باب توبہ اور استغفار اور اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ أَسْأَلُهُ عَنْ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ يَا زِرُّ فَقُلْتُ ابْتِغَائَ الْعِلْمِ فَقَالَ إِنَّ الْمَلَائِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ فَقُلْتُ إِنَّهُ حَکَّ فِي صَدْرِي الْمَسْحُ عَلَی الْخُفَّيْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَکُنْتَ امْرَأً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَسْأَلُکَ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْکُرُ فِي ذَلِکَ شَيْئًا قَالَ نَعَمْ کَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا کُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ لَکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ فَقُلْتُ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْکُرُ فِي الْهَوَی شَيْئًا قَالَ نَعَمْ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَهُ جَهْوَرِيٍّ يَا مُحَمَّدُ فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ فَقُلْنَا لَهُ وَيْحَکَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ فَإِنَّکَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا فَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَغْضُضُ قَالَ الْأَعْرَابِيُّ الْمَرْئُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَا زَالَ يُحَدِّثُنَا حَتَّی ذَکَرَ بَابًا مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا عَرْضُهُ أَوْ يَسِيرُ الرَّاکِبُ فِي عَرْضِهِ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ عَامًا قَالَ سُفْيَانُ قِبَلَ الشَّامِ خَلَقَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مَفْتُوحًا يَعْنِي لِلتَّوْبَةِ لَا يُغْلَقُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، عاصم بن ابی نجود، حضرت زر بن حبیش فرماتے ہیں میں صفوان بن عسال کے پاس گیا تاکہ ان سے موزوں کے مسح کے بارے میں پوچھوں۔ وہ کہنے لگے زر کیوں آئے؟ میں نے عرض کیا علم حاصل کرنے کے لئے۔ انہوں نے فرمایا فرشتے طالب علم کی طلب علم کی وجہ سے اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ میں نے کہا۔ میں ایک صحابی ہوں میرے دل میں قضائے حاجت کے بعد موزوں پر مسح کرنے کے متعلق تردد ہوا کہ کیا مسح کیا جاتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ میں تم سے یہی پوچھنے کے لئے آیا تھا کہ کیا اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ کہنے لگے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سفر کے دوران تین دن ورات تک موزے نہ اتارنے کا حکم دیا کرتے تھے، البتہ غسل جنابت اس حکم سے مستثنی تھا۔ لیکن قضائے حاجت یا سونے کے بعد وضو کرنے پر یہی (یعنی مسح کا) حکم تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے متعلق بھی کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک اعرابی آیا اور زور سے پکارنے لگا یا محمد ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے اسی آواز سے حکم دیا کہ آؤ۔ ہم نے اس سے کہا تیری بربادی ہو اپنی آواز کو پست کر۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے اور تمہیں اس طرح آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ وہ اعرابی کہنے لگا اللہ کی قسم ! میں آواز دھیمی نہیں کروں گا۔ پھر کہنے لگا کہ ایک آدمی ایک قوم سے محبت کرتا ہے حالانکہ وہ ایک ان سے اب تک ملا بھی نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ہر شخص اس کے ساتھ ہوگا جن سے محبت کرے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر صفوان مجھ سے باتیں کرتے رہے اور مجھے بتایا کہ مغرب کی جانب ایک دروازہ ہے جس کی چوڑائی چالیس یا ستر برس کی مسافت ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ وہ دروازہ شام کی جانب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی دن پیدا کیا تھا۔ جس دن آسمان و زمین بنائے تھے اور وہ توبہ کے لئے اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوگا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Zirr ibn Hubaysh (RA) narrated: I met Safwan ibn Assal al-Muradiy to ask him about wiping over socks (during ablution). he asked, “What has brought you here, 0 Zirr?” I said that acquisition of knowledge had brought me to him. He commented, “The angels spread their wings for the seeker of knowledge, pleased at what he desires.” I said that I was confused about wiping over the socks following answer of natures call, though I am one of the sahabah of the Prophet (SAW). “So, I have come to ask you if you have heard him say anything about it.” He said, “Yes. He had commanded us that when we were on a journey or travellers we should not remove our socks for three days and three nights. But, bath against sexual defilement is an exception. As for ablution after answering nature’s call or awakening from sleep, the socks may be retained” I asked him if he had heard the Prophet say anything about love. He said “Yes. We were with Allah’s Messenger on a journey. While we were with him, a villager called him in a loud, sonorous voice, “0 Muhammad! So, Allah’s Messenger (SAW) commanded him in the same tone, ‘Come.’ We aid to him, Woe to you! soften your voice. You are before the Prophet (SAW) and you are forbidden this (behavriour).’ He said, ‘By Allah, I will not lower my. voice.’ He added, ‘A man loves his people though he has not met them.’ The Prophet said, On the day of resurrection, a man will be with those he loves.’ Then, he did not cease to narrate to us till he said, ‘There is a door to the west whose width is like a journey of forty or seventy years.’ Sufyan said that the door was to the north. Allah created it on the very day He created the heavens and the earth. It lies open for repentance and will not be shut till the sun will rises from it (that is, the west).” [Ahmed 18113, Ibn e Majah 4070]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ قُلْتُ ابْتِغَائَ الْعِلْمِ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ الْمَلَائِکَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَفْعَلُ قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّهُ حَاکَ أَوْ حَکَّ فِي نَفْسِي شَيْئٌ مِنْ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ فَهَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْئًا قَالَ نَعَمْ کُنَّا إِذَا کُنَّا فِي سَفَرٍ أَوْ مُسَافِرِينَ أُمِرْنَا أَنْ لَا نَخْلَعَ خِفَافَنَا ثَلَاثًا إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ وَلَکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ قَالَ فَقُلْتُ فَهَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْهَوَی شَيْئًا قَالَ نَعَمْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَنَادَاهُ رَجُلٌ کَانَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ بِصَوْتٍ جَهْوَرِيٍّ أَعْرَابِيٌّ جِلْفٌ جَافٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ مَهْ إِنَّکَ قَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ فَقَالَ الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ قَالَ زِرٌّ فَمَا بَرِحَ يُحَدِّثُنِي حَتَّی حَدَّثَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا عَرْضُهُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ لَا يُغْلَقُ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ وَذَلِکَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّکَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
احمد بن عبدة ضبی، حماد بن زید، عاصم، حضرت زر بن حبیش فرماتے ہیں کہ میں حضرت صفوان بن عسال مرادی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ علم کی تلاش میں۔ انہوں نے فرمایا مجھے پتہ چلا ہے کہ فرشتے طالب علم کے عمل سے راضی ہوتے ہوئے اس کے لئے پر بچھاتے ہیں۔ حضرت زر فرماتے ہیں میں نے عرض کیا موزوں پر مسح کے بارے میں میرے دل میں شبہ پیدا ہوگیا ہے، کیا آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ یاد ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! ہم سفر میں ہوتے یا (فرمایا) ہم مسافر ہوتے تو ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جنابت کے سوا پیشاب یا پاخانہ سے تین دن تک موزرے نہ اتاریں۔ حضرت زر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے متعلق بھی کچھ یاد ہے۔ انہوں نے فرمایا ہاں ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے تو مجلس کے آخر سے ایک بے سمجھ سخت اعرابی نے بلند آواز سے پکارا۔ اے محمد ! صحابہ کرام نے کہا چپ کر اس طرح پکارنا منع ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھر متوجہ ہو کر فرمایا ہاں آؤ۔ اس نے کہا ایک آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ابھی تک ان سے مل نہیں سکا۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ دنیا میں محبت کرتا ہوگا۔ حضرت زر فرماتے ہیں کہ حضرت صفوان نے باتیں کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مغرب کی جانب توبہ کا دروازہ بنایا۔ جس کی چوڑائی چالیس یا ستر برس کی مسافت ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ وہ دوازہ شام کی جانب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی دن پیدا کیا تھا جس دن آسمان و زمین بنائے تھے اور وہ توبہ کے لئے اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّکَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا (یعنی جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں ظاہر ہوں گی تو کسی نفس کو اس کا ایمان فائدہ نہیں پہنچائے گا) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
This hadith is nearly the same as the previous hadith # 3546 except that the villager was called harsh and foolish.’ The hadith concludes: He then recited the verse: On the day when certain signs of your lord will come, to believe them shall not benefit a soul... (6: 158) [Ahmed 18115, Ibn e Majah 4070, Nisai 127] --------------------------------------------------------------------------------