باب سورت آل عمران کے متعلق

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْکَ الْکِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْکَمَاتٌ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِکَ الَّذِينَ سَمَّاهُمْ اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ هَکَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَإِنَّمَا ذَکَرَ يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ عَنْ الْقَاسِمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ أَيْضًا-
عبد بن حمید، ابوولید، یزید بن ابراہیم، ابن ابی ملیکة، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ھوالذی انزل علیک۔ ترجمہ۔ وہی ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی کتاب نازل کی جس کا ایک حصہ وہ آیات ہیں جو کہ محکم ہیں (یعنی اشتباہ سے محفوظ ہیں) اور انہی آیات پر کتاب کا اصل مدار ہے۔ اور دوسرا حصہ وہ ہے جس میں ایسی آیات ہیں جو مشتبہ المراد ہیں چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے ہو لیتے ہی جو مشتبہ المراد ہے۔ ان کی غرض فتنے کی ہی ہوتی ہے اور اسکا (غلط) مطلب ڈھونڈنے کی۔ حالانکہ اسکا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( سورت آل عمران آیت) کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو آیات مشتبہات کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے بچو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ایوب اسے ابن ابی ملیکہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidah Aisha (RA) narrated : I asked Allah’s Messenger (SAW) about Allah’s Words: "So those in whose hearts is perversity follow the part thereof that is allegorical, seeking (to cause) discord while seeking its interpretation." (3: 7) He said, “When you see them, recognise them.” But Yazid narrated that he said, “When (all of) you see them, recognise them.”O He said that twice or thrice.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ وَهُوَ الْخَزَّازُ وَيَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ کِلَاهُمَا عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ يَزِيدُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْکُرْ أَبُو عَامِرٍ الْقَاسِمَ قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَائَ تَأْوِيلِهِ قَالَ فَإِذَا رَأَيْتِيهِمْ فَاعْرِفِيهِمْ و قَالَ يَزِيدُ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَاعْرِفُوهُمْ قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
محمد بن بشار، ابوداؤد طیالسی، ابوعامرخزاز و یزید بن ابراہیم، ابن ابی ملیکة، قاسم، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے متعلق پوچھا (فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَا ءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَا ءَ تَاْوِيْلِه ) 3۔ ال عمران : 7) ۔ (یعنی جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہ کی اتباع کرتے ہیں ان کی غرض فتنہ پیدا کرنا اور اس کی غلط تفسیر کرنا ہوتا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا۔ یزید اپنی روایت میں کہتے کہ جب تم لوگ ان کو دیکھو تو پہچان لو۔ دو یا تین مرتبہ فرمایا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس طرح کئی حضرات اسے ابن ابی ملیکہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کرتے ہوئے قاسم بن محمد کا ذکر نہیں کرتے۔ انکا ذکر صرف یزید بن ابراہیم کرتے ہیں۔ ابن ابی ملیکہ کا نام عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ ہے ان کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سماع ثابت ہے۔
Sayyidah Aisha (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) was asked about the verse: "He is (Allah) who has revealed to you the Book, some of its verses are perspicuous - they are the substance of the Book - and others are allegorical ." (3: 7, to the end) He said, “When you see people who pursue the allegorical verses then they are the ones Allah has asked you to shun.’ [Ahmed 26257,Bukhari 4547,Muslim 2665,Abu Dawud 4598]
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةً مِنْ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ وَلِيِّي أَبِي وَخَلِيلُ رَبِّي ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ-
محمود بن غیلان، ابواحمد، سفیان، ان کے والد، ابوالضحی، مسروق، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے نبیوں میں سے دوست ہوتے ہیں۔ میرے دوست میرے والد اور میرے رب کے دوست (ابراہیم علیہ السلام) ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3۔ آل عمران : 68) ۔ (ترجمہ۔ ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی تابعداری کی اور یہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو اس پر ایمان لائے اور اللہ مؤمنوں کے دوست ہیں)
Sayyidina Abdullah reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “Surely for every Prophet (SAW) there is a friend among the Prophets. My friend is my father - the friend of my Lord (Ibrahim -). He then recited: "Surely the people of closest claim to Ibrahim are those who followed him, and the Prophet, and those who believe; and Allah is the Protector the believers.” (3 : 68)
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَلَمْ يَقُلْ فِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ وَأَبُو الضُّحَی اسْمُهُ مُسْلِمُ بْنُ صُبَيْحٍ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي نُعَيْمٍ وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ-
محمود، ابونعیم، سفیان، ابوضحی، عبداللہ ہم سے روایت کی محمود نے ان سے ابونعیم نے وہ سفیان سے وہ اپنے والد سے وہ ابوضحی سے وہ عبداللہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے مثل حدیث نقل کرتے ہیں۔ اس سند میں مسروق کا ذکر نہیں اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ ابوضحی کا نام مسلم بن صبیح ہے۔ پھر ابوکریب بھی وکیع سے وہ سفیان سے وہ اپنے والد سے وہ ابوضحی سے وہ عبداللہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابونعیم کی روایت کے مطابق نقل کرتے ہیں۔ اس میں بھی مسروق کا ذکر نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ هُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ فَقَالَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ فِيَّ وَاللَّهِ کَانَ ذَلِکَ کَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي فَقَدَّمْتُهُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَکَ بَيِّنَةٌ فَقُلْتُ لَا فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ احْلِفْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَنْ يَحْلِفُ فَيَذْهَبُ بِمَالِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی-
ہناد، ابومعاویة، اعمش، شقیق بن سلمة، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے ایسی جھوٹی قسم کھائی جس سے وہ کسی مسلمان کا مال دبانا چاہتا ہے وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غصہ ہوں گے۔ اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میرے متعلق ہے۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ مشترک زمین تھی۔ اس نے میری شراکت کا انکار کر دیا تو میں اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے گواہ لانے کیلئے کہا تو میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کوئی گواہ نہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودی کو حکم دیا کہ قسم کھاؤ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ تو قسم کھا کر میرا مال لے جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَ مَنًا قَلِيْلًا) 3۔ آل عمران : 77) (یعنی جو لوگ اللہ سے کئے ہوئے عہد اور اپنی قسموں کے مقابلے میں تھوڑا سا معاوضہ لے لیتے ہیں آخرت میں ان لوگوں کیلئے کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے بات کریں گے نہ ان کی طرف دیکھیں گے اور نہ انہیں پاک کریں گے اور ان کیلئے دردناک عذاب ہوگا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں ابن ابی اوفی سے بھی روایت منقول ہے۔
Sayyidina Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “If anyone swears an oath while he lies about it that he may thereby rob a Muslim of his property then he will meet Allah while He is angry at him.” Ash’ath ibn Qays said, “This (hadith) is about me. By Allah, there was a piece of land, belonging jointly to me and a Jew, but he disowned me. So I took him to the Prophet (SAW) who asked me if I had witnesses. I said that I had none. So, he asked the Jew to take an oath but I protested, ‘O Messenger of Allah (SAW) ! He will swear and take away my property’. So, Allah revealed this verse:” "Surely those who barter Allah’s covenant and their oaths, for a small price there shall be no share for them in the Hereafter: and Allah shall not speak to them nor shall He look on them on the Day of Resurrection, nor shall He purify them, and for them is a painful punishment." (3:77) [Bukhari 2606,Muslim 220,Abu Dawud 3243,Ahmed 4049, Ibn e Majah 2323] -------------------------------------------------------------------------------- (3008)
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَکْرٍ السَّهْمِيُّ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ أَوْ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا قَالَ أَبُو طَلْحَةَ وَکَانَ لَهُ حَائِطٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَائِطِي لِلَّهِ وَلَوْ اسْتَطَعْتُ أَنْ أُسِرَّهُ لَمْ أُعْلِنْهُ فَقَالَ اجْعَلْهُ فِي قَرَابَتِکَ أَوْ أَقْرَبِيکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکِ-
اسحاق بن منصور، عبداللہ بن بکر سہمی، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ۔ (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا) 57۔ الحدید : 11) ۔ تو ابوطلحہ کے پاس ایک باغ تھا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا یہ باغ اللہ کیلئے وقف ہے۔ اگر میں اس بات کو چھپا سکتا تو کبھی ظاہر نہ ہونے دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو۔ راوی کو شک ہے قرابتک فرمایا اقربیک یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے اور وہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Anas (RA) reported about this verse: "You cannot attain virtue unless you expend of that which you love." (3:92) or, this verse: - "Who is he that will loan to Allah a goodly loan." (2 :245) When it was revealed, Abu Talhah (RA) who had a garden, said, “O Messenger of Allah (SAW) ’ My garden is for Allah. If I could, I would have kept it a secret and not announced.” He said, “Give it to your relatives.” [Ahmed 12441,Bukhari 1461,Muslim 998,Abu Dawud 1689,Nisai 3601]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْزُومِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَامَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ الْحَاجُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الشَّعِثُ التَّفِلُ فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْعَجُّ وَالثَّجُّ فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ مَا السَّبِيلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ الْخُوزِيِّ الْمَکِّيِّ وَقَدْ تَکَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ-
عبد بن حمید، عبدالرزاق، ابراہیم بن یزید، محمد بن عباد بن جعفر، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونسا حاجی اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا سر گرد آلود ہو اور کپڑے میلے کچیلے ہوں۔ پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونسا حج افضل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس میں بلند آواز سے لبیک کہا جائے اور زیادہ قربانیاں کی جائیں پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور پوچھا کہ واللہعلی الناس۔ میں سبیل سے کیا مراد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا سفر خرچ اور سواری۔ اس حدیث کو ہم صرف ابراہیم بن یزید خوزی مکی کی روایت سے جانتے ہیں بعض اہل علم نے ان کے حافظے پر اعتراض کیا ہے۔
Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that a man stood up before the Prophet (SAW) and asked, “O Messenger of Allah (SAW) ’ Who is a pilgrim (the best of those who perform Hajj)?” He said, “The one with dishevelled appearance and clothes.” Another man got up and asked, “O Messenger of Allah (SAW) , which of the Hajj (pilgrimages) is most excellent?” He said, “The Hajj in which labayk is called loudly and many offerings are made.” Another man got up, and asked, “O Messenger of Allah (SAW) , what does sabil mean?”O He said, “Provision and riding beast.” [lMuslim 2896]
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ الْآيَةَ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَائِ أَهْلِي قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ-
قتیبہ ، حاتم بن اسماعیل، بکیر بن مسمار، حضرت عامر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی ( نَدْعُ اَبْنَا ءَنَا وَاَبْنَا ءَكُمْ وَنِسَا ءَنَا وَنِسَا ءَكُمْ ) 3۔ آل عمران : 61) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل ہیں۔ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
Sayyidina Sad ibn Abu Waqqas (RA) reported that when the verse was revealed: "We will summon our sons and your sons, and our women and your women." (3:61) Allah’s Messenger (SAW) sommoned Sayyidina Ali, Sayyidah Fatimah, Hasan and Husayn. And he said, “O Allah they are my family.”
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ وَحَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي غَالِبٍ قَالَ رَأَی أَبُو أُمَامَةَ رُئُوسًا مَنْصُوبَةً عَلَی دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَقَالَ أَبُو أُمَامَةَ کِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَائِ خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوهُ ثُمَّ قَرَأَ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو غَالِبٍ يُقَالُ اسْمُهُ حَزَوَّرٌ وَأَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ اسْمُهُ صُدَيُّ بْنُ عَجْلَانَ وَهُوَ سَيِّدُ بَاهِلَةَ-
ابوکریب، وکیع، ربیع بن صبیح وحماد بن سلمة، ابوغالب کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ نے (خارجیوں کے) کچھ سروں کو دمشق کی سیڑھی پر لٹکے ہوئے دیکھا تو فرمایا یہ دوزخ کے کتے ہیں اور آسمان کی چھت کے نیچے کے بدترین مقتول ہیں۔ اور بہترین مقتول وہ ہیں جو ان (خارجیوں) کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ پھر یہ آیت پڑھی (يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ) 3۔ آل عمران : 106) ۔ (جس دن کچھ سیاہ اور کچھ چہرے سفید ہوں گے) راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تو فرمایا اگر میں نے ایک دو یا تین یا چار یہاں تک کہ سات مرتبہ نہ سنا ہوتا تو ہرگز تم لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتا۔ یعنی کئی مرتبہ سنا۔ یہ حدیث حسن ہے۔ ابوغالب کا نام حزور ہے جبکہ ابوامامہ باہلی کا نام صدی بن عجلان ہے وہ قبیلہ باہلہ کے سردار ہیں۔
Abu Ghalib narrated: Abu Umamah (RA) saw some heads hanging on the eps of Damascus and remarked, “Dogs of the fire worst of the slain under the sky (on the surface of earth)! The best of the slain were the ones they have killed!” Then he recited: "On the day when (some) faces are brightened and other faces are blackened. " (3:106 to the end of the verse) I asked Abu Umamah (RA). Have you heard it from Allah’s Messenger?” He said, “Had I not heard it once, twice, thrice, four times nay, seven times I would not have mentioned it to you.” (He meant that he had heard it often). [Ibn e Majah 176,Ahmed 22213]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ بَهْزِ بْنِ حَکِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَی کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ قَالَ إِنَّکُمْ تَتِمُّونَ سَبْعِينَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَيْرُهَا وَأَکْرَمُهَا عَلَی اللَّهِ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ بَهْزِ بْنِ حَکِيمٍ نَحْوَ هَذَا وَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ-
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حضرت بہز بن حکیم اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہوئے سنا (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ) 3۔ آل عمران : 110) کہ تم لوگ ستر امتوں کو پورا کرنے والے ہو۔ اور ان سب میں بہتر اور معزز ہو۔ یہ حدیث حسن ہے اسے کئی راوی بہز بن حکیم سے اس کی مانند نقل کرتے ہیں لیکن اس میں اس آیت کا ذکر نہیں کرتے۔
Bahz ibn Hakim reproted from his father, from his grandfather that he heard the Prophet (SAW) say about the Words of Allah: "You are the best community raised up for mankind." (3:110) He said, “You are the ones to perfect seventy ummahs and you are the best of them and the most noble of them.” [Ahmed 200064, Ibn e Majah 4287]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَشُجَّ وَجْهُهُ شَجَّةً فِي جَبْهَتِهِ حَتَّی سَالَ الدَّمُ عَلَی وَجْهِهِ فَقَالَ کَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ فَعَلُوا هَذَا بِنَبِيِّهِمْ وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَی اللَّهِ فَنَزَلَتْ لَيْسَ لَکَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْئٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ إِلَی آخِرِهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن منیع، ہشیم، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ سر میں زخم آیا اور پیشانی بھی زخمی ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خون بہنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ قوم کیسے کامیاب ہوگی جنہوں نے اپنے نبی کیساتھ یہ کچھ کیا اور وہ انہیں اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ) 3۔ آل عمران : 128) (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس میں کوئی اختیار نہیں اللہ چاہے تو انہیں معاف کر دے اور چاہے تو عذاب دے)
Sayyidina Anas (RA) reported that during the Battle of Uhud, the teeth of the Prophet (SAW) were broken, he was wounded in the head and the forehead so that blood flowed down his face. He said, “How can a people prosper if they do this to their Prophet (SAW) while he invites them to Allah.” So the verse was revealed: "Not for you is the decision whether He relents towards them or chastises them, for, they are evildoers." (3:128) [Ahmed, 13136,Muslim 1791, Ibn e Majah 4027]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شُجَّ فِي وَجْهِهِ وَکُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَرُمِيَ رَمْيَةً عَلَی کَتِفِهِ فَجَعَلَ الدَّمُ يَسِيلُ عَلَی وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُهُ وَيَقُولُ کَيْفَ تُفْلِحُ أُمَّةٌ فَعَلُوا هَذَا بِنَبِيِّهِمْ وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَی اللَّهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی لَيْسَ لَکَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْئٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ غَلِطَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي هَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن منیع وعبد بن حمید، یزید بن ہارون، حمید حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا، دندان مبارک شہید ہوگئے اور شانہ مبارک پر ایک پتھر مارا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون بہنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے صاف کرتے اور کہتے کہ وہ قوم کس طرح فلاح پائے گی جنہوں نے اپنے نبی دے ساتھ یہ کچھ کیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ) 3۔ آل عمران : 128)۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Anas (RA) reported that the Prophet’s (SAW) face was injured, he lost his teeth and was hit on the shoulder by a stone. Blood trickled down his face. He wiped it and said the while, “How shall such people prosper who do this to their Prophet (SAW) who invites them towards Allah.” So Allah revealed the verse (3 : 128). "Not for thee, (but for Allah), is the decision: Whether He turn in mercy to them, or punish them; for they are indeed wrong-doers." (3: 128)
حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمٍ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ اللَّهُمَّ الْعَنْ أَبَا سُفْيَانَ اللَّهُمَّ الْعَنْ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ اللَّهُمَّ الْعَنْ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ قَالَ فَنَزَلَتْ لَيْسَ لَکَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْئٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَأَسْلَمُوا فَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ لَمْ يَعْرِفْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ وَعَرَفَهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ-
ابوسائب سلم بن جنادة بن سلم کوفی، احمد بن بشیر، عمر بن حمزة، سالم بن عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ احد کے موقع پر فرمایا اے اللہ ابوسفیان پر لعنت بھیج اے اللہ حارث بن ہشام پر لعنت بھیج۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ) 3۔ آل عمران : 128) پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو معاف کر دیا اور یہ لوگ اسلام لے آئے اور وہ بہترین مسلمان ثابت ہوئے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس حدیث کو عمر بن حمزہ نے سالم سے نقل کیا ہے۔ پھر زہری بھی سالم سے اور وہ اپنے والد (ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے اسی طرح حدیث نقل کرتے ہیں۔
Saalim ibn Abdullah ibn Umar (RA) reported on the authority of his father that Allah’s Messenger (SAW) said on the day of Uhud, “O Allah! curse Abu Sufyan. 0 Allah, curse Harith ibn Hisham, O Allah, curse Safwan ibn Umayyah.” At that this verse (3:128) was revealed: "Not for thee, (but for Allah), is the decision: Whether He turn in mercy to them, or punish them; for they are indeed wrong-doers." (3:128) Then Allah forgave them. They embraced Islam and turned out to be good Muslims. [Bukhari 4069,Nisai 1074,Ahmed 5678]
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ ابْنُ الْحَارِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَدْعُو عَلَی أَرْبَعَةِ نَفَرٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لَيْسَ لَکَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْئٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ فَهَدَاهُمْ اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَاهُ يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ-
یحیی بن حبیب بن عربی بصری، خالد بن حارث، محمد بن عجلان، نافع، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار آدمیوں کیلئے بدعا کرتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ) 3۔ ال عمران : 128) پھر اللہ تعالیٰ نے ان (چاروں) کو اسلام کی ہدایت دی۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے یعنی نافع کی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے۔ یحیی بن ایوب بھی اسے ابن عجلان سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Abdullah ibn Umar (RA) reported that the Prophet (SAW) used to curse four. So Allah revealed the verse. (3 : 128) "Not for thee, (but for Allah), is the decision: Whether He turn in mercy to them, or punish them; for they are indeed wrong-doers." But Allah bestowed on them Islam. [Ahmed 5816]
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَسْمَائَ بْنِ الْحَکَمِ الْفَزَارِيِّ قَال سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ إِنِّي کُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللَّهُ مِنْهُ بِمَا شَائَ أَنْ يَنْفَعَنِي وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ وَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَبُو بَکْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ لَهُ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللَّهَ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَرَفَعُوهُ وَرَوَاهُ مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ مِسْعَرٍ فَأَوْقَفَهُ وَرَفَعَهُ بَعْضُهُمْ وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَأَوْقَفَهُ وَلَا نَعْرِفُ لِأَسْمَائَ بْنِ الْحَکَمِ حَدِيثًا إِلَّا هَذَا-
قتیبہ ، ابوعوانة، عثمان بن مغیرة، علی بن ربیعة، حضرت اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کی میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو حدیث سنتا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا اور اگر کوئی صحابی سے کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم دیتا۔ اگر وہ قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے بیان کیا اور وہ سچے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص ایسا نہیں جو کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد طہارت حاصل کرنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اللہ تعالیٰ اسے معاف نہ کریں۔ پھر یہ آیت پڑھی ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْ ا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ) 3۔ آل عمران : 135) (اور وہ لوگ جو اگر کبھی کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں یا اپنے آپ پر ظلم کر لیتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتے ہیں۔ اور اللہ کے علاوہ کون گناہ بخشتا ہے اور اپنے کئے پر جانتے بوجھتے ہوئے اصرار نہ کریں۔) اس حدیث کو شعبہ اور کئی لوگوں نے عثمان بن مغیرہ سے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔ اور ہم اسماء کی صرف یہی حدیث جانتے ہیں۔
Asma ibn Hakam Fazari reported having heard Sayyidina Ali (RA) say: I was such a man that if I heard a hadith from Allah’s Messenger (SAW) Allah gave me benefit from it as much as He willed. And if anyone of the sahabah (RA) narrated to me a hadith, I got him to speak on oath. When he took the oath, I confirmed him. And, indeed, Abu Bakr narrated to me a hadith - and Abu Bakr spoke the truth. He said that he heard Allah’s Messenger (SAW) say, “There is no man who commits a sin then purifies himself, ofifers salah and seeks Allah’s forgiveness but that he is forgiven.” He (the Prophet (SAW) then recited this verse: "And those who, having done something to be ashamed of, or wronged their own souls, earnestly bring Allah to mind, and ask for forgiveness for their sins,- and who can forgive sins except Allah?- and are never obstinate in persisting knowingly in (the wrong) they have done." (3:135) [Ahmed 56,Abu Dawud 1521, Ibn e Majah 135]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ رَفَعْتُ رَأْسِي يَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ وَمَا مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا يَمِيدُ تَحْتَ حَجَفَتِهِ مِنْ النُّعَاسِ فَذَلِکَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْکُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، روح بن عبادة، حماد بن سلمة، ثابت، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس روز ان میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جو اونگھ کی وجہ سے نیچے کو نہ جھکا جاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی اونگھ مراد ہے۔ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْکُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا۔ (پھر تم لوگوں پر تنگی (غم) کے بعد اونگھ نازل کی گئی جو تم میں سے ایک جماعت کو گھیر رہی تھی اور دوسری جماعت کو صرف اپنی فکر تھی) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Talhah narrated: I raised my head during the Battle of Uhud and observed that there was none of them that day but had his head down because of the doze he had. That is as Allah says: "Then He sent you, after grief a security - a slumber." (3:154)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عَبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الزُّبَيْرِ مِثْلَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، روح بن عبادہ، حماد بن سلمہ، ہشام بن عروہ، عروہ ہم سے روایت کی عبد بن حمید نے انہوں نے روح بن عبادہ سے انہوں نے حماد بن سلمہ سے وہ ہشام بن عروہ سے اور وہ اپنے والد سے اس کے مثل نقل کرتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
-
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ قَالَ غُشِينَا وَنَحْنُ فِي مَصَافِّنَا يَوْمَ أُحُدٍ حَدَّثَ أَنَّهُ کَانَ فِيمَنْ غَشِيَهُ النُّعَاسُ يَوْمَئِذٍ قَالَ فَجَعَلَ سَيْفِي يَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ وَيَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَی الْمُنَاقِدُونَ لَيْسَ لَهُمْ هَمٌّ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ أَجْبَنُ قَوْمٍ وَأَرْعَبُهُ وَأَخْذَلُهُ لِلْحَقِّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
یوسف بن حماد، عبدالاعلی، سعید، قتادة، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ غزوہ احد کے موقع پر میدان جنگ میں ہم پر غشی طاری ہوگئی تھی۔ میں بھی ان لوگوں میں تھا جن لوگوں پر اس روز اونگھ طاری ہوگئی تھی۔ چنانچہ میری تلوار میرے ہاتھ سے گرنے لگی۔ میں اسے پکڑتا وہ پھر گرنے لگتی۔ دوسرا گروہ منافقین کا تھا جنہیں صرف اپنی جانوں کی فکر تھی یہ لوگ انتہائی بزدل، مرعوب اور حق کو چھوڑنے والے تھے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Anas (RA) reported that Sayyidina Abu Talhah narrated: During the Battle of Uhud, while we were on the battlefield, we were overtaken by slumber. I was one of them on that day and my sword was slipping off my hand. I would pick it and slip it would again and I would pick it up. The other party was of the hypocrites. They had no concern except for their own lives. They were cowards, overawed who had forsaken truth.
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ خُصَيْفٍ حَدَّثَنَا مِقْسَمٌ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ مَا کَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ فِي قَطِيفَةٍ حَمْرَائَ افْتُقِدَتْ يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا کَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ نَحْوَ هَذَا وَرَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ مِقْسَمٍ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ-
قتیبہ ، عبدالواحد بن زیاد، خصیف، مقسم، حضرت مقسم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا (وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّ) 3۔ آل عمران : 161) (یعنی (مال غنیمت میں) خیانت کرنا نبی کا کام نہیں اور جو خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہوگا) یہ آیت ایک سرخ روئی دار چادر کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوہ بدر کے موقع پر گم ہوئی تھی تو بعض لوگوں نے کہا کہ شاید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لے لی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ عبدالسلام بن حرب بھی خصیف سے اور وہ مقسم سے نقل کرتے ہوئے ابن عباس کا ذکر نہیں کرتے۔
Miqsam reported that Sayyidin ibn Abbas narrated about the verse: "And it behoves not a Prpphet that he should ever betray his trust." (3:161) (He said that) this verse was revealed concerning a red cotton sheet of cloth that was lost during the Battle of Badr. Some people said, “Perhaps Allah’s Messenger (SAW) has taken it.” So, Allah, the Blessed and Elevated revealed: "No prophet could (ever) be false to his trust. If any person is so false, He shall, on the Day of Judgment, restore what he misappropriated; then shall every soul receive its due,- whatever it earned,- and none shall be dealt with unjustly. " (3:161)
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ کَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ قَال سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ قَال سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاکَ مُنْکَسِرًا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَکَ عِيَالًا وَدَيْنًا قَالَ أَفَلَا أُبَشِّرُکَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاکَ قَالَ قُلْتُ بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا کَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ وَأَحْيَا أَبَاکَ فَکَلَّمَهُ کِفَاحًا فَقَالَ يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِکَ قَالَ يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيکَ ثَانِيَةً قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ قَالَ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا الْآيَةَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَرَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ کِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ هَکَذَا عَنْ مُوسَی بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرٍ شَيْئًا مِنْ هَذَا-
یحیی بن حبیب بن عربی، موسیٰ بن ابراہیم بن کثیر انصاری، طلحة بن خراش، حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فیصلہ ہو چکا کہ کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) 3۔ آل عمران : 169) (یعنی تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ الخ) یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں۔ پھر علی بن عبداللہ مدینی اور کئی راوی اس حدیث کو کبار محدثین سے اسی طرح روایت کرتے ہیں نیز عبداللہ بن محمد بن عقیل بھی جابر سے اس کو کچھ حصہ نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Jabir ibn Abdullah narrated: I met Allah’s Messenger (SAW) and he said to me, “O Jabir, why I see you broken?” I said, “O Messenger of Allah (SAW) , my father is martyred, leaving behind a family and debts.” He said, “Shall I not let you have the glad tidings on how Allah met your father?” I said, “Of course, O Messenger of Allah (SAW) ’s!” He said, “Allah did not speak to anyone except from behind a screen but he revived your father and spoke to him diitIy, saying, ‘O My slave! wish from Me and I will grant you’. He said, ‘O Lord, resurrect me that I may be slain for Your sake a second time’. The Lord, Blessed and Exalted said, ‘It has been decreed by Me already that they (who die) will not return (to earth)’. This verse was revealed: "And never take those killed in the way of Allah as dead." (3:169) [Ahmed 14887, Ibn e Majah 190]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَقَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَأُخْبِرْنَا أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ وَتَأْوِي إِلَی قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّکَ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ قَالُوا رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ الثَّانِيَةَ فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَکُوا قَالُوا تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، اعمش، عبداللہ بن مرة، مسروق، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت ولا تحسبن الذین۔ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے بھی اسکی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کی (یعنی شہداء کی) روحیں سبز پرندوں (کی شکل) میں جو جنت میں جہاں چاپتے ہیں وہاں پھرتے ہیں۔ ان کا ٹھکانہ عرش سے لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا اور پوچھا کیا تم لوگ کچھ اور بھی چاہتے ہو جو میں تمہیں عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا یا اللہ ہم اس سے زیادہ کیا چاہیں گے کہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اسی طرح کیا تو ان شہداء نے سوچا کہ ہم اس وقت تک نہیں چھوٹیں گے جب تک کوئی فرمائش نہیں کریں گے۔ تو انہوں نے تمنا ظاہر کی کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں واپس کر دی جائیں تاکہ ہم دنیا میں جائیں اور دوبارہ تیری راہ میں شہید ہو کر آئیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abdullah Ibn Mas’ud (RA) was asked to explain the verse: Think not of those who were slain in Allah’s way as dead. Nay, they are alive. (3:169) He said, “Indeed we had asked about that and were informed that their souls are in green birds that go wherever they like in Paradise and return to the lamps suspended from the Throne. Your Lord looks at them out of familiarity and asks, ‘Do you desire anything more that I may give more?’ They say, ‘Our Lords what more may we seek while we are in Paradise moving about wherever we will?’ He then looks at them a second time, saying, ‘Do you desire Me to add something for you that I should give more?’ When they see that thay will not be spared (till they ask), they desire, ‘Return our souls to our bodies that we may go back to earth and be slain in Your path once more.." [Muslim 1887,Abu Dawud 2520, Ibn e Majah 2800]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيهِ وَتُقْرِئُ نَبِيَّنَا السَّلَامَ وَتُخْبِرُهُ عَنَّا أَنَّا قَدْ رَضِينَا وَرُضِيَ عَنَّا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، عطاء بن سائب، ابوعبیدہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ ابن ابی عمر نے بواسطہ سفیان، عطاء بن سائب اور ابوعبیدہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسکی مثل روایت کیا لیکن اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ ہمارے نبی کو ہماری طرف سے سلام پہنچایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہم اپنے رب سے راضی اور ہمارا رب ہم سے راضی ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Through the same isnad, the like of the foregoing is reported by Ib Mas’ud (RA) with this much more: Convey to our Prophet (SAW) as-salam and inform him that we are pleased (with Him) and He is pleased with us.
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَامِعٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي رَاشِدٍ وَعَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَعْيَنَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ رَجُلٍ لَا يُؤَدِّي زَکَاةَ مَالِهِ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي عُنُقِهِ شُجَاعًا ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا مِصْدَاقَهُ مِنْ کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ الْآيَةَ و قَالَ مَرَّةً قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِصْدَاقَهُ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ اقْتَطَعَ مَالَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ بِيَمِينٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِصْدَاقَهُ مِنْ کِتَابِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، جامع بن ابی راشد وعبدالملک بن اعین، ابووائل، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً نقل کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے مال کی زکوة ادا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکی گردن میں ایک اژدھا بنا دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکے مطابق آیت پڑھی (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھ ) 3۔ آل عمران : 180) (ترجمہ۔ جو لوگ اللہ کی اپنے فضل سے دی ہوئی چیزوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کی لئے بہتر ہے بلکہ یہ ان کے لئے برا ہے کیونکہ عنقریب قیامت کے دن جس چیز سے انہوں نے بخل کیا تھا وہ ان کی گردن میں طوق بنا کر لٹکائی جائے گی) پھر راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے مصداق میں یہ آیت پڑھی (سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ) 3۔ آل عمران : 180) (عنقریب وہ چیز جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن وہ ان کی گردن میں طوق بنا کر لٹکائی جائے گی) اور فرمایا جس نے کسی مسلمان بھائی کا جھوٹی قسم کھا کر حق لے لیا وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس سے ناراض ہوگا۔ پھر اس کے مصداق میں یہ آیت پڑھی إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ (بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے بدلے تھوڑی قیمت لیتے ہیں) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور شجاع اقرع سے مراد سانپ ہے جو گنجا ہوگا۔ شدت زہر کی وجہ سے اسکے سر کے بال ختم ہوگئے ہوں گے۔
Sayyidina Abdullah (ibn Masud reported in a marfu’ form tTat the Prophet (SAW) said, “If anyone does not pay zakah on his property then, on the Day of Resurrection, Allah will create in his neck a large snake.’ He recited the verse appropriate to it "And as for those who are niggardly in expending that, which Allah has granted them out of His bounty, let them not think that it is good for them." (3:180) [Nisai 2440, Ibn e Majah 1784]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَسَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مَوْضِعَ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا اقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، یزید بن ہارون وسعید بن عامر، محمد بن عمرو، ابوسلمة، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک کوڑا (لاٹھی) رکھنے کی جگہ دنیا اور اس کی چیزوں سے بہتر ہے۔ لہذا اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ إِنْ شِئْتُمْ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (یعنی پھر جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سودا ہے) ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Huraira (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) 1’ said: The space for a whip in Paradise is better than the world and what it contains. Recite if you like: "Whoever is removed from the fire and admitted to the Garden, he indeed shall attain the triumph. And the life of this world is naught but comfort of illusion." (3:185) [Ahmed 9657]
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ قَالَ اذْهَبْ يَا رَافِعُ لِبَوَّابِهِ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ لَهُ لَئِنْ کَانَ کُلُّ امْرِئٍ فَرِحَ بِمَا أُوتِيَ وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ مُعَذَّبًا لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَا لَکُمْ وَلِهَذِهِ الْآيَةِ إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ فِي أَهْلِ الْکِتَابِ ثُمَّ تَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُونَهُ وَتَلَا لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَأَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْئٍ فَکَتَمُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا وَقَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوهُ بِمَا قَدْ سَأَلَهُمْ عَنْهُ فَاسْتُحْمِدُوا بِذَلِکَ إِلَيْهِ وَفَرِحُوا بِمَا أُوتُوا مِنْ کِتْمَانِهِمْ مَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ-
حسن بن محمد زعفرانی، حجاج بن محمد، ابن جریج، بن ابی ملیکة، حمید بن عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ مروان بن حکم نے اپنے محافظ کو حکم دیا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ جو لوگ اپنی بات پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کام پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کیا۔ اگر انہیں عذاب دیا گیا تو ہم سب عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم لوگوں کو اس آیت سے کیا مطلب یہ آیت تو اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّه لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَه فَنَبَذُوْهُ وَرَا ءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِه ثَمَ نًا قَلِيْلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ) 3۔ آل عمران : 187) (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب (یعنی یہودیوں) سے اقرار لیا کہ اسے لوگوں کے لئے بیان کرو اور چھپاؤ مت لیکن انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اس کے مقابلے میں تھوڑا سا معاوضہ لے لیا۔ یہ کتنی بری خریداری کرتے ہیں جو اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور کسی کام کے کئے بغیر اپنی تعریف چاپتے ہیں۔ ان لوگوں کے متعلق یہ نہ سوچے کہ انہیں عذاب سے نجات مل جائے گی۔ ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے اس کے علاوہ کوئی دوسری بات بتائی اور یہ ظاہر کیا کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ہم نے بتا دیا اور اس پر اپنی تعریف کے طلبگار ہوئے۔ اپنی کتاب اور پوچھی گئی بات پر خوش ہوئے۔ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
Humayd ibn Abdur Rahman ibn Awf reported that Marwan ibn Hakam commanded his doorkeeper to go to Ibn Abbas and ask him, “If everyone who is happy with what is given to him and loves to be praised for what he has not done is punished than all of us will be punished certainly.” So, Ibn Abbas asked, “What is with you while this verse is here? It was revealed concerning the People of the Scripture.” Then he recited it: "(All recall) when Allah took covenant with those who were given the Book 0 (saying), “You shall certainly expound it to mankind. (3:187) and he recited: Think not that those who rejoice over what they have carried out, and love to be praised for what they have not done. (3:188) Ibn Abbas narrated: The Prophet (SAW) asked them about something, but they concealed it and told him about something else. They went away suggesting to him that they had informed him of what he had asked, and sought praise over that. And they rejoiced at what they enlightemed him from their Book and at the questions he had asked them). [Ahmed 2712,Bukhari 4568,Muslim 2778]