَی الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَی صَفِّ الرُّومِ حَتَّی دَخَلَ فِيهِمْ فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا سُبْحَانَ اللَّهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَی التَّهْلُکَةِ فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَتَأَوَّلُونَ هَذِهِ الْآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَکَثُرَ نَاصِرُوهُ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَکَثُرَ نَاصِرُوهُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَی نَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيکُمْ إِلَی التَّهْلُکَةِ فَکَانَتْ التَّهْلُکَةُ الْإِقَامَةَ عَلَی الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِهَا وَتَرْکَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّی دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ-
عبد بن حمید، ضحاک بن مخلد ابوعاصم نبیل، حیوة بن شریح، یزید بن ابی حبیب، حضرت اسلم ابوعمران کہتے ہیں کہ ہم جنگ کیلئے روم گئے ہوئے تھے رومیوں کی فوج میں سے ایک بڑی صف مقابلے کیلئے نکلی جن سے مقابلے کیلئے مسلمانوں میں سے بھی اتنی ہی تعداد میں یا اس سے زیادہ آدمی نکلے۔ ان دنوں مصر پر عقبہ بن عامر حاکم تھے جبکہ لشکر کے امیر فضالہ بن عبید تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے روم کی صف پر حملہ کر دیا یہاں تک کہ انکے اندر چلا گیا۔ اس پر لوگ چیخنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ خود کو اپنے ہاتھ سے ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ چنانچہ ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو تم لوگ اس آیت کی یہ تفسیر کرتے ہو (وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ) 2۔ البقرۃ : 195)۔ (یعنی تم خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو) ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت ہم انصار کے متعلق نازل ہوئی اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا اور اس کے مددگاروں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ تو ہم لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا اور اس کی مدد کرنے والے بہت ہیں اور ہمارے اموال (کھیتی باڑی وغیرہ) ضائع ہوگئے ہیں۔ ہمارے لئے بہتر ہوگا کہ ہم ان کی اصلاح کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بات جواب کے میں یہ آیت نازل فرمائی "وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيکُمْ إِلَی التَّهْلُکَةِ" 2۔ البقرۃ : 195) (یعنی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو) چنانچہ ہلاکت یہ تھی کہ ہم اپنے احوال اور کھیتی باڑی کی اصلاح میں لگ جائیں اور جنگ و جہاد کو ترک کر دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ جہاد ہی میں رہے یہاں تک کہ دفن بھی روم ہی کی سر زمین میں ہوئے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Aslam Abu Imran Tujibi (RA) narrated: We were in Rome and a mighty unit of their army advanced. So, a similar large number of the Muslim s - or a larger number - countered them. At the time the governor of Egypt was Uqbah ibn Aamir and the commander of the army was Fadalah ibn Ubayd. A man of the Muslim s penetrated the ranks of the army of the Romans. So the people shrieked. “Subhan Allah. He has thrown himself into ruin.” So, Abu Ayyub Ansari (RA) stood up and said, “O People! You interpret this verse as you say while, in fact, it was revealed about us, Ansars. When Allah gave honour to Islam and the supporters of Islam mutiplied, some of us said to some others, unknown to Allah’s Messenger (SAW) that our properties had been wasted after Allah had given honour to Islam and multiplied its supporters, we should repair our fields and properties that had been wasted. So Allah revealed to His Prophet (SAW) in answer to our fears: “And spend of your substance in the cause of Allah, and make not your own hands contribute to (your) destruction.” (2 :195) The destruction was that we should devote ourselves to repair of our properties and neglect the battles. Abu Ayyub did not cease to fight in Allah’s way till he was buried in the land of Rome. [Abu Dawud 2512]
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ کَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَفِيَّ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِيَّايَ عَنَی بِهَا فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًی مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُکٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِکُونَ وَکَانَتْ لِي وَفْرَةٌ فَجَعَلَتْ الْهَوَامُّ تَسَاقَطُ عَلَی وَجْهِي فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ کَأَنَّ هَوَامَّ رَأْسِکَ تُؤْذِيکَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاحْلِقْ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَ مُجَاهِدٌ الصِّيَامُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَالطَّعَامُ لِسِتَّةِ مَسَاکِينَ وَالنُّسُکُ شَاةٌ فَصَاعِدًا-
علی بن حجر، ہشیم، مغیرة، حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ آیت میرے ہی متعلق نازل ہوئی " فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِه اَذًى مِّنْ رَّاْسِه فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ " 2۔ البقرۃ : 196) (ترجمہ۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اسکے سر میں تکلیف ہو تو روزے، خیرات یا قربانی سے اسکا فدیہ ادا کرو) ۔ کہتے ہیں کہ ہم صلح حدیبیہ کے مواقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھے۔ ہمیں مشرکین نے روک دیا۔ میرے بال کانوں تک لمبے تھے اور جوئیں میرے منہ پر گرنے لگیں تھیں۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور دیکھا تو فرمایا لگتا ہے کہ تمہارے سر کی جوئیں تمہیں اذیت (تکلیف) دے رہی ہیں۔ عرض کیا۔ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو پھر بال منڈوا دو۔ اس طرح یہ آیت نازل ہوئی۔ مجاہد کہتے ہیں کہ روزے تین دن کے، کھانا کھلائے تو چھ مسکینوں کو اور قربانی کرے تو ایک بکری یا اس سے زیادہ۔
Mujahid reported that Sayyidina Ka’b ibn Ujrah narrated: By Him Who has my soul in His hand this verse was revealed concerning myself: “And if any of you is ill, or has an ailment in his scalp, (Necessitating shaving), (He should) in compensation either fast, or feed the poor, or offer sacrifice” (2:196). We were with the Prophet (SAW) at Hudaybiyah while we had assumed the ihram and the idolators had besieged us. My hair were long up to the ears. Lice had infested them and (were so many that they) fell on my face. The Prophet (SAW) passed by and said. “It seems the lice on your head are menacing you.” I said, “Yes” He said, “So shave your hair off”, and this verse was revealed. Mujahid said, “Fasting is three days while alms are to feed six needy people, offering is one goat - or more.” [Bukhari 1816,Muslim 1201, Ibn e Majah 3079,Ahmed 18132]
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ ذَلِکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
علی بن حجر، ہشیم، ابوبشیر، مجاہد، عبدالرحمن بن لیلی، کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی علی بن حجرنے ان سے ہشیم نے وہ ابوبشیر وہ مجاہد وہ عبدالرحمن بن لیلی اور وہ کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی کی مانند حدیث نقل کرتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ ذَلِکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَصْبِهَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ نَحْوَ هَذَا-
علی بن حجر، ہشیم، اشعث بن سوار، شعبی، عبداللہ بن معقل، کعب بن عجرہ ہم سے روایت کی علی بن حجر نے ان سے ہشیم نے ان سے اشعث بن سوار نے انہوں نے شعبی سے انہوں نے عبداللہ بن معقل سے اور انہوں نے کعب بن عجرہ سے اسی کی مانند نقل کیا ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ عبدالرحمن بن اصبہانی بھی عبداللہ بن معقل سے روایت کرتے ہیں۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ أَتَی عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَی جَبْهَتِي أَوْ قَالَ حَاجِبَيَّ فَقَالَ أَتُؤْذِيکَ هَوَامُّ رَأْسِکَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاحْلِقْ رَأْسَکَ وَانْسُکْ نَسِيکَةً أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاکِينَ قَالَ أَيُّوبُ لَا أَدْرِي بِأَيَّتِهِنَّ بَدَأَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
علی بن حجر، اسماعیل، ایوب، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلی، کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی علی بن حجر نے ان سے اسماعیل نے وہ ایوب وہ مجاہد وہ عبدالرحمن بن ابی لیلی اور وہ کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ سلگارہا تھا اور جوئیں میری پیشانی پر جھڑ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟ عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا سر کے بال منڈوا دو اور قربانی کرو، دو یا تین روزے رکھ لو یا پھر چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ ابوایوب کہتے ہیں کہ مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ کون سی چیز پہلے فرمائی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Ali ibn Hujr reported from Ismail ibn Ibrahim, from Ayyub, from Mujahid, from Abdur Rahman ibn Abu Layla, from Ka’b ibn Ujrah that he said, “Allah’s Messenger (SAW) came to me while I was kindling a fire to cook a vessel and lice were falling down on my forehead. He asked me if they hurt me and I said that they did. He said that I should shave my head and make an offering, or fast for three days, or feed six needy people.” Ayyub did not remember which thing he mentioned first. [Ahmed 18130,Bukhari 1814, Muslim 1201,Abu Dawud 1856, Nisai 2848, Ibn e Majah 307]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ عَطَائٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ أَيَّامُ مِنًی ثَلَاثٌ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ أَدْرَکَ عَرَفَةَ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَکَ الْحَجَّ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ عَطَائٍ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُکَيْرِ بْنِ عَطَائٍ-
ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ ، سفیان ثوری، بکیر بن عطاء، حضرت عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ حج عرفات میں (ٹھہرنا) ہے اور منی کا قیام تین دن تک ہے لیکن اگر کوئی جلدی کرتے ہوئے دو دن میں ہی چلا گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور اگر تین دن تک قیام کرے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ نیز جو شخص عرفات میں طلوع فجر سے پہلے پہنچ گیا اس کا حج ہوگیا۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سفیان بن عیینہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ثوری کی بیان کردہ یہ حدیث بہت عمدہ ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے شعبہ نے بھی بکیر بن عطاء سے نقل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کو ہم صرف بکیر بن عطاء ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Abdur Rahman ibn Ya’mar (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “The Hajj is Arafat. The Hajj is Arafat. The Hajj is Arafat. The days of Mina are three days. “But if any one hastens to leave in two days, there is no blame on him, and if any one stays on, there is no blame on him” (2:203) And, he who reaches Arafat before rise of dawn has indeed performed Hajj. [Abu Dawud 1949,Nisai 3016, Ibn e Majah 3015]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَی اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، ابن جریج، ابن ملیکة، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھگڑالو (لڑائی جھگڑا کرنے والا) آدمی سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Aisha (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “The most hated of men in the sight of Allah is the most stubborn in altercation.” [Ahmed 24337,Bukhari 2157,Muslim 2668,Nisai 5438]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَتْ الْيَهُودُ إِذَا حَاضَتْ امْرَأَةٌ مِنْهُمْ لَمْ يُؤَاکِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبُيُوتِ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی وَيَسْأَلُونَکَ عَنْ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًی فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُؤَاکِلُوهُنَّ وَيُشَارِبُوهُنَّ وَأَنْ يَکُونُوا مَعَهُنَّ فِي الْبُيُوتِ وَأَنْ يَفْعَلُوا کُلَّ شَيْئٍ مَا خَلَا النِّکَاحَ فَقَالَتْ الْيَهُودُ مَا يُرِيدُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ قَالَ فَجَائَ عَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ بِذَلِکَ وَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَنْکِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ غَضِبَ عَلَيْهِمَا فَقَامَا فَاسْتَقْبَلَتْهُمَا هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَثَرِهِمَا فَسَقَاهُمَا فَعَلِمَا أَنَّهُ لَمْ يَغْضَبْ عَلَيْهِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ-
عبد بن حمید، سلیمان بن حرب، حماد بن سلمة، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر یہودیوں میں سے کوئی عورت ایام حیض میں ہوتی تو وہ لوگ نہ اسکے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ میل جول رکھتے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس مسئلے کے متعلق دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی" وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ ھُوَ اَذًى" 2۔ البقرۃ : 22) (یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے کہ یہ ناپاکی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے ساتھ کھایا پیا جائے اور انہیں گھروں میں اپنے ساتھ رکھا جائے نیز ان کے ساتھ جماع کے علاوہ سب کچھ (یعنی بوس وکنار وغیرہ) کرنا جائز ہے۔ اس پر یہودی کہنے لگے کہ یہ ہمارے ہر کام کی مخالفت کرتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عباد بن بشیر اور اسید بن حضیر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کے اس قول کی خبر دینے کے بعد عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم حیض کے ایام میں جماع بھی نہ کرنے لگیں تاکہ ان کی مخالفت پوری ہو جائے۔ یہ بات سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک غصے سے متغیر ہوگیا۔ یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ناراض ہوگئے ہیں اور پھر اٹھ کر چل دئیے۔ اسی وقت ان دونوں کیلئے دودھ بطور ہدیہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھیج دیا اور انہوں نے پیا۔ اس طرح ہمیں علم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ناراض نہیں ہیں۔ یہ حدیث حسن ہے۔ محمد بن عبدالاعلی اسے عبدالرحمن بن مہدی سے اور وہ حماد بن سلمہ سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Anas (RA) reported that if any of the Jewish women had her menses, they would not eat with her, not drink with her and not have her in their company. The Prophet (SAW) was asked about it and Allah, the Blessed the Exalted, revealed. “They ask thee concerning women's courses. Say: They are a hurt.” (2:222) So, Allah’s Messenger (SAW) commanded them that they should eat with the women and drink with them and be with them in the house and do everything except have sexual intercourse with them. The Jews commented that he did not intend but oppose their affairs. Abbad ibn Bashir and Usayd ibn Hudayr came to Allah’s Messenger (SAW) and informed him of that and suggested, “O Messenger of Allah (SAW) shall we not also have sexual intercourse with our women during their menstruation?” The face of Allah’s Messenger (SAW) changed colour and they imagined that he was angry at the two of them.O He stood up (and went away). A gift of milk was received at that moment for both of themand the Prophet (SAW) sent it for them. They drank it and learnt that he was not angry at them.” [Ahmed 12356,Muslim 302,Abu Dawud 258, Ibn e Majah 644] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ کَانَتْ الْيَهُودُ تَقُولُ مَنْ أَتَی امْرَأَتَهُ فِي قُبُلِهَا مِنْ دُبُرِهَا کَانَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ فَنَزَلَتْ نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، حضرت ابن منکدر کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہودی کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی بیوی سے پچھلی طرف سے اس طرح صحبت کرے کہ دخول قبل (یعنی آلہ تناسل کا دخول) اگلے حصہ میں ہی ہو تو اسکا بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی "نِسَا ؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ " 2۔ البقرۃ : 223) تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں لہذا اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو داخل کرو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Ibn Abu Umar (RA) reported from Sufyan from Ibn Munkadir that he heard Jabir (RA)say, “The Jews used to say that if anyone has sex with his wife from the front but comes from the rear then their child will be sequint eyed. So this verse was revealed; “Your wives are as a tilth unto you; so approach your tilth when or how ye will.” (2: 223) [Bukhari 21528, Muslim 1435,Abu Dawud 2163,Nisai 2163,Muslim 11038, Ibn e Majah 1925]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ ابْنِ سَابِطٍ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ يَعْنِي صِمَامًا وَاحِدًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَابْنُ خُثَيْمٍ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ وَابْنُ سَابِطٍ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَابِطٍ الْجُمَحِيُّ الْمَکِّيُّ وَحَفْصَةُ هِيَ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ وَيُرْوَی فِي سِمَامٍ وَاحِدٍ-
محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، ابن خثیم، ابن سابط، حفصة بن عبدالرحمن، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت (نِسَا ؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ) 2۔ البقرۃ : 223) کی تفسیر نقل کرتی ہیں کہ اس سے مراد ایک ہی سوراخ (میں داخل کرنا) ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابن خثیم کا نام عبداللہ بن عثمان بن خثیم ہے اور ابن سابط وہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن سابط جمحی مکی ہیں اور حفصہ وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں۔ بعض روایات میں فی سمام واحد کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
Sayyidah Umm Salamah (RA) reported the Prophet’s (SAW) explanation of this verse. “Your wives are as a tilth unto you; so approach your tilth when or how ye will.” (2: 223) That it calls for sexual intercourse at only one passage (i.e. vagina). [Ahmed 26768]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَائَ عُمَرُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَکْتُ قَالَ وَمَا أَهْلَکَکَ قَالَ حَوَّلْتُ رَحْلِي اللَّيْلَةَ قَالَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَالَ فَأُنْزِلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ أَقْبِلْ وَأَدْبِرْ وَاتَّقِ الدُّبُرَ وَالْحَيْضَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَيَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ هُوَ يَعْقُوبُ الْقُمِّيُّ-
عبد بن حمید، حسن بن موسی، یعقوب بن عبداللہ اشعر، جعفر بن ابی مغیرة، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہلاک ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کس طرح۔ عرض کیا۔ میں نے آج رات اپنی سواری پھیر دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے پھر یہ آیت نازل ہوئی "نِسَا ؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ " 2۔ البقرۃ : 223)(یعنی جس طرف سے چاہو (قبل میں) صحبت کرو البتہ پاخانے کی جگہ اور حیض سے اجتناب کرو) یہ حدیث غریب ہے۔ یعقوب وہ عبداللہ اشعری کے بیٹے ہیں اور یہ یعقوب قمی ہیں۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated: Umar (RA) came to Allah’s Messenger (SAW) and said, “O Messenger of Allah (SAW) , I have perished.” He asked how and he said, “Tonight I turned my mount upside down.” He did not answer till this verse was revealed: “Your wives are as a tilth unto you; so approach your tilth when or how ye will.” (2:223) Nevertheless, a husband must refrain from having sex at the anus and during menstruation. [Ahmed 2703]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ الْمُبَارَکِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ زَوَّجَ أُخْتَهُ رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَانَتْ عِنْدَهُ مَا کَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً لَمْ يُرَاجِعْهَا حَتَّی انْقَضَتْ الْعِدَّةُ فَهَوِيَهَا وَهَوِيَتْهُ ثُمَّ خَطَبَهَا مَعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَهُ يَا لُکَعُ أَکْرَمْتُکَ بِهَا وَزَوَّجْتُکَهَا فَطَلَّقْتَهَا وَاللَّهِ لَا تَرْجِعُ إِلَيْکَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَيْکَ قَالَ فَعَلِمَ اللَّهُ حَاجَتَهُ إِلَيْهَا وَحَاجَتَهَا إِلَی بَعْلِهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَإِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ إِلَی قَوْلِهِ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ فَلَمَّا سَمِعَهَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِرَبِّي وَطَاعَةً ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ أُزَوِّجُکَ وَأُکْرِمُکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْحَسَنِ وَهُوَ عَنْ الْحَسَنِ غَرِيبٌ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَی أَنَّهُ لَا يَجُوزُ النِّکَاحُ بِغَيْرِ وَلِيٍّ لِأَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ کَانَتْ ثَيِّبًا فَلَوْ کَانَ الْأَمْرُ إِلَيْهَا دُونَ وَلِيِّهَا لَزَوَّجَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تَحْتَجْ إِلَی وَلِيِّهَا مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَإِنَّمَا خَاطَبَ اللَّهُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ الْأَوْلِيَائَ فَقَالَ لَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْکِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ فَفِي هَذِهِ الْآيَةِ دَلَالَةٌ عَلَی أَنَّ الْأَمْرَ إِلَی الْأَوْلِيَائِ فِي التَّزْوِيجِ مَعَ رِضَاهُنَّ-
عبد بن حمید، ہشام بن قاسم، مبارک بن فضالة، حسن، حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عہد رسالت میں اپنی بہن کا کسی مسلمان سے نکاح کیا۔ تھوڑا عرصہ وہ ساتھ رہے پھر اس نے طلاق دے دی اور عدت گزر جانے تک رجوع نہیں کیا یہاں تک کہ عدت گزر گئی۔ پھر وہ دونوں (یعنی میاں، بیوی) ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ چنانچہ دوسرے لوگوں کے ساتھ اس آدمی نے بھی نکاح کا پیغام بھیجا تو میں (یعنی معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا اے کمینے میں نے اسے تمہارے نکاح میں دے کر تمہاری عزت افزائی کی تھی اور تم نے اسے طلاق دے دی۔ اللہ کی قسم وہ کبھی تمہاری طرف رجوع نہیں کرئے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کی ایک دوسرے کی ضرورت کو جانتا تھا۔ چنانچہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئیں "وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَا ءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ إِلَی قَوْلِهِ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ" 2۔ البقرۃ : 232) (اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دے دیں اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم انہیں اپنے سابق شوہروں سے (دوبارہ) نکاح کرنے سے مت روکو) بشرطیکہ وہ قاعدے کے مطابق اور باہم رضامند ہوں۔ اس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اس نصیحت کا قبول کرنا تمہارے لئے زیادہ صفائی اور پاکی کی بات ہے کیونکہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے) جب معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیات سنیں تو فرمایا اللہ ہی کیلئے سمع واطاعت ہے۔ پھر اسے بلایا اور فرمایا میں اسے تمہارے نکاح میں دے کر تمہارا اکرام کرتا ہوں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور کئی سندوں سے حسن سے منقول ہے۔ اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں۔ اس لئے کہ معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن مطلقہ تھیں۔ چنانچہ اگر نکاح کا اختیار ہوتا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتیں اور معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محتاج نہ ہوتیں اس آیت میں خطاب بھی اولیاء (سرپرستوں) کیلئے ہے کہ انہیں نکاح سے مت روکو۔ لہذا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نکاح کا اختیار عورتوں کی رضامندی کے ساتھ ان کے اولیاء (سرپرستوں) کو ہے۔
Sayyidina Ma’qil ibn Yasar (RA) reported that during the Prophet’s (SAW) times, he married his sister to a Muslim man. She remained with him as long as she was before he divorced her, one divorce. But he did not revoke it till the iddah was over. Then he longed for her and she for him, so he sent message for marriage. Ma’qil retorted, “O vile man! I had honoured you by marrying her to you, but you divorced her. By Allah, she will not return to you ever again.” But, Allah knew his need for her and her need for her spouse. So, Allah the Blessed and Exalted, revealed: “When ye divorce women, and they fulfil the term of their ('Iddat), do not prevent them from marrying their (former) husbands, if they mutually agree on equitable terms. This instruction is for all amongst you, who believe in Allah and the Last Day. That is (the course Making for) most virtue and purity amongst you and Allah knows, and ye know not.” (2 : 232) On hearing this, Ma’qil (RA) remarked, “I hear and I obey.” He called the man and said, “I marry her to you and honour you.” [Bukhari 5429,Abu Dawud 2081]
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِيمٍ عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَی عَائِشَةَ قَالَ أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنْ أَکْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا فَقَالَتْ إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا فَأَمْلَتْ عَلَيَّ حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ وَقَالَتْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَاب عَنْ حَفْصَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
قتیبہ ، مالک بن انس، (دوسرا طریق) انصاری، معن، مالک، زید بن اسلم، قعقاع بن حکیم، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مولی یونس کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے ایک مصحف (قرآن کریم کا نسخہ) لکھوں اور جب اس آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ : 238) پر پہنچوں تو انہیں بتاؤ چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں بتایا۔ انہوں نے یہ حکم دیا کہ یہ آیت اس طرح لکھو (حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی) 2۔ البقرۃ : 238) (ترجمہ۔ نمازوں کی حفاظت کرو نیز عصر کی نماز کی بھی اور اللہ کے سامنے ادب کے ساتھ کھڑے رہو) پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میں نے یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی طرح سنی ہے۔ اس باب میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی روایت ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
The freedman of Sayyidah Aisha (RA) Abu Yunus narrated: Sayyidah Aisha (RA) commanded me to write down the Quran for her. She said that I should inform her when I come to the verse: “Guard strictly your (habit of) prayers, especially the Middle Prayer.” (2:238) So, when I came to it, I reminded her and she dictated to me (to write) She said that she had heard that from Allah’s Messenger (SAW). [Ahmed 24502,Muslim 629,Abu Dawud 410,Nisai 471]
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الْعَصْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
حمید بن مسعدة، یزید بن زریع، سعید، قتادة، حسن، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Sumurah ibn Jundub (RA) reported that the Prophet (SAW) said, “The salat ul-Wusta (midmost salah) is the salah of asr.” [Ahmed 20149]
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ أَنَّ عَلِيًّا حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ اللَّهُمَّ امْلَأْ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا کَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَی حَتَّی غَابَتْ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُهُ مُسْلِمٌ-
ہناد، عبدة، سعید بن ابی عروبة، قتادة، ابوحسان اعرج، عبدہ سلیمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر مشرکین کیلئے بدعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ان (کفار) کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے جیسے ان لوگوں نے ہمیں درمیانی نماز پڑھنے سے غروب آفتاب تک مشغول کر دیا (یعنی عصر کی نماز) ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور کئی سندوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔ ابوحسان اعراج کا نام مسلم ہے۔
Abidah Salmam reported on the authority of Sayyidina Ali (RA) that on the day of the Ahzab (Battle of the Trenches), the Prophet (SAW) prayed (against the idolators). “O Allah, fill their graves and their homes with fire just as they kept us occupied from offering the midmost prayer till sunset.” [Ahmed 1132,Muslim 627,Abu Dawud 409,Nisai 469]
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ وَأَبُو دَاوُدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الْعَصْرِ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمود بن غیلان، ابونضر ابوداؤد، محمد بن طلحة بن مصرف، زبید، مرة، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صلوة وسطی یعنی درمیانی نماز عصر کی نماز ہے۔ اس باب میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوہاشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abdullah ibn Mas’ud (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said that salat al-wusta is the salah of asr. [Ahmed 19298,Bukhari 1200,Muslim 539,Abu Dawud 949,Nisai 1218]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ کُنَّا نَتَکَلَّمُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ فَنَزَلَتْ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَأُمِرْنَا بِالسُّکُوتِ-
احمد بن منیع، مروان بن معاویة ویزید بن ہارون و محمد بن عبید، اسماعیل بن ابی خالد، حارث بن شبیل، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نماز میں باتیں کر لیا کرتے تھے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ) 2۔ البقرۃ : 238) یعنی اللہ کیلئے با ادب کھڑے ہوا کرو۔ چنانچہ ہمیں نماز کے دوران خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔
Sayyidina Zayd ibn Arqam said: We used to talk while engaged in salah in the Prophet’s (SAW) times. The verse was revealed: “and stand before Allah in a devout (frame of mind).” (2 :238) We were then commanded to observe silence (in salah).
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَهُ وَزَادَ فِيهِ وَنُهِينَا عَنْ الْکَلَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ-
احمد بن منیع، ہشیم، اسماعیل بن ابی خالد ہم سے روایت کی احمد بن منیع نے ان سے ہشیم نے اور وہ اسماعیل بن ابی خالد سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں لیکن اس میں" وَنُهِينَا عَنْ الْکَلَامِ " (یعنی ہمیں بات کرنے سے روک دیا گیا) کے الفاظ زیادہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور ابوعمرو شیبانی کا نام سعد بن ایاس ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي مَالِکٍ عَنْ الْبَرَائِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ قَالَ نَزَلَتْ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ کُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ فَکَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي مِنْ نَخْلِهِ عَلَی قَدْرِ کَثْرَتِهِ وَقِلَّتِهِ وَکَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي بِالْقِنْوِ وَالْقِنْوَيْنِ فَيُعَلِّقُهُ فِي الْمَسْجِدِ وَکَانَ أَهْلُ الصُّفَّة لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ فَکَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا جَاعَ أَتَی الْقِنْوَ فَضَرَبَهُ بِعَصَاهُ فَيَسْقُطُ مِنْ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ فَيَأْکُلُ وَکَانَ نَاسٌ مِمَّنْ لَا يَرْغَبُ فِي الْخَيْرِ يَأْتِي الرَّجُلُ بِالْقِنْوِ فِيهِ الشِّيصُ وَالْحَشَفُ وَبِالْقِنْوِ قَدْ انْکَسَرَ فَيُعَلِّقُهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنْ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ قَالَ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أُهْدِيَ إِلَيْهِ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُ لَمْ يَأْخُذْهُ إِلَّا عَلَی إِغْمَاضٍ أَوْ حَيَائٍ قَالَ فَکُنَّا بَعْدَ ذَلِکَ يَأْتِي أَحَدُنَا بِصَالِحِ مَا عِنْدَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَالِکٍ هُوَ الْغِفَارِيُّ وَيُقَالُ اسْمُهُ غَزْوَانُ وَقَدْ رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ السُّدِّيِّ شَيْئًا مِنْ هَذَا-
عبداللہ بن عبدالرحمن، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، سدی، ابومالک، حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ )۔ انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ ہم لوگ کھجوروں والے تھے اور ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑی یا زیادہ کھجوریں لے کر حاضر ہوتا۔ کچھ لوگ گچھا یا دو گچھے لا کر مسجد میں لٹکا دیتے پھر اصحاب صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے کہیں سے کھانا مقرر نہیں تھا اگر ان میں سے کسی کو بھوک لگتی تو وہ گچھے کے پاس آتا اور اپنی لاٹھی مارتا جس سے کچی اور پکی کھجوریں گر جاتیں اور وہ کھا لیتا۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خیرات دینے میں رغبت نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایسا گچھا لا کر لٹکادیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ "وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ اِلَّا اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْهِ" 2۔ البقرۃ : 268) (اے ایمان والو ! اپنی کمائی میں سے عمدہ چیز خرچ کرو اور اس میں سے جو ہم تمہارے لئے زمین سے پیدا کیا ہے) اور ردی (خراب) چیزوں کو خرچ کرنے کی نیت نہ کرو۔ حالانکہ تم خود کبھی ایسی چیز کو نہیں لیتے مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں اور تعریف کے لائق ہیں) راوی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم میں سے ہر آدمی اچھی چیز لے کر آتا۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ابومالک کا نام غوان ہے وہ قبیلہ بنوغفار سے تعلق رکھتے ہیں۔ سفیان ثوری بھی سدی سے اس بارے میں کچھ نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Bara (RA) narrated: The verse; “And do not even aim at getting anything which is bad, in order that out of it ye may give away something.” (2: 267) was revealed concerning us, the company of the Ansars. We owned gardens of date trees. Each man would bring dates according to his ability - much or little. He would bring a bunch or two bunches and hang them in the mosque. The ahl us-suffah had no (regular arrangement of) food. When any of them was hungry, he would come to the bunch and strike it with his staff, and dry and fresh dates would drop down and he would eat. There were (such) men too who were not motivated to good, so a man would bring a bunch which had bad dates, or a broken bunch, and hang it. So Allah the Blessed and Exalted revealed: “O ye who believe! Give of the good things which ye have (honourably) earned, and of the fruits of the earth which We have produced for you, and do not even aim at getting anything which is bad, in order that out of it ye may give away something, when ye yourselves would not receive it except with closed eyes.” (2 : 267) ‘If one of you were presented like what he gives, he would not take it unless he covers up the shortcoming or shows undue modesty.” The narrator said: After that each of us brought the good of what he had. [Ahmed 24031, Ibn e Majah 1822]
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ وَلِلْمَلَکِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَکْذِيبٌ بِالْحَقِّ وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَکِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِکَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ فَلْيَحْمَدْ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَی فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ثُمَّ قَرَأَ الشَّيْطَانُ يَعِدُکُمْ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَائِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَهُوَ حَدِيثُ أَبِي الْأَحْوَصِ لَا نَعْلَمُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ-
ہناد، ابوالاحوص، عطاء بن سائب، مرة ہمدانی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انسان پر شیطان کا بھی ایک اثر ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی۔ شیطان کا اثر شر کا وعدہ اور حق کی تکذیب ہے جبکہ فرشتے کا اثر بھلائی کا وعدہ دینا اور حق بات کی تصدیق کرنا ہے۔ پس جو شخص اپنے اندر اسے پائے تو جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرے اور جو کوئی پہلے والا اثر پائے تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَا ءِ ) 2۔ البقرۃ : 268) (ترجمہ۔ شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے) یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف ابوالاحوص کی روایت سے مرفوعاً جانتے ہیں۔
Sayyidina Abdullah Ibn Mas’ud (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) “Indeed, the devil has an approach to the son of Adam as the angel has an approach (to him). As for the approach of the devil, it is an assurance of the evil and rejection of the truth. And as for the approach of the angel, it is an assurance of what is good and a confirmation of the truth - so, when one finds that, let him know that it is from Allah and let him praise Allah. And if one finds the other, he should seek refuge in Allah from devil.” Then he recited: "Satan threatens you of poverty, and enjoins you unto indecency." (2 : 268)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ قَالَ وَذَکَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَهُ إِلَی السَّمَائِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّی يُسْتَجَابُ لِذَلِکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ وَأَبُو حَازِمٍ هُوَ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ-
عبد بن حمید، ابونعیم، فضیل بن مرزوق، عدی بن ثابت، ابوحازم ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیا ہے جس کا اپنے رسولوں کو دیا اور فرمایا "يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ" (اے پیغمبرو تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو اس لئے کہ میں تمہارے اعمال کے متعلق جانتا ہوں) پھر مؤمنوں کو مخاطب کر کے فرمایا "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ" (اے ایمان والو ہماری عطا کی ہوئی چیزوں میں سے بہترین چیزیں کھاؤ) راوی کہتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے پریشان ہے اور اس کے بال خاک آلود ہو رہے ہیں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے۔ اے رب۔ اے رب حالانکہ اس کا کھانا پینا، پہننا سب حرام چیزوں سے ہے اسے حرام ہی سے خوراک دی گئی پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے فضیل بن مرزوق کی روایت سے پہنچانتے ہیں۔ ابوحازم اشجعی کا نام سلمان مولی عزہ اشجعیہ ہے۔
Sayyidina Abu Huraira (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “O People! Allah is Pure and the He does not accept but the pure. And He commanded the believers with what He commanded His Messengers. He said: "O you Messengers! Eat of the good things and do righteous deeds. Surely I am the Knower of what you do. (29: 51) And, He said: "O you who believe! Eat of the wholesome things wherewith We have provided you." (2:172) (And the Prophet (SAW) went on to say): A man undertakes a long journey. He is worried. He raises his hands towards heaven (saying). O Lord, O Lord - but his food is unlawful, his drink is unlawful, his dress is unlawful and he is nourished with the unlawful. Then, with that, how does he expect an answer (to his supplication)?’ [Muslim 1015,Ahmed 8356]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ قَالَ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيًّا يَقُولُ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْکُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَائُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَائُ الْآيَةَ أَحْزَنَتْنَا قَالَ قُلْنَا يُحَدِّثُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ فَيُحَاسَبُ بِهِ لَا نَدْرِي مَا يُغْفَرُ مِنْهُ وَلَا مَا لَا يُغْفَرُ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا لَا يُکَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اکْتَسَبَتْ-
عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، سدی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی کہ یہ آیت"وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَا ءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَا ءُ " 2۔ البقرۃ : 284) (خواہ تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ اس کا حساب لے گا پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا) نازل ہوئی تو اس نے غمگین کر دیا ہم سوچنے لگے کہ اگر کوئی دل میں گناہ کا خیال کرے اور اس پر حساب ہونے لگا تو ہمیں کیا معلوم کہ اس میں سے کیا معاف کیا جائے گا اور کیا نہیں۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی اور اسے منسوخ کر دیا "لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ " 2۔ البقرۃ : 286) (اللہ تعالیٰ کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا ہر ایک کیلئے وہی ہے جو اس نے کمایا ہے اور ہر ایک پر اپنی برائی کا وبال ہے) ۔ یعنی خیال پر حساب نہیں ہوگا۔
Suddi reported that he was narrated this hadith by one who had heard it from Sayyidina Ali (RA) He said about the verse: "And whether you disclose it whatsoever is in your minds or conceal it, Allah will call you to account for it. Then He will forgive whom He will and chastise whom He will. "(2 : 184) They were grieved because of this, saying, “One of us thinks of something (bad) and he is taken to account for it. We do not know what of it is forgiven and what is not forgiven. So this verse was revealed thereafter, abrogating the previous: ‘Allah does not charge a soul save to its capacity. For it is that which it has earned, and against it is that which it has deserved. (2 :286) That is, thoughts in mind will not be questioned. [Muslim 125]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أُمَيَّةَ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْکُمْ بِهِ اللَّهُ وَعَنْ قَوْلِهِ مَنْ يَعْمَلْ سُوئًا يُجْزَ بِهِ فَقَالَتْ مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَذِهِ مُعَاتَبَةُ اللَّهِ الْعَبْدَ فِيمَا يُصِيبُهُ مِنْ الْحُمَّی وَالنَّکْبَةِ حَتَّی الْبِضَاعَةُ يَضَعُهَا فِي کُمِّ قَمِيصِهِ فَيَفْقِدُهَا فَيَفْزَعُ لَهَا حَتَّی إِنَّ الْعَبْدَ لَيَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ کَمَا يَخْرُجُ التِّبْرُ الْأَحْمَرُ مِنْ الْکِيرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ-
عبد بن حمید، حسن بن موسیٰ و روح بن عبادة، حماد بن سلمة، علی بن زید، حضرت امیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان تبدو مافی۔ اور من یعمل۔ کی تفسیر پوچھی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے جب سے ان آیات کی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی ہے اس وقت سے کسی نے مجھ سے ان کے متعلق نہیں پوچھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو مصیبتوں میں گرفتار کرنا ہے مثلاً بخار یا کوئی غمگین کر دینے والا حادثہ یہاں تک کہ کبھی اپنے کرتے کے بازو (جیب) وغیرہ میں کوئی چیز رکھنے کے بعد اسے گم کر دینا ہے اور پھر اسکے متعلق پریشان ہونا ہے تو اس پریشانی پر بھی اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے آگ کی بھٹی سے خالص سونا صاف ہو کر نکلتا ہے۔ یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Umayyah asked Sayyidah Aisha (RA) to explain the verses (2:284) and (4 :123) and; "He who does evil shall be recompensed for it."(4:123)She said that no one had asked her about them since she had asked Allah’s Messenger (SAW)(about them). He said: This is how Allah afflicts His slaves in difficulties, like fever or misfortune - even loss of something that he places in his shirt pocket and grieves for it. Thus, the slave comes out of his sins just as gold comes out the bellows.
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْکُمْ بِهِ اللَّهُ قَالَ دَخَلَ قُلُوبَهُمْ مِنْهُ شَيْئٌ لَمْ يَدْخُلْ مِنْ شَيْئٍ فَقَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا فَأَلْقَی اللَّهُ الْإِيمَانَ فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ الْآيَةَ لَا يُکَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا قَالَ قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَهُ عَلَی الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا قَالَ قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا الْآيَةَ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَآدَمُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُقَالُ هُوَ وَالِدُ يَحْيَی بْنِ آدَمَ-
محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، آدم بن سلیمان، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت (وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ) 2۔ البقرۃ : 284)۔ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دلوں میں اتنا خوف بیٹھ گیا کہ کسی اور چیز سے نہیں بیٹھا تھا۔ انہوں نے اس خوف کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہو کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان داخل کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّه وَالْمُؤْمِنُوْنَ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰ ى ِكَتِه وَكُتُبِه وَرُسُلِه لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِه وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ ٢٨٥ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِيْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا ) 2۔ البقرۃ : 284)۔ (ترجمہ۔ رسول اس چیز کا اعتقاد رکھتے ہیں جو ان پر ان کے رب کی طرف نازل کی گئی اس طرح مؤمنین بھی یہ سب اللہ، اسکے فرشتوں اس کی کتابوں اور اس کے تمام پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور سب نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اے ہمارے پروردگار ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا اسے ثواب بھی اس کا ہوتا ہے جو وہ ارادے کرتا ہے اور گناہ بھی۔ اے ہمارے رب اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے تو ہمارا مواخذہ نہ فرما۔ (اس دعا پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) میں نے قبول کی (پھر وہ دعا کرتے ہیں) اے ہمارے رب ہم پر سخت حکم نہ بھیج جیسا کہ تو نے پہلی امتوں پر بھیجا تھا۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں نے یہ دعا بھی قبول کی (پھر وہ لوگ دعا کرتے ہیں) ۔ اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جسے سہنے کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ اور ہمیں معاف فرما، ہماری مغفرت فرما، ہم پر رحم فرما اس لئے کہ تو ہی ہمارا کا رساز ہے۔ لہذا ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے یہ دعا بھی قبول کی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ایک اور سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔ اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی حدیث منقول ہے۔ آدم بن سلیمان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ یحیی کے والد ہیں۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated: When the verse 2 :284: was revealed, fear filled the hearts of the sahabah (RA) as they had never experienced before. They mentioned that to the Prophet (SAW) and he instructed them to say: "We have heard and we have obeyed." (2:285) So, Allah put in their hearts faith and He revealed: "The Messenger (SAW) believes in what has been revealed to him from his Lord. and (so do) the believers. (2:285) "Allah does not charge a soul save to its capacity. For it is that which it has earned, and against it is that which it has deserved. (Pray) Our Lord’ Take us not to task if we forget, or fall into error."(2: 286) He said, “I have done it.” Our Lord! Lay not on us a burden like that which you did Lay on those before us. He said, “I have done it.” Our Lord! Impose not on us that which we have not the strength to bear. And pardon us, and forgive us, and have mercy on us. You are our Protector . (2:286) He said, “I have done that” (meaning, accepted your prayer). [Ahmed 2070, Muslim 126]